Frequently Asked Questions
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1091/42-280
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح ہوم لون لینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے کیونکہ بینک سے حاصل شدہ سود کی رقم وہ شخص لون کی وجہ سے لازم ہونے والے سود کی رقم میں ادا کررہا ہے اور بینک بھی ایک ہی ہے۔ البتہ اگر شدید مجبوری نہ ہو تو ہوم لون سے احتراز کرنا چاہئے۔ (نظام الفتاوی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 987/41-146
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سود کی رقم رفاہی کاموں میں استعمال کرنا درست نہیں ہے،۔ سود کا مصرف بھی وہی ہے جو زکوۃ کا ہے اور اس میں تملیک ضروری ہے ۔ اس لئے کسی مستحق اور غریب کو سود کی رقم دیدی جائے ۔
وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه اهـ (شامی 6/385)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2460/45-3771
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پینشن کی رسیدیں اور بینک کے چیک خریدنے سے کیا مراد ہے، اور خریداری کے بعد کمیشن لینے کا کیا مطلب ہے، یہ چیزیں سوال میں واضح نہیں ہیں، سائل پر لازم ہے کہ پہلے اس کاروبار کی مکمل تفصیل تحریر کرے، پھر تفصیلی جواب لکھاجائےگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 40/864
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کی اسکیم سے فائدہ اٹھانا درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس پر سود کی تعریف صادق آتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1198/42-491
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ادھار قسط وار بیع میں نقد ثمن کے مقابلہ میں زیادہ قیمت وصول کرنا درست ہے بشرط کہ عقد کے وقت ہی ایک معاملہ طے کرلیا جائے اور قسط وار کی وجہ سے جو اضافی رقم دی جاتی ہے وہ سود نہیں ہے بلکہ قیمت کا ہی حصہ ہے۔ مذکورہ صورت میں اگر گاڑی کو فائنانس کے ذریعہ قسط وار خریدا اور فائنانس کا معاملہ براہ راست کمپنی سے ہے بینک سے نہیں ہے تو اس صورت میں قسط وار خریدنے کی یہ صورت درست ہے۔ البیع مع تاجیل الثمن وتقسیطہ صحیح، یلزم ان تکون المدۃ معلومۃ فی البیع بالتاجیل والتقسیط (شرح المجلۃ، رقم المادۃ 245/246) والثمن ماتراضی علیہ المتعاقدان سواء زاد علی القیمۃ او نقص (ردالمحتار علی الدرالمختار: 1227، مطلب فی الفرق بین القیمۃ والثمن، ط زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 886 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔کمیٹی میں کسی کو کم یا زیادہ رقم نہ ملے بلکہ صرف یہ مقصود ہو کہ ہر ایک کو اکٹھی رقم مل جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
سوال مذکور کا جواب دیا جاچکا ہے، فتوی نمبر 886 دیکھئے۔
Ref. No. 886 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔کمیٹی میں کسی کو کم یا زیادہ رقم نہ ملے بلکہ صرف یہ مقصود ہو کہ ہر ایک کو اکٹھی رقم مل جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1462/42-898
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ بینکوں کا طریقہ کار کیا ہے، ہمیں نہیں معلوم۔ جن علماء کو جو تفصیلات بتائی گئیں ان کے مطابق انھوں نے جواز اور عدم جواز کافتوی دیا ہوگا۔ اس سلسلہ میں دونوں فریق اگر مل بیٹھ کر تفصیلات پر گفتگو کریں تو فیصلہ آسان ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2241/44-2410
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعا ایسا لون لینا جائز ہے جس میں سود نہ دینا پڑے، اور اس کی جو مدت بلاسود کے متعین ہو اس میں ادائیگی کردی جائے۔
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾[البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]
’’عن عبد اللّٰه بن حنظلة غسیل الملائکة أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم قال: لَدرهمُ ربًا أشد عند اللّٰه تعالٰی من ست وثلاثین زنیةً في الخطیئة‘‘. (دار قطني)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 253/45-4092
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جانوروں کو شرکت پر دینے کی جو صورت آپ نے بیان کی ہے اس میں شرعی طور پر کئی مفاسد ہیں اس وجہ سے علماء نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے۔ در اصل شرعی ضابطہ یہ ہے کہ آدمی اپنے عمل کی اجرت دوسرے سے نہیں لے سکتاہے، اسی طرح اپنے کئے ہوئے کام میں سے اپنی مزدوری نہیں لے سکتاہے جیسے گیہوں پیس کر آٹے میں سے بطور اجرت کے لینا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح جانور پالنے کی مزدوری میں سے جانور لینا درست نہیں ہےنیز یہ بھی اصول ہے کہ جو شریک ہوگا وہ اجیر نہیں بن سکتاہے۔ جبکہ صورت مذکورہ میں وہ شریک بھی ہے اور اجیر بھی ہے، اور اپنے عمل میں سے مزدوری بھی وصول کررہاہے۔ ان مفاسد کی بناء پر جانور پال پر دینا جائز نہیں ہے۔
جواز کی آسان شکل یہ ہے کہ (1) فریق اول جانور خرید کر پالنے کے لئے فریق ثانی کو ماہانہ یا روزانہ کی مزدوری پر دیدےاور پالنے کی اجرت طے کرلے۔ (اس صورت میں دودھ اور بچے کا مالک فریق اول ہی ہوگا)۔ (2) فریق اول اپنے پیسوں سے جانور خریدے اور پھرفریق ثانی کے ہاتھ اس کا آدھا حصہ آدھی قیمت پر بیچ دے ،پھر پیسے معاف کردے،تو دونوں کے درمیان وہ جانور مشترک ہوجائے گا، اب اس جانورسے جو دودھ یا بچے حاصل ہوں گے دونوں برابرکے حصہ دارہوں گے۔ (3) دونوں فریق پیسے ملا کرجانور خریدیں، ایسی صورت میں دونوں اپنی مالیت کے بقدر دودھ اور بچے میں شریک ہوں گے ۔ البتہ اگر کسی نے مذکورہ معاملہ کرلیا تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو جائز قراردیاہے۔ (امداد الفتاوی۔3/342)
"رجل دفع بقرةً إلى رجل بالعلف مناصفةً، وهي التي تسمى بالفارسية "كاونيم سوو" بأن دفع على أن ما يحصل من اللبن والسمن بينهما نصفان، فهذا فاسد، والحادث كله لصاحب البقرة، والإجارة فاسدة". (خلاصة الفتاوی:۳/۱۱4۔کتاب الإجارة، الجنس الثالث في الدواب) "وَلَا خِلَافَ في شَرِكَةِ الْمِلْكِ أَنَّ الزِّيَادَةَ فيها تَكُونُ على قَدْرِ الْمَالِ حتى لو شَرَطَ الشَّرِيكَانِ في مِلْكِ مَاشِيَةٍ لِأَحَدِهِمَا فَضْلًا من أَوْلَادِهَا وَأَلْبَانِهَا لم تَجُزْ بِالْإِجْمَاعِ". (بدائع الصنائع میں ہے: (6/6۲۔کتاب الشرکة، فَصْلٌ وَأَمَّا بَيَانُ شَرَائِطِ جَوَازِ هذه الْأَنْوَاعِ۔ط/سعید)
"دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافًا فالإجارة فاسدة ... والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه، ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما". ( الھندیۃ : 4/۵۰4، کتاب الإجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان)
"بِخِلَافِ الزَّوَائِدِ فَإِنَّهَا تَتَوَلَّدُ مِنْ الْمِلْكِ فَإِنَّمَا تَتَوَلَّدُ بِقَدْرِ الْمِلْكِ". ((المبسوط للسرخسي:۱۵/6، کتاب القسمة، الناشر:دار المعرفة – بيروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند