طلاق و تفریق

Ref. No. 1005/41-175

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خاتون کو حتی الامکان شوہر کی اطاعت کرنی چاہئے، اور بلا کسی عذر کے منع نہیں کرنا چاہئے، اگر کوئی واقعی عذر ہے تو علاج کے ذریعہ اس کو حل کرنا چاہئے۔ آپ بھی اپنی بیوی پر اس کی طاقت سے زیادہ کا دباؤ نہ بنائیں۔ اور بیوی کی صحت کا خیال کرتے ہوئے اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو تو روزہ رکھ کر اپنی خواہش  پر کنٹرول کریں۔ محض اس بنیاد پر طلاق دینا مناسب نہیں ہے۔ 

  ولو تضررت من کثرۃ جماعہ لم تجز الزیادۃ علی قدر طاقتھا۔ (الدرالمختار مع رد المحتار 3/203)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1755/43-1468

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آٹھ سال پہلے ہی آپ  کے طلاق و ہلاق لفظ سے شرعا تینوں طلاقیں واقع ہوچکی تھیں، اور آپ دونوں کا ایک ساتھ رہنا حرام تھا۔ اس درمیان سب ناجائز عمل ہوا ۔ اس لئے دونوں پر توبہ واستغفارلازم ہے اور حسب سہولت صدقہ بھی کریں۔ اور فوری طور پر دونوں  الگ الگ ہوجائیں۔  عورت کو لازم ہے کہ اس سے پردہ کرے اور اس سے کسی طرح کی بات چیت سے گریز کرے۔ اورعورت عدت کے بعد  جلد  کسی دوسری جگہ نکاح کرلے تاکہ پہلے شوہر سے رابطہ کا سد باب ہوسکے۔

نوٹ: اگر پہلے اس نے طلاق نہ دی ہوتی تو بھی آج کے سوال میں مذکور جملوں سے بھی شرعا تین طلاقیں واقع ہوگئیں۔ شوہر وبیوی کا تعلق بالکلیہ ختم ہوچکاہے۔

الطلاق مرتان الی قولہ ان طلقھا فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره (سورۃ البقرہ 229)

وطلاق البدعة أن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو ثلاثا في طهر واحد، فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا. (البنایۃ شرح الھدایۃ، طلاق البدعۃ 5/284)

وفي المنية يدخل نحو " وسوبيا طلاغ، أو تلاع، أو تلاغ أو طلاك " بلا فرق بين الجاهل والعالم على ما قال الفضلي، وإن قال: تعمدته تخويفها لا يصدق قضاء إلا بالإشهاد عليه، وكذا أنت " ط ل اق "، أو " طلاق باش "، أو " طلاق شو " كما في الخلاصة ولم يشترط علم الزوج معناه فلو لقنه الطلاق بالعربية فطلقها بلا علم به وقع قضاء كما في الظهيرية والمنية. (مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر، باب ایقاع الطلاق 1/386)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1112/42-339

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ اغلاط العوام کے قبیل سے ہے، اس  کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔   

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2801/45-4390

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خلع  میاں بیوی کے درمیان ایک مالی معاملہ ہے، جس میں دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔  میاں بیوی کے درمیان جو عوض طے ہوجائے  وہی بیوی پر شوہر کو ادا کرنا لازم ہوگا۔ اگر خلع مہر کے عوض ہوا ہو تو بیوی پر صرف شوہر کا ادا کیا ہوا مہر لوٹانا ضروری ہو گا، اس کے علاوہ گفٹ میں ملی ہوئی چیزیں واپس کرنا ضروری نہیں ہے، تاہم  جس چیز کے عوض خلع  کیا گیا ہو  اس کی ادائیگی بیوی کے ذمہ لازم  ہو گی۔

خلع کے اندر مہر کی مقدار سے زیادہ  لینا شوہر کے لئے  جائز ہے لیکن مکروہ ہے، اس لئے خلع میں کل مہر یا بعض مہر کی معافی  یا واپسی پر ہی عقد کیا جائے  تو بہتر ہے۔

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.

إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.

وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان."

(الھندیۃ، کتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حکمه، جلد:1، ص:488، ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 38/827

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال ایسی صورت میں  اگر ام زرین کے علاوہ کسی اور سے نکاح کیا گیا تو اس منکوحہ پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ اب اگراس کے بعدام زرین کے علاوہ  کسی دوسری لڑکی سے  نکاح کیا  تو یہ نکاح درست ہوگا۔ اس کا شرطیہ جملہ صرف پہلے عقد سے متعلق ہوگا۔

۔واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند