Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 1479/42-926
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرائط نامہ پڑھے بغیر، اس پر محض دستخط کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی، البتہ اگر اس نے شرائط پڑھے تھے یا اس کو معلوم تھا کہ اس میں طلاق دینے کی بات لکھی ہے اور پھر اس نے دستخط کئے تو اس سےوجود شرط پر طلاق واقع ہوجائے گی۔
كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة. (شامی، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ 3/246) وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه (شامی باب صریح الطلاق 3/247) قال للكاتب اكتب إني إذا خرجت من المصر بلا إذنها فهي طالق واحدة فلم تتفق الكتابة وتحقق الشرط وقع وأصله أن الأمر بكتابة الإقرار إقرار كتب أم لا اهـ. (البحر، باب الفاظ الطلاق 3/272)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1478/42-923
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تحریر پڑھنے کے بعد صحیح نشان پر کلک کرنا اس تحریر سے اتفاق کی دلیل ہے اور اس نشان پر کلک کرنا زبان سے لفظ ہاں کہنے کے مترادف ہے۔ اس لئے صحیح کے نشان والا بٹن دبانے سے تحریر شدہ تینوں طلاقیں شرعا واقع ہوگئیں۔ لہذا میاں بیوی دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے، اب نہ دورانِ عدت رجعت جائز ہے، اور نہ ہی تجدیدِ نکاح کی ،اور عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے ۔
كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة. (شامی، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ 3/246) وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه (شامی باب صریح الطلاق 3/247) قال للكاتب اكتب إني إذا خرجت من المصر بلا إذنها فهي طالق واحدة فلم تتفق الكتابة وتحقق الشرط وقع وأصله أن الأمر بكتابة الإقرار إقرار كتب أم لا اهـ. (البحر، باب الفاظ الطلاق 3/272)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1481/42-948
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محض طلاق کے وہم سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ غیراختیاری نیت کا بھی اعتبار نہیں ہے۔ وساوس کو زیادہ جگہ نہ دیں، ذہن کو دوسری چیزوں کی جانب منتقل کریں، اور "لاحول ولاقوۃ الا باللہ " کثرت سے پڑھیں۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "ان اللہ تجاوزعن امتی ماوسوست بہ صدورہامالم تعمل بہ اوتتکلم متفق علیہ". قال الملاعلی قاری: "الخواطران کانت تدعوالی الرذائل فہی وسوسۃ ۔۔۔۔ماوسوست بہ صدورہاای ماخطر فی قلوبہم من الخواطرالردیئۃ ۔۔۔مالم تعمل بہ ای مادام لم یتعلق بہ العمل ان کان فعلیا،اوتتکلم بہ ای مالم یتکلم بہ ان کان قولیا". (مرقاۃ المفاتیح: 1/238)
"ورکنہ(الطلاق ) لفظ مخصوص وفی الشامیۃ ھوماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح اوکنایۃ ۔۔۔وارادالفظ ولوحکمالیدخل الکتابۃ المستبینۃ واشارۃ الاخرس الخ ۔۔واراد بہاالفظ اومایقوم مقامہ من الکتابۃ المستبینۃ اوالاشارۃ المفہومۃ ۔۔۔لان رکن الطلاق الفظ اومایقوم مقامہ".(شامی 3/247)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
طلاق و تفریق
Ref. No. 938/41-70
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فون پر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ طلاق دینے اور نہ دینے میں اگر دونوں میں اختلاف ہو اور کسی کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو شوہر سے قسم لی جائے گی اگر قسم کھاتا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی تو اس کی بات معتبر ہو گی، قسم کھانے سے انکار کرے گا تو عورت کی بات معتبر ہوگی، تاہم اگر شوہر کے حق میں فیصلہ ہو اور بیوی کو یقین ہے کہ شوہر کے فون سے شوہر نے ہی تین طلاقیں دی ہیں ، تو پھر عورت اس سے علیحدگی اختیار کرے اور اس کو اپنے اوپر قدرت نہ دے۔ ایسے میں شوہر کو کچھ دے کر یامہر معاف کرکے خلع لے لے اور عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرلے۔ اگر شوہر اس پر راضی نہ ہو تو شرعی دارالقضاء سے رجوع کرکے مسئلہ کا حل معلوم کرے۔
وَقَالَ فِي الْخَانِيَّةِ لَوْ قَالَ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ وَقَالَ أَرَدْت بِهِ التَّكْرَارَ صُدِّقَ دِيَانَةً وَفِي الْقَضَاءِ طَلُقَتْ ثَلَاثًا. اهـ. وَمِثْله فِي الْأَشْبَاهِ وَالْحَدَّادِيِّ وَزَادَ الزَّيْلَعِيُّ أَنَّ الْمَرْأَةَ كَالْقَاضِي فَلَا يَحِلُّ لَهَا أَنْ تُمَكِّنَهُ إذَا سَمِعْت مِنْهُ ذَلِكَ أَوْ عَلِمْت بِهِ لِأَنَّهَا لَا تَعْلَمُ إلَّا الظَّاهِرَ. اهـ. (العقودالدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ 1/37)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1750/43-1471
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکی کے مذکورہ جملہ سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا، نکاح باقی ہے اور دونوں میاں بیوی ہیں۔ زید کو چاہئے کہ اس سلسلہ میں بہت احتیاط برتے اور کبھی بھی اس طرح کی بات اپنی زبان سے خود نہ نکالے، اگر شوہر اس طرح کی بات کرے گا تو اس سے مسئلہ بدل جائے گا۔ تاہم عورت کے اس طرح کے جملہ سے نکاح ختم نہیں ہوتاہے۔ طلاق کا مکمل اختیار شوہر کو ہوتاہے، عورت طلاق نہیں دے سکتی اور عورت کےطلاق والے جملے بولنے سے نکاح نہیں ٹوٹتاہے۔
عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ؛ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: الطَّلاَقُ لِلرِّجَالِ، وَالْعِدَّةُ لِلنِّسَاءِ. (موطا مالک، جامع عدۃ الطلاق 4/839)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2827/45-4418
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال شوہر کے قول 'میری ابھی شادی ٹوٹی ہے' اگر اس سے طلا ق کی نیت کرے تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی، اور اگر طلاق کی نیت نہ ہو تو کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1230/42-585
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام انسانی فلاح و بہبود کا ضامن ، امن و سلامتی کا علمبردار اور برحق مذہب ہے، اسی میں انسانیت کی ترقی ہے۔ مسلمانوں کو بالخصوص اپنے ایمان کی حفاظت اور ایمانیات وشرعی قوانین پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے،غیراسلامی طریقوں سے اجتناب لازم ہے۔ مذکورہ عورت اگر غیرشرعی طریقے اختیار کررہی ہو تو اسے اچھے انداز سے سمجھانے اور اس کے شکوک و شبہات دور کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ سوال کی کیا تفصیلات اور پس منظر ہے ، مقدمہ کے کیا نقاط ہیں وہ ہمارے سامنے نہیں ہیں، اس لئے کوئی واضح بات جواب میں لکھنی مشکل ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1959/44-1873
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر مذکورہ جملہ اسی طرح کہا تھا جیسا کہ بیان کیاگیاہے تو بہن کے گھر جانے پریمین پوری ہوگئی اور ایک طلاق واقع ہوگئی،اور عورت کی عدت شروع ہوگئی، اب دوبارہ یا سہ بارہ بہن کے گھر جانے پر مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اس لئے اب اگر شوہر نے عدت (طلاق کے بعد تین حیض) کے زمانہ میں بیوی سے رجعت کرلی تو ٹھیک ہے ، اور اگر عدت گزرگئی تو اب جدیدمہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔
وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق۔" )ہندیہ (كتاب الطلاق، الباب الرابع، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما 1 /420،ط:دار الفكر(
"فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها )الدر المختار وحاشية ابن عابدين،كتاب الطلاق،باب التعليق،مطلب زوال الملك لا يبطل اليمين، 3/ 355، ط: سعید(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1005/41-175
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خاتون کو حتی الامکان شوہر کی اطاعت کرنی چاہئے، اور بلا کسی عذر کے منع نہیں کرنا چاہئے، اگر کوئی واقعی عذر ہے تو علاج کے ذریعہ اس کو حل کرنا چاہئے۔ آپ بھی اپنی بیوی پر اس کی طاقت سے زیادہ کا دباؤ نہ بنائیں۔ اور بیوی کی صحت کا خیال کرتے ہوئے اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو تو روزہ رکھ کر اپنی خواہش پر کنٹرول کریں۔ محض اس بنیاد پر طلاق دینا مناسب نہیں ہے۔
ولو تضررت من کثرۃ جماعہ لم تجز الزیادۃ علی قدر طاقتھا۔ (الدرالمختار مع رد المحتار 3/203)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند