عائلی مسائل

Ref. No. 1739/43-1433

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خواب میں قبر کس حالت میں دیکھی، اس کی وضاحت نہیں ہے۔ اپنے والد مرحوم کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کریں، اور ان کے متعلقین کے حقوق کی دائیگی کا خیال رکھیں، اور اگر پہلے سے ایصال ثواب کا اہتمام کرتے ہیں تو اس کو برابر جاری رکھیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1339/42-719

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ حدیث والد کے نفقہ کو بیان کرنے کے لئے ہے۔ والد اگر ضرورتمند ہو تو وہ اپنے بیٹے کے مال میں بقدر ضرورت بلا اجازت استعمال کرسکتاہے۔ لیکن اس کے علاوہ وہ بیٹے کی جملہ پراپرٹی کا مالک نہیں ہے اور بیٹے کی اجازت کے بغیر اس کا مال استعمال کرنا کسی کو ہبہ کرنا یا کسی  دوسرے بیٹے کو دینے کے لئے مجبور کرنا یا زبردستی دیددینا جائز نہیں ہے۔ ضرورت کی حد تک ماں بھی اسی حکم میں شامل ہے، وہ بھی بقدرضرورت بیٹے کا مال خود کے لئے استعمال کرسکتی ہے۔

عَن أبي هُرَيْرَة ... كل أحد أَحَق بِمَالِه من وَالِده وَولده وَالنَّاس أَجْمَعِينَ) لَايناقضه "أَنْت وَمَالك لأَبِيك"؛ لِأَن مَعْنَاهُ إِذا احْتَاجَ لمَاله أَخذه، لَا أَنه يُبَاح لَهُ مَاله مُطلقًا". (التيسير بشرح الجامع الصغير 2/ 210) "وفي حديث جابر: أنت ومالك لأبيك. قال ابن رسلان: اللام للإباحة لا للتمليك، لأنّ مال الولد له وزكاته عليه وهو موروث عنه، انتهى". (شرح سنن الترمذي 20/ 262)
 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1650/43-1233

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ اسلامی میں، بچہ کی پرورش کا حق ماں کے بعد ننہالی اور ددہالی رشتہ والوں کو بترتیب حاصل ہوتی  ہے۔ سوتیلی ماں  کو پرورش کا حق نہیں۔ ننیہالی اور ددیہالی عورتوں میں سے اگر کوئی نہ ہو تو باپ بچہ کو اپنے پاس رکھے اور اس کی پرورش کرے یا دوسرے سے باجرت یا بلااجرت اس کی دیکھ بھال کرائے۔ اگر سوتیلی ماں پر اعتماد ہو تو اس سے بھی اس کی دیکھ بھال کراسکتاہے۔  

وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير. ذكر الخصاف في النفقات إن كانت للصغيرة جدة من قبل أبيها وهي أم أبي أمها فهذه ليست بمنزلة من كانت من قرابة الأم من جهة أمها كذا في البحر الرائق.  فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأب وأم، فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأم، فإن ماتت أوتزوجت فبنت الأخت لأب وأم، فإن ماتت أو تزوجت فبنت الأخت لأم لا تختلف الرواية في ترتيب هذه الجملة إنما اختلفت الروايات بعد هذا في الخالة والأخت لأب ففي رواية كتاب النكاح: الأخت لأب أولى من الخالة وفي رواية كتاب الطلاق: الخالة أولى وبنات الأخوات لأب وأم أو لأم أولى من الخالات في قولهم واختلفت الروايات في بنات الأخت لأب مع الخالة والصحيح أن الخالة أولى وأولى الخالات الخالة لأب وأم، ثم الخالة لأم، ثم الخالة لأب، وبنات الإخوة أولى من العمات والترتيب في العمات على نحو ما قلنا في الخالات كذا في فتاوى قاضي خان، ثم يدفع إلى خالة الأم لأب وأم، ثم لأم، ثم لأب، ثم إلى عماتها على هذا الترتيب. وخالة الأم أولى من خالة الأب عندنا، ثم خالات الأب وعماته على هذا الترتيب كذا في فتح القدير. والأصل في ذلك أن هذه الولاية تستفاد من قبل الأمهات فكانت جهة الأم مقدمة على جهة الأب كذا في الاختيار شرح المختار. بنات العم والخال والعمة والخالة لا حق لهن في الحضانة كذا في البدائع. وإنما يبطل حق الحضانة لهؤلاء النسوة بالتزوج إذا تزوجن بأجنبي، فإن تزوجن بذي رحم محرم من الصغير كالجدة إذا كان زوجها جدا لصغير أو الأم إذا تزوجت بعم الصغير لا يبطل حقها كذا في فتاوى قاضي خان. ومن سقط حقها بالتزوج يعود إذا ارتفعت وإذا كان الطلاق رجعيا لا يعود حقها حتى تنقضي عدتها لقيام الزوجية كذا في العيني شرح الكنز. ولو تزوجت الأم بزوج آخر وتمسك الصغير معها أو الأم في بيت الراب فللأب أن يأخذها منها. (الھندیۃ، الباب السادس عشر فی الحضانۃ 1/541)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1576/43-1270

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی مل کر دوکان چلاتے تھے، تو اس کی کیا صورت تھی؟ کیا دونوں نے پیسے لگائے تھے یا ایک نے؟ اگر دونوں نے پیسے لگائے تھے اور معاملہ صاف طور پر طے نہیں کیا تھا یہ معاملہ فاسد ہے،دونوں میں  نصف نصف تقسیم کردیں گے، اور اگر کسی ایک کے پیسے تھے تو دوسرا فریق  اس میں بطور اجیر ہوگا اور معاملہ جو طے ہوا تھا اس پر عمل کیا جائے گا، اور اگر کچھ طے نہیں ہوا تھا تو جس نے پیسے نہیں لگائے اس کو اجرت مثل دیاجائے گا، اور باقی سب کچھ اس کا ہوگا جس نے پیسے لگائے تھے۔  

والكسب بينهما ما إذا شرطاه على السواء أو شرطا الربح لأحدهما أكثر من الآخر، وقد صرح به في البزازية معللا بأن العمل متفاوت، وقد يكون أحدهما أحذق فإن شرطا الأكثر لأدناهما اختلفوا فيه. اهـ. والصحيح الجواز؛ لأن الربح بضمان العمل لا بحقيقته (البحر الرائق، اشتراک خیاط و صباغ 5/195)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1125/42-356

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ پر مذکورہ وعید صادق نہیں آتی ہے۔ کیونکہ آپ قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے واپس آنا چاہتے ہیں ، مدینہ منورہ کی تکالیف کی وجہ سے نہیں۔  دعاکریں کہ یا اللہ میں قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے جانے پر مجبور ہوں ورنہ آپ کے حبیب کے شہر کو کبھی نہ چھوڑتاچاہے جتنی تکلیف پہونچتی۔  اور حبیب ﷺ کے روضہ پر سلام  بھی عرض کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1126/42-357

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ نظربد سے موت واقع ہوجائے، تاہم حاسد حسد کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا، ماردینا اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ بری نظر شیطان کی نظر ہوتی ہے جس کے پیچھے حاسد کا حسد چھپاہوتا ہے۔ اللہ پاک نے اپنے قرآن میں فرمایا کہ حسد کرنے والوں کے شر سے پناہ مانگو۔ لہذا حاسدوں سے بچنا چاہئے۔ اپنی ترقی و خوبصورتی صبح وشام دعا ء پڑھ کر اللہ کی پناہ میں رکھیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1127/42-358

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کسی صاحب نسبت بزرگ سے رابطہ کریں، اور اہل خانہ کو بھی جوڑیں، پھر ان کی ہدایتوں پر عمل کریں ، ان شاء اللہ تمام پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1352/42-752

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ماں کو مکمل اختیار ہے کہ وہ جس بیٹے  کے ساتھ رہنا چاہے رہ سکتی ہے۔ بیٹیاں اپنے سسرال میں زبردستی اپنی والدہ کو رکھنے کی مجاز نہیں ہے۔ اور ماں کا اس طرح رویہ اختیار کرنا کسی مصلحت کی بنیاد پر ہوسکتاہے۔ نیز ہمارے معاشرہ میں ساس کا اپنے داماد کے گھر زیادہ دن رہنا پسند نہیں کیاجاتاہے۔ ہوسکتاہے ماں  کا یہ رویہ اسی وجہ سے ہو۔ ماں کی خدمت کے لئے اگر شوہر کی اجازت ہو تو ماں کے پاس کبھی کبھی چلی جائیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1754/43-1465

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علینہ بمعنی واضح ، ظاہر۔ یہ عربی لفظ ہے، بچی کا نام رکھ سکتے ہیں۔ تاہم امہات المومنین، صحابیات اور اچھے معانی والے ناموں میں سے کسی نام کا انتخاب کرنا چاہئے۔ نام کا بچہ پر اثر پڑتا ہے، اور اسی نام کے ساتھ میدان محشر میں پکاراجائے گا، اس لئے بہت سوچ سمجھ کر اچھے نام کا انتخاب کریں۔ حدیث شریف میں میں بچوں کا اچھا نام رکھنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے اور خراب یا بدشگونی والے نام  رکھنے سے منع فرمایا گیا ہے اور آپ ﷺ نے بعض لوگوں کا نام تبدیل بھی کیا ہے۔

عِنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ :أَنَّہُمْ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! قَدْ عَلِمْنَا مَا حَقُّ الْوَالِدِ عَلَی الْوَلَدِ فَمَا حَقُّ الْوَلَدِ عَلَی الْوَالِدِ؟قَالَ أَنْ یُحْسِنَ اِسْمَہ‘ وَیُحْسِنَ أَدَبَہ۔( شعب الایمان، حدیث نمبر:۸۶۵۸)

اِنَّکُمْ ُتدْعَوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأَسْمَائِکُمْ وَاَسْمَاءِ آبَائِکُمْ فَأَحْسِنُوْا أَسْمَائَکُمْ ۔ (سنن ابی داؤد:2/676،المیزان ،کراچی)

عَنْ عَبْدِالْحَمِیْدِ بْنِ جُبَیْرِ بْنِ شَیْبَۃَ قَالَ جَلَسْتُ اِلٰی سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیِّبِ فَحَدَّثَنِیْ أَنَّ جَدَّ ہٗ حَزَنًا قَدِمَ عَلٰی النبی صلی اللہ علیہ و سلم قَالَ مَا اسْمُکَ قَالَ اسْمِیْ حَزَنٌ قَالَ بَلْ اَنْتَ سَھْلٌ قَالَ ھَل اَنَا بِمُغَیِّرٍ اِسْمًا سَمَّانِیْہِ أَبِیْ قَالَ ابْنُ المُسَیِّبِ فَمَا زَالَتْ فِیْنَا الْحَزُوْنَۃُ بَعْدُ۔( ابوداؤد :۲ /۶۷۷، مصنف عبد الرزاق :۱۱/۴۱ ،السنن الکبرٰی :۹/۵۱۶ بخاری: ۲/۹۱۴ )

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ شَيْبَةَ قَالَ جَلَسْتُ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ فَحَدَّثَنِي أَنَّ جَدَّهُ حَزْنًا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ ? فَقَالَ مَا اسْمُكَ قَالَ اسْمِي حَزْنٌ قَالَ بَلْ أَنْتَ سَهْلٌ قَالَ مَا أَنَا بِمُغَيِّرٍ اسْمًا سَمَّانِيهِ أَبِي قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ فَمَا زَالَتْ فِينَا الْحُزُونَةُ بَعْدُ (صحيح البخاري-نسخة طوق النجاة - (1 / 88)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1133/42-354

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ داماد سسرال کا ایک فرد ہوتا ہے، اور اپنے سسر کا مجازی بیٹا ہوتا ہے۔ اس لئے سسر کا مال کھانے میں جبکہ سسر کو اس سے خوشی ہو، کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح اگر سسر اپنی رضاورغبت سے مال دے تو اس کا لینا بھی جائز ہے۔ تاہم سسرال میں پڑے رہنے کو معاشرہ مین معیوب سمجھاجاتاہے اور لوگ ایسا کرنے والے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہیں اس لئے اگر لوگوں کے طعن سے بچنے کے لئے احتراز کرے تو بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند