Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2126/44-2179
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بینک سے لون لینے کی شدید ضرورت ہے مثلا کاروبار کرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں اور غیرسودی قرض دینے والا کوئی نہیں ہے یا سودی قرض لئے بغیر پورے کاروبار کے ڈدوبنے کا اندیشہ ہے تو ایسی شدید مجبوری میں بقدر ضرورت لون لینے کی گنجائش ہے ، لیکن محض کاروبار کی ترقی کے لئے اور کاروبار کو پھیلانے کے لئے سودی قرض لینا جائز نہیں ہے۔ لمٹ بنوانےکی صورت میں بھی سود دینا پڑتاہے ، اگرچہ اس کی مقدار کم ہوتی ہے۔ اس لئے اس سے بھی بچنا ضروری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1647/43-1229
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے ان کے ساتھ کاروبار میں اس طرح پیسے لگائے کہ خریدنے اور بیچنے کی ذمہ داری آپ نے ان کو دیدی ، وہ اپنی صوابدید پر خریدتے اور بیچتے ہیں، اور آپ کے پیسے کو صحیح جگہ لگاتے ہیں ، اور پھر فائدے کو برابر تقسیم کرکے آپ کو آپ کا حصہ دیدیتے ہیں، تو اس معاملہ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اور خریدی ہوئی زمین کو جاننا اور دیکھنا وغیرہ کوئی چیز آپ کے لئے ضروری نہیں ہے؛ اس لئے ان کا آپ کی اجازت کے بغیر خریدنا اور بیچنا درست ہے، اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں اس میں کوئی شبہ کی چیز نہیں ہے۔
إلا في صورة الخلط والاختلاط استثناء من صحة البيع بلا إذن الشريك، وحاصله توقف الصحة على إذن الشريك (شامی، کتاب الشرکۃ 4/304) ولكل واحد منهما أن يبيع ما اشتراه، وما اشترى صاحبه مرابحة على ما اشترياه؛ لأن كل واحد منهما وكيل لصاحبه بالشراء والبيع، والوكيل بالبيع يملك البيع مرابحة وهل لأحدهما أن يسافر بالمال من غير رضا صاحبه؟ ذكر الكرخي أنه ليس له ذلك والصحيح من قول أبي يوسف ومحمد أن له ذلك (بدائع، فصل فی حکم الشرکۃ 6/71)
(مَا يَفْعَله الشَّرِيك فِي مَال الشّركَة) وَيجوز للشَّرِيك ان يفعل فِي مَال الشّركَة سِتَّة عشر شَيْئا احدهما ان يَبِيع وَيَشْتَرِي وَالثَّانِي ان يرْهن ويرتهن وَالثَّالِث ان يُؤجر ويستأجر وَالرَّابِع ان يقبل البيع وَالشِّرَاء وَالْخَامِس ان يُولى انسانا السّلْعَة بِمَا اشْتَرَاهُ وَالسَّادِس ان يُشْرك انسانا فِيمَا اشْترى وَالسَّابِع ان يودع المَال من الشّركَة وَالثَّامِن ان يعير شَيْئا من مَال التِّجَارَة وَالتَّاسِع ان يستبضع مَالا من مَال الشّركَة والعاشر ان يَبِيع بِالنَّقْدِ والنسيئة وَالْحَادِي عشر ان يَبِيع بالاثمان وَالْعرُوض وَالثَّانِي عشر ان يَأْذَن للْعَبد من مَال الشّركَة فِي التِّجَارَة وَالثَّالِث عشر ان يُوكل فِي البيع وَالشِّرَاء وَالرَّابِع عشر ان يَدْعُو احدا الى الطَّعَام وَالْخَامِس عشر ان يهدي الشَّيْء الْيَسِير وَالسَّادِس عشر ان يتَصَدَّق بِشَيْء يسير (النتف فی الفتاوی للسغدی، باب مالایجوز للشریک فعلہ فی مال الشرکۃ 1/537)
المادة (1372) إذا كان رأس مال الشريكين متفاضلا كأن كان رأس مال أحدهما مائة ألف درهم ورأس مال الآخر مائة وخمسين ألف درهم فإذا شرط تقسيم الربح بينهما بالتساوي فيكون بمعنى أنه شرط زيادة حصة في الربح للشريك صاحب رأس المال القليل بالنسبة إلى رأس ماله ويكون ذلك كشرط ربح زائد لأحد الشريكين حال كون رأس مالهما متساويا , فلذلك إذا عمل شرط كليهما أو شرط عمل الشريك صاحب الحصة الزائدة في الربح أي صاحب رأس المال القليل صحت الشركة واعتبر الشرط , وإذا شرط العمل على صاحب الحصة القليلة من الربح أي صاحب رأس المال الكثير فهو غير جائز ويقسم الربح بينهما بنسبة مقدار رأس مالهما. المادة (1373) يجوز لكل واحد من الشريكين أن يبيع مال الشركة نقدا أو نسيئة بما قل أو كثر. (مجلۃ الاحکام العدلیۃ، الفصل الخامس فی شرکۃ الاموال والاعمال 1/264)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1644/43-1224
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معاملہ کرتے وقت جب اینٹ کی صفت وغیرہ بیان کردی گئی، اور جب اینٹیں تیار ہوگئیں تو چمنی کے مالک نے آپ کے حصہ کی اینٹیں الگ کردیں، تو آپ کی چیز متعین ہوگئی ، اور یہ تعیین ہی قبضہ کے قائم مقا م ہوگی، مبیع کو بیچنے سے پہلے دیکھنا ضروری نہیں ہے۔ پھر چمنے والے نے آپ کا وکیل بن کر اینٹیں بیچ دیں، اس لئےمذکورہ معاملہ درست ہے اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں۔ بظاہر اس پورے معاملہ کوئی بھی چیز مفضی الی النزاع بھی نہیں ہے۔
لأن القبض في المجلس لا يشترط إلا في الصرف وهو بيع الأثمان بعضها ببعض أما ما عداه فإنما يشترط فيه التعيين دون التقابض كما يأتي (شامی، مطلب فی الابراء عن الربوا 5/172)
نظر الوكيل بالقبض كنظر الرسول في أنه لا يسقط الخيار، قيد بالوكيل بالقبض؛ لأنه لو وكل رجلا بالرؤية لا تكون رؤيته كرؤية الموكل اتفاقا كذا في الخانية إلخ ما ذكره الشارح ابن ملك، والمسألة في المتون وأطال فيها في البحر فراجعه۔ وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)
قلت: لا يخفى أن الإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة فالبيع في الحقيقة من المشتري، ولذا قال في جامع الفصولين: شراه ولم يقبضه حتى باعه البائع من آخر بأكثر فأجازه المشتري لم يجز؛ لأنه بيع ما لم يقبض. اهـ. فاعتبره بيعا من جانب المشتري قبل قبضه فافهم، وظاهره أنه يبقى على ملك المشتري بالأول، ويأتي تمامه في فصل التصرف في المبيع.(شامی، مطلب فی بیع المرھون 5/111)
وصحة القبض بأحد الأمرين إما بالتخلية كما في المنقول وغيره أو بحقيقة القبض كما في المنقول وجه قول محمد عموم النهي وهو ما روي أنه «- عليه الصلاة والسلام - نهى عما لم يقبض» وهو بعمومه يشمل المنقول والعقار جميعا ولأن بيع المنقول قبل القبض لا يجوز فكذا غير المنقول؛ لأن عدم القبض موجود فيهما جميعا ولأن المقصود من البيع الربح وربح ما لم يضمن منهي شرعا والنهي يقتضي الفساد فيكون البيع فاسدا قبل القبض كما في المنقول؛ لأنه لم يدخل في ضمانه، ولهذا لا يجوز إجارته قبل القبض اهـ (قوله ولهما أنه لا يتوهم انفساخ العقد فيه) والأصل فيه أن ما لا ينفسخ العقد فيه بالهلاك فالتصرف فيه جائز قبل القبض (تبیین الحقائق فصل بیع العقار قبل القبض 4/79)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
آف لائن 3973
الجواب وباللہ التوفیق:
ڈراپ شپنگ تجارت کی ایک جدید شکل ہے جس میں کوئی شخص کسی مینوفیکچرنگ کمپنی کی ویب سائٹ یا کسی بڑے ای اسٹور مثلاً ایمازون، والمارٹ، فلپ کارڈ، مووی کیوک اور منترا وغیرہ پر بکنے والی کسی پراڈکٹ کی تشہیر کرتا ہے اور کسٹمر کو خریداری کی آفر کرتا ہے اور آرڈر ملنے پر مطلوبہ شے مینوفیکچرنگ کمپنی یا ای اسٹور ویب سائٹ یا پیج کو دیکھ کر کسٹمر اپنی پسند کردہ شے (چیز) پر کلک کرکے اس چیز کو خریدنے کا اظہار کرتا ہے اور کسٹمر سے رقم کی ادائیگی کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں، کبھی ادائیگی ڈیلیوری پر کی جاتی ہے یعنی جب مبیع مقرر ہ جگہ پر پہنچا دی جاتی ہے تو مشتری رقم ادا کرتا ہے اور بعض دفعہ ادائیگی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جاتی ہے، بائع مشتری کا کریڈٹ کارڈ نمبر حاصل کرکے بینک کو بھیجتا ہے اور وہاں سے اپنی رقم وصول کرلیتا ہے، مبیع کی ادائیگی بعض اوقات ڈیبٹ کارڈ، یا آن لائن کی جاتی ہے، ضروری نہیں کہ مبیع (فروخت کی جانے والی چیز) بائع کی ملکیت میں موجود ہو، بلکہ وہ آرڈر ملنے پر اشیاء کا انتظام کرتا ہے اور مشتری کے پتے پر یہ اشیاء ارسال کرتا ہے۔ اس طریقہ کار وبار میں بظاہر خریدار کا آن لائن اپنی مطلوبہ اشیاء پر کلک کردینا قبول معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خریدار کا عمل ایجاب ہے اور بائع کا اپنی مصنوعات اپنی سائٹ پر ظاہر کردینا ایجاب کی پیشکش ہے، قبول نہیں، جیسے دوکان دار اشیاء اپنے اسٹال پر قرینے سے سجا دیتا ہے اور ان پر قیمت بھی چسپاں ہوتی ہیں، مگر وہ ایجاب نہیں ہوتا، بلکہ دعوتِ ایجاب ہوتی ہے، اسی طرح ویب سائٹ پر بائع کااپنی اشیاء ظاہر کردینا بھی دعوتِ ایجاب ہے جیسے دکان پر دکان دار کا عمل بیع کو قبول کرنا ہوتا ہے، اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری میں بھی بائع کا عمل ایجاب کی قبولیت ہوتا ہے۔ ایک عام دکان پر اگر خریدار اور دکان دار زبان سے کچھ نہ کہیں تو دونوں جانب سے ’’بیع تعاطی‘‘ سے مکمل ہوجاتی ہے اوراگر خریدار زبان سے خریدار ی کی خواہش کا اظہارکرے اور دکان دار زبان سے کچھ نہ کہے، بلکہ چیز حوالے کردے یا ثمن قبول کرلے تو بائع کی طرف سے فعلاً قبول ہوتا ہے، اسی طرح ویب سائٹ پر بھی فعلی قبول ہوجاتا ہے۔
بہرحال چیزوں کو پیش کرنا ایجاب نہیں، بلکہ ایجاب کی دعوت دینا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دکان میں جب خریدارکو ئی چیز اٹھا لیتا ہے تواس وقت بیع مکمل نہیں ہوتی، بلکہ کاؤنٹر پر آکر بیع تام ہوتی ہے، ایسے ہی مختلف ویب سائیٹس پر جب گاہک اپنی پسندیدہ شئی پر کلک کرتا ہے تو یہ تحریری ایجاب ہوتا ہے، جب یہ ایجاب کمپنی یا فرد کے پاس جاتا ہے تو وہ اسے قبول کرلیتا ہے یوں یہ عقد جانبین سے تحریری صورت میں عمل پذیر ہوتاہے۔نیز مذکورہ بیع میں قبضہ کی صورت یہ ہے کہ
شریعت اسلامیہ نے معاملات مالیہ میں قبضہ کی کسی خاص صورت یعنی حقیقی وحسی ایسے ہی معنوی وحکمی کسی کو مخصوص نہیں کیا بلکہ قبضہ کی ہر اُس صورت کو جائز قرار دیا ہے جسے عُرف میں قبضہ سمجھا جاتا ہے اور معاشرہ کے لوگ اُسے قبول کرتے ہیں۔ گویا مالی لین دین میں قدرت واختیار کی ہر وہ شکل جسے معاشرہ میں قبولیت حاصل ہو اُس کو شرعاً قبضہ کا مصداق سمجھا جاتا ہے یا سمجھا جانا چاہئے۔ اِسی طرح قبضہ کی قدرت اور موقعہ دیدینا بھی قبضہ کے قائم مقام اور اس کی ہی ایک شکل ہے۔ علمائے احناف کے نزدیک بھی شئی کا حسی قبضہ ضروری نہیں ہے، بلکہ مبیع کا تخلیہ (تمام رکاوٹوں کو ہٹا کے دوسرے کو تصرف واستعمال کا حق دینا) بھی کافی ہے۔
مشتری تصویر دیکھ کر جب کلک کرتا ہے تو یہ خریداری آرڈر بک کرتا ہے اور جب بائع وہ سامان مشتری تک پہونچا دیتا ہے تو بیع مکمل ہو جاتی ہے بعض مرتبہ تشہیر کرنے والے کے پاس سامان نہیں ہوتا وہ آرڈر لیکر اس کے مطابق دوسری جگہ سے سامان لاکر دیتا ہے جب وہ سامان لا کر دیدے گا تو بیع ہو جائے گی اور اس سے پہلے کی کارروائی کو وعدہ بیع کہا جائے گا۔
لہٰذا انٹرنیٹ پر اس طرح کی خرید وفروخت کرتے ہوئے درج ذیل امور کا اگر خیال رکھا جائے تو مذکورہ معاملہ کی شرعاً گنجائش ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔
(أ) مبیع اور ثمن کی مکمل تفصیل بتائی جائے، جس سے ہر قسم کی جہالت مرتفع ہو جائے۔
(ب) کوئی بھی شرط فاسد نہ لگائی گئی ہو۔
(ج) صرف تصویر دیکھنے سے خیارِ رویت ساقط نہ ہوگا، لہٰذا اگر مبیع تصویر کے مطابق نہ ہو تو مشتری کو واپس کرنے کا اختیار ہو۔
(د) اگر ویب سائٹ پرخریدی گئی چیز اس طرح نہیں جیسا کہ اس کی صفات میں بیان کیا گیا تھا تو مشتری کو خیارِ رؤیت حاصل ہوگا، نیز اگر اس شئی میں کوئی ایسا عیب ہو جس کا مشتری کو علم نہیں تھا تو پھر مشتری کو خیارِ عیب حاصل ہوگا، اگر وہ چاہے تو پوری قیمت پر اسے لے لے، اگر چاہے تو واپس کردے، لیکن اسے یہ حق نہیں کہ وہ مبیع رکھ کر نقصان کی قیمت لے۔ بائع کو خیارِ رؤیت تو مطلقاً حاصل نہیں ہوگا، البتہ ثمن میں کھوٹ ہوتو اسے تبدیلی کاحق ہوگا، مگر سودے کو منسوخ کرنے کاحق اسے پھر بھی نہ ہوگا۔
الحاصل: آن لائن خرید وفروخت بکثرت وجود پزیر ہے اور عوام الناس اس طرح کی بیع وشراء میں عام طور پر مبتلا ہیں اس لئے مذکورہ تمام تر تفصیلات اور شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر معاملات کئے جائیں تو ان تفصیلات وتشریحات کی روشنی میں بیع وشراء میں ایجاب وقبول اور مبیع پر قبضہ (خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو رہی ہو) بھی پایا جا رہا ہے اس لئے مذکورہ بیع کرنے کی گنجائش ہے۔
’’شراء ما لم یرہ جائز، کذا في الحاوي، وصورۃ المسألۃ أن یقول الرجل لغیرہ: بعت منک ہذا الثوب الذي في کمی ہذا، وصفتہ کذا، والدرۃ التي في کفی ہذہ، وصفتہا کذا أو لم یذکر الصفۃ، أو یقول: بعت منک ہذہ الجاریۃ المنتقب … وإن أجازہ قبل الرؤیۃ لم یجز وخیارہ باق علی حالہ، فإذا رآہ إن شاء أخذ وإن شاء ردہ، ہکذا في المضمرات‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ج ۲۰، ص: ۲۰۳)
’’خیار العیب یثبت من غیر شرط، کذا فی السراج الوہاج، وإذا اشتری شیئًا لم یعلم بالعیب وقت الشراء ولا علمہ قبلہ والعیب یسیر أو فاحش فلہ الخیار إن شاء رضي بجمیع الثمن وإن شاء ردہ، کذا في شرح الطحاوي، وہذا إذا لم یتمکن من إزالتہ بلا مشقۃ، فإن تمکن فلا کإحرام الجاریۃ‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ج ۲۰، ص: ۲۸۸)
فقط: واللہ اعلم بالصواب
ا
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2695/45-4165
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مشورہ دینے والے نے اپنے مشورہ اور رہنمائی کی فیس کا مطالبہ کیا ہے اور اس میں آپ کو سہولت دی ہے کہ اگر آپ کو نفع ہوگا تبھی میں اپنا کمیشن لوں گا ورنہ نہیں تو اس طرح معاملہ کرنا درست ہے اور آپ پر منافع کمانے کی صورت میں اس کو منافع کا پچاس فی صد دینا لازم ہوگا، البتہ پہلی بار انویسٹ کرنے پر ہی اجرت دی جائے گی، ہر بار انویسٹ کرنے پر منافع کا پچاس فی صد دینا لازم نہ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2042
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ کاروبار میں عمر کے پیسے اور زید کی زمین استعمال ہوئی، مگر اس تجارت میں کوئی فائدہ نہیں ہوا، اور اب دونوں شریک شرکت ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر کچھ نفع ہوا ہے تو اس کو دونوں کے درمیان شرط کے مطابق تقسیم کرلیا جائے، اور اگر بالکل نفع نہیں ہوایا نقصان ہوگیا تو اب جو کچھ سرمایہ بچا ہے وہ معر کا ہوگا، اس میں سے زید کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ عمر اگر اپنے طور پر از راہِ سلوک کچھ دیدے تو الگ بات، لیکن شرعا کچھ دینا لازم نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 917/42-483
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سوال میں مذکور وضاحت کے مطابق تجارت کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس کا خیال رکھا جائے کہ ایسی کوئی چیز نہ ہو جو نزاع کا باعث بنے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1647/43-1229
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے ان کے ساتھ کاروبار میں اس طرح پیسے لگائے کہ خریدنے اور بیچنے کی ذمہ داری آپ نے ان کو دیدی ، وہ اپنی صوابدید پر خریدتے اور بیچتے ہیں، اور آپ کے پیسے کو صحیح جگہ لگاتے ہیں ، اور پھر فائدے کو برابر تقسیم کرکے آپ کو آپ کا حصہ دیدیتے ہیں، تو اس معاملہ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اور خریدی ہوئی زمین کو جاننا اور دیکھنا وغیرہ کوئی چیز آپ کے لئے ضروری نہیں ہے؛ اس لئے ان کا آپ کی اجازت کے بغیر خریدنا اور بیچنا درست ہے، اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں اس میں کوئی شبہ کی چیز نہیں ہے۔
إلا في صورة الخلط والاختلاط استثناء من صحة البيع بلا إذن الشريك، وحاصله توقف الصحة على إذن الشريك (شامی، کتاب الشرکۃ 4/304) ولكل واحد منهما أن يبيع ما اشتراه، وما اشترى صاحبه مرابحة على ما اشترياه؛ لأن كل واحد منهما وكيل لصاحبه بالشراء والبيع، والوكيل بالبيع يملك البيع مرابحة وهل لأحدهما أن يسافر بالمال من غير رضا صاحبه؟ ذكر الكرخي أنه ليس له ذلك والصحيح من قول أبي يوسف ومحمد أن له ذلك (بدائع، فصل فی حکم الشرکۃ 6/71)
(مَا يَفْعَله الشَّرِيك فِي مَال الشّركَة) وَيجوز للشَّرِيك ان يفعل فِي مَال الشّركَة سِتَّة عشر شَيْئا احدهما ان يَبِيع وَيَشْتَرِي وَالثَّانِي ان يرْهن ويرتهن وَالثَّالِث ان يُؤجر ويستأجر وَالرَّابِع ان يقبل البيع وَالشِّرَاء وَالْخَامِس ان يُولى انسانا السّلْعَة بِمَا اشْتَرَاهُ وَالسَّادِس ان يُشْرك انسانا فِيمَا اشْترى وَالسَّابِع ان يودع المَال من الشّركَة وَالثَّامِن ان يعير شَيْئا من مَال التِّجَارَة وَالتَّاسِع ان يستبضع مَالا من مَال الشّركَة والعاشر ان يَبِيع بِالنَّقْدِ والنسيئة وَالْحَادِي عشر ان يَبِيع بالاثمان وَالْعرُوض وَالثَّانِي عشر ان يَأْذَن للْعَبد من مَال الشّركَة فِي التِّجَارَة وَالثَّالِث عشر ان يُوكل فِي البيع وَالشِّرَاء وَالرَّابِع عشر ان يَدْعُو احدا الى الطَّعَام وَالْخَامِس عشر ان يهدي الشَّيْء الْيَسِير وَالسَّادِس عشر ان يتَصَدَّق بِشَيْء يسير (النتف فی الفتاوی للسغدی، باب مالایجوز للشریک فعلہ فی مال الشرکۃ 1/537)
المادة (1372) إذا كان رأس مال الشريكين متفاضلا كأن كان رأس مال أحدهما مائة ألف درهم ورأس مال الآخر مائة وخمسين ألف درهم فإذا شرط تقسيم الربح بينهما بالتساوي فيكون بمعنى أنه شرط زيادة حصة في الربح للشريك صاحب رأس المال القليل بالنسبة إلى رأس ماله ويكون ذلك كشرط ربح زائد لأحد الشريكين حال كون رأس مالهما متساويا , فلذلك إذا عمل شرط كليهما أو شرط عمل الشريك صاحب الحصة الزائدة في الربح أي صاحب رأس المال القليل صحت الشركة واعتبر الشرط , وإذا شرط العمل على صاحب الحصة القليلة من الربح أي صاحب رأس المال الكثير فهو غير جائز ويقسم الربح بينهما بنسبة مقدار رأس مالهما. المادة (1373) يجوز لكل واحد من الشريكين أن يبيع مال الشركة نقدا أو نسيئة بما قل أو كثر. (مجلۃ الاحکام العدلیۃ، الفصل الخامس فی شرکۃ الاموال والاعمال 1/264)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1644/43-1224
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معاملہ کرتے وقت جب اینٹ کی صفت وغیرہ بیان کردی گئی، اور جب اینٹیں تیار ہوگئیں تو چمنی کے مالک نے آپ کے حصہ کی اینٹیں الگ کردیں، تو آپ کی چیز متعین ہوگئی ، اور یہ تعیین ہی قبضہ کے قائم مقا م ہوگی، مبیع کو بیچنے سے پہلے دیکھنا ضروری نہیں ہے۔ پھر چمنے والے نے آپ کا وکیل بن کر اینٹیں بیچ دیں، اس لئےمذکورہ معاملہ درست ہے اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں۔ بظاہر اس پورے معاملہ کوئی بھی چیز مفضی الی النزاع بھی نہیں ہے۔
لأن القبض في المجلس لا يشترط إلا في الصرف وهو بيع الأثمان بعضها ببعض أما ما عداه فإنما يشترط فيه التعيين دون التقابض كما يأتي (شامی، مطلب فی الابراء عن الربوا 5/172)
نظر الوكيل بالقبض كنظر الرسول في أنه لا يسقط الخيار، قيد بالوكيل بالقبض؛ لأنه لو وكل رجلا بالرؤية لا تكون رؤيته كرؤية الموكل اتفاقا كذا في الخانية إلخ ما ذكره الشارح ابن ملك، والمسألة في المتون وأطال فيها في البحر فراجعه۔ وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)
قلت: لا يخفى أن الإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة فالبيع في الحقيقة من المشتري، ولذا قال في جامع الفصولين: شراه ولم يقبضه حتى باعه البائع من آخر بأكثر فأجازه المشتري لم يجز؛ لأنه بيع ما لم يقبض. اهـ. فاعتبره بيعا من جانب المشتري قبل قبضه فافهم، وظاهره أنه يبقى على ملك المشتري بالأول، ويأتي تمامه في فصل التصرف في المبيع.(شامی، مطلب فی بیع المرھون 5/111)
وصحة القبض بأحد الأمرين إما بالتخلية كما في المنقول وغيره أو بحقيقة القبض كما في المنقول وجه قول محمد عموم النهي وهو ما روي أنه «- عليه الصلاة والسلام - نهى عما لم يقبض» وهو بعمومه يشمل المنقول والعقار جميعا ولأن بيع المنقول قبل القبض لا يجوز فكذا غير المنقول؛ لأن عدم القبض موجود فيهما جميعا ولأن المقصود من البيع الربح وربح ما لم يضمن منهي شرعا والنهي يقتضي الفساد فيكون البيع فاسدا قبل القبض كما في المنقول؛ لأنه لم يدخل في ضمانه، ولهذا لا يجوز إجارته قبل القبض اهـ (قوله ولهما أنه لا يتوهم انفساخ العقد فيه) والأصل فيه أن ما لا ينفسخ العقد فيه بالهلاك فالتصرف فيه جائز قبل القبض (تبیین الحقائق فصل بیع العقار قبل القبض 4/79)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 39 / 843
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میں نہیں سمجھتا کہ عورتوں کو بطور ہوسٹس رکھنا لازم ہے، آپ صرف مردوں کو ملازمت پر رکھ کر ایرلائنس شروع کرسکتے ہیں۔ حج اور عمرہ کرنے والوں کے سامنے بے پردہ عورتوں کالانا یا آنا درست نہیں ، اس لئے اس پر غور کرلیا جائے۔ تاہم عورتوں کی خدمت کے لئے عورتیں ہوں تو اس میں گنجائش ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند