زیب و زینت و حجاب

 

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ضرورت کی وجہ سے پردہ کے اہتمام کے ساتھ تجارت کی گنجائش ہے۔ اور جو خوشبو خود ہی آجائے اس پر بھی وہ مستحق مواخذہ نہیں ہے۔ فتنہ اور اس کے اسباب سے حفاظت ضروری ہے۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 1997/44-1954

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی مسافت پر جانے کے لئے عورت کو شرعا  لازم ہے کہ وہ محرم کے ساتھ ہی جائے، اور بلامحرم سفر کرنے کو ناجائز قرار دیاگیا۔ البتہ اگر عورت  مقامی طور پر کہیں جانا چاہے ، مثلااپنے رشتہ داروں سے  ملنے یابچوں کو اسکول چھوڑنے یا دوسرے کاموں کے لئے، تو اس کو اکیلے جانے کی شرعا  اجازت ہے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ عورت کا تحفظ اس کے اپنے گھر کی چہاردیواری میں ہی رہنے میں ہے۔  عورت گرچہ مذکورہ مقاصد کے لئے گھر سے نکل سکتی ہے لیکن پھر بھی شریعت سے اس کے باہر نکلنے کو پسند نہیں کیاہے، اور حدیث میں ہے کہ جب عورت باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کے پیچھے لگ جاتاہے۔ اس لئے خواتین کو چاہئے کہ جو کام گھر کے مرد کرسکتے ہوں ، وہ کام  ان سے کہہ کر کرالیں ، اور اگر عورت کوباہر جانا ہو تو کوئی محرم ساتھ میں لے کر چلاجائے۔ لڑکی اور جوان عورتوں کا گھر سے تنہا نکلنا بھی مفسدہ کا پیش خیمہ ہوسکتاہے۔ اس لئے موجودہ دَور میں خاص طور پر احتیاط کی ضرورت ہے، اور عورتوں کا اصل سرمایہ اس کی عفت و عصمت ہے، جس کا تحفط مردوعورت دونوں کو مل کر کرنا ہوگا۔ اللہ حفاظت فرمائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 984

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اس سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ جن عورتوں سے نکاح جائز ہوتا ہے ان سے پردہ بھی  لازم ہوتاہے، اور جو عورتیں محرمات  ابدیہ ہوں ان سے پردہ لازم نہیں ہوتا ہے۔  صورت مذکورہ میں زید کی دوسری بیوی سے زید کے داماد کا پردہ لازم ہے۔   اور جن عورتوں سے پردہ ہے ان سے ہر حال میں پردہ ہے؛ عدت کے ایام میں اور عدت کے ایام کے علاوہ میں  بھی ان سے پردہ لازم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 1177/42-432

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

زیرِ ناف بال ناف کے متصل نیچے سے ہی صاف کرلینے چاہییں۔ جہاں نجاست لگنے کا زیادہ امکان رہتاہے وہاں تک بال کاٹیں اس کے علاوہ رانوں کے بال کاٹنے کی ضرورت نہیں۔پاخانے کے مقام کے بال بھی زیرِ ناف بالوں کی طرح کاٹنا ضروری ہے تاکہ بوقتِ ضرورت صرف  پتھر سے استنجا کرنے کی صورت میں نجاست کی تلویث سے بچاجاسکے۔

"ويبتدئ في حلق العانة من تحت السرة، ولو عالج بالنورة في العانة يجوز، كذا في الغرائب".   (فتاوی ہندیہ 5 / 358)

"والعانة: الشعر القريب من فرج الرجل والمرأة، ومثلها شعر الدبر، بل هو أولى بالإزالة ؛ لئلايتعلق به شيء من الخارج عند الاستنجاء بالحجر". (رد المحتار علی الدر المختار،2 / 481) 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 38 / 1143

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پالش اتارکر صرف ہاتھ دھولینے سے غسل صحیح ہوجائے گا۔ دوبارہ غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 892/41-18B

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ بال بھی داڑھی کے حکم میں ہے، اور اس کا رکھنا واجب ہے۔ جو لوگ اپنا عمل اس کے خلاف رکھتے ہیں وہ بدعت کے مرتکب ہیں۔ 

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِى إِسْحَاقَ عَنْ وَهْبٍ أَبِى جُحَيْفَةَ السُّوَائِىِّ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِىَّ - صلى الله عليه وسلم - وَرَأَيْتُ بَيَاضًا مِنْ تَحْتِ شَفَتِهِ السُّفْلَى الْعَنْفَقَةَ. (فیض الباری 4/434) نتف الفنبكين بدعة وهما جانبا العنفقة وهي شعر الشفة السفلى۔ (الدرالمختار 6/407)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 1427/42-864

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر کالے نشان کو بلاؤں اور مصیبتوں سے بچانے والا تصور کیا جائے اور اس عقیدہ کے ساتھ لگایا جائے تو جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسا عقیدہ نہ ہو بلکہ محض تحسین مقصود ہو تو پھر اس کی گنجائش ہے۔

کما فی مرقاۃ المفاتیح: روي أن عثمان - رضي الله عنه - رأى صبيا مليحا فقال: دسموا نونته كيلا تصيبه العين، ومعنى دسموا: سودوا، والنونة النقرة التي تكون في ذقن الصبي الصغير (ج: 7، ص: 2807، ط: دار الفکر) وفی حجۃ الله البالغۃ: والعين حق وحقيقتها تأثير إلمام نفس العائن وصدمة تحصل من إلمامها بالمعين، وكذا نظرة الجن وكل حديث فيه نهي عن الرقى والتمائم والتولة محمولة على ما فيه شرك أو انهماك في التسبب بحيث يغفل عن البارى جل شأنه.(ج: 2، ص: 300، ط: دار الجیل)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 1313/42-682

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا دوپٹہ جس سے سر کے بال صاف نظر آئیں ، اس کو پہننا اور نا پہننا برابر ہے۔ جن لوگوں کے سامنے ننگے سر رہنا جائز ہے جیسے والد، بھائی، چچا وغیرہ ،تو ان کے سامنے ایسا دوپٹہ اوڑھنا بھی جائزہے۔البتہ بہتر ہے کہ ایسا دوپٹہ استعمال کرے جو موٹا ہو یا اس کا رنگ ایسا ہو کہ اندر کا حصہ  نظر نہ آئے۔  

"إذا کان الثوب رقیقًا بحیث یصف ما تحته أي لون البشرة لایحصل به سترة العورة؛ إذ لاستر مع رؤیة لون البشرة". (حلبی کبیر، ص:214، ط: سهيل  أکادمي لاهور) قال العلامۃ المرغینانی رحمہ اللہ:قال: وينظر الرجل من ذوات محارمه إلى الوجه والرأس والصدر والساقين والعضدين. ولا ينظر إلى ظهرها وبطنها وفخذها. والأصل فيه قوله تعالى: {وَلاَ يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلاَّ لِبُعُولَتِهِنَّ} [النور:31] ، والمراد والله أعلم مواضع الزينة ،وهي ما ذكر في الكتاب، ويدخل في ذلك الساعد والأذن والعنق والقدم؛ لأن كل ذلك موضع الزينة، بخلاف الظهر والبطن والفخذ؛ لأنها ليست من مواضع الزينة، ولأن البعض يدخل على البعض من غير استئذان واحتشام ،والمرأة في بيتها في ثياب مهنتها عادة، فلو حرم النظر إلى هذه المواضع أدى إلى الحرج، وكذا الرغبة تقل للحرمة المؤبدة، فقلما تشتهى، بخلاف ما وراءها، لأنها لا تنكشف عادة (الهداية :4/ 370) قوله:( ومن عرسه وأمته): فينظر الرجل منهماوبالعكس إلى جميع البدن من الفرق إلى القدم ولو عن شهوة؛لأن النظر دون الوطء الحلال ،قهستاني (رد المحتار:6/ 366) عن علقمة عن أمه أنها قالت :دخلت حفصة بنت عبد الرحمن على عائشة ،زوج النبي صلى الله عليه و سلم،وعلى حفصة خماررقيق،فشقته عائشة، وكستها خمارا كثيفا (الموطأ :2/ 913)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 897/41-

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال خواتین کے لئے ہر قسم کے زیورات کا استعمال درست ہے سوائے انگوٹھی کے۔ انگوٹھی اور دیگر زیورات میں نص کی وجہ سے فرق ہے۔ انگوٹھی کے متعلق احادیث میں صراحت ہے کہ سونے اور چاندی کے علاوہ نہ ہو، لہذا خواتین کے لئے صرف سونے اور چاندی کی انگوٹھی جائز ہے اور مَردوں کے لئے صرف چاندی کی۔ سونے اور چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کی انگوٹھی استعمال کرنے  پر احادیث میں سخت وعید آئی ہے؛ اسے جہنمیوں کا زیور قراردیا ہے۔

عن عبدِ الله بنِ بُريدة عن أبيه: أن رجلاً جاء إلى النبيِّ -صلَّى الله عليه وسلم- وعليه خاتِمٌ من شَبَهٍ، فقال له: "ما لي أجِدُ مِنْكَ رِيحَ الأصنامِ؟ " فطرحه، ثم جاء وعليه خاتِمٌ من حديدٍ، فقال: "ما لي أرى عليكَ حِليةَ أهلِ النارِ؟ " فطرحَهَ، فقال: يا رسولَ الله - صلَّى الله عليه وسلم -، مِن أيِّ شيءٍ أتَّخِذُه؟ قال: اتَّخِذْهُ من وَرِقٍ، ولا تُتِمَّهُ مِثقالاً" (سنن ابی داؤد 6/281)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 2528/45-3877

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محرم کے سامنے ستر پیٹ پیٹھ سمیت گھٹنے تک ہے، سر اور سینے کے اوپر کا حصہ آگے یا پیچھے ستر میں نہیں ہے گوکہ اس کا   بھی چھپانا بہتر ہے۔ ایک مسلمان عورت دوسری مسلمان عورت کی ناف اور گھٹنے کے درمیانی حصہ کے علاوہ تمام بدن دیکھ سکتی ہے۔ غیرمسلم عورت کے سامنے پیٹ، پیٹھ ، سینہ اور پنڈلیاں چھپانا ضروری ہے۔

وینظر الرجل من ذوات محارمہ الی الوجہ والراس والصدر   ۔ ۔ ۔ ولاینظر الی ظھرھا وبطنھا وفخذھا (ھدایہ 4/461)

الظھر ماقابل البطن من تھت الصدر الی السرۃ ای فما حاذی الصدر لیس من الظھر الذی ھو عورۃ ، ومقتضی ھذا ان الصدر وماقابلہ من الخلف لیس من العورۃ وان الثدی ایضا غیر عورۃ (شامی 2/77، زکریا دیوبند)

وتنظر المراۃ المسلمۃ من المراۃ کالرجل من الرجل وقیل کالرجل لمحرمہ والاول اصح ، سراج، وکذا تنظر المراۃ من الرجل کنظر الرجل للرجل ان امنت شھوتھا (درمختار 6/371)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند