Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم : نفس بارات جائز ہے لیکن اس کا لحاظ ضروری ہے کہ وہ لڑکی والے کے لئے پریشانی کا سبب نہ ہو، جتنے لوگوں کی گنجائش و اجازت ہو اس سے زیادہ نہ ہوں۔ جہیز مانگنا جائز نہیں، اپنی خوشی سے اپنی بچی یا داماد کو کوئی کچھ دیدے تو اس میں حرج نہیں لیکن اس کی بھی نمائش درست نہیں۔
واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1383/42-799
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محض شک کی وجہ سے تجدید نکاح کرنا وسوسہ کو جنم دینا ہے، اس لئے تجدید نکاح کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور اگر تجدید کرلی تو کوئی قباحت بھی نہیں ہے ، اور تجدید کے بعد ہمبستری لازم نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 1773/43-1509
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں لڑکی نے لڑکے کو وکیل بنادیا اور لڑکے نے لڑکی کو اپنی زوجیت میں دو یا زیادہ گواہوں کی موجودگی میں قبول کرلیا تو نکاح درست ہوگیا ۔ اب فرحین اور زبیر دونوں از روئے شرع میاں بیوی ہیں۔ نکاح کی مجلس میں لڑکا اصیل اور لڑکی کی جانب سے بطور وکیل کے دو گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرسکتاہے، اور نکاح اس طرح منعقد ہوجاتاہے۔ اسلئے مذکورہ نکاح درست ہوکرمنعقد ہواہے۔ عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر بھی درست ہوجاتاہے۔
فالعقد ھو ربط اجزاء التصرف ای الایجاب والقبول شرعا لکن ھنا ارید بالعقد الحاصل بالمصدر وھو الارتباط لکن النکاح ھو الایجاب والقبول مع ذلک الارتباط۔ وانما قلنا ھذا لان الشرع یعتبر الایجاب والقبول ارکان عقد النکاح لا امورا خارجیۃ کالشرائط ونحوھا وقد ذکرت فی شرح التنقیح فی فصل النھی کالبیع فان الشرع یحکم بان الایجاب والقبول الموجودین حسا یرتبطان ارتباطا حکمیا فیحصل معنی شرعی یکون ملک المشتری اثرا لہ فذلک المعنی ھو البیع۔ (شرح الوقایۃ، کتاب النکاح 2/4، مکتبہ بلال دیوبند)
واذا اذنت المرأة للرجل ان یزوجہا من نفسہ فعقد بحضرة شاہدین جاز - - - ولنا أن الوكيل في النكاح سفير ومعبر، والتمانع في الحقوق دون التعبير ولا ترجع الحقوق إليه، (فتح القدیر، فصل فی الوکالۃ بالنکاح 3/305) (الھدایۃ، ، فصل فی الوکالۃ بالنکاح 1/17)
(وإذا أذنت المرأة لرجل أن يزوجها من نفسه) أو ممن يتولى تزويجه أو ممن وكله أن يزوجه منها (فعقد) الرجل عقدها حسبما أذنت له (بحضرة شاهدين جاز) العقد، ويكون وكيلا من جانب وأصيلا أوولياً أو وكيلا من آخر، وقد يكون وليا من الجانبين: كأن يزوج بنته من ابن أخيه، قال في الهداية: إذا تولى طرفيه فقوله "زوجت" يتضمن الشطرين، ولا يحتاج إلى القبول. اه (اللباب فی شرح الکتاب، کتاب النکاح 3/21)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2052/44-2054
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔محض میاں بیوی کے الگ الگ رہنے سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لئے مذکورہ نکاح ابھی باقی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 927
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایجاب و قبول ایک بار کافی ہے؛ تین بار کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قبول ہے، منظور ہے، قبول کیا، وغیرہ کوئی بھی جملہ جس سے قبول کرنا معلوم ہوتا ہو کہا جاسکتا ہے، نکاح ہوجائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 948/41-89
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حالت حیض میں نکاح کرنے سے نکاح منعقد ہوجاتا ہے، البتہ جب تک عورت حالت حیض میں رہے گی، شوہر کے لئے جماع کرنا جائز نہیں ہوگا۔ لڑکی والوں کو نکاح کا دن متعین کرنے سے قبل گھر کی عورتوں سے اس سلسلہ میں اندازہ معلوم کرلینا چاہئے۔
وأما نحو الحيض والنفاس والإحرام والظهار قبل التكفير فهو مانع من حل الوطء لا من محلية العقد فافهم. (الدرالمختار ج3/ص4)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 947/41-91
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے اندر مہر شرط ہے، اگر عورت نے مہر نہ لینے کی شرط لگائی ہو توبھی نکاح صحیح ہوگا اور بعدنکاح شوہر کے ذمہ مہر مثل واجب ہوگا۔شرط فاسد سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
(والنكاح) بأن قال تزوجتك على أن لا يكون لك مهر يصح النكاح ويفسد الشرط ويجب مهر المثل كما عرف في موضعه (البحرالرائق 6/203) (وَإِنْ تَزَوَّجَ مُسْلِمٌ عَلَى خَمْرٍ أَوْ خِنْزِيرٍ فَالنِّكَاحُ جَائِزٌ وَلَهَا مَهْرُ مِثْلِهَا) ؛ لِأَنَّ شَرْطَ قَبُولِ الْخَمْرِ شَرْطٌ فَاسِدٌ فَيَصِحُّ النِّكَاحُ وَيَلْغُو الشَّرْطُ، بِخِلَافِ الْبَيْعِ؛ لِأَنَّهُ يَبْطُلُ بِالشُّرُوطِ الْفَاسِدَةِ لَكِنْ لَمْ تَصِحَّ التَّسْمِيَةُ لِمَا أَنَّ الْمُسَمَّى لَيْسَ بِمَالٍ فِي حَقِّ الْمُسْلِمِ فَوَجَبَ مَهْرُ الْمِثْلِ. (العنایۃ شرح الھدایۃ 3/358)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
نکاح و شادی
Ref. No. 1604/43-1158
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح منعقد ہونے کے لئے ایجاب و قبول ضروری ہے اور مذکورہ صورت میں ایجاب و قبول نہیں پایا گیا۔ صرف عورتوں کا آپس میں بات کرنا اور کچھ لوگوں کا نکاح کی بات سن لینا کافی نہیں ہے۔ اگر کوئی دوسرا نکاح کردے تو بھی ان کی اجازت ضروری ہے جو یہاں مفقود ہے۔ اس لئے صورت بالا میں نکاح منعقد نہیں ہوا۔
(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك (و) يقول الآخر (تزوجت، و) ينعقد أيضا (بما) أي بلفظين (وضع أحدهما له) للمضي (والآخر للاستقبال) أو للحال (شامی، کتاب النکاح 3/9)
فكما أن نكاح الفضولي صحيح موقوف على الإجازة بالقول أو بالفعل فكذا طلاقه (شامی، مطلب فی تعریف السکران وحکمہ 3/242) وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. - - - وفي الفوائد: صورة التوكيل أن يقول المشتري لغيره، كن وكيلا في قبض المبيع أو وكلتك بقبضه. - - - وأفاد أنه ليس كل أمر توكيلا بل لا بد مما يفيد كون فعل المأمور بطريق النيابة عن الآمر فليحفظ اهـ. هذا جميع ما كتبه نقلته، وبالله التوفيق (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند