تجارت و ملازمت

Ref. No. 1856/43-1761

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی اصطلاح میں قبضہ کا مفہوم یہ ہے کہ مبیع اور مشتری کے مابین ایسے طور پر تخلیہ کردیا جائے کہ مشتری کو مبیع پر قبضہ کرنے میں بائع کی طرف سے کوئی مانع اوررکاوٹ نہ رہے، قبضہ کے لئے صرف زبانی نفع و نقصان کا ذمہ دار ہوجانا کافی نہیں ہے۔ مختلف چیزوں کا قبضہ ان کے حسب حال ہوتا ہے۔ قبضہ کی قدرت اور موقعہ دیدینا بھی قبضہ ہی کےقائم مقام ہے ۔

انٹرنیٹ کے ذریعہ ہونے والی تجارت میں قبضہ کا مطلب یہ ہے کہ مبیع کی تمام اوصاف ،مقدار وغیرہ بیان کردی جائے اور پھر مبیع کو آپ کے کہنے پر آپ کے نمائندہ  یا کسی ٹرانسپورٹ کمپنی کی تحویل میں دیدیا  جائے۔ تو اب جبکہ اس سامان کا ضمان  اور فائدہ آپ کی طرف منتقل ہوگیا تو آپ کا قبضہ تام ہوگیا۔ لیکن اگر کسی نے مذکورہ طریقہ پر قبضہ سے  قبل ہی کوئی سامان بیچ دیا تو یہ بیع فاسد ہوگی۔

التسلیم والقبض عندنا هو التخلیة والتخلی وهو أن یخلي البائع بین المبیع والمشتري برفع الحائل بینهما علی وجه یتمکن المشتری من التصرف فیه فیجعل البائع مسلماً للمبیع والمشتری قابضاً له وکذا تسلیم الثمن من المشتري إلی البائع. (بدائع الصنائع 5/244) قال في الدر ثم التسلیم یکون بالتخلیة علی وجهٍ یتمکن من القبض بلا مانع ولا حائل (شامي مع الدر، ج2، ص568) وَفِي الاِصْطِلاَحِ: هُوَ حِيَازَةُ الشَّيْءِ وَالتَّمَكُّنُ مِنْهُ، سَوَاءٌ أَكَانَ مِمَّا يُمْكِنُ تَنَاوُلُهُ بِالْيَدِ أَمْ لَمْ يُمْكِنْ (الموسوعة الفقهية الكويتية) معنی القبض هو التمکین والتخلي وارتفاع الموانع عرفاً وعادۃ حقیقة. (بدائع الصنائع 5/244) والتمکن من القبض کالقبض (شامي، ج2، ص568)  أنه من شروط التخلیة التمکن من القبض بلا حائل ولا مانع (شامی 4/516)

ولا یشترط القبض بالبراجم؛ لأن معنی القبض ہو التمکن والتخلّي وارتفاع الموانع عرفًا وعادةً حقیقةً (بدائع: ۴/۳۴۲، ط: زکریا) وفي رد المحتار: اشتری بقرة مریضة وخلاہا في منزل البائع قائلاً إن ہلکت فمني، وماتت فمن البائع لعدم القبض (درمختار مع الشامي: ۷/۸۹، زکریا) وفي الہندیة: إذا قال المشتری للبائع ابعث إلی ابنی واستأجر البائع رجلا یحملہ إلی ابنہ فہذا لیس بقبض والأجر علی البائع إلا أن یقول استأجر علی من یحملہ فقبض الأجیر یکون قبض المشتری إن صدقہ أنہ استأجر ودفع إلیہ وإن أنکر استئجارہ والدفع إلیہ فالقول قولہ کذا فی التتارخانیة․ (الہندیة: ۳/۱۹، ط: زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2186/44-2303

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ کے سوال کو بغور پڑھا، سوال غیرواضح اور مبہم ہے، البتہ سوال پڑھ کر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ایفیلیٹ مارکیٹنگ درحقیقت آن لائن کورس میں لوگوں کو شامل کرانے پر کمیشن لینے کی ایک شکل ہے، اس کورس کو خرید کر آگے فروخت کرنے سے تعبیر کرنا اور اس پر کمیشن لینا بھی محل نظر ہے، اس لئے کہ آپ کی تعبیر میں کورس خریدنے والا جب آگے کورس فروخت کرتاہے تو کمپنی اس کو کمیشن بھی دیتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ کورس خریدنے والا کورس کا مالک ہی نہیں ہوتاہے بلکہ ملکیت کمپنی کی ہی ہوتی ہے، اس لئے کہ نیا گاہک کمپنی کو براہ راست کورس کی قیمت ادا کرتاہے ، لہذا صورت مسئولہ میں اس طرح بیچنا اور بیچنے پر جوکمیشن ملتاہے وہ کمیشن لینا درست نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کچھ تفصیلات ہوں تو تحریری شکل میں ارسال کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1958/44-1871

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(1) جعلی دستاویز بناکر نوکری حاصل کرنا سراسر دھوکہ اور فریب ہے، اسلام میں اس کی قطعا اجازت نہیں ہے۔ (2) البتہ اگر جعلی دستاویز کی بنیاد پر ملازمت مِل جائے اور کام کرنا شروع کردے تو اجرت اور تنخواہ لینا جائز ہوگا، اور وہ آمدنی  جوکام کے عوض ہے  وہ حرام نہیں ہوگی۔ (3) سرکار نے جس ملازمت پر جس کو رکھا ہے، یہ اسی کی ذمہ داری ہے، اپنی جگہ کسی اور کو مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ:« مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلاَحَ فَلَيْسَ مِنَّا،وَمَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا». (صحيح مسلم:حدیث رقم:294) وقال ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ:وفي حديث ابن مسعودٍ عنِ النَّبيِّ صلى الله عليه وسلم : ”مَنْ غَشَّنا فليس منَّا ، والمكرُ والخِداعُ في النار“. وقد ذكرنا فيما تقدَّم حديث أبي بكر الصدِّيق المرفوع : ”ملعونٌ من ضارَّ مسلماً أو مكرَ به “.خرَّجه الترمذيُّ. (جامع العلوم والحكم :35/ 9) وفي المحيط ومهر البغي في الحديث هو أن يؤاجر أمته على الزنا وما أخذه من المهر فهو حرام عندهما ، وعند الإمام إن أخذه بغير عقد بأن زنى بأمته ، ثم أعطاها شيئا فهو حرام ؛ لأنه أخذه بغير حق وإن استأجرها ليزني بها ، ثم أعطاها مهرها أو ما شرط لها لا بأس بأخذه ؛ لأنه في إجارة فاسدة فيطيب له وإن كان السبب حراما . ( البحر الرائق:8/33،مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ)

قال العلامة ابن نجيم رحمه الله تعالى:وأما ركنها فهو الإيجاب والقبول والارتباط بينهما، وأما شرط جوازها فثلاثة أشياء: أجر معلوم، وعين معلوم، وبدل معلوم، ومحاسنها دفع الحاجة بقليل المنفعة، وأما حكمها فوقوع الملك في البدلين ساعة فساعة. )البحر الرائق:8/3

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1056 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رشوت لینا اور دینا دونوں حرام ہے، تاہم اگر ملازمت کا کام جائز ہے تو اس ملازمت کی تنخواہ  جو کہ اس کی محنت کا معاوضہ ہے وہ  درست ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 41/850

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکورہ صورت پر عمل کرنے کی اجازت ہے۔ اس میں عدم جواز کی بظاہر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی ۔

واذا عدم الوصفان والمعنی المضموم الیہ حل التفاضل والنساء لعدم العلۃ (قدوری باب الربوا ص95)

و لو باع الفلوس بالفلوس ثم افترقا قبل التقابض، بطل البيعولو قبض أحدهما ولم يقبض الآخر، أو تقابضا ثم استحق ما في يدي أحدهما بعد الافتراق، فالعقد صحيح (الھندیہ/ البحر ج6ص219)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2326/45-4214

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیر مسلم کی کمپنی میں کام کرنے والے مسلمانوں کو جو اجرت ملتی ہے وہ ان  کے لئے حلال ہے ہاں اگر معلوم ہو کہ کمپنی ناجائز امور پر مشتمل ہے مثلاً شراب کی کمپنی ہے تو مسلمان کے لیے ایسی کمپنی میں کام کرنا اور اجرت حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ مسلمان کے لیے شراب کے کسی بھی کام کو کرنا جائز نہیں ہے، لیکن کمپنی کے شیرز خریدتے وقت بھی اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کمپنی کا کاروبار ایک تہائی سے زیادہ حرام کام پر مشتمل نہ ہو اگر ایک تہائی سے زیادہ حرام کاروبار ہے تو پھر اس کے  شیرز خریدنا جائز نہیں ہے، اب اگر غیر مسلم کمپنی میں کوئی جائز کام کریں تو آپ کے لئے اجرت جائز ہے تنخواہ میں کوئی بھی پیسہ آپ کو دیتا ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیر کو اس کا بدلہ دنیامیں ہی  مل جاتا ہے ، آخرت میں اس کا کوئی فائدہ اس کو حاصل نہیں ہوگا، البتہ مسلمان کو اس بددیانتی اور ظلم کی وجہ سے سزا بھگتنی پڑسکتی ہے۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1228/42-546

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس کام کی گنجائش ہے، اور کمائی حلال ہے۔

جاز إجارة بيت بسواد الكوفة ليتخذ بيت نار أو كنيسة أو بيعة أو يباع فيه الخمر وقالا لا ينبغي ذلك لأنه إعانة على المعصية وبه قالت الثلاثة (رد المحتار، فصل فی البیع 6/392)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2696/45-4158

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ معاملہ (گروی رکھنا) درست ہے، کسی سے کوئی چیز گروی رکھ کر قرض لینا جائز ہے، دوکان اور مکان کو گروی رکھنا بھی درست ہے، تاہم مکان یا دوکان سے کسی طرح فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2651/45-4008

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اعمل برائک کہنے کی صورت میں مضارب کے لئے دوسرے کے ساتھ مضاربت  اور شرکت کا معاملہ کرنا جائز ہوگا اگر مضارب کو اس میں نفع کی امید ہو۔ رب المال نے مضارب کو بااختیار بنایاہے تاکہ نفع زیادہ حاصل ہو، اور نفع حاصل کرنے کا ایک طریقہ مضاربت پر دینے یا شرکت پر دینے کا بھی ہے۔ اس لئے مضارب رب المال کے مال کو اس کی اجازت سے دوسرے کو مضاربت پر دے سکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند