تجارت و ملازمت

Ref. No. 917/42-483

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سوال میں مذکور وضاحت کے مطابق تجارت کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس کا خیال رکھا جائے کہ ایسی کوئی چیز نہ ہو جو نزاع کا باعث بنے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1647/43-1229

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے ان کے ساتھ کاروبار میں اس طرح پیسے لگائے کہ خریدنے اور بیچنے کی ذمہ  داری آپ نے ان کو دیدی ، وہ اپنی صوابدید پر خریدتے اور بیچتے ہیں، اور آپ کے پیسے کو صحیح جگہ لگاتے ہیں ،  اور پھر فائدے کو برابر تقسیم کرکے آپ کو آپ کا حصہ دیدیتے ہیں، تو اس معاملہ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اور خریدی ہوئی زمین کو جاننا اور دیکھنا وغیرہ کوئی چیز آپ کے لئے ضروری نہیں ہے؛ اس لئے ان کا آپ کی اجازت کے بغیر خریدنا اور بیچنا درست ہے، اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں اس میں کوئی شبہ کی چیز نہیں ہے۔

إلا في صورة الخلط والاختلاط استثناء من صحة البيع بلا إذن الشريك، وحاصله توقف الصحة على إذن الشريك (شامی، کتاب الشرکۃ 4/304) ولكل واحد منهما أن يبيع ما اشتراه، وما اشترى صاحبه مرابحة على ما اشترياه؛ لأن كل واحد منهما وكيل لصاحبه بالشراء والبيع، والوكيل بالبيع يملك البيع مرابحة وهل لأحدهما أن يسافر بالمال من غير رضا صاحبه؟ ذكر الكرخي أنه ليس له ذلك والصحيح من قول أبي يوسف ومحمد أن له ذلك (بدائع، فصل فی حکم الشرکۃ 6/71)

(مَا يَفْعَله الشَّرِيك فِي مَال الشّركَة) وَيجوز للشَّرِيك ان يفعل فِي مَال الشّركَة سِتَّة عشر شَيْئا احدهما ان يَبِيع وَيَشْتَرِي وَالثَّانِي ان  يرْهن ويرتهن وَالثَّالِث ان يُؤجر ويستأجر وَالرَّابِع ان يقبل البيع وَالشِّرَاء وَالْخَامِس ان يُولى انسانا السّلْعَة بِمَا اشْتَرَاهُ وَالسَّادِس ان يُشْرك انسانا فِيمَا اشْترى وَالسَّابِع ان يودع المَال من الشّركَة وَالثَّامِن ان يعير شَيْئا من مَال التِّجَارَة وَالتَّاسِع ان يستبضع مَالا من مَال الشّركَة والعاشر ان يَبِيع بِالنَّقْدِ والنسيئة وَالْحَادِي عشر ان يَبِيع بالاثمان وَالْعرُوض وَالثَّانِي عشر ان يَأْذَن للْعَبد من مَال الشّركَة فِي التِّجَارَة وَالثَّالِث عشر ان يُوكل فِي البيع وَالشِّرَاء وَالرَّابِع عشر ان يَدْعُو احدا الى الطَّعَام وَالْخَامِس عشر ان يهدي الشَّيْء الْيَسِير وَالسَّادِس عشر ان يتَصَدَّق بِشَيْء يسير (النتف فی الفتاوی للسغدی، باب مالایجوز للشریک فعلہ فی مال الشرکۃ 1/537)

المادة (1372) إذا كان رأس مال الشريكين متفاضلا كأن كان رأس مال أحدهما مائة ألف درهم ورأس مال الآخر مائة وخمسين ألف درهم فإذا شرط تقسيم الربح بينهما بالتساوي فيكون بمعنى أنه شرط زيادة حصة في الربح للشريك صاحب رأس المال القليل بالنسبة إلى رأس ماله ويكون ذلك كشرط ربح زائد لأحد الشريكين حال كون رأس مالهما متساويا , فلذلك إذا عمل شرط كليهما أو شرط عمل الشريك صاحب الحصة الزائدة في الربح أي صاحب رأس المال القليل صحت الشركة واعتبر الشرط , وإذا شرط العمل على صاحب الحصة القليلة من الربح أي صاحب رأس المال الكثير فهو غير جائز ويقسم الربح بينهما بنسبة مقدار رأس مالهما. المادة (1373) يجوز لكل واحد من الشريكين أن يبيع مال الشركة نقدا أو نسيئة بما قل أو كثر. (مجلۃ الاحکام العدلیۃ، الفصل الخامس فی شرکۃ الاموال والاعمال 1/264)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1644/43-1224

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معاملہ کرتے وقت جب اینٹ کی صفت وغیرہ بیان کردی گئی،  اور جب اینٹیں تیار ہوگئیں تو چمنی کے مالک نے آپ کے حصہ کی اینٹیں الگ کردیں، تو آپ کی چیز متعین ہوگئی ، اور یہ تعیین ہی قبضہ کے قائم مقا م ہوگی، مبیع کو بیچنے سے پہلے دیکھنا ضروری نہیں ہے۔ پھر چمنے والے نے آپ کا وکیل بن کر اینٹیں بیچ دیں،  اس لئےمذکورہ  معاملہ درست ہے اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں۔  بظاہر اس پورے معاملہ کوئی بھی چیز مفضی الی النزاع بھی نہیں ہے۔

لأن القبض في المجلس لا يشترط إلا في الصرف وهو بيع الأثمان بعضها ببعض أما ما عداه فإنما يشترط فيه التعيين دون التقابض كما يأتي (شامی، مطلب فی الابراء عن الربوا 5/172)

نظر الوكيل بالقبض كنظر الرسول في أنه لا يسقط الخيار، قيد بالوكيل بالقبض؛ لأنه لو وكل رجلا بالرؤية لا تكون رؤيته كرؤية الموكل اتفاقا كذا في الخانية إلخ ما ذكره الشارح ابن ملك، والمسألة في المتون وأطال فيها في البحر فراجعه۔ وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)

قلت: لا يخفى أن الإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة فالبيع في الحقيقة من المشتري، ولذا قال في جامع الفصولين: شراه ولم يقبضه حتى باعه البائع من آخر بأكثر فأجازه المشتري لم يجز؛ لأنه بيع ما لم يقبض. اهـ. فاعتبره بيعا من جانب المشتري قبل قبضه فافهم، وظاهره أنه يبقى على ملك المشتري بالأول، ويأتي تمامه في فصل التصرف في المبيع.(شامی، مطلب فی بیع المرھون 5/111)

وصحة القبض بأحد الأمرين إما بالتخلية كما في المنقول وغيره أو بحقيقة القبض كما في المنقول وجه قول محمد عموم النهي وهو ما روي أنه «- عليه الصلاة والسلام - نهى عما لم يقبض» وهو بعمومه يشمل المنقول والعقار جميعا ولأن بيع المنقول قبل القبض لا يجوز فكذا غير المنقول؛ لأن عدم القبض موجود فيهما جميعا ولأن المقصود من البيع الربح وربح ما لم يضمن منهي شرعا والنهي يقتضي الفساد فيكون البيع فاسدا قبل القبض كما في المنقول؛ لأنه لم يدخل في ضمانه، ولهذا لا يجوز إجارته قبل القبض اهـ (قوله ولهما أنه لا يتوهم انفساخ العقد فيه) والأصل فيه أن ما لا ينفسخ العقد فيه بالهلاك فالتصرف فيه جائز قبل القبض (تبیین الحقائق فصل بیع العقار قبل القبض 4/79)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 39 / 843

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میں نہیں  سمجھتا کہ عورتوں کو بطور ہوسٹس رکھنا لازم ہے، آپ صرف مردوں کو ملازمت پر رکھ کر ایرلائنس شروع کرسکتے ہیں۔ حج اور عمرہ کرنے والوں کے سامنے بے پردہ عورتوں کالانا یا آنا درست نہیں ، اس لئے اس پر غور کرلیا جائے۔ تاہم عورتوں کی خدمت کے لئے عورتیں ہوں تو اس میں گنجائش ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1856/43-1761

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی اصطلاح میں قبضہ کا مفہوم یہ ہے کہ مبیع اور مشتری کے مابین ایسے طور پر تخلیہ کردیا جائے کہ مشتری کو مبیع پر قبضہ کرنے میں بائع کی طرف سے کوئی مانع اوررکاوٹ نہ رہے، قبضہ کے لئے صرف زبانی نفع و نقصان کا ذمہ دار ہوجانا کافی نہیں ہے۔ مختلف چیزوں کا قبضہ ان کے حسب حال ہوتا ہے۔ قبضہ کی قدرت اور موقعہ دیدینا بھی قبضہ ہی کےقائم مقام ہے ۔

انٹرنیٹ کے ذریعہ ہونے والی تجارت میں قبضہ کا مطلب یہ ہے کہ مبیع کی تمام اوصاف ،مقدار وغیرہ بیان کردی جائے اور پھر مبیع کو آپ کے کہنے پر آپ کے نمائندہ  یا کسی ٹرانسپورٹ کمپنی کی تحویل میں دیدیا  جائے۔ تو اب جبکہ اس سامان کا ضمان  اور فائدہ آپ کی طرف منتقل ہوگیا تو آپ کا قبضہ تام ہوگیا۔ لیکن اگر کسی نے مذکورہ طریقہ پر قبضہ سے  قبل ہی کوئی سامان بیچ دیا تو یہ بیع فاسد ہوگی۔

التسلیم والقبض عندنا هو التخلیة والتخلی وهو أن یخلي البائع بین المبیع والمشتري برفع الحائل بینهما علی وجه یتمکن المشتری من التصرف فیه فیجعل البائع مسلماً للمبیع والمشتری قابضاً له وکذا تسلیم الثمن من المشتري إلی البائع. (بدائع الصنائع 5/244) قال في الدر ثم التسلیم یکون بالتخلیة علی وجهٍ یتمکن من القبض بلا مانع ولا حائل (شامي مع الدر، ج2، ص568) وَفِي الاِصْطِلاَحِ: هُوَ حِيَازَةُ الشَّيْءِ وَالتَّمَكُّنُ مِنْهُ، سَوَاءٌ أَكَانَ مِمَّا يُمْكِنُ تَنَاوُلُهُ بِالْيَدِ أَمْ لَمْ يُمْكِنْ (الموسوعة الفقهية الكويتية) معنی القبض هو التمکین والتخلي وارتفاع الموانع عرفاً وعادۃ حقیقة. (بدائع الصنائع 5/244) والتمکن من القبض کالقبض (شامي، ج2، ص568)  أنه من شروط التخلیة التمکن من القبض بلا حائل ولا مانع (شامی 4/516)

ولا یشترط القبض بالبراجم؛ لأن معنی القبض ہو التمکن والتخلّي وارتفاع الموانع عرفًا وعادةً حقیقةً (بدائع: ۴/۳۴۲، ط: زکریا) وفي رد المحتار: اشتری بقرة مریضة وخلاہا في منزل البائع قائلاً إن ہلکت فمني، وماتت فمن البائع لعدم القبض (درمختار مع الشامي: ۷/۸۹، زکریا) وفي الہندیة: إذا قال المشتری للبائع ابعث إلی ابنی واستأجر البائع رجلا یحملہ إلی ابنہ فہذا لیس بقبض والأجر علی البائع إلا أن یقول استأجر علی من یحملہ فقبض الأجیر یکون قبض المشتری إن صدقہ أنہ استأجر ودفع إلیہ وإن أنکر استئجارہ والدفع إلیہ فالقول قولہ کذا فی التتارخانیة․ (الہندیة: ۳/۱۹، ط: زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2186/44-2303

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ کے سوال کو بغور پڑھا، سوال غیرواضح اور مبہم ہے، البتہ سوال پڑھ کر ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ایفیلیٹ مارکیٹنگ درحقیقت آن لائن کورس میں لوگوں کو شامل کرانے پر کمیشن لینے کی ایک شکل ہے، اس کورس کو خرید کر آگے فروخت کرنے سے تعبیر کرنا اور اس پر کمیشن لینا بھی محل نظر ہے، اس لئے کہ آپ کی تعبیر میں کورس خریدنے والا جب آگے کورس فروخت کرتاہے تو کمپنی اس کو کمیشن بھی دیتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ کورس خریدنے والا کورس کا مالک ہی نہیں ہوتاہے بلکہ ملکیت کمپنی کی ہی ہوتی ہے، اس لئے کہ نیا گاہک کمپنی کو براہ راست کورس کی قیمت ادا کرتاہے ، لہذا صورت مسئولہ میں اس طرح بیچنا اور بیچنے پر جوکمیشن ملتاہے وہ کمیشن لینا درست نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کچھ تفصیلات ہوں تو تحریری شکل میں ارسال کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1958/44-1871

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(1) جعلی دستاویز بناکر نوکری حاصل کرنا سراسر دھوکہ اور فریب ہے، اسلام میں اس کی قطعا اجازت نہیں ہے۔ (2) البتہ اگر جعلی دستاویز کی بنیاد پر ملازمت مِل جائے اور کام کرنا شروع کردے تو اجرت اور تنخواہ لینا جائز ہوگا، اور وہ آمدنی  جوکام کے عوض ہے  وہ حرام نہیں ہوگی۔ (3) سرکار نے جس ملازمت پر جس کو رکھا ہے، یہ اسی کی ذمہ داری ہے، اپنی جگہ کسی اور کو مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ:« مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلاَحَ فَلَيْسَ مِنَّا،وَمَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا». (صحيح مسلم:حدیث رقم:294) وقال ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ:وفي حديث ابن مسعودٍ عنِ النَّبيِّ صلى الله عليه وسلم : ”مَنْ غَشَّنا فليس منَّا ، والمكرُ والخِداعُ في النار“. وقد ذكرنا فيما تقدَّم حديث أبي بكر الصدِّيق المرفوع : ”ملعونٌ من ضارَّ مسلماً أو مكرَ به “.خرَّجه الترمذيُّ. (جامع العلوم والحكم :35/ 9) وفي المحيط ومهر البغي في الحديث هو أن يؤاجر أمته على الزنا وما أخذه من المهر فهو حرام عندهما ، وعند الإمام إن أخذه بغير عقد بأن زنى بأمته ، ثم أعطاها شيئا فهو حرام ؛ لأنه أخذه بغير حق وإن استأجرها ليزني بها ، ثم أعطاها مهرها أو ما شرط لها لا بأس بأخذه ؛ لأنه في إجارة فاسدة فيطيب له وإن كان السبب حراما . ( البحر الرائق:8/33،مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ)

قال العلامة ابن نجيم رحمه الله تعالى:وأما ركنها فهو الإيجاب والقبول والارتباط بينهما، وأما شرط جوازها فثلاثة أشياء: أجر معلوم، وعين معلوم، وبدل معلوم، ومحاسنها دفع الحاجة بقليل المنفعة، وأما حكمها فوقوع الملك في البدلين ساعة فساعة. )البحر الرائق:8/3

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1056 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رشوت لینا اور دینا دونوں حرام ہے، تاہم اگر ملازمت کا کام جائز ہے تو اس ملازمت کی تنخواہ  جو کہ اس کی محنت کا معاوضہ ہے وہ  درست ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 41/850

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکورہ صورت پر عمل کرنے کی اجازت ہے۔ اس میں عدم جواز کی بظاہر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی ۔

واذا عدم الوصفان والمعنی المضموم الیہ حل التفاضل والنساء لعدم العلۃ (قدوری باب الربوا ص95)

و لو باع الفلوس بالفلوس ثم افترقا قبل التقابض، بطل البيعولو قبض أحدهما ولم يقبض الآخر، أو تقابضا ثم استحق ما في يدي أحدهما بعد الافتراق، فالعقد صحيح (الھندیہ/ البحر ج6ص219)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2326/45-4214

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غیر مسلم کی کمپنی میں کام کرنے والے مسلمانوں کو جو اجرت ملتی ہے وہ ان  کے لئے حلال ہے ہاں اگر معلوم ہو کہ کمپنی ناجائز امور پر مشتمل ہے مثلاً شراب کی کمپنی ہے تو مسلمان کے لیے ایسی کمپنی میں کام کرنا اور اجرت حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا اس لیے کہ مسلمان کے لیے شراب کے کسی بھی کام کو کرنا جائز نہیں ہے، لیکن کمپنی کے شیرز خریدتے وقت بھی اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کمپنی کا کاروبار ایک تہائی سے زیادہ حرام کام پر مشتمل نہ ہو اگر ایک تہائی سے زیادہ حرام کاروبار ہے تو پھر اس کے  شیرز خریدنا جائز نہیں ہے، اب اگر غیر مسلم کمپنی میں کوئی جائز کام کریں تو آپ کے لئے اجرت جائز ہے تنخواہ میں کوئی بھی پیسہ آپ کو دیتا ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند