نکاح و شادی

Ref. No. 947/41-91

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نکاح کے اندر مہر شرط ہے، اگر عورت نے مہر نہ لینے کی شرط لگائی ہو توبھی نکاح صحیح ہوگا اور بعدنکاح شوہر کے ذمہ مہر مثل  واجب ہوگا۔شرط فاسد سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔   

(والنكاح) بأن قال تزوجتك على أن لا يكون لك مهر يصح النكاح ويفسد الشرط ويجب مهر المثل كما عرف في موضعه (البحرالرائق 6/203) (وَإِنْ تَزَوَّجَ مُسْلِمٌ عَلَى خَمْرٍ أَوْ خِنْزِيرٍ فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ وَلَهَا مَهْرُ مِثْلِهَا) ؛ لِأَنَّ شَرْطَ قَبُولِ الْخَمْرِ شَرْطٌ فَاسِدٌ فَيَصِحُّ النِّكَاحُ وَيَلْغُو الشَّرْطُ، بِخِلَافِ الْبَيْعِ؛ لِأَنَّهُ يَبْطُلُ بِالشُّرُوطِ الْفَاسِدَةِ لَكِنْ لَمْ تَصِحَّ التَّسْمِيَةُ لِمَا أَنَّ الْمُسَمَّى لَيْسَ بِمَالٍ فِي حَقِّ الْمُسْلِمِ فَوَجَبَ مَهْرُ الْمِثْلِ. (العنایۃ شرح الھدایۃ 3/358)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
اگر لڑکا اپنی ہونے والی بیوی یعنی لڑکی کی موجودگی میں لڑکی کی ماں سے پوچھے کے آپ اپنی بیٹی کا مجھ سے نکاح کر دیں اس وقت دو مسلمان مرد بھی موجود ہوں جبکہ لڑکی کی ماں کہے کہ ابھی منگنی کر لیں نکاح تین ماہ بعد کر لیں گیں. اس پر کیا حکم لگے گا لڑکی چپ رہے جبکہ وہ دل میں کہے کہ وہ چپ نکاح قبول کرنے کی نیت سے ہے. کیا نکاح ہو جائے گا

نکاح و شادی

Ref. No. 1604/43-1158

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح منعقد ہونے کے لئے ایجاب و قبول ضروری ہے اور مذکورہ صورت میں ایجاب و قبول نہیں پایا گیا۔ صرف عورتوں کا آپس میں بات کرنا اور کچھ لوگوں کا نکاح کی بات سن لینا کافی نہیں ہے۔ اگر کوئی دوسرا نکاح کردے تو بھی ان کی اجازت ضروری ہے جو یہاں مفقود ہے۔ اس لئے  صورت بالا میں نکاح منعقد نہیں ہوا۔

(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك (و) يقول الآخر (تزوجت، و) ينعقد أيضا (بما) أي بلفظين (وضع أحدهما له) للمضي (والآخر للاستقبال) أو للحال (شامی، کتاب النکاح 3/9)

فكما أن نكاح الفضولي صحيح موقوف على الإجازة بالقول أو بالفعل فكذا طلاقه (شامی، مطلب فی تعریف السکران وحکمہ 3/242) وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. - - -  وفي الفوائد: صورة التوكيل أن يقول المشتري لغيره، كن وكيلا في قبض المبيع أو وكلتك بقبضه. - - - وأفاد أنه ليس كل أمر توكيلا بل لا بد مما يفيد كون فعل المأمور بطريق النيابة عن الآمر فليحفظ اهـ. هذا جميع ما كتبه نقلته، وبالله التوفيق (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
نعیم اگر تنہائی میں کہے کہ نعیم شاہد کو نکاح کا وکیل بناتا ہے تو کیا شاہد نعیم کی شادی کا وکیل بن جائے گا جبکہ اس نے سنا ہی نہ ہے کہ وہ نعیم کی شادی کا وکیل ہے.

نکاح و شادی

Ref. No. 1603/43-1159

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، ان الفا ظ سے وسوسہ ختم کرنے کی نیت تھی اور طلاق کے لئے کوئی لفظ استعمال نہیں بھی  کیا گیا، محض طلاق کا خیال آنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں  پڑے گا۔ وقوع طلاق کے لئے صریح الفاظ یا کنائی الفاظ کے ساتھ طلاق کی نیت ضروری ہے۔ نیز ضروری ہے کہ الفاظ طلاق کے معنی کا احتمال رکھتے ہوں اور پھر طلاق کی نیت ہو تو ایسی صورت میں  طلاق واقع ہوتی ہے۔  صورت مسئولہ میں نہ تو طلاق صریح ہے نہ کنائی ، اور نہ کسی طرح کی طلاق کی نیت۔ اس لئے یہ محض وسوسہ ہے؛ جس کا کوئی اعتبار نہیں۔  

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "ان اللہ تجاوزعن امتی ماوسوست بہ صدورہامالم تعمل بہ اوتتکلم متفق علیہ". قال الملاعلی قاری:  "الخواطران کانت تدعوالی الرذائل فہی وسوسۃ ۔۔۔۔ماوسوست بہ صدورہاای ماخطر فی قلوبہم من الخواطرالردیئۃ ۔۔۔مالم تعمل بہ ای مادام لم یتعلق بہ العمل ان کان فعلیا،اوتتکلم بہ ای مالم یتکلم بہ ان کان قولیا (مرقاۃ المفاتیح: 1/238)
"ورکنہ(الطلاق ) لفظ مخصوص وفی الشامیۃ ھوماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح اوکنایۃ ۔۔۔وارادالفظ ولوحکمالیدخل الکتابۃ المستبینۃ واشارۃ الاخرس الخ ۔۔واراد بہاالفظ اومایقوم مقامہ من الکتابۃ المستبینۃ اوالاشارۃ المفہومۃ ۔۔۔لان رکن الطلاق الفظ اومایقوم مقامہ۔ (شامی 3/247)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2064/44-2061

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مولوی صاحب کے سامنے  والد صاحب کا پوچھنا بھی اجازت کے لئے کافی ہے، اس لئے یہ نکاح درست ہوگیا اور ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لڑکی نے اس  متعین لڑکے سے نکاح کے لئے اپنی رضامندی کا اظہار کردیا ہے اور مولوی صاحب نے سن لیا ، یہ  نکاح کے انعقاد کے لئےکافی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2494/45-3854

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) شرعی احکام سے لاعلمی کوئی قابل قبول عذر نہیں ہے۔ مطلقہ عورت کا عدت کے دوران کسی دوسرے مرد سے نکاح حرام ہے، اس لئے عدت میں کیا ہوا مذکورہ نکاح منعقد نہیں ہوا۔ (2) عورت نے اپنے ہونے والے شوہر کو اس کی خبر نہیں دی، اور شوہرنے لاعلمی میں اس عورت سے عدت کے دوران نکاح کرکے اس کے ساتھ صحبت بھی کرلی، جبکہ نکاح منعقد نہ ہونے کی وجہ سے اس سے صحبت حرام تھی، اس لئے دونوں میں فوری جدائیگی لازم ہے۔ (3) اب یہ عورت  یا مرد دونوں میں سے کوئی بھی فسخ کے الفاظ کہہ دے کہ میں یہ نکاح ختم کرتاہوں یا لڑکاکہہ دے کہ میں تجھے چھوڑتا ہوں وغیرہ تو یہ عقد ختم ہو جائے گا۔ پھرعورت کے ساتھ چونکہ وطی بالشبہہ ہوچکی ہے اس وجہ سے عدت کے تین حیض گزارے گی اور پھر ان دونوں کا از سر نو  نکاح ہوسکے گا۔  (4) فون پر اس طرح نکاح منعقد نہیں ہوتاہے، بلکہ لڑکایالڑکی  اگر کسی کو اپنے نکاح کا وکیل بنادیں  اور پھر دوگواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول ایک ہی مجلس میں  کرایاجائے  تو پھر نکاح درست ہو گا۔

وَلَا تَعْزِمُوْا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتّٰى يَبْلُغَ الْكِتَابُ اَجَلَهٗ۔ (القرآن الکریم: البقرۃ :۲۳۵)

لا يجوز للأجنبي خطبة المعتدة صريحا سواء كانت مطلقة أو متوفى عنها زوجها كذا في البدائع۔ (وفی الھندیۃ (۵۳۴/۱)

أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا قال فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لأنه زنى كما في القنية وغيرها اھ۔ (الشامیۃ (۱۳۲/۳)

الباب الثالث عشر فی العدۃ: لو تزوجت في عدة الوفاة فدخل بها الثاني ففرق بينهما فعليها بقية عدتها من الأول تمام أربعة أشهر وعشر وعليها ثلاث حيض من الآخر ويحتسب بما حاضت بعد التفريق من عدة الوفاة كذا في معراج الدراية۔ (الھند یۃ: ۵۳۳/۱):

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2061/44-2058

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔نکاح کے معاملہ میں والدین کا مشورہ بہت اہمیت کا حامل ہے، اولاد کو ہمیشہ والدین کی ترجیحات کا خیال رکھنا چاہئے۔ تجربہ شاہد ہے کہ والدین کامشورہ ہی عموما اولاد کے حق میں مفید ہوتاہے، اور ان کے مشورہ کے خلاف کرنے میں بہت سے مفاسد پیدا ہوجاتے ہیں، اس لئے ان کو اعتماد میں لے کر کوئی قدم اٹھانا چاہئے، البتہ صرف ذات الگ ہونے کی بنیاد پروالدین کا اس رشتہ سے  منع کرنا مناسب نہیں ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 1523/43-1018

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جب زاہد نے علی کی وکالت کواس کے سامنے  قبول کرنے سے انکار کردیا تو اب توکیل باطل ہوگئی، اب زاہد ، علی کی غیرموجودگی میں اس باطل شدہ  توکیل سے وکیل نہیں بن سکتا اور اس کا تصرف علی کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا بلکہ اپنی ذات کے لئے ہی ہوگا۔  اگر اس نے علی کا نکاح کسی سے کرادیا تو یہ فضولی کا نکاح ہے وکیل کا نکاح نہیں ہے اور یہ نکاح  علی کی اجازت پر موقوف رہے گا ۔

فكما أن نكاح الفضولي صحيح موقوف على الإجازة بالقول أو بالفعل فكذا طلاقه (شامی، مطلب فی تعریف السکران وحکمہ 3/242) وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. - - -  وفي الفوائد: صورة التوكيل أن يقول المشتري لغيره، كن وكيلا في قبض المبيع أو وكلتك بقبضه. - - - وأفاد أنه ليس كل أمر توكيلا بل لا بد مما يفيد كون فعل المأمور بطريق النيابة عن الآمر فليحفظ اهـ. هذا جميع ما كتبه نقلته، وبالله التوفيق (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 2051/44-2056

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں نہ تو طلاق کا ذکر ہے نہ طلاق کی طرف کوئی اشارہ ہے۔ اس لئے محض لفظ 'بین' کے تلفظ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس طرح کے شک و شبہہ سے بچیں۔

ویؤیدہ ما فی البحر لو قال امرأۃ طالق او قال طلقت امراء ۃ ثلثاً وقال لم اعن امر اء تی یصدق آہ ویفھم منہ انہ لو لم یقل ذلک تطلق امرأتہ لان العادۃ ان من لہ امرأۃ انما یحلف بطلا قھا لا بطلاق غیرھا الخ ۔ (ردالمحتار باب الصریح ج ۲ ص ۵۹۱)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند