Frequently Asked Questions
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 1313/42-682
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا دوپٹہ جس سے سر کے بال صاف نظر آئیں ، اس کو پہننا اور نا پہننا برابر ہے۔ جن لوگوں کے سامنے ننگے سر رہنا جائز ہے جیسے والد، بھائی، چچا وغیرہ ،تو ان کے سامنے ایسا دوپٹہ اوڑھنا بھی جائزہے۔البتہ بہتر ہے کہ ایسا دوپٹہ استعمال کرے جو موٹا ہو یا اس کا رنگ ایسا ہو کہ اندر کا حصہ نظر نہ آئے۔
"إذا کان الثوب رقیقًا بحیث یصف ما تحته أي لون البشرة لایحصل به سترة العورة؛ إذ لاستر مع رؤیة لون البشرة". (حلبی کبیر، ص:214، ط: سهيل أکادمي لاهور) قال العلامۃ المرغینانی رحمہ اللہ:قال: وينظر الرجل من ذوات محارمه إلى الوجه والرأس والصدر والساقين والعضدين. ولا ينظر إلى ظهرها وبطنها وفخذها. والأصل فيه قوله تعالى: {وَلاَ يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلاَّ لِبُعُولَتِهِنَّ} [النور:31] ، والمراد والله أعلم مواضع الزينة ،وهي ما ذكر في الكتاب، ويدخل في ذلك الساعد والأذن والعنق والقدم؛ لأن كل ذلك موضع الزينة، بخلاف الظهر والبطن والفخذ؛ لأنها ليست من مواضع الزينة، ولأن البعض يدخل على البعض من غير استئذان واحتشام ،والمرأة في بيتها في ثياب مهنتها عادة، فلو حرم النظر إلى هذه المواضع أدى إلى الحرج، وكذا الرغبة تقل للحرمة المؤبدة، فقلما تشتهى، بخلاف ما وراءها، لأنها لا تنكشف عادة (الهداية :4/ 370) قوله:( ومن عرسه وأمته): فينظر الرجل منهماوبالعكس إلى جميع البدن من الفرق إلى القدم ولو عن شهوة؛لأن النظر دون الوطء الحلال ،قهستاني (رد المحتار:6/ 366) عن علقمة عن أمه أنها قالت :دخلت حفصة بنت عبد الرحمن على عائشة ،زوج النبي صلى الله عليه و سلم،وعلى حفصة خماررقيق،فشقته عائشة، وكستها خمارا كثيفا (الموطأ :2/ 913)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 897/41-
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال خواتین کے لئے ہر قسم کے زیورات کا استعمال درست ہے سوائے انگوٹھی کے۔ انگوٹھی اور دیگر زیورات میں نص کی وجہ سے فرق ہے۔ انگوٹھی کے متعلق احادیث میں صراحت ہے کہ سونے اور چاندی کے علاوہ نہ ہو، لہذا خواتین کے لئے صرف سونے اور چاندی کی انگوٹھی جائز ہے اور مَردوں کے لئے صرف چاندی کی۔ سونے اور چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کی انگوٹھی استعمال کرنے پر احادیث میں سخت وعید آئی ہے؛ اسے جہنمیوں کا زیور قراردیا ہے۔
عن عبدِ الله بنِ بُريدة عن أبيه: أن رجلاً جاء إلى النبيِّ -صلَّى الله عليه وسلم- وعليه خاتِمٌ من شَبَهٍ، فقال له: "ما لي أجِدُ مِنْكَ رِيحَ الأصنامِ؟ " فطرحه، ثم جاء وعليه خاتِمٌ من حديدٍ، فقال: "ما لي أرى عليكَ حِليةَ أهلِ النارِ؟ " فطرحَهَ، فقال: يا رسولَ الله - صلَّى الله عليه وسلم -، مِن أيِّ شيءٍ أتَّخِذُه؟ قال: اتَّخِذْهُ من وَرِقٍ، ولا تُتِمَّهُ مِثقالاً" (سنن ابی داؤد 6/281)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 2528/45-3877
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محرم کے سامنے ستر پیٹ پیٹھ سمیت گھٹنے تک ہے، سر اور سینے کے اوپر کا حصہ آگے یا پیچھے ستر میں نہیں ہے گوکہ اس کا بھی چھپانا بہتر ہے۔ ایک مسلمان عورت دوسری مسلمان عورت کی ناف اور گھٹنے کے درمیانی حصہ کے علاوہ تمام بدن دیکھ سکتی ہے۔ غیرمسلم عورت کے سامنے پیٹ، پیٹھ ، سینہ اور پنڈلیاں چھپانا ضروری ہے۔
وینظر الرجل من ذوات محارمہ الی الوجہ والراس والصدر ۔ ۔ ۔ ولاینظر الی ظھرھا وبطنھا وفخذھا (ھدایہ 4/461)
الظھر ماقابل البطن من تھت الصدر الی السرۃ ای فما حاذی الصدر لیس من الظھر الذی ھو عورۃ ، ومقتضی ھذا ان الصدر وماقابلہ من الخلف لیس من العورۃ وان الثدی ایضا غیر عورۃ (شامی 2/77، زکریا دیوبند)
وتنظر المراۃ المسلمۃ من المراۃ کالرجل من الرجل وقیل کالرجل لمحرمہ والاول اصح ، سراج، وکذا تنظر المراۃ من الرجل کنظر الرجل للرجل ان امنت شھوتھا (درمختار 6/371)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 879 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: خنزیر نجس العین ہے اس کے کسی بھی جز کا کسی بھی طریقہ پر استعمال جائز نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 1447/42-915
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سیاہ بالوں کو کسی دوسرے رنگ میں رنگنافی نفسہ جائز ہے، مگر چونکہ آج کل بطور فیشن غیروں کی تقلید میں ایسا کیا جارہا ہے اس لئے مناسب نہیں ہے۔
الاختضاب بالورس والزعفران يشارك الاختضاب بالحناء والكتم في أصل الاستحباب. وقد اختضب بهما جماعة من الصحابة. روى أبو مالك الأشجعي، عن أبيه، قال: كان خضابنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الورس والزعفران (4) ، وقال الحكم بن عمرو الغفاري: دخلت أنا وأخي رافع على أمير المؤمنين عمر، وأنا مخضوب بالحناء، وأخي مخضوب بالصفرة، فقال عمر: هذا خضاب الإسلام. وقال لأخي رافع: هذا خضاب الإيمان (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، الاختضاب بالکتم والحناء 2/279)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 2527/45-3996
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ہماری معلومات کے مطابق 'بوٹوکس' ایک طرح کا پروٹین والا انجکشن ہے؛ جس کو جلد کے اوپری حصہ میں لگایا جاتاہے تاکہ پٹھوں کو محدود وقت کے لیے حرکت کرنے سے روکا جا سکے اور چہرے کی سکڑی ہوئی جلد کو چکنا اور برابر کرکے جھریوں کو مٹایاجاسکے، یعنی یہ انجکشن چہرے پر جھریوں کو ہموار کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ بوٹوکس انجکشن یا اس مقصد کے لئے استعمال ہونے والے دیگر انجکشن کا کام یہ ہوتاہے کہ وہ نیوروٹرانسمیٹر ایسٹیلکولین کے اخراج کو روک دیتے ہیں اور بعض نسوں میں روغن کی آمد و رفت کو روک دیتے ہیں ۔
ظاہر ہے یہ طریقہ علاج غیرفطری ہے، اس میں بہت سارے مضرات کا اندیشہ ہے ،۔ جو بیکٹریا ہمارے اجسام اور جلد کی حفاظت کے لئے ہیں ان کو مارنا یا ان کی فعالیت کو ختم کردیناکئی بیماریوں (جیسے بوٹولزم، فلیکسڈ فالج) کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔
انسان کو اللہ تعالی نے جس خلقت پر بنایا ہے اسی کو باقی رہنے میں اس کی بھلائی ہے، اس میں چھیڑچھاڑ سے ناقابل برداشت امراض کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔ اس لئے خوبصورتی کے لئے مذکورہ طریقہ علاج اختیار کرنا درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 2635/45-3999
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کے لئے رخسار، بازو، گردن، ٹانگوں اور رانوں کے بال صاف کرنا مباح ہے، اسی طرح سینہ حلق اور پیٹھ کے بال بھی صاف کرنے کی گنجائش ہے، البتہ ان بالوں کو نوچ کرنکالنا مناسب نہیں۔ حسن کے لیے بھنویں بنانا (دھاگا یا کسی اور چیز سے) یا اَبرو کے اطراف سے بال اکھاڑ کر باریک دھاری بنانا جائز نہیں، اس پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے۔
"( والنامصة إلخ ) ذكره في الاختيار أيضاً، وفي المغرب: النمص نتف الشعر ومنه المنماص المنقاش اهـ ولعله محمول على ما إذا فعلته لتتزين للأجانب، وإلا فلو كان في وجهها شعر ينفر زوجها عنها بسببه ففي تحريم إزالته بعد؛ لأن الزينة للنساء مطلوبة للتحسين، إلا أن يحمل على ما لا ضرورة إليه؛ لما في نتفه بالمنماص من الإيذاء. وفي تبيين المحارم: إزالة الشعر من الوجه حرام إلا إذا نبت للمرأة لحية أو شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب". (حاشية رد المحتار على الدر المختار (6/ 373)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 1463/42-897
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورتوں کے لئے کسی بھی دھات کی چوڑی پہننا جائز ہے۔
یباح للنساء من حلي الذہب والفضۃ والجواہر کل ما جرت عادتہن یلبسہ کالسوار، والخلخال، والقرط، والخاتم، وما یلبسہ علی وجوہہن وفي أعناقہن وأرجلہن وأذانہن وغیرہ۔ (اعلاء السنن 17/294) اتفق العلماء علی جواز تحلی المرأۃ بأنواع الجواہر النفیسیۃ کالیاقوت والعقیق واللؤلؤ۔(الموسوعۃ الفقھیۃ 18/112) ويباح للمرأة أن تتحلى من الذهب والفضة بما جرت به العادة، وهذا بإجماع العلماء، لكن لا يجوز لها أن تظهر حليها للرجال غير المحارم، بل تستره، خصوصا عند الخروج من البيت والتعرض لنظر الرجال إليها؛ لأن ذلك فتنة، وقد نهيت أن تسمع الرجال صوت حليها الذي في رجلها تحت الثياب فكيف بالحلي الظاهر؟ (تنبیھات علی ۔۔۔۔احکام تختص بالمؤمنات، 1/12)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 796
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: جمعہ کے روز سرمہ لگانا مسنون نہیں ہے ؛البتہ لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 1062 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ داڑھی رکھنا واجب ہے، اور ایک مشت پہونچنے سے پہلے کٹوانا بالاتفاق ناجائز ہے۔ حدیث میں آپ نے فرمایاخالفوا المشرکین واوفروا اللحی واحفوا الشوارب ﴿متفق علیہ﴾ یحرم قطع لحیتہ ﴿شامی﴾ واما الاخذمنھا ای من اللحیة وھی دون ذلک ای دون القبضة کمایفعلہ بعض المغاربةومخنثة الرجال فلم یبحہ احد واخذ کلھا فعل یھود الھند ومجوس الاعاجم فتح اہ ﴿درمختار﴾۔ حدیث شریف میں امر کا صیغہ ہے جو وجوب کے لئے ہوتا ہے جیسا ک فقہ کا قاعدہ ہے الامر للوجوب مالم تکن قرینة خلافہ۔ لہذا جب داڑھی بڑھانا واجب ہوا تواس کی ضد کٹوانا یقینا حرام ہوگا۔ اگر امر وجوب کے لئے نہ ہوتا تو احیاناًاس کے خلاف بھی منقول ہوتا مگر قولاً و فعلا ًکبھی بھی بیان جواز کے لئے اس کی نوبت نہیں آئی۔ چنانچہ مالکیہ وحنابلہ نے داڑھی منڈانے کو حرام اور حنفیہ وشوافع نے مکروہ تحریمی یعنی قریب بہ حرام قراردیا ہے۔ ﴿قاموس الفقہ / فقہ اسلامی﴾۔
رہا ایک مشت کی تحدید کا مسئلہ تو چونکہ الفاظ حدیث کاتقاضہ تھا کہ بڑھانے کی کوئی حد مقرر نہ ہوتی اور کٹانا بالکل جائز نہ ہوتا مگر حدیث کے راوی صحابی کا معمول تھا کہ ایک مشت سے جو مقدار آگے بڑھ جاتی اس کو کٹادیتے ۔ ایک مشت سے پہلے کٹوانا کسی صحابی سے ثابت نہیں۔ جو لوگ کٹوانے کے قائل ہیں ان پر لازم ہےکہ کٹوانے کی کوئی دلیل پیش کریں۔ و اللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند