Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 2955/45-4678
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے اپنا گھر بسانے کی کوشش کرے ، اس لیے کہ بغیر شرعی عذر کے عورت کا خلع کا مطالبہ کرنا گناہ ہے، اور اس پر حدیث شریف میں سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگرخاندان کے بزرگوں اور بڑوں کے سامنے یہ مسائل رکھے جائیں جوشوہر کو سمجھائیں اورنباہ کی شکل نکل آئے تو بہتر ہے، لیکن اگر کسی صورت گھر بسانا ممکن نہ ہو تو شوہر سے کسی طرح عورت طلاق لینے کی کوشش کرے، اگر شوہر طلاق دینے پر رضامند نہ ہو تو پھر اس کو کچھ مال وغیرہ دے کر یا مہر نہ لیا ہو تو اس کے عوض شوہر کی رضامندی سے خلع لے سکتی ہے۔ جب اس کے حقوق تلف ہورہے ہوں اور نباہ کی شکل نہ بن پائے اور شوہر کی زیادتی کی وجہ سے عورت خلع لینے پر مجبور ہو تو پھروہ گہنگار نہیں ہوگی۔ لیکن یہ خیال رہے کہ شوہر کی رضامندی کے بغیر کورٹ کا یک طرفہ خلع نامہ جاری کرنا شرعا معتبر نہیں۔
حدثنا سليمان بن حرب ،ثنا حماد ، عن أيوب ، عن أبى قلابة ، عن أبى أسماء ، عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أيما امرأة سألت زوجها طلاقاً في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة". (سنن أبي داود (2/ 234)
"اذا تشاق الزوجان و خافا ان لايقيما حدود الله فلا بأس بان تفتدي نفسها منه بمال يخلعهابه، فاذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة، ولزمها المال". (الھندیۃ، كتاب الطلاق ، الباب الثامن في الخلع، 1/ 519 ط:قديمي)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
طلاق و تفریق
طلاق و تفریق
طلاق و تفریق
طلاق و تفریق
طلاق و تفریق
طلاق و تفریق
طلاق و تفریق
Ref. No. 1237/42-554
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال اگر پہلے کوئی طلاق نہیں دی تھی، تو اس خلع سے ایک طلا ق بائن واقع ہوگئی۔ دوبارہ نکاح کرکے دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ البتہ شوہر آئندہ دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔
وحکمہ ان الواقع بہ ای بالخلع وبلفظ البیع والمباراۃ ولوبلامال وبالطلاق الصریح علی مال طلاق بائن (ردالمحتار باب الخلع ۳/۴۴۴)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1238/42-553
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب شوہر نے طلاق کو کسی شرط پر معلق کردیا تو اب رجوع کی کوئی شکل نہیں ۔ جب بھی شرط پائی جائے گی، شرعا طلاق واقع ہوگی۔ اب مذکورہ شرط اس وقت پائی گئی جب آپ طلاق کا محل نہیں تھیں اس لئے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لیکن جو دیگر شرطیں شوہر نے لگائی تھیں اور آپ نے ان کو پورا نہیں کیا اور اب جبکہ نکاح ہوگیا تب پورا کیا جیسے کہ بہن سے ملاقات کرنا تو اب اس سے طلاق واقع ہوجائے گی۔
وان قال لھا ان کلمت اباعمرو وابایوسف فانت طالق ثلاثا ثم طلقھا واحدۃ فبانت وانقضت عدتھا فکلمت ابا عمرو ثم تزوجھا فکلمت ابا یوسف فھی طالق ثلثا مع الواحدۃ الاولی (ہدایہ ۲/۳۸۸، دارالکتاب دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند