طلاق و تفریق

Ref. No. 1669/43-1276

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خلوت صحیحہ ، صحبت کے حکم میں ہے، خلوت صحیحہ کے بعد طلاق ہوجانے کی صورت میں عورت پر عدت  لازم ہوگی گرچہ صحبت نہ ہوئی ہو، اورشوہر پر  پورا مہر بھی لازم ہوگا۔  اور یہ طلاق طلاق بائن کے حکم میں ہوگی۔

(سئل) في امرأة طلقها زوجها بعدما خلا بها خلوة صحيحة ولم يطأها فهل يلزمها العدة؟ (الجواب) : نعم وتجب العدة في الكل أي كل أنواع الخلوة ولو فاسدة احتياطا وتمامه في شرح التنوير للعلائي من المهر.(العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ، باب العدۃ 1/56)

رجل تزوج امرأة نكاحا جائزا فطلقها بعد الدخول أو بعد الخلوة الصحيحة كان عليها العدة كذا في فتاوى قاضي خان. (الھندیۃ، الباب الثالث عشر فی  العدۃ 1/526) (وفي الطلاق بعد الخلوة قبل الدخول بها) يكتب هذا ما شهد الشهود المسمون آخر هذا الكتاب أن فلانا طلق امرأته بعدما خلا بها خلوة صحيحة خالية عن الموانع الشرعية والطبيعية كلها تطليقة واحدة بائنة نافذة جائزة فحرمت عليه بهذه التطليقة ووجب لها عليه كمال ما سمي لها من الصداق، وهو كذا ونفقة عدتها وهي كذا ويتم الكتاب. (الھندیۃ، الفصل الثالث فی الطلاق 6/260)

والثاني: الدخول أو ما هو في معناه، وهو الخلوة الصحيحة في النكاح الصحيح لعموم قوله تعالى {يا أيها الذين آمنوا إذا نكحتم المؤمنات ثم طلقتموهن من قبل أن تمسوهن فما لكم عليهن من عدة تعتدونها} [الأحزاب: 49] من غير تخصيص إلا أن الخلوة الصحيحة في النكاح الصحيح ألحقت بالدخول في حق وجوب العدة لما ذكرنا أنها ألحقت به في حق تأكيد كل المهر ففي وجوب العدة أولى احتياطا، وتجب هذه العدة على الحرة، والأمة. (بدائع الصنائع، فصل فی عدۃ الحبل 3/192)

والحاصل أنه إذا خلا بها خلوة صحيحة ثم طلقها طلقة واحدة فلا شبهة في وقوعها، فإذا طلقها في العدة طلقة أخرى فمقتضى كونها مطلقة قبل الدخول أن لا تقع عليها الثانية، لكن لما اختلفت الأحكام في الخلوة في أنها تارة تكون كالوطء وتارة لا تكون جعلناها كالوطء في هذا فقلنا بوقوع الثانية احتياطا لوجودها في العدة، والمطلقة قبل الدخول لا يلحقها طلاق آخر إذا لم تكن معتدة بخلاف هذه. والظاهر أن وجه كون الطلاق الثاني بائنا هو الاحتياط أيضا، ولم يتعرضوا للطلاق الأول. وأفاد الرحمتي أنه بائن أيضا لأن طلاق قبل الدخول غير موجب للعدة لأن العدة إنما وجبت لجعلنا الخلوة كالوطء احتياطا، فإن الظاهر وجود الوطء في الخلوة الصحيحة ولأن الرجعة حق الزوج وإقراره بأنه طلق قبل الوطء ينفذ عليه فيقع بائنا، وإذا كان الأول لا تعقبه الرجعة يلزم كون الثاني مثله. اهـ. ويشير إلى هذا قول الشارح طلاق بائن آخر فإنه يفيد أن الأول بائن أيضا، ويدل عليه ما يأتي قريبا من أنه لا رجعة بعده، وسيأتي التصريح به في باب الرجعة، وقد علمت مما قررناه أن المذكور في الذخيرة هو الطلاق الثاني دون الأول فافهم. ثم ظاهر إطلاقهم وقوع البائن أولا وثانيا وإن كان بصريح الطلاق، وطلاق الموطوءة ليس كذلك فيخالف الخلوة الوطء في ذلك. (شامی، مطلب فی حط المھر والابراء منہ 3/119)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1763/43-1492

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لفظ "طلاق دے دوں گا" میں طلاق دینے کی دھمکی ہے اور طلاق دینے کا وعدہ ہے، اس لئے اس جملہ سے طلاق واقع نہیں ہوئی، لیکن اس کے علاوہ "طلاق دی"  یا"طلاق دیتاہوں" یا بیوی کی طرف نسبت کرکے "طلاق طلاق " کہا تو ان تمام صورتوں میں طلاق واقع ہوگئی۔ اسی طرح واٹسآپ پر طلاق لکھ کر بیوی کو میسیج کرنے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ ایک اور دو طلاق کے بعد شوہر رجوع کرسکتاہے اور بیوی کو اپنے ساتھ رکھ سکتاہے، لیکن تین طلاق کے بعد بیوی مکمل طور پر حرام ہوجاتی ہے۔  اس لئے چونکہ زید نے  تین بار سے زیادہ مرتبہ طلاق دی یا طلاق دیتاہوں کہہ چکا ہے یا میسیج کرچکا ہے  اس لئے اس کی بیوی پر تین طلاقیں مغلظہ واقع ہوگئیں ،  اگر دونوں ایک ساتھ رہتے ہیں تو حرام کاری میں مبتلا ہیں۔ ان میں علیحدگی لازم ہے۔

"قالت لزوجها من باتو نميباشم فقال الزوج مباش فقالت طلاق بدست تو است مرا طلاق كن فقال الزوج طلاق ميكنم طلاق ميكنم وكرر ثلاثا طلقت ثلاثا بخلاف قوله كنم لأنه استقبال فلم يكن تحقيقا بالتشكيك." (الھندیۃ: كتاب الطلاق، الباب الثانى فى ايقاع الطلاق، الفصل الثانى فى الطلاق بالالفاظ الفارسية، ج:1، ص:384، ط:مكتبه رشيديه)

"وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض." (الھدایۃ، كتاب الطلاق، باب الرجعة، ج:2، ص:373، ط:مكتبه رشيديه)

﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229]  ﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1095 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  زید نے اپنی بیوی کو جس دن طلاق دی اسی دن سے عدت بھی شروع ہوگئی۔ طلاق سے پہلے الگ رہنے کا اعتبار نہیں۔ عدت بہرحال طلاق کے بعد ہی سے شروع ہوتی ہے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں مطلقہ عورت کی عدت ۲۵ جنوری سے ہی شروع ہوئی جوتین  ماہواری کے بعد پوری ہوگی۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1034/41-199

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے۔ بچہ کی ولادت سے پہلے یعنی عدت کے اندر  رجوع کرنے گنجائش ہے۔

 واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن (القرآن: سورہ طلاق/ آیت نمبر٤)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 934/41-76

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  عدت کے زمانے میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے، (درمختار) صورت مسئولہ میں ایک طلاق بائن کے بعد عدت کے  زمانہ میں بیوی سے کہا کہ : میں نے تجھے تین طلاق دی' تو اب اس کی بیوی پر فقہ حنفی کے مطابق تین طلاق مغلظہ واقع ہوگئی ہیں۔ دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں رہی۔ فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرۃ (الآیۃ)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2694/45-4157

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف لفظ طلا‘ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، کیونکہ طلاق کا مادہ ط ل ق کا پورا تلفظ ضروری ہے۔ اگر دو الفاظ ادا کئے تو طلاق نہ ہوگی، ترخیم کا قاعدہ یہاں جاری نہ ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2288/44-3442

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرکیہ کام کرنے یا شرکیہ کلمہ کہنے سے یقینا نکاح ٹوٹ جاتاہے۔ اور آدمی جتنی بار اور جب جب بھی شرک کرے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا، اور اس پر تجدید ایمان اور تجدید نکاح لازم ہوگا۔ البتہ یہ نکاح ٹوٹنا طلاق کے حکم میں نہیں ہوگا بلکہ فسخ نکاح کے حکم میں ہوگا، اس لئے تین بار یا پانچ بار تجدید نکاح کرنے سے اس کی بیوی پر تین طلاق واقع نہیں ہوگی ۔

وارتداد أحدہما أي الزوجین فسخ فلا ینقص عدداً عاجل بلا قضاء الخ (درمختار مع الشامی: ۴/۳۶۶، ط:زکریا، والحیة الناجزة: ۲۰۸ تا ۲۱۲ جدید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 38/ 926

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: طلاق بائن واقع ہوگئی ۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1371/42-783

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  شوہر پر لازم ہے کہ اپنی تمام بیویوں کے درمیان مساوات اور برابری کرے۔ رات گزارنے اور نان و نفقہ میں کوئی کوتاہی اور ناانصافی نہ کرے۔ اس سلسلہ میں اس سے قیامت میں پوچھ ہوگی۔ تاہم اگر آپ کو زیادہ پریشانی ہو تو خلع کا مطالبہ کرسکتی ہیں۔ اور اگر صبر کریں تو زیادہ بہتر بات ہے۔

واذا کان للرجل امراتان حرتان فعلیہ ان یعدل بینھما فی القسم بکرین کانتا اور ثیبین او احداھما بکرا والاخری ثیبا لقولہ علیہ السلام  من کانت لہ امراتان ومال الی احداھما فی القسم جاء یوم القیامۃ وشقہ مائل (فتح القدیر ، باب القسم 3/433) فدل ان العدل بینھن فی القسم والنفقۃ واجب والیہ اشار فی آخرالآیۃ بقولہ ذلک "ادنی ان لا تعولوا" ای تجوروا، والجور حرام فکان العدل واجبا ضرورۃ۔ (بدائع، فصل وجوب العدل بین النساء فی حقوقھن 2/332)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال واضح نہیں ہے، اس لئے دوبارہ صحیح صورت حال لکھ کر مسئلہ معلوم کریں۔

    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند