طلاق و تفریق

Ref. No. 1224/42-538

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مسئولہ میں شرعا ایک طلاق رجعی  واقع ہوگئی۔ شوہر عدت کے اندر رجعت کرسکتا ہے۔

والمعلق بالشرط ينزل عند وجود الشرط كالمنجز (فتح القدیر للکمال ابن الھمام/ باب جنایۃ المملوک 10/345)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2312/44-3471

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اس لئے کہ شرط نہیں پائی گئی، کیونکہ لڑکے کو ماں نے گھر میں داخل ہونے نہیں دیا، بلکہ باپ نے داخل کیا ہے اور نہ ہی ماں نے کھانا دیا ہے، لیکن اگر شرط پائی گئی تو تینوں طلاقیں شرعا فقہ حنفی کے مطابق واقع ہوجائیں گی۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 40/915

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوسکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 41/847

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب کوئی مرد اپنی بیوی کو تین طلاق دیدیتا ہے تو وہ عورت اس مرد کے لئے ہمیشہ کے لئےحرام ہو جاتی ہے۔ اب اس کا نکاح کسی دوسرے مرد ہی سے ہوسکتا ہے۔ البتہ اگرکسی دوسرے مرد سے نکاح ہوا، اس نے صحبت کی، لیکن کسی وجہ سے طلاق ہوگئی یا دوسرے شوہر کا انتقال ہوگیا، تو اب یہ عورت عدت گزارنے کے بعد آزاد ہوجاتی ہے، اب وہ تیسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے اور چاہے تو پہلے شوہر (جس نے تین طلاق دی تھی اور اس سے نکاح حرام تھا) سے نکاح  کر سکتی ہے۔ چونکہ اس ورانیہ میں دوسرے مرد کا صحبت کرنا پہلے مرد سے نکاح کو حلال کردیتا ہے اس لیے اس کو حلالہ کہا جاتاہے۔  فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔ (القرآن، سورہ بقرہ آیت 230) مزید تفصیل کے لئے اس لنک پر کلک کریں : https://www.jahan-e-urdu.com/halala-kia-hai/

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1226/42-557

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق نامہ پر دستخط کرنا طلاق دینے کا اقرار ہے۔ لہذا اگر شوہر طلاق نامہ سمجھ کر یا پڑھ کر اس پر دستخط کرے گاتو پھر اس دستخط سے  جتنی طلاق لکھی ہے وہ طلاق واقع ہوجائے گی۔

 ولو أقر بالطلاق كاذباً أو هازلاً وقع قضاءً لا ديانةً‘‘. )فتاوی شامی 3 / 236، قبیل مطلب فی المسائل التی تصح مع الاکراہ)

طلقت أي قضاء وهو موافق لما مر من أنه إذا أقر بالطلاق كاذبا وقع قضاء لا ديانة (البحرالرائق و منحۃ الخالق 3/272 باب الفاظ الطلاق)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1480/42-924

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق نامہ پڑھے بغیر دھوکہ سے محض  طلاقنامہ پردستخط کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اگر شوہر کو معلوم تھا کہ اس میں طلاق دینے کی بات لکھی ہے اور پھر اس نے دستخط کیا ہے  تو اس سے طلاق واقع ہوگئی۔

كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة. (شامی، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ 3/246)  وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه (شامی باب صریح الطلاق 3/247) قال للكاتب اكتب إني إذا خرجت من المصر بلا إذنها فهي طالق واحدة فلم تتفق الكتابة وتحقق الشرط وقع وأصله أن الأمر بكتابة الإقرار إقرار كتب أم لا اهـ. (البحر، باب الفاظ الطلاق 3/272)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1479/42-926

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرائط نامہ پڑھے بغیر، اس پر محض  دستخط کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی، البتہ اگر اس نے شرائط پڑھے تھے یا اس کو معلوم تھا کہ اس میں طلاق دینے کی بات لکھی ہے اور پھر اس نے دستخط کئے تو اس سےوجود شرط پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ 

كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة. (شامی، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ 3/246)  وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه (شامی باب صریح الطلاق 3/247) قال للكاتب اكتب إني إذا خرجت من المصر بلا إذنها فهي طالق واحدة فلم تتفق الكتابة وتحقق الشرط وقع وأصله أن الأمر بكتابة الإقرار إقرار كتب أم لا اهـ. (البحر، باب الفاظ الطلاق 3/272)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1478/42-923

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تحریر پڑھنے کے بعد صحیح نشان پر کلک کرنا اس تحریر سے اتفاق کی دلیل ہے اور اس نشان پر کلک کرنا  زبان سے لفظ ہاں  کہنے کے مترادف ہے۔  اس لئے صحیح کے نشان والا بٹن دبانے سے تحریر شدہ تینوں طلاقیں شرعا واقع ہوگئیں۔  لہذا  میاں بیوی دونوں کا نکاح ختم ہوچکا ہے، اب نہ دورانِ عدت رجعت  جائز ہے، اور نہ ہی تجدیدِ نکاح کی ،اور عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے ۔

كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة. (شامی، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ 3/246)  وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه (شامی باب صریح الطلاق 3/247) قال للكاتب اكتب إني إذا خرجت من المصر بلا إذنها فهي طالق واحدة فلم تتفق الكتابة وتحقق الشرط وقع وأصله أن الأمر بكتابة الإقرار إقرار كتب أم لا اهـ. (البحر، باب الفاظ الطلاق 3/272)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1481/42-948

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محض طلاق کے وہم سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ غیراختیاری نیت کا بھی اعتبار نہیں ہے۔  وساوس کو زیادہ جگہ نہ دیں، ذہن کو دوسری چیزوں کی جانب منتقل کریں، اور "لاحول ولاقوۃ الا باللہ " کثرت سے پڑھیں۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "ان اللہ تجاوزعن امتی ماوسوست بہ صدورہامالم تعمل بہ اوتتکلم متفق علیہ". قال الملاعلی قاری:  "الخواطران کانت تدعوالی الرذائل فہی وسوسۃ ۔۔۔۔ماوسوست بہ صدورہاای ماخطر فی قلوبہم من الخواطرالردیئۃ ۔۔۔مالم تعمل بہ ای مادام لم یتعلق بہ العمل ان کان فعلیا،اوتتکلم بہ ای مالم یتکلم بہ ان کان قولیا". (مرقاۃ المفاتیح: 1/238)
"ورکنہ(الطلاق ) لفظ مخصوص وفی الشامیۃ ھوماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح اوکنایۃ ۔۔۔وارادالفظ ولوحکمالیدخل الکتابۃ المستبینۃ واشارۃ الاخرس الخ ۔۔واراد بہاالفظ اومایقوم مقامہ من الکتابۃ المستبینۃ اوالاشارۃ المفہومۃ ۔۔۔لان رکن الطلاق الفظ اومایقوم مقامہ".(شامی 3/247)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق
Ref. No. 2261/44-2424 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مذکورہ جملہ کہتے وقت بیوی نکاح میں تھی اور اس جملہ سے پہلے طلاق نہیں دی گئی تھی تو اس جملہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اس لئے نکاح تو پہلے ہوچکاہے البتہ یہ شرط باقی رہے گی۔ اور اگر طلاق دیدی اور پھر یہ جملہ کہا کہ 'جب بھی میرا نکاح تم سے ہو تو تم مجھ پر طلاق ثلاثہ سے طلاق ہو' تو جب بھی اس سے نکاح کرے گا، اس پر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔ تاہم اس شرط سے بچنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ کوئی فضولی بن کر نکاح کرادے اور یہ شخص اس نکاح کو بالفعل قبول کرے یعنی زبان سے کچھ بولے بغیر مہر کے پیسے عورت کے پاس بھیج دے تو اس طرح نکاح درست ہوجائے گا اور طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔ كل امرأة تدخل في نكاحي) أو تصير حلالًا لي (فكذا فأجار نكاح فضولي بالفعل لايحنث) بخلاف كل عبد يدخل في ملكي فهو حرّ فأجازه بالفعل حنث اتفاقًا؛ لكثرة أسباب الملك، عمادية.۔ ۔ قوله: (لايحنث) هذا أحد قولين قاله الفقيه أبو جعفر و نجم الدين النسفي، و الثاني أنه يحنث، و به قال شمس الأئمة و الإمام البزدوي و السيد أبو القاسم، و عليه مشى الشارح قبيل فصل المشيئة، لكن رجح المصنف في فتاواه الأول، و وجهه أن دخولها في نكاحه لايكون إلا بالتزويج فيكون ذكر الحكم ذكر سببه المختص به فيصير في التقدير كأنه قال: إن تزوجتها، و بتزويج الفضولي لايصير متزوجًا كما في فتاوى العلامة قاسم، قلت: قد يقال: إن له سببين: التزوج بنفسه و التزويج بلفظ الفضولي، و الثاني غير الأول بدليل أنه لايحنث به في حلفه لايتزوج، تأمل، قوله: (لكثرة أسباب الملك) فإنه يكون بالبيع والإرث والهبة والوصية وغيرها بخلاف النكاح كما علمت فلا فرق بين ذكره وعدمه." ((الدر المختار مع شرحه ردالمحتار 3/ 846، کتاب الأیمان،باب الیمین فی الضرب والقتل وغیر ذلک،مطلب قال كل امرأة تدخل في نكاحي فكذا، ط:سعید) "(قوله: و كذا كل امرأة) أي إذا قال: كل امرأة أتزوجها طالق، والحيلة فيه ما في البحر من أنه يزوجه فضولي ويجيز بالفعل كسوق الواجب إليها." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 345) واللہ اعلم بالصواب کتبہ:محمد اسعد دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند