زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 796

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:   جمعہ  کے روز سرمہ لگانا مسنون نہیں ہے ؛البتہ لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 1062 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ داڑھی رکھنا واجب ہے، اور ایک مشت پہونچنے سے پہلے کٹوانا بالاتفاق ناجائز ہے۔ حدیث میں آپ نے فرمایاخالفوا المشرکین واوفروا اللحی واحفوا الشوارب ﴿متفق علیہ﴾ یحرم قطع لحیتہ ﴿شامی﴾  واما الاخذمنھا ای من اللحیة وھی دون ذلک ای دون القبضة کمایفعلہ بعض المغاربةومخنثة الرجال فلم یبحہ احد واخذ کلھا فعل یھود الھند ومجوس الاعاجم فتح اہ ﴿درمختار﴾۔ حدیث  شریف میں امر کا صیغہ ہے جو وجوب کے لئے ہوتا ہے جیسا ک فقہ کا قاعدہ ہے الامر للوجوب مالم تکن قرینة خلافہ۔ لہذا  جب داڑھی بڑھانا واجب ہوا تواس کی ضد  کٹوانا یقینا حرام ہوگا۔  اگر امر وجوب کے لئے نہ ہوتا تو احیاناًاس کے خلاف بھی منقول ہوتا مگر قولاً و فعلا ًکبھی بھی بیان جواز کے لئے اس کی نوبت نہیں آئی۔ چنانچہ مالکیہ وحنابلہ نے داڑھی منڈانے کو حرام اور حنفیہ وشوافع نے مکروہ تحریمی یعنی قریب بہ حرام قراردیا ہے۔ ﴿قاموس الفقہ / فقہ اسلامی﴾۔

رہا ایک مشت کی تحدید کا مسئلہ تو چونکہ الفاظ حدیث کاتقاضہ تھا کہ بڑھانے کی کوئی حد مقرر نہ ہوتی اور کٹانا بالکل جائز نہ ہوتا مگر حدیث کے راوی صحابی کا معمول تھا کہ ایک مشت سے جو مقدار آگے بڑھ جاتی اس کو کٹادیتے ۔ ایک مشت سے پہلے کٹوانا کسی صحابی سے ثابت نہیں۔ جو لوگ کٹوانے کے قائل ہیں ان پر  لازم ہےکہ کٹوانے کی کوئی دلیل پیش کریں۔ و اللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 41/839

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لال اور کالا کپڑا پہننا جائز ہے البتہ پسندیدہ نہیں ، اس لئے احتیاط کرنا چاہئے۔  

عن ابی حنیفۃ لاباس بالصبغ الاحمر والاسود کذا فی الملتقط (الفتاوی الہندیۃ ۵/۳۳۲)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بال کی بڑھوتری کے لئے بالوں کے کناروں کو تھوڑا سا کاٹنے کی اجازت ہے، زیادہ کاٹنا جو بطور فیشن کے کاٹا جاتا ہے وہ جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 924/41-59

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بچی نو سال کی ہوجائے تو وہ مشتہاۃ کہلاتی ہے جس کو چھونے سے حرمت مصاہرت کے ثبوت کا فتوی دیاجاتاہے، والفتوی علی ان بنت تسع محل الشھوۃ لا ما دونھا (ہندیہ 1/340) ۔ اس سے کم عمر ہو تو چھونے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ہے۔ عالمگیری میں ہے: وقال الفقیہ ابواللیث : مادون التسع سنین لاتکون مشتھاۃ وعلیہ الفتوی۔

تاہم آج کے دَور میں مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچی کے مشتھاۃ ہونے کا فتوی سات سال پر ہی دیاجائے، جیسا کہ ہندیہ میں امام ابوبکر رحمہ اللہ کا قول منقول ہے: انہ کان یقول ینبغی للمفتی ان یفتی فی السبع والثمان (ج1ص340)۔ لہذا مذکورہ عبارت  سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کے کپڑے تبدیل کرانے کا جواز سات سال تک ہی محدود ہے اور یہی ہمارے زمانے کے لئے مفید بھی ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند