ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 38 / 1194

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دو سو ڈالر دے کر چار سو ڈالر حاصل کرنا کھلا سود ہے، اس لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔  اگر کوئی اور تفصیل ہو تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ استفتاء بھیجیں۔

 ۔   واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1101/42-321

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سود کی حرمت مطلق ہے، ہندوستان میں بھی حتی الامکان سود سے بچنے  کی کوشش ہونی چاہئے۔ جہاں نہیں بچ سکتے ہیں جیسے بینک میں تو وہاں سود کی رقم بینک سے نکال کر بلا نیت ثواب صدقہ کردینا چاہئے۔

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس
محترم مفتیان کرام السلام علیکم۔ ایک ضروری مسئلہ ھے۔ایک کمپنی ھے وہ اڈے کے مالکان سے کہتے ہیں کہ آپ ھر سواری سے 20 روپے اضافہ کرایہ کے علاوہ لے اور ہمیں دے دیں۔ اگر خدانخواستہ کوئی حادثہ ھوجائے تو ھم اس فنڈ سے میت کے ورثا کو(5) پانچ لاکھ روپے دینگے اور گاڈی کو نقصان کی صورت میں (20 )بیس لاکھ روپے گاڈی پر خرچ کرینگے۔اور کوئی حادثہ نہ ھو جائے تو ھم اس فنڈ سے غریبوں پر خرچ کرینگے۔آیا یہ معاملہ جائز ھے یا حرام تفصیل سے جواب دے کر وضاحت کریں۔بینوا توجروا

ربوٰ وسود/انشورنس
https://dud.edu.in/darulifta/?qa=3091/%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%8C-%DA%AF%D9%88%DA%AF%D9%84-%D9%81%D8%B1%DB%8C-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%8C-%DA%A9%D8%B1%D9%86%DB%92-%D9%BE%DB%8C%D8%B3%DB%92-%D9%85%D9%84%D8%AA%DB%92-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2-%DA%A9%DB%92%DB%94%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA&show=3091#q3091

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 916/41-000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بینک سے سود کی رقم حاصل ہوئی ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو بلا نیت ثواب غرباء  پر خرچ کردیا جائے ، رفاہ عام میں خرچ کرنا یا رشوت میں خرچ کرنا درست نہیں ہے اس لیے  مسجد کا مذکورہ سودی پیسے سے مسجد کی نالی کی صفائی کرانا یا رشوت دینا درست نہیں ۔اس لیے کہ رفاہی کاموں میں صرف کرنا یا رشوت میں دینا درحقیقت سود سے نفع حاصل کرنا ہے جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے ۔عن أبي هريرة، أن رسولَ الله -صلَّى الله عليه وسلم- قال: "لَيأتيننَّ على النَّاس زمانٌ لا يبقَى أحدٌ إلا أكل الرِّبا، فإن لم يأكله أصابه من بُخارِه(سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر :٣٣٣١)فتاوی شامی میں ہے :ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه (فتاوي شامي 6/385)

  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1116/42-342

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سودی معاملات پر مبنی ہونے کی وجہ سے انشورنس کمپنی میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہے۔  

عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (مسلم 2/72)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 37/1194

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر قسط وار خریدنے سے پہلے پوری قیمت اور میعاد طے ہوجائے تو ایسی صورت میں قسطوں پر گاڑی لینا درست ہے۔ اور اضافی رقم جو قیمت میں شامل کردی گئی ہے وہ شرعا لون نہیں ہے خواہ اسے لون وغیرہ کا نام دیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 909/41-24B

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت میں مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ہے،

و فی شرح الآثار  التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام ثم نسخ والحاصل ان المذھب عدم التعزیر بالمال۔  شرح الآثار 4/61)

شریعت کے خلاف فیصلہ کرنا موجب گناہ ہے،۔ ارشاد باری ہے جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف  حکم  جاری کریں  وہ نافرمان اور سرکش ہیں۔ (المائدہ 47)

چونکہ مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ہے، اس لئے وہ رقم مالک کو واپس کرنی ضروری ہے۔ مالی جرمانہ  اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1570/43-1236

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوم لون سودی قرض پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔ بلا ضرورت شدیدہ سودی معاملہ کرنا اللہ تعالی اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔  اور مندرجہ بالا وجوہات کسی مجبوری کی حالت کو نہیں بتاتے، اس لئے صورت مذکورہ میں ہوم لون کی اجازت نہیں ہوگی۔ انتہائی مجبوری ، اور جان و مال کے خطرہ کے وقت  ہی اس کی گنجائش دی جاسکتی ہے ورنہ تھوڑی بہت ضرورت تو ہر ایک کو رہتی ہے۔ البتہ والد محترم کی مکان نہ بیچنے کی شرط اگر پوری نہیں ہوسکتی ہے تو کوئی حرج نہیں، اب آپ اس پلاٹ کے پورے مالک ہیں  بوقت ضرورت آپ کے لئے اس کو فروخت کرنا  بھی جائز ہے۔

﴿ يا أيها الذين اٰمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا ان كنتم مؤمنين فان لمتفعلوا فأذنوا بحرب من اللهورسوله وإن تبتم فلكم رءوس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة وأن تصدقوا خير لكم إن كنتم تعلمون﴾ ( البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ )

وفي فتاوى أبي الليث - رحمه الله تعالى - سئل أبو نصر عن رجل قال لآخر: أبرأتك عن الحق الذي لي عليك على أني بالخيار، قال: البراءة جائزة والخيار باطل، ألا يرى أنه لو وهب له شيئا على أنه بالخيار جازت الهبة وبطل الخيار فالبراءة أولى، كذا في المحيط. (الھندیۃ، الباب الثامن فی حکم الشرط فی الھبۃ 4/396)  ولو قال هي لك عمرى تسكنها أو هبة تسكنها أو صدقة تسكنها ودفعها إليه فهو هبة لأنه ما فسر الهبة بالسكنى لأنه لم يجعله نعتا فيكون بيانا للمحتمل بل وهب الدار منه ثم شاوره فيما يعمل بملكه والمشورة في ملك الغير باطلة فتعلقت الهبة بالعين (بدائع، فصل فی شرائط رکن الھبۃ 6/118)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس
هندوستان كے موجودة حالات كے مد نظر هوم لون (HOME LINE) لينےكا كيا حكم هے؟؟؟