Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 1571/43-1099
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس لڑکے سے آپ کا نکاح ہوا ہے اگر وہ اپنے ساتھ آپ کو رکھنے کے لئے تیار نہیں ہے تو اس سے کسی طرح طلاق حاصل کریں، اگرخلع کا معاملہ کرتے ہوئے کچھ پیسے دینے پڑیں تو دے کر اس سے طلاق حاصل کریں، اس سے طلاق لئے بغیر آپ کا نکاح دوسری جگہ نہیں ہوسکتاہے۔ اور اگرکسی بھی طرح شوہر طلاق نہیں دیتا ہے تو کسی قریبی شرعی دارالقضاء سے رجوع کریں۔ قاضی صاحب نوٹس جاری کریں گے، اور شوہر کی سرکشی متحقق ہوجانے پر آپ کا نکاح ان سے فسخ کردیں گے۔ اس کے بعد آپ کسی دوسرے لڑکے سے نکاح کرسکیں گی۔البتہ عدالت سے بھی طلاق کی قانونی کارروائی مکمل کرالیں تاکہ بعد میں وہ لڑکا آپ کو پریشان نہ کرسکے۔(ماخوذ از حیلۃ ناجزۃ، ص؛73،74/ ط؛ دارالاشاعت)
قوله تعالى: ولا تمسكوهن ضرارا لتعتدوا (البقرة231) فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان الی قولہ: فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ يُقِيْمَا حُدُوْدَ اﷲِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيْمَا افْتَدَتْ بِه. (البقرۃ 229)
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول".بدائع 3/145)
لا يجوز الخلع إلا إذا كرهته المرأة وخافت أن لا توفيه حقه أو لا يوفيها حقها ومنعوا إذا كرهها الزوج لما تلونا وجوابه ما ذكرناه، وذكر القدوري في مختصره إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به أخرجه مخرج العادة أو الأولوية لا مخرج الشرط وأراد بالخوف العلم والتيقن به (تبیین الحقائق باب الخلع 2/268)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 39/1053
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر اول کے طلاق دئے بغیربیوی کا دوسری جگہ نکاح درست نہیں ہوا، دوسرے شوہر کے ساتھ حرام کاری ہوئی، عورت پر توبہ لازم ہے۔ مرد کا دوسری جگہ نکاح کرنا درست ہوا۔ بہر حال ان دونوں کا نکاح اب بھی باقی ہے۔ عورت عدت گزارنے کے بعد پہلے شوہر کے پاس بغیر تجدید نکاح کے واپس آسکتی ہے۔ البتہ اگر تجدید نکاح کرلیں تو بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2472/45-3745
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ساس کی نگاہ داماد کی شرمگاہ پر پڑی ہے یا نہیں، یہ امر مشکوک ہے، اور اگر نگاہ پڑی تو بھی بغیر شہوت کے پڑی ہوگی، اس لئے محض شک کی بناء پر حرمت ثابت نہیں ہوگی، اور زید کی بیوی بدستور بیوی رہےگی، اور اس سے زید کےنکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
"وناظرة إلى ذكره .... والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى، وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته.
(قوله: وناظرة) أي بشهوة ... (قوله: وفي امرأة ونحو شيخ إلخ) قال في الفتح: ثم هذا الحد في حق الشاب، أما الشيخ والعنين فحدهما تحرك قلبه أو زيادته إن كان متحركاً لا مجرد ميلان النفس، فإنه يوجد فيمن لا شهوة له أصلاً كالشيخ الفاني، ثم قال: ولم يحدوا الحد المحرم منها أي من المرأة، وأقله تحرك القلب على وجه يشوش الخاطر قال ط: ولم أر حكم الخنثى المشكل في الشهوة، ومقتضى معاملته بالأضر أن يجري عليه حكم المرأة". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 33):
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2475/45-3763
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کنایہ کے طور پر استعمال شدہ الفاظ سے اگر طلاق کی نیت کی جائے تو طلاق واقع ہوجاتی ہے لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ الفاظ ایسے ہوں جن میں طلاق کے معنی کا احتمال ہو، لہذا اگر بولنے والے نے ایسے الفاظ بولے جن میں طلاق اور سب و شتم کا کوئی معنی نہ ہو تو محض نیت کرلینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں 'تین بات' سے تین طلاقیں مراد نہیں لی جاسکتی ہیں، اس لئے محض نیت کرنے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا ورداً ولا يصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح. (اللباب في شرح الكتاب 3 / 44، کتاب الطلاق، ط؛ المکتبۃ العلمیہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1224/42-538
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں شرعا ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی۔ شوہر عدت کے اندر رجعت کرسکتا ہے۔
والمعلق بالشرط ينزل عند وجود الشرط كالمنجز (فتح القدیر للکمال ابن الھمام/ باب جنایۃ المملوک 10/345)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2312/44-3471
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اس لئے کہ شرط نہیں پائی گئی، کیونکہ لڑکے کو ماں نے گھر میں داخل ہونے نہیں دیا، بلکہ باپ نے داخل کیا ہے اور نہ ہی ماں نے کھانا دیا ہے، لیکن اگر شرط پائی گئی تو تینوں طلاقیں شرعا فقہ حنفی کے مطابق واقع ہوجائیں گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 40/915
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوسکتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 41/847
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب کوئی مرد اپنی بیوی کو تین طلاق دیدیتا ہے تو وہ عورت اس مرد کے لئے ہمیشہ کے لئےحرام ہو جاتی ہے۔ اب اس کا نکاح کسی دوسرے مرد ہی سے ہوسکتا ہے۔ البتہ اگرکسی دوسرے مرد سے نکاح ہوا، اس نے صحبت کی، لیکن کسی وجہ سے طلاق ہوگئی یا دوسرے شوہر کا انتقال ہوگیا، تو اب یہ عورت عدت گزارنے کے بعد آزاد ہوجاتی ہے، اب وہ تیسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے اور چاہے تو پہلے شوہر (جس نے تین طلاق دی تھی اور اس سے نکاح حرام تھا) سے نکاح کر سکتی ہے۔ چونکہ اس ورانیہ میں دوسرے مرد کا صحبت کرنا پہلے مرد سے نکاح کو حلال کردیتا ہے اس لیے اس کو حلالہ کہا جاتاہے۔ فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ۔ (القرآن، سورہ بقرہ آیت 230) مزید تفصیل کے لئے اس لنک پر کلک کریں : https://www.jahan-e-urdu.com/halala-kia-hai/
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1226/42-557
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق نامہ پر دستخط کرنا طلاق دینے کا اقرار ہے۔ لہذا اگر شوہر طلاق نامہ سمجھ کر یا پڑھ کر اس پر دستخط کرے گاتو پھر اس دستخط سے جتنی طلاق لکھی ہے وہ طلاق واقع ہوجائے گی۔
ولو أقر بالطلاق كاذباً أو هازلاً وقع قضاءً لا ديانةً‘‘. )فتاوی شامی 3 / 236، قبیل مطلب فی المسائل التی تصح مع الاکراہ)
طلقت أي قضاء وهو موافق لما مر من أنه إذا أقر بالطلاق كاذبا وقع قضاء لا ديانة (البحرالرائق و منحۃ الخالق 3/272 باب الفاظ الطلاق)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1480/42-924
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق نامہ پڑھے بغیر دھوکہ سے محض طلاقنامہ پردستخط کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اگر شوہر کو معلوم تھا کہ اس میں طلاق دینے کی بات لکھی ہے اور پھر اس نے دستخط کیا ہے تو اس سے طلاق واقع ہوگئی۔
كتب الطلاق، وإن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى، وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا. ولو كتب على وجه الرسالة والخطاب، كأن يكتب يا فلانة: إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة. (شامی، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ 3/246) وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه (شامی باب صریح الطلاق 3/247) قال للكاتب اكتب إني إذا خرجت من المصر بلا إذنها فهي طالق واحدة فلم تتفق الكتابة وتحقق الشرط وقع وأصله أن الأمر بكتابة الإقرار إقرار كتب أم لا اهـ. (البحر، باب الفاظ الطلاق 3/272)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند