Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 2105/44-2270
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کنائی الفاظ بولنے اور بیوی کی جانب منسوب کرنے کی صورت میں نیت کا اعتبار ہوگا، اور نکاح پر اثر پڑےگا، لیکن موبائل کا الارم بند کرنے کے لئے لفظ 'ڈسمس' پر کلک کرنے سے کسی طرح نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس لئے آپ وسوسہ کا شکار نہ ہوں، آپ کا نکاح بدستور باقی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 915/41-38
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں شوہر نے دوبار بیوی کی طلاق کو معلق کیا مگر بیوی شرط کے مطابق باہر آگئی، تو اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اور اگر متعینہ وقت گزرنے کے بعد باہر آئی تو طلاق واقع ہوچکی ۔
وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق (الھدایۃ 1/244)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2131/44-2181
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زمین پر طلاق کے الفاظ اس طور پر لکھ دئے کہ ہر شخص اس کو پڑھ سکتاہو یعنی بالکل واضح طور پر طلاق لکھی ہوئی ہوتو اس سے بھی طلاق واقع ہوجائے گی۔اور اگر اس طرح لکھا کہ زمین پر انگلی پھیری لیکن زمین پر کچھ واضح نہیں ہے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔
يجب أن يعلم بأن الكتابة نوعان: مرسومة وغير مرسومة. فالمرسومة: أن تكتب على صحيفة مصدرا ومعنونا وإنها على وجهين: الأول: أن تكتب هذا كتاب فلان بن فلان إلى فلانة أما بعد: فأنت طالق. وفي هذا الوجه يقع الطلاق عليها في الحال. وإن قال: لم أعن به الطلاق لم يصدق في الحكم، وهذا لأن الكتابة المرسومة بمنزلة المقال. (المحیط البرھانی: (274/3، ط: دار الکتب العلمیۃ)
وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو (رد المحتار: (246/3، ط: دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2470/45-3744
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب اپنی علاتی بہن کی پوتی سے نکاح حرام تھا تو یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا، لہذا طلاق دینے کی ضرورت نہیں، البتہ زبانی طور پرضرورکہدے کہ میں نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی ،یا قاضی دونوں کے درمیان تفریق کا حکم کردے۔ اور ایسی صورت میں چونکہ خلوت ہوچکی ہے اس لئےعورت پر عدت ، اور شوہر پر مہر مثل اور مہر مسمی میں سے جو کم ہوگا وہ واجب ہوگا۔
(الباب الثامن في النكاح الفاسد وأحكامه) إذا وقع النكاح فاسدًا فرق القاضي بين الزوج والمرأة فإن لم يكن دخل بها فلا مهر لها ولا عدة." (الفتاوى الهندية"،الباب الثامن في النكاح الفاسد وأحكامه 1/ 330)
قولہ( في نكاح فاسد ) وحكم الدخول في النكاح الموقوف كالدخول في الفاسد فيسقط الحد ويثبت النسب ويجب الأقل من المسمى ومن مهر المثل"(ردالمحتار،مطلب في النكاح الفاسد،ج4ص274)
"لأن الطلاق لا يتحقق في النكاح الفاسد بل هو متاركة۔۔۔في البزازية المتاركة في الفاسد بعد الدخول لا تكون إلا بالقول كخليت سبيلك أو تركتك ومجرد إنكار النكاح لا يكون متاركة"(ردالمحتار،مطلب في النكاح الفاسد،ج4ص276)
"وَلَا نَفَقَةَ في النِّكَاحِ الْفَاسِدِ وَلَا في الْعِدَّةِ منه"۔ (الهندية،النفقات ،ج1ص597)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1476/42-922
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں نشہ کی حالت میں دی گئی دو طلاقیں واقع ہوگئیں۔ عدت گزرنے سےقبل رجعت کی گنجائش ہے، اور اگر عدت گزرچکی ہے تو دوبارہ نکاح کرکے دونوں میاں بیوی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ لیکن خیال رہے کہ شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کااختیار رہے گا، اور اگر اس نے وہ ایک طلاق آئندہ کبھی دیدی تو عورت پر تین طلاقیں مکمل ہوجائیں گی اور دونوں کا نکاح فورا ختم ہوجائے گا، اور دوبارہ نکاح نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے آئندہ شوہر طلاق دینے میں غایت درجہ احتیاط برتے۔
وفي الذخيرة ": طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر والنبيذ، ولو أكره على الشرب فسكر أو شرب للضرورة فذهب عقله يقع طلاقه. وفي جوامع الفقه عن أبي حنيفة: يقع، وبه أخذ شداد ولو ذهب عقله بدواء أو أكل البنج لايقع. (البنایۃ، طلاق السکران 5/300) ولا يقع طلاق السكران منه بمنزلة النائم ومن ذهب عقله بالبنج ولبن الرماك۔ وعن محمد أنه حرام ويحد شاربه ويقع طلاقه إذا سكر منه كما في سائر الأشربة المحرمة (فتح القدیر للکمال، فصل فی الدعوی ولاختلاف والتصرف فیہ 10/99) واختار الكرخي والطحاوي أن طلاق السكران لا يقع؛ لأنه لا قصد له كالنائم، وهذا لأن شرط صحة التصرف العقل، وقد زال فصار كزواله بالبنج وغيره من المباحات ولنا أنه مخاطب شرعا لقوله تعالى {لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى} [النساء: 43] فوجب نفوذ تصرفه؛ ولأنه زال عقله بسبب هو معصية فيجعل باقيا زجرا له بخلاف ما إذا زال بالمباح حتى لو صدع رأسه وزال بالصداع لا يقع طلاقه (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطلاق 2/196)
وروى الطحاوي عن أبي سنان قال: سمعت عمر بن عبد العزيز يقول طلاق السكران والمكره واقع ولأنه قصد إيقاع الطلاق في منكوحته حال أهليته فلا يعرى عن قضيته وهذا لأنه عرف الشرين فاختار أهونهما وهذا علامة القصد والاختيار لأنه غير راض بحكمه وذلك غير مانع من وقوع الطلاق كالهازل. (الغرۃ المنیفۃ فی تحقیق بعض مسائل الامام، کتاب الطلاق 1/153)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1654/43-1234
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مفتی صاحب کا بتایاہوا مسئلہ شرعا درست ہے، ایک طلاق فورا فوری دیدی جائے ۔ مذکورہ حیلہ اختیار کرنےسے تین طلاقوں سے بچ جائے گی اور ولادت کے وقت جبکہ وہ طلاق کا محل نہیں رہے گی اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ہاں اس کے بعد شوہر کو خیال ررہنا چاہئے کہ صرف دو طلاقیں اب باقی رہ جائیں گی، اس لئے پھر کبھی طلاق نہ دے۔
وعرف في الطلاق أنه لو قال إن دخلت فأنت طالق إن دخلت فأنت طالق إن دخلت فأنت طالق فدخلت وقع عليها ثلاث تطليقات". (فتح القدیر 10/437 ط سعید) "فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدةً ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها". (شامی، 3/357)
وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق، وهذا بالاتفاق". (الھندیۃ 1/420)
لان الطلاق المقارن لانقضاء العدۃ لایقع (شامی، کتاب الطلاق، باب التعلیق، 4/618 زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1861/43-1716
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت نے تین طلاق کا دعوی کیا ہے، اور شوہر انکار کرہاہے ، توایسی صورت میں عورت پر لازم ہے کہ بینہ اور گواہ پیش کرے، اگر عورت اپنے دعوی پر بینہ پیش کردے تو اس کے حق میں فیصلہ کردیا جائے گا، اور اگر اس کے دعوی پر کوئی دلیل نہ ہو تو شوہر سے حلف لیا جائے گا، اگر شوہر حلف اٹھانے سے انکار کرے تو بھی عورت کے حق میں فیصلہ کردیاجائے گا، اور اگر حلف اٹھاتاہے تو اب مرد کے حق میں فیصلہ ہوگا، اور یہ عورت اس کی بیوی رہے گی، نہ تو عدت گزارے گی، نہ کسی اور مرد سے شادی کرے گی، بلکہ نان و نفقہ بھی شوہر پر ہی ہوگا ۔ لیکن ایسی صورت میں جبکہ عورت کو تین طلاق کا یقین ہے، اس کو چاہئے کہ مرد کو اپنے اوپر قابو نہ دے، اور اس سے خلع حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ بہتر ہے کہ اس مسئلہ میں شرعی دارالقضاء سے رجوع کیاجائے۔
عن عمران بن حصین رضي اللّٰہ عنہ قال: أمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بشاہدین علی المدعي، والیمین علی المدعی علیہ۔ (سنن الدار قطنی: (باب في المرأۃ تقتل إذا ارتدت، رقم الحدیث: 4466) والمرأۃ کالقاضي إذاسمعتہ أو أخبرہا عدل لا یحل لہا تمکینہ … فإن حلف ولا بینۃ لہا فالإثم علیہ۔ (رد المحتار: (251/3)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2183/44-228
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے تکلم کے وقت بیوی کی جانب طلاق کی نسبت صراحۃً یا اشارۃ یا دلالۃ ہونا ضروری ہے۔ اگر جنید نے تنہائی میں طلاق کا تکلم کیا اور بیوی کا صرف تصور کیا توطلاق واقع نہیں ہوگی۔ اور اگر بیوی کی جانب طلاق کو منسوب کیا تھا تو اب طلاق کے الفاظ زبان سے نکلتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی، نیت طلاق کی رہی ہویا نہ رہی ہو۔ صریح الفاظ میں نیت معتبر نہیں ہوتی ہے۔
"أما الصريح فهو اللفظ الذي لا يستعمل إلا في حل قيد النكاح، وهو لفظ الطلاق أو التطليق مثل قوله: " أنت طالق " أو " أنت الطلاق، أو طلقتك، أو أنت مطلقة " مشددا، سمي هذا النوع صريحا؛ لأن الصريح في اللغة اسم لما هو ظاهر المراد مكشوف المعنى عند السامع من قولهم: صرح فلان بالأمر أي: كشفه وأوضحه، وسمي البناء المشرف صرحا لظهوره على سائر الأبنية، وهذه الألفاظ ظاهرة المراد؛ لأنها لا تستعمل إلا في الطلاق عن قيد النكاح فلا يحتاج فيها إلى النية لوقوع الطلاق؛ إذ النية عملها في تعيين المبهم ولا إبهام فيها." (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،کتاب الطلاق، فصل في النية في أحد نوعي الطلاق وهو الكناية، 3/101، ط: دارالکتب العلمیة)
وقد مر ان الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفا الافيه من اي لغة كانت،وهذا في عرف زمانناكذالك فوجب اعتباره صريحا كما افتي المتاخرون في انت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلانية ۔ (ردالمحتار علي الدر المختار ،كتاب الطلاق ،باب الصريح ،مطلب الصريح نوعان رجعي وبائن(3 /252)ط:سعيد)
رد المحتار - (10 / 500):
"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لاتخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل ، وإن قال: تعمدته تخويفًا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى."
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 41/1011
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کے پاس سے آنے کے بعد بھی نکاح باقی ہے اور جب شوہر طلاق دے گا اس کے بعد عدت گزارنی ہوگی۔جن عورتوں کی ماہواری آتی ہے اور وہ حمل سے نہیں ہیں ان کی عدت تین حیض ہے۔ طلاق کے بعد تین حیض مکمل ہونے دیں پھر کسی دوسرے مردسے نکاح کریں، بلاعدت گزارے دوسرے مرد سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے۔ والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء (البقرۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 39 / 826
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلہ میں کسی قریبی شرعی دارالقضاء سے رابطہ کرلیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند