Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
Ref. No. 1081 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ شرعاً اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ رسم و رواج سے اجتناب کیا جانا چاہئے۔ نیزدولہا وغیرہ کا آنگن میں جانا اور نامحرم عورتوں کا سامنا کرنا ، یہ تمام غیرشرعی امور ہیں جن سے اجتناب کیا جانا ضروری ہے۔واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
نکاح و شادی
Ref. No. 1248/42-634
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔زید کے لئے عدالت نے نقصان وصول کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ درست ہے کیونکہ یہ سارا خرچ اس جھوٹے مقدمہ کی وجہ سے اس کو اٹھانا پڑا ہے۔ اس لئے زید وہ خرچ وصول کرسکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1492/42-957
الجواب وباللہ التوفیق:۔ شرعا بارات کی کوئی اصل نہیں، اور سنت سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے، اس میں نام و نمود اور اسراف ہے جو شریعت میں قابل مذمت اور ناپسندیدہ ہے، لہذا اس سے پرہیز کرنا چاہئے، اور جو بارات نام و نمود اور اسراف سے خالی ہو تو جس تعداد کو لڑکی والے برضاء و رغبت بلا کسی معاشرتی دباؤ کے صرف اپنی وسعت کے مطابق بلائیں تو اس تعداد کو لیجانا اور اس میں جانا و کھانا مباح ہے، یہ دعوت نہ سنت ہے نہ واجب اور نہ حرام ہی ہے، محض مباح ہے۔ (ماخوذ از کفایت المفتی 7/471، باب العرس والولیمۃ، مکتبہ فاروقیہ کراچی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2799/45-4380
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی کے لئے ہر طرح کے کِس کی اجازت ہے، اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے، البتہ تنہائی میں یہ امور انجام دئے جائیں، عام جگہوں پر ایسا کرنا بے حیائی کی بات ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1719/43-1684
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حتی الامکان اس رشتہ کو نباہنے کی کوشش کرے، تاہم اگر شوہر وبیوی کے درمیان اتفاق نہ ہوسکے ، اور شوہر کسی طرح اس کے ساتھ رہنے کے لئے تیار نہیں ہے، اور مقاصد نکاح فوت ہوتے ہوں تو شوہر کو شرعاً اختیار ہے کہ اس کو ایک طلاق رجعی دے دےتاکہ عورت عدت کے بعد کسی ایسے شخص سے نکاح کرلے جو پورے حقوق ادا کرسکے ۔
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪-فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍؕ-وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْــٴًـا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِؕ-فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِۙ-فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖؕ-تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَاۚ-وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ (سورۃ البقرۃ ۲۲۹)
الا اذا خافا ان لا یقیما حدود اللہ فلا باس ان یتفرقا (الدر المختار مع الشامی: 4/144)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2141/44-2201
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محض وہم اور وسوسہ کی وجہ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ بیوی کی طرف صراحت سے کوئی نسبت نہیں پائی گئی۔ اس لئے صرف چھوڑتاہوں لکھنے سے نکاح پر کوئی فرق نہیں آیا۔ وسوسہ کا شکار نہ ہوں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2685/45-4143
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سے پہلے آپ نے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کی ہے، اور الگ رہ رہے ہیں تو پھر والدین سے پوچھنے کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ انکی مرضی کی شادی کرنے پر شاید آپ کے والدین کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔یا تو آپ ان کی مرضی کے مطابق شادی کرلیں اور اگر وہ آپ کی شادی کرنے کے لئے تیارہی نہیں ہیں تو آپ اپنی پسند کی شادی کرسکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2286/44-3440
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وقوع طلاق کے لئے بیوی کی جانب طلاق کی نسبت ضروری ہے گرچہ اشارہ میں ہو، لیکن اگر مذاکرہء طلاق بھی نہ ہو اور بیوی کی جانب اشارۃً بھی نسبت نہ ہو تو صرف یہ کہنے سے کہ "عمر نے طلاق دی ہوئی ہے" اس سے کہنے والے کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
‘‘.(فتاوی شامی 3/250، کتاب الطلاق، ط؛ سعید)
لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها
غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (1/ 461):
’’ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع بإفتاء المفتي فتبين عدمه لم يقع، كما في القنية.
قوله: ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع إلى قوله لم يقع إلخ. أي ديانةً، أما قضاء فيقع ،كما في القنية؛ لإقراره به‘
"الدر المختار " (3/ 247):
"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها".
قال ابن عابدین رحمہ اللہ ":(قوله: لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق. اهـ.
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2834/45-4452
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) سنت ولیمہ کی ادائیگی کے لیے نکاح کے بعد بیوی کے ساتھ رات گزارنا یا ہمبستری وغیرہ کرنا ضروری نہیں؛ البتہ مسنون وافضل یہ ہے کہ نکاح اور رخصتی کے بعد جب زفاف ہوجائے تو ولیمہ کیا جائے، تاہم اگر کسی نے ایک دن میں نکاح اور ولیمہ کردیا تو ولیمہ کی نفس سنت ادا ہوجائے گی؛ اور اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش کا ولیمہ زفاف سے پہلے فرمایاتھا، نیز نجاشی شاہ حبشہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح حضرت ام حبیبہ سے کیا اور لوگوں کو کھانا کھلایا، اور یہ رخصتی سے پہلے ہوا، پس رخصتی سے قبل بھی ولیمہ کیاجاسکتاہے۔(2) البتہ عام طور ازواج مطہرات کے نکاح میں ولیمہ زفاف کے بعد ہی ہوا ہے، اس لئے اصل سنت یہی ہے کہ ولیمہ زفاف کے بعد ہو۔ (3) نکاح کے فورا بعد زفاف سے پہلے بھی ولیمہ کیاجاسکتاہے، جیسا کہ اوپر بیان کیاگیا، تاہم عورت سے ہمبستری یا کم از کم خلوت صحیحہ کے بعد ولیمہ کیاجائے تو یہ افضل ہے۔(4) زید کو چاہئے کہ نکاح کے بعد اپنی بیوی سے خلوت میں تھوڑی دیر کے لئے ملاقات کرلے اور پھر ولیمہ کا کھانا کھلادے، تو اس سے پورے طور پر سنت ادا ہوجائے گی۔
ذکر ابن السبکي أن أباہ………قال:والمنقول من فعل النبي صلی اللہ علیہ وسلم أنھا بعد الدخول (فتح الباری، ۹: ۲۸۷)، ولیمة العرس سنة وفیھا مثوبة عظیمة ،وھي إذا بنی الرجل بامرأتہ ینبغي أن یدعو الجیران والأقرباء والأصدقاء ویذبح لھم ویصنع لھم طعاما کذا في خزانة المفتین (الفتاوی الھندیة،کتاب الکراہیة،الباب الثاني عشر فی الھدایا والضیافات،۵: ۳۴۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
"وعن أنس قال: أولم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بنى بزينب بنت جحش فأشبع الناس خبزاً ولحماً. رواه البخاري".(مشکاۃ المصابیح، (2/278)، الفصل الاول، باب الولیمہ، ط: قدیمی)
"یجوز أن یؤلم بعد النکاح، أو بعد الرخصة، أو بعد أن یبنی بها، والثالث هو الأولی". (بذل المجهود، کتاب الأطعمة، باب في استحباب الولیمة للنکاح، مطبع سهارن پور قدیم۴/ ۳۴۵، دارالبشائر الإسلامیة بیروت۱۱/ ۴۷۱، تحت رقم الحدیث :۳۷۴۳)
"وقت الولیمة عند العقد، أو عقبه، أو عند الدخول، أو عقبه، وهذا أمر یتوسع فیه حسب العرف والعادة، وعند البخاري أنه صلی اﷲ علیه وسلم دعا القوم بعد الدخول بزینب". (فقه السنة، دارالکتاب العربي۲/ ۲۱۰)
"وفيه فوائد: ... الثالثة: اتخاذ الوليمة في العرس، قال ابن العربي: بعد الدخول، وقال البيهقي: كان دخوله صلى الله عليه وسلم بعد هذه الوليمة"
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (20/ 151(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند