ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1462/42-898

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ بینکوں کا طریقہ کار کیا ہے، ہمیں نہیں معلوم۔ جن علماء کو جو تفصیلات بتائی گئیں ان کے مطابق انھوں نے جواز اور عدم جواز کافتوی  دیا ہوگا۔ اس سلسلہ میں دونوں  فریق  اگر مل بیٹھ کر تفصیلات پر گفتگو کریں تو فیصلہ آسان ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

 Ref. No. 2241/44-2410

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعا ایسا لون لینا جائز ہے جس میں سود نہ دینا پڑے، اور اس کی جو مدت بلاسود کے متعین ہو اس میں ادائیگی کردی جائے۔

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ  وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾[البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]

 ’’عن عبد اللّٰه بن حنظلة غسیل الملائکة أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم قال: لَدرهمُ ربًا أشد عند اللّٰه تعالٰی من ست وثلاثین زنیةً في الخطیئة‘‘. (دار قطني)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 253/45-4092

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    جانوروں کو شرکت پر دینے کی جو صورت آپ نے بیان کی ہے  اس میں شرعی طور پر کئی مفاسد ہیں اس وجہ سے علماء نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے۔ در اصل شرعی ضابطہ یہ ہے کہ آدمی اپنے عمل کی اجرت دوسرے سے نہیں لے سکتاہے، اسی طرح اپنے کئے ہوئے کام میں سے اپنی مزدوری نہیں لے سکتاہے جیسے گیہوں پیس کر آٹے میں سے بطور اجرت کے لینا جائز نہیں ہے۔  اسی طرح جانور پالنے کی مزدوری میں سے جانور لینا درست نہیں ہےنیز یہ بھی اصول ہے کہ  جو شریک ہوگا وہ  اجیر نہیں بن سکتاہے۔ جبکہ صورت مذکورہ میں وہ شریک بھی ہے اور اجیر بھی ہے، اور اپنے عمل میں سے مزدوری بھی  وصول کررہاہے۔ ان مفاسد کی بناء پر جانور پال پر دینا جائز نہیں ہے۔

جواز کی آسان شکل یہ ہے کہ (1) فریق اول جانور خرید کر پالنے کے لئے فریق ثانی کو ماہانہ یا روزانہ کی مزدوری پر دیدےاور پالنے کی اجرت طے کرلے۔ (اس صورت میں دودھ اور بچے کا مالک فریق اول ہی ہوگا)۔ (2) فریق اول اپنے پیسوں سے جانور خریدے اور پھرفریق ثانی  کے ہاتھ اس کا آدھا حصہ  آدھی قیمت پر بیچ دے ،پھر پیسے معاف کردے،تو  دونوں کے درمیان  وہ جانور مشترک ہوجائے گا، اب  اس جانورسے  جو دودھ یا بچے حاصل ہوں گے دونوں برابرکے حصہ دارہوں گے۔ (3) دونوں فریق پیسے ملا کرجانور خریدیں، ایسی صورت میں دونوں اپنی مالیت کے بقدر دودھ اور بچے میں شریک ہوں گے ۔ البتہ اگر کسی نے مذکورہ معاملہ کرلیا  تو  حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو جائز قراردیاہے۔ (امداد الفتاوی۔3/342) 

"رجل دفع بقرةً إلى رجل بالعلف مناصفةً، وهي التي تسمى بالفارسية "كاونيم سوو" بأن دفع على أن ما يحصل من اللبن والسمن بينهما نصفان، فهذا فاسد، والحادث كله لصاحب البقرة، والإجارة فاسدة". (خلاصة الفتاوی:۳/۱۱4۔کتاب الإجارة، الجنس الثالث في الدواب) "وَلَا خِلَافَ في شَرِكَةِ الْمِلْكِ أَنَّ الزِّيَادَةَ فيها تَكُونُ على قَدْرِ الْمَالِ حتى لو شَرَطَ الشَّرِيكَانِ في مِلْكِ مَاشِيَةٍ لِأَحَدِهِمَا فَضْلًا من أَوْلَادِهَا وَأَلْبَانِهَا لم تَجُزْ بِالْإِجْمَاعِ". (بدائع الصنائع میں ہے: (6/6۲۔کتاب الشرکة، فَصْلٌ وَأَمَّا بَيَانُ شَرَائِطِ جَوَازِ هذه الْأَنْوَاعِ۔ط/سعید)

"دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافًا فالإجارة فاسدة ... والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه، ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما". ( الھندیۃ : 4/۵۰4، کتاب الإجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان)

"بِخِلَافِ الزَّوَائِدِ فَإِنَّهَا تَتَوَلَّدُ مِنْ الْمِلْكِ فَإِنَّمَا تَتَوَلَّدُ بِقَدْرِ الْمِلْكِ". ((المبسوط للسرخسي:۱۵/6، کتاب القسمة،  الناشر:دار المعرفة – بيروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2242/44-2384

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح دیگر تجارتی انشورنس خریدنا بلاشدید مجبوری کے جائز نہیں ہے، اسی طرح موبائل کا انشورنس خریدنا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں بھی  جہالت اور دھوکہ ہے۔ یعنی ایسا ممکن ہے کہ آپ کا موبائل بالکل خراب نہ ہو تو آپ نے انشونس کے نام پر جو پیسے جمع کئے وہ ڈوب گئے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا موبائل خراب ہو جائے اور اس کی اصلاح میں آپ کی جمع شدہ رقم سے کئی گنا زیادہ رقم انشورنس کمپنی کو برداشت کرنا پڑے، بس یہی سود ، دھوکہ اور جہالت کا مفہوم ہے، اس لئے موبائل کا انشونس شرعا جائز نہیں ہے۔

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص". (شامی، کتاب الحظر و الاباحۃ، فصل فی البیع، ج:۶ ؍۴۰۳ ،ط:سعید)

"أنواع التأمين:التأمين من حيث الشكل نوعان: ۱  - تأمين تعاوني ...

۲  - تأمين تجاري أو التأمين ذو القسط الثابت، وهو المراد عادة عند إطلاق كلمة التأمين، وفيه يلتزم المستأمن بدفع قسط معين إلى شركة التأمين القائمة على المساهمة، على أن يتحمل المؤمن (الشركة) تعويض الضرر الذي يصيب المؤمن له أو المستأمن. فإن لم يقع الحادث فقد المستأمن حقه في الأقساط، وصارت حقا للمؤمن. وهذا النوع ينقسم من حيث موضوعه إلى:

 ۱  - تأمين الأضرار: وهو۔۔۔۔۔۔ ۲  - وتأمين الأشخاص: وهو يشمل:

التأمين على الحياة: وهو أن يلتزم المؤمن بدفع مبلغ لشخص المستأمن أو للورثة عند الوفاة، أو الشيخوخة، أو المرض أو العاهة، بحسب مقدار الإصابة.

والتأمين من الحوادث الجسمانية: وهو أن يلتزم المؤمن بدفع مبلغ معين إلى المؤمن له في حالة إصابته أثناء المدة المؤمن فيها بحادث جسماني، أو إلى مستفيد آخر إذا مات المستأمن ... أما التأمين التجاري أو التأمين ذو القسط الثابت: فهو غير جائز شرعا، وهو رأي أكثر فقهاء العصر ... وسبب عدم الجواز يكاد ينحصر في أمرين: هما الغرر والربا. أما الربا: فلا يستطيع أحد إنكاره؛ لأن عوض التأمين ناشئ من مصدر مشبوه قطعا؛ لأن كل شركات التأمين تستثمر أموالها في الربا، وقد تعطي المستأمن (المؤمن له) في التأمين على الحياة جزءا من الفائدة، والربا حرام قطعا في الإسلام ... والربا واضح بين العاقدين: المؤمن والمستأمن، لأنه لا تعادل ولا مساواة بين أقساط التأمين وعوض التأمين، فما تدفعه الشركة قد يكون أقل أو أكثر، أو مساويا للأقساط، وهذا نادر۔ والدفع متأخر في المستقبل. فإن كان التعويض أكثر من الأقساط، كان فيه ربا فضل وربا نسيئة، وإن كان مساويا ففيه ربا نسيئة، وكلاهما حرام ...

 (الفقہ الاسلامی و ادلتہ،القسم الثالث:العقوداو التصرفات المدنیۃ،انواع التامین،ج:۵ ؍۳۴۲۱۔۔۳۴۲۵،ط:دارالفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1936/44-1862

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(1)  جوشخص آن لائن کسی کمپنی میں کوئی کام کرے، اور اس کے عوض کمپنی کوئی رقم دے، تو یہ جائز ہے۔ اسی طرح اگر کمپنی کے ضابطہ کے مطابق کسی کو کمپنی سے جوڑنے پر کوئی انعام ملے تو وہ بھی جائز ہے کہ بندہ نے محنت کرکے ایک آدمی کو جوڑا ہے۔ البتہ دوسرے لوگ جن کے کمپنی کے ساتھ جوڑنے میں اس بندہ کا کوئی دخل نہیں ہے ، ان کے بدلے کوئی معاوضہ لینا شرعا جائز نہیں ہے۔ (2) اگر کمپنی کی شرط ہو کہ آپ کے اکاؤنٹ میں ایک متعین رقم رہنا ضروری ہے  اور پھر کمپنی آپ کے کام کے عوض اس میں اضافہ کرے تو درست ہے، اور اگر پیسے کاؤنٹ میں رکھنے پر پیسے بڑھتے رہیں اور جتنی رقم (کم یا زیادہ) رکھی جائے اسی تناسب سے اضافہ ہو تو یہ سود ہے جو حرام ہے اور اس سے بچنا لازم ہے۔ (3) پیسے رکھنے پر بلاکسی عمل کے پیسے میں اضافہ سود ہے جو حرام ہے۔

حدثنا ‌قتيبة، قال: حدثنا ‌أبو عوانة ، عن ‌سماك بن حرب، عن ‌عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود ، عن ‌ابن مسعود قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل ‌الربا وموكله وشاهديه وكاتبه»." ) سننِ ترمذی باب ما جاء في أكل الربا، ج:2، ص:496، ط: دار الغرب الإسلامي – بيروت(

قوله: كل قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر وعن الخلاصة. وفي الذخيرة: وإن لم يكن النفع مشروطًا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به، ويأتي تمامه. (شامی، کتاب البیوع،فصل فی القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج : 5، ص : 166 ،ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند 

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 38 / 1194

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دو سو ڈالر دے کر چار سو ڈالر حاصل کرنا کھلا سود ہے، اس لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔  اگر کوئی اور تفصیل ہو تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ استفتاء بھیجیں۔

 ۔   واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1101/42-321

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سود کی حرمت مطلق ہے، ہندوستان میں بھی حتی الامکان سود سے بچنے  کی کوشش ہونی چاہئے۔ جہاں نہیں بچ سکتے ہیں جیسے بینک میں تو وہاں سود کی رقم بینک سے نکال کر بلا نیت ثواب صدقہ کردینا چاہئے۔

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس
محترم مفتیان کرام السلام علیکم۔ ایک ضروری مسئلہ ھے۔ایک کمپنی ھے وہ اڈے کے مالکان سے کہتے ہیں کہ آپ ھر سواری سے 20 روپے اضافہ کرایہ کے علاوہ لے اور ہمیں دے دیں۔ اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ھوجائے تو ھم اس فنڈ سے میت کے ورثا کو(5) پانچ لاکھ روپے دینگے اور گاڈی کو نقصان کی صورت میں (20 )بیس لاکھ روپے گاڈی پر خرچ کرینگے۔اور کوئی حادثہ نہ ھو جائے تو ھم اس فنڈ سے غریبوں پر خرچ کرینگے۔آیا یہ معاملہ جائز ھے یا حرام تفصیل سے جواب دے کر وضاحت کریں۔بینوا توجروا

ربوٰ وسود/انشورنس
https://dud.edu.in/darulifta/?qa=3091/%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%8C-%DA%AF%D9%88%DA%AF%D9%84-%D9%81%D8%B1%DB%8C-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%92-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2-%DA%A9%DB%92%DB%94%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&show=3091#q3091

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 916/41-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بینک سے سود کی رقم حاصل ہوئی ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو بلا نیت ثواب غرباء  پر خرچ کردیا جائے ، رفاہ عام میں خرچ کرنا یا رشوت میں خرچ کرنا درست نہیں ہے اس لیے  مسجد کا مذکورہ سودی پیسے سے مسجد کی نالی کی صفائی کرانا یا رشوت دینا درست نہیں ۔اس لیے کہ رفاہی کاموں میں صرف کرنا یا رشوت میں دینا درحقیقت سود سے نفع حاصل کرنا ہے جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے ۔عن أبي هريرة، أن رسولَ الله -صلَّى الله عليه وسلم- قال: "لَيأتيننَّ على النَّاس زمانٌ لا يبقَى أحدٌ إلا أكل الرِّبا، فإن لم يأكله أصابه من بُخارِه(سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر :٣٣٣١)فتاوی شامی میں ہے :ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه (فتاوي شامي 6/385)

  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند