Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
Ref. No. 2141/44-2201
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محض وہم اور وسوسہ کی وجہ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ بیوی کی طرف صراحت سے کوئی نسبت نہیں پائی گئی۔ اس لئے صرف چھوڑتاہوں لکھنے سے نکاح پر کوئی فرق نہیں آیا۔ وسوسہ کا شکار نہ ہوں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2685/45-4143
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سے پہلے آپ نے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کی ہے، اور الگ رہ رہے ہیں تو پھر والدین سے پوچھنے کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ انکی مرضی کی شادی کرنے پر شاید آپ کے والدین کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔یا تو آپ ان کی مرضی کے مطابق شادی کرلیں اور اگر وہ آپ کی شادی کرنے کے لئے تیارہی نہیں ہیں تو آپ اپنی پسند کی شادی کرسکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2286/44-3440
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وقوع طلاق کے لئے بیوی کی جانب طلاق کی نسبت ضروری ہے گرچہ اشارہ میں ہو، لیکن اگر مذاکرہء طلاق بھی نہ ہو اور بیوی کی جانب اشارۃً بھی نسبت نہ ہو تو صرف یہ کہنے سے کہ "عمر نے طلاق دی ہوئی ہے" اس سے کہنے والے کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
‘‘.(فتاوی شامی 3/250، کتاب الطلاق، ط؛ سعید)
لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها
غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (1/ 461):
’’ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع بإفتاء المفتي فتبين عدمه لم يقع، كما في القنية.
قوله: ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع إلى قوله لم يقع إلخ. أي ديانةً، أما قضاء فيقع ،كما في القنية؛ لإقراره به‘
"الدر المختار " (3/ 247):
"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ ":(قوله: لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق. اهـ.
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2834/45-4452
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) سنت ولیمہ کی ادائیگی کے لیے نکاح کے بعد بیوی کے ساتھ رات گزارنا یا ہمبستری وغیرہ کرنا ضروری نہیں؛ البتہ مسنون وافضل یہ ہے کہ نکاح اور رخصتی کے بعد جب زفاف ہوجائے تو ولیمہ کیا جائے، تاہم اگر کسی نے ایک دن میں نکاح اور ولیمہ کردیا تو ولیمہ کی نفس سنت ادا ہوجائے گی؛ اور اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش کا ولیمہ زفاف سے پہلے فرمایاتھا، نیز نجاشی شاہ حبشہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت ام حبیبہ سے کیا اور لوگوں کو کھانا کھلایا، اور یہ رخصتی سے پہلے ہوا، پس رخصتی سے قبل بھی ولیمہ کیاجاسکتاہے۔(2) البتہ عام طور ازواج مطہرات کے نکاح میں ولیمہ زفاف کے بعد ہی ہوا ہے، اس لئے اصل سنت یہی ہے کہ ولیمہ زفاف کے بعد ہو۔ (3) نکاح کے فورا بعد زفاف سے پہلے بھی ولیمہ کیاجاسکتاہے، جیسا کہ اوپر بیان کیاگیا، تاہم عورت سے ہمبستری یا کم از کم خلوت صحیحہ کے بعد ولیمہ کیاجائے تو یہ افضل ہے۔(4) زید کو چاہئے کہ نکاح کے بعد اپنی بیوی سے خلوت میں تھوڑی دیر کے لئے ملاقات کرلے اور پھر ولیمہ کا کھانا کھلادے، تو اس سے پورے طور پر سنت ادا ہوجائے گی۔
ذکر ابن السبکي أن أباہ………قال:والمنقول من فعل النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنھا بعد الدخول (فتح الباری، ۹: ۲۸۷)، ولیمة العرس سنة وفیھا مثوبة عظیمة ،وھي إذا بنی الرجل بامرأتہ ینبغي أن یدعو الجیران والأقرباء والأصدقاء ویذبح لھم ویصنع لھم طعاما کذا في خزانة المفتین (الفتاوی الھندیة،کتاب الکراہیة،الباب الثاني عشر فی الھدایا والضیافات،۵: ۳۴۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
"وعن أنس قال: أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بنى بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزاً ولحماً. رواه البخاري".(مشکاۃ المصابیح، (2/278)، الفصل الاول، باب الولیمہ، ط: قدیمی)
"یجوز أن یؤلم بعد النکاح، أو بعد الرخصة، أو بعد أن یبنی بها، والثالث هو الأولی". (بذل المجهود، کتاب الأطعمة، باب في استحباب الولیمة للنکاح، مطبع سهارن پور قدیم۴/ ۳۴۵، دارالبشائر الإسلامیة بیروت۱۱/ ۴۷۱، تحت رقم الحدیث :۳۷۴۳)
"وقت الولیمة عند العقد، أو عقبه، أو عند الدخول، أو عقبه، وهذا أمر یتوسع فیه حسب العرف والعادة، وعند البخاري أنه صلی اﷲ علیه وسلم دعا القوم بعد الدخول بزینب". (فقه السنة، دارالکتاب العربي۲/ ۲۱۰)
"وفيه فوائد: ... الثالثة: اتخاذ الوليمة في العرس، قال ابن العربي: بعد الدخول، وقال البيهقي: كان دخوله صلى الله عليه وسلم بعد هذه الوليمة"
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 151(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم : نفس بارات جائز ہے لیکن اس کا لحاظ ضروری ہے کہ وہ لڑکی والے کے لئے پریشانی کا سبب نہ ہو، جتنے لوگوں کی گنجائش و اجازت ہو اس سے زیادہ نہ ہوں۔ جہیز مانگنا جائز نہیں، اپنی خوشی سے اپنی بچی یا داماد کو کوئی کچھ دیدے تو اس میں حرج نہیں لیکن اس کی بھی نمائش درست نہیں۔
واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1383/42-799
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محض شک کی وجہ سے تجدید نکاح کرنا وسوسہ کو جنم دینا ہے، اس لئے تجدید نکاح کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور اگر تجدید کرلی تو کوئی قباحت بھی نہیں ہے ، اور تجدید کے بعد ہمبستری لازم نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1773/43-1509
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں لڑکی نے لڑکے کو وکیل بنادیا اور لڑکے نے لڑکی کو اپنی زوجیت میں دو یا زیادہ گواہوں کی موجودگی میں قبول کرلیا تو نکاح درست ہوگیا ۔ اب فرحین اور زبیر دونوں از روئے شرع میاں بیوی ہیں۔ نکاح کی مجلس میں لڑکا اصیل اور لڑکی کی جانب سے بطور وکیل کے دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرسکتاہے، اور نکاح اس طرح منعقد ہوجاتاہے۔ اسلئے مذکورہ نکاح درست ہوکرمنعقد ہواہے۔ عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر بھی درست ہوجاتاہے۔
فالعقد ھو ربط اجزاء التصرف ای الایجاب والقبول شرعا لکن ھنا ارید بالعقد الحاصل بالمصدر وھو الارتباط لکن النکاح ھو الایجاب والقبول مع ذلک الارتباط۔ وانما قلنا ھذا لان الشرع یعتبر الایجاب والقبول ارکان عقد النکاح لا امورا خارجیۃ کالشرائط ونحوھا وقد ذکرت فی شرح التنقیح فی فصل النھی کالبیع فان الشرع یحکم بان الایجاب والقبول الموجودین حسا یرتبطان ارتباطا حکمیا فیحصل معنی شرعی یکون ملک المشتری اثرا لہ فذلک المعنی ھو البیع۔ (شرح الوقایۃ، کتاب النکاح 2/4، مکتبہ بلال دیوبند)
واذا اذنت المرأة للرجل ان یزوجہا من نفسہ فعقد بحضرة شاہدین جاز - - - ولنا أن الوكيل في النكاح سفير ومعبر، والتمانع في الحقوق دون التعبير ولا ترجع الحقوق إليه، (فتح القدیر، فصل فی الوکالۃ بالنکاح 3/305) (الھدایۃ، ، فصل فی الوکالۃ بالنکاح 1/17)
(وإذا أذنت المرأة لرجل أن يزوجها من نفسه) أو ممن يتولى تزويجه أو ممن وكله أن يزوجه منها (فعقد) الرجل عقدها حسبما أذنت له (بحضرة شاهدين جاز) العقد، ويكون وكيلا من جانب وأصيلا أوولياً أو وكيلا من آخر، وقد يكون وليا من الجانبين: كأن يزوج بنته من ابن أخيه، قال في الهداية: إذا تولى طرفيه فقوله "زوجت" يتضمن الشطرين، ولا يحتاج إلى القبول. اه (اللباب فی شرح الکتاب، کتاب النکاح 3/21)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2052/44-2054
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔محض میاں بیوی کے الگ الگ رہنے سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لئے مذکورہ نکاح ابھی باقی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 927
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایجاب و قبول ایک بار کافی ہے؛ تین بار کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قبول ہے، منظور ہے، قبول کیا، وغیرہ کوئی بھی جملہ جس سے قبول کرنا معلوم ہوتا ہو کہا جاسکتا ہے، نکاح ہوجائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 948/41-89
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حالت حیض میں نکاح کرنے سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے، البتہ جب تک عورت حالت حیض میں رہے گی، شوہر کے لئے جماع کرنا جائز نہیں ہوگا۔ لڑکی والوں کو نکاح کا دن متعین کرنے سے قبل گھر کی عورتوں سے اس سلسلہ میں اندازہ معلوم کرلینا چاہئے۔
وأما نحو الحيض والنفاس والإحرام والظهار قبل التكفير فهو مانع من حل الوطء لا من محلية العقد فافهم. (الدرالمختار ج3/ص4)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند