Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 1476/42-922
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں نشہ کی حالت میں دی گئی دو طلاقیں واقع ہوگئیں۔ عدت گزرنے سےقبل رجعت کی گنجائش ہے، اور اگر عدت گزرچکی ہے تو دوبارہ نکاح کرکے دونوں میاں بیوی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ لیکن خیال رہے کہ شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کااختیار رہے گا، اور اگر اس نے وہ ایک طلاق آئندہ کبھی دیدی تو عورت پر تین طلاقیں مکمل ہوجائیں گی اور دونوں کا نکاح فورا ختم ہوجائے گا، اور دوبارہ نکاح نہیں ہوسکے گا۔ اس لئے آئندہ شوہر طلاق دینے میں غایت درجہ احتیاط برتے۔
وفي الذخيرة ": طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر والنبيذ، ولو أكره على الشرب فسكر أو شرب للضرورة فذهب عقله يقع طلاقه. وفي جوامع الفقه عن أبي حنيفة: يقع، وبه أخذ شداد ولو ذهب عقله بدواء أو أكل البنج لايقع. (البنایۃ، طلاق السکران 5/300) ولا يقع طلاق السكران منه بمنزلة النائم ومن ذهب عقله بالبنج ولبن الرماك۔ وعن محمد أنه حرام ويحد شاربه ويقع طلاقه إذا سكر منه كما في سائر الأشربة المحرمة (فتح القدیر للکمال، فصل فی الدعوی ولاختلاف والتصرف فیہ 10/99) واختار الكرخي والطحاوي أن طلاق السكران لا يقع؛ لأنه لا قصد له كالنائم، وهذا لأن شرط صحة التصرف العقل، وقد زال فصار كزواله بالبنج وغيره من المباحات ولنا أنه مخاطب شرعا لقوله تعالى {لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى} [النساء: 43] فوجب نفوذ تصرفه؛ ولأنه زال عقله بسبب هو معصية فيجعل باقيا زجرا له بخلاف ما إذا زال بالمباح حتى لو صدع رأسه وزال بالصداع لا يقع طلاقه (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطلاق 2/196)
وروى الطحاوي عن أبي سنان قال: سمعت عمر بن عبد العزيز يقول طلاق السكران والمكره واقع ولأنه قصد إيقاع الطلاق في منكوحته حال أهليته فلا يعرى عن قضيته وهذا لأنه عرف الشرين فاختار أهونهما وهذا علامة القصد والاختيار لأنه غير راض بحكمه وذلك غير مانع من وقوع الطلاق كالهازل. (الغرۃ المنیفۃ فی تحقیق بعض مسائل الامام، کتاب الطلاق 1/153)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1654/43-1234
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مفتی صاحب کا بتایاہوا مسئلہ شرعا درست ہے، ایک طلاق فورا فوری دیدی جائے ۔ مذکورہ حیلہ اختیار کرنےسے تین طلاقوں سے بچ جائے گی اور ولادت کے وقت جبکہ وہ طلاق کا محل نہیں رہے گی اس پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ہاں اس کے بعد شوہر کو خیال ررہنا چاہئے کہ صرف دو طلاقیں اب باقی رہ جائیں گی، اس لئے پھر کبھی طلاق نہ دے۔
وعرف في الطلاق أنه لو قال إن دخلت فأنت طالق إن دخلت فأنت طالق إن دخلت فأنت طالق فدخلت وقع عليها ثلاث تطليقات". (فتح القدیر 10/437 ط سعید) "فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدةً ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها". (شامی، 3/357)
وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط، مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق، وهذا بالاتفاق". (الھندیۃ 1/420)
لان الطلاق المقارن لانقضاء العدۃ لایقع (شامی، کتاب الطلاق، باب التعلیق، 4/618 زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1861/43-1716
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت نے تین طلاق کا دعوی کیا ہے، اور شوہر انکار کرہاہے ، توایسی صورت میں عورت پر لازم ہے کہ بینہ اور گواہ پیش کرے، اگر عورت اپنے دعوی پر بینہ پیش کردے تو اس کے حق میں فیصلہ کردیا جائے گا، اور اگر اس کے دعوی پر کوئی دلیل نہ ہو تو شوہر سے حلف لیا جائے گا، اگر شوہر حلف اٹھانے سے انکار کرے تو بھی عورت کے حق میں فیصلہ کردیاجائے گا، اور اگر حلف اٹھاتاہے تو اب مرد کے حق میں فیصلہ ہوگا، اور یہ عورت اس کی بیوی رہے گی، نہ تو عدت گزارے گی، نہ کسی اور مرد سے شادی کرے گی، بلکہ نان و نفقہ بھی شوہر پر ہی ہوگا ۔ لیکن ایسی صورت میں جبکہ عورت کو تین طلاق کا یقین ہے، اس کو چاہئے کہ مرد کو اپنے اوپر قابو نہ دے، اور اس سے خلع حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ بہتر ہے کہ اس مسئلہ میں شرعی دارالقضاء سے رجوع کیاجائے۔
عن عمران بن حصین رضي اللّٰہ عنہ قال: أمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بشاہدین علی المدعي، والیمین علی المدعی علیہ۔ (سنن الدار قطنی: (باب في المرأۃ تقتل إذا ارتدت، رقم الحدیث: 4466) والمرأۃ کالقاضي إذاسمعتہ أو أخبرہا عدل لا یحل لہا تمکینہ … فإن حلف ولا بینۃ لہا فالإثم علیہ۔ (رد المحتار: (251/3)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2183/44-228
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے تکلم کے وقت بیوی کی جانب طلاق کی نسبت صراحۃً یا اشارۃ یا دلالۃ ہونا ضروری ہے۔ اگر جنید نے تنہائی میں طلاق کا تکلم کیا اور بیوی کا صرف تصور کیا توطلاق واقع نہیں ہوگی۔ اور اگر بیوی کی جانب طلاق کو منسوب کیا تھا تو اب طلاق کے الفاظ زبان سے نکلتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی، نیت طلاق کی رہی ہویا نہ رہی ہو۔ صریح الفاظ میں نیت معتبر نہیں ہوتی ہے۔
"أما الصريح فهو اللفظ الذي لا يستعمل إلا في حل قيد النكاح، وهو لفظ الطلاق أو التطليق مثل قوله: " أنت طالق " أو " أنت الطلاق، أو طلقتك، أو أنت مطلقة " مشددا، سمي هذا النوع صريحا؛ لأن الصريح في اللغة اسم لما هو ظاهر المراد مكشوف المعنى عند السامع من قولهم: صرح فلان بالأمر أي: كشفه وأوضحه، وسمي البناء المشرف صرحا لظهوره على سائر الأبنية، وهذه الألفاظ ظاهرة المراد؛ لأنها لا تستعمل إلا في الطلاق عن قيد النكاح فلا يحتاج فيها إلى النية لوقوع الطلاق؛ إذ النية عملها في تعيين المبهم ولا إبهام فيها." (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،کتاب الطلاق، فصل في النية في أحد نوعي الطلاق وهو الكناية، 3/101، ط: دارالکتب العلمیة)
وقد مر ان الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفا الافيه من اي لغة كانت،وهذا في عرف زمانناكذالك فوجب اعتباره صريحا كما افتي المتاخرون في انت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلانية ۔ (ردالمحتار علي الدر المختار ،كتاب الطلاق ،باب الصريح ،مطلب الصريح نوعان رجعي وبائن(3 /252)ط:سعيد)
رد المحتار - (10 / 500):
"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لاتخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل ، وإن قال: تعمدته تخويفًا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى."
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 41/1011
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کے پاس سے آنے کے بعد بھی نکاح باقی ہے اور جب شوہر طلاق دے گا اس کے بعد عدت گزارنی ہوگی۔جن عورتوں کی ماہواری آتی ہے اور وہ حمل سے نہیں ہیں ان کی عدت تین حیض ہے۔ طلاق کے بعد تین حیض مکمل ہونے دیں پھر کسی دوسرے مردسے نکاح کریں، بلاعدت گزارے دوسرے مرد سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے۔ والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروء (البقرۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 39 / 826
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلہ میں کسی قریبی شرعی دارالقضاء سے رابطہ کرلیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1571/43-1099
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس لڑکے سے آپ کا نکاح ہوا ہے اگر وہ اپنے ساتھ آپ کو رکھنے کے لئے تیار نہیں ہے تو اس سے کسی طرح طلاق حاصل کریں، اگرخلع کا معاملہ کرتے ہوئے کچھ پیسے دینے پڑیں تو دے کر اس سے طلاق حاصل کریں، اس سے طلاق لئے بغیر آپ کا نکاح دوسری جگہ نہیں ہوسکتاہے۔ اور اگرکسی بھی طرح شوہر طلاق نہیں دیتا ہے تو کسی قریبی شرعی دارالقضاء سے رجوع کریں۔ قاضی صاحب نوٹس جاری کریں گے، اور شوہر کی سرکشی متحقق ہوجانے پر آپ کا نکاح ان سے فسخ کردیں گے۔ اس کے بعد آپ کسی دوسرے لڑکے سے نکاح کرسکیں گی۔البتہ عدالت سے بھی طلاق کی قانونی کارروائی مکمل کرالیں تاکہ بعد میں وہ لڑکا آپ کو پریشان نہ کرسکے۔(ماخوذ از حیلۃ ناجزۃ، ص؛73،74/ ط؛ دارالاشاعت)
قوله تعالى: ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا (البقرة231) فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان الی قولہ: فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ يُقِيْمَا حُدُوْدَ اﷲِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِه. (البقرۃ 229)
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول".بدائع 3/145)
لا يجوز الخلع إلا إذا كرهته المرأة وخافت أن لا توفيه حقه أو لا يوفيها حقها ومنعوا إذا كرهها الزوج لما تلونا وجوابه ما ذكرناه، وذكر القدوري في مختصره إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به أخرجه مخرج العادة أو الأولوية لا مخرج الشرط وأراد بالخوف العلم والتيقن به (تبیین الحقائق باب الخلع 2/268)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 39/1053
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر اول کے طلاق دئے بغیربیوی کا دوسری جگہ نکاح درست نہیں ہوا، دوسرے شوہر کے ساتھ حرام کاری ہوئی، عورت پر توبہ لازم ہے۔ مرد کا دوسری جگہ نکاح کرنا درست ہوا۔ بہر حال ان دونوں کا نکاح اب بھی باقی ہے۔ عورت عدت گزارنے کے بعد پہلے شوہر کے پاس بغیر تجدید نکاح کے واپس آسکتی ہے۔ البتہ اگر تجدید نکاح کرلیں تو بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2472/45-3745
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ساس کی نگاہ داماد کی شرمگاہ پر پڑی ہے یا نہیں، یہ امر مشکوک ہے، اور اگر نگاہ پڑی تو بھی بغیر شہوت کے پڑی ہوگی، اس لئے محض شک کی بناء پر حرمت ثابت نہیں ہوگی، اور زید کی بیوی بدستور بیوی رہےگی، اور اس سے زید کےنکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
"وناظرة إلى ذكره .... والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى، وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته.
(قوله: وناظرة) أي بشهوة ... (قوله: وفي امرأة ونحو شيخ إلخ) قال في الفتح: ثم هذا الحد في حق الشاب، أما الشيخ والعنين فحدهما تحرك قلبه أو زيادته إن كان متحركاً لا مجرد ميلان النفس، فإنه يوجد فيمن لا شهوة له أصلاً كالشيخ الفاني، ثم قال: ولم يحدوا الحد المحرم منها أي من المرأة، وأقله تحرك القلب على وجه يشوش الخاطر قال ط: ولم أر حكم الخنثى المشكل في الشهوة، ومقتضى معاملته بالأضر أن يجري عليه حكم المرأة". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 33):
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2475/45-3763
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کنایہ کے طور پر استعمال شدہ الفاظ سے اگر طلاق کی نیت کی جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ الفاظ ایسے ہوں جن میں طلاق کے معنی کا احتمال ہو، لہذا اگر بولنے والے نے ایسے الفاظ بولے جن میں طلاق اور سب و شتم کا کوئی معنی نہ ہو تو محض نیت کرلینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں 'تین بات' سے تین طلاقیں مراد نہیں لی جاسکتی ہیں، اس لئے محض نیت کرنے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا ورداً ولا يصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح. (اللباب في شرح الكتاب 3 / 44، کتاب الطلاق، ط؛ المکتبۃ العلمیہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند