طلاق و تفریق

Ref. No. 938/41-70

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  فون پر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ طلاق دینے اور نہ دینے میں اگر دونوں میں اختلاف ہو اور کسی کے پاس کوئی گواہ نہ ہو تو شوہر سے قسم لی جائے گی اگر قسم کھاتا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی تو اس کی بات معتبر ہو گی، قسم کھانے سے انکار کرے گا تو عورت کی بات معتبر ہوگی، تاہم  اگر شوہر کے حق میں فیصلہ ہو اور  بیوی کو یقین ہے کہ شوہر کے فون سے شوہر نے ہی تین طلاقیں دی ہیں ،  تو  پھر عورت اس سے علیحدگی اختیار کرے اور اس کو اپنے اوپر قدرت نہ دے۔ ایسے میں شوہر کو کچھ دے کر یامہر معاف کرکے خلع لے لے اور عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرلے۔ اگر شوہر اس پر راضی نہ ہو تو شرعی دارالقضاء سے رجوع کرکے مسئلہ کا حل معلوم کرے۔

وَقَالَ فِي الْخَانِيَّةِ لَوْ قَالَ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ أَنْتِ طَالِقٌ وَقَالَ أَرَدْت بِهِ التَّكْرَارَ صُدِّقَ دِيَانَةً وَفِي الْقَضَاءِ طَلُقَتْ ثَلَاثًا. اهـ. وَمِثْله فِي الْأَشْبَاهِ وَالْحَدَّادِيِّ وَزَادَ الزَّيْلَعِيُّ أَنَّ الْمَرْأَةَ كَالْقَاضِي فَلَا يَحِلُّ لَهَا أَنْ تُمَكِّنَهُ إذَا سَمِعْت مِنْهُ ذَلِكَ أَوْ عَلِمْت بِهِ لِأَنَّهَا لَا تَعْلَمُ إلَّا الظَّاهِرَ. اهـ. (العقودالدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ 1/37)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1750/43-1471

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکی کے مذکورہ جملہ سے نکاح پر کوئی فرق نہیں پڑتا، نکاح باقی ہے اور دونوں میاں بیوی ہیں۔ زید کو چاہئے کہ اس سلسلہ میں بہت احتیاط برتے اور کبھی بھی اس طرح کی بات اپنی زبان سے خود نہ نکالے، اگر شوہر اس طرح کی بات کرے گا تو اس سے مسئلہ بدل جائے گا۔ تاہم عورت کے اس طرح کے جملہ سے   نکاح ختم نہیں ہوتاہے۔  طلاق کا مکمل اختیار شوہر کو ہوتاہے، عورت طلاق نہیں دے سکتی اور عورت کےطلاق والے جملے  بولنے سے نکاح نہیں ٹوٹتاہے۔

عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ؛ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: الطَّلاَقُ لِلرِّجَالِ، وَالْعِدَّةُ لِلنِّسَاءِ. (موطا مالک، جامع عدۃ الطلاق 4/839)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2827/45-4418

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال شوہر کے قول 'میری ابھی شادی ٹوٹی ہے' اگر اس سے طلا ق کی نیت کرے تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی، اور اگر طلاق کی نیت نہ ہو تو کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1230/42-585

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام انسانی فلاح و بہبود کا ضامن ، امن و سلامتی کا علمبردار اور برحق مذہب ہے،  اسی میں انسانیت کی ترقی ہے۔ مسلمانوں کو بالخصوص اپنے ایمان کی حفاظت اور ایمانیات وشرعی قوانین پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے،غیراسلامی طریقوں سے اجتناب لازم ہے۔ مذکورہ عورت اگر غیرشرعی طریقے اختیار کررہی ہو تو اسے اچھے انداز سے سمجھانے اور اس کے شکوک و شبہات دور  کرنے کی کوشش ہونی چاہئے۔ سوال کی کیا تفصیلات اور پس منظر ہے ، مقدمہ کے کیا نقاط ہیں وہ ہمارے سامنے نہیں ہیں، اس لئے کوئی واضح بات جواب میں لکھنی مشکل ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1959/44-1873

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر مذکورہ جملہ  اسی طرح کہا تھا جیسا کہ بیان کیاگیاہے تو بہن کے گھر جانے پریمین پوری ہوگئی اور ایک طلاق واقع ہوگئی،اور عورت کی عدت شروع ہوگئی،  اب دوبارہ یا سہ بارہ بہن کے گھر جانے پر مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اس لئے اب اگر  شوہر نے عدت (طلاق کے بعد تین حیض)   کے زمانہ میں بیوی سے رجعت کرلی تو ٹھیک ہے ، اور اگر عدت گزرگئی تو اب  جدیدمہر کے ساتھ دوبارہ  نکاح کرنا ہوگا۔

وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق۔"  )ہندیہ (كتاب الطلاق، الباب الرابع، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما 1 /420،ط:دار الفكر(

"فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها )الدر المختار وحاشية ابن عابدين،كتاب الطلاق،باب التعليق،مطلب زوال الملك لا يبطل اليمين،  3/ 355، ط: سعید(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1005/41-175

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خاتون کو حتی الامکان شوہر کی اطاعت کرنی چاہئے، اور بلا کسی عذر کے منع نہیں کرنا چاہئے، اگر کوئی واقعی عذر ہے تو علاج کے ذریعہ اس کو حل کرنا چاہئے۔ آپ بھی اپنی بیوی پر اس کی طاقت سے زیادہ کا دباؤ نہ بنائیں۔ اور بیوی کی صحت کا خیال کرتے ہوئے اپنی ازدواجی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو تو روزہ رکھ کر اپنی خواہش  پر کنٹرول کریں۔ محض اس بنیاد پر طلاق دینا مناسب نہیں ہے۔ 

  ولو تضررت من کثرۃ جماعہ لم تجز الزیادۃ علی قدر طاقتھا۔ (الدرالمختار مع رد المحتار 3/203)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1755/43-1468

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آٹھ سال پہلے ہی آپ  کے طلاق و ہلاق لفظ سے شرعا تینوں طلاقیں واقع ہوچکی تھیں، اور آپ دونوں کا ایک ساتھ رہنا حرام تھا۔ اس درمیان سب ناجائز عمل ہوا ۔ اس لئے دونوں پر توبہ واستغفارلازم ہے اور حسب سہولت صدقہ بھی کریں۔ اور فوری طور پر دونوں  الگ الگ ہوجائیں۔  عورت کو لازم ہے کہ اس سے پردہ کرے اور اس سے کسی طرح کی بات چیت سے گریز کرے۔ اورعورت عدت کے بعد  جلد  کسی دوسری جگہ نکاح کرلے تاکہ پہلے شوہر سے رابطہ کا سد باب ہوسکے۔

نوٹ: اگر پہلے اس نے طلاق نہ دی ہوتی تو بھی آج کے سوال میں مذکور جملوں سے بھی شرعا تین طلاقیں واقع ہوگئیں۔ شوہر وبیوی کا تعلق بالکلیہ ختم ہوچکاہے۔

الطلاق مرتان الی قولہ ان طلقھا فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره (سورۃ البقرہ 229)

وطلاق البدعة أن يطلقها ثلاثا بكلمة واحدة أو ثلاثا في طهر واحد، فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا. (البنایۃ شرح الھدایۃ، طلاق البدعۃ 5/284)

وفي المنية يدخل نحو " وسوبيا طلاغ، أو تلاع، أو تلاغ أو طلاك " بلا فرق بين الجاهل والعالم على ما قال الفضلي، وإن قال: تعمدته تخويفها لا يصدق قضاء إلا بالإشهاد عليه، وكذا أنت " ط ل اق "، أو " طلاق باش "، أو " طلاق شو " كما في الخلاصة ولم يشترط علم الزوج معناه فلو لقنه الطلاق بالعربية فطلقها بلا علم به وقع قضاء كما في الظهيرية والمنية. (مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر، باب ایقاع الطلاق 1/386)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1112/42-339

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ اغلاط العوام کے قبیل سے ہے، اس  کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔   

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2801/45-4390

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خلع  میاں بیوی کے درمیان ایک مالی معاملہ ہے، جس میں دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔  میاں بیوی کے درمیان جو عوض طے ہوجائے  وہی بیوی پر شوہر کو ادا کرنا لازم ہوگا۔ اگر خلع مہر کے عوض ہوا ہو تو بیوی پر صرف شوہر کا ادا کیا ہوا مہر لوٹانا ضروری ہو گا، اس کے علاوہ گفٹ میں ملی ہوئی چیزیں واپس کرنا ضروری نہیں ہے، تاہم  جس چیز کے عوض خلع  کیا گیا ہو  اس کی ادائیگی بیوی کے ذمہ لازم  ہو گی۔

خلع کے اندر مہر کی مقدار سے زیادہ  لینا شوہر کے لئے  جائز ہے لیکن مکروہ ہے، اس لئے خلع میں کل مہر یا بعض مہر کی معافی  یا واپسی پر ہی عقد کیا جائے  تو بہتر ہے۔

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.

إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.

وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان."

(الھندیۃ، کتاب الطلاق، الباب الثامن في الخلع وما في حکمه، جلد:1، ص:488، ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 38/827

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال ایسی صورت میں  اگر ام زرین کے علاوہ کسی اور سے نکاح کیا گیا تو اس منکوحہ پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ اب اگراس کے بعدام زرین کے علاوہ  کسی دوسری لڑکی سے  نکاح کیا  تو یہ نکاح درست ہوگا۔ اس کا شرطیہ جملہ صرف پہلے عقد سے متعلق ہوگا۔

۔واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند