عائلی مسائل

Ref. No. 2535/45-3878

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اپنے والدین سے اگر وہ ایسی بات کرے گا تو توہین ہوگی، اور بے شرمی پر محمول ہوگا، اس لئے اگر ممکن ہو تو والدین کو غیرمحرم سے  تعلقات کی حرمت کی عمومی بات کرے ، ان پر کوئی الزام نہ لگائے اور اپنے شبہہ کا اظہار نہ کرے۔ اور اگر ایسا نہ کرسکے اور خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت ہو تو اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

عائلی مسائل

Ref. No. 2594/45-4093

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    نکاح کے ایجاب و قبول کے نتیجہ میں شوہر پر بیوی کے حقوق اور بیوی پر شوہر کے حقوق واجب ہوجاتے ہیں، ان میں سے جو بھی دوسرے کی حق تلفی کرے گا، حق کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا، گہنگار ہوگا، اس لئے اگر شوہر بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ گنہگار، اور ملامت کا مستحق  ہوگا۔ بیوی اگر پریشان ہواور علیحدگی چاہتی ہو تو کسی شرعی دارالقضاء میں فسخ نکاح کا دعوی کرسکتی ہے۔

فقال سبحانه وتعالى : ( وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ"أي : ولهن على الرجال من الحق مثل ما للرجال عليهن ، فليؤد كل واحد منهما إلى الآخر ما يجب عليه بالمعروف۔ (ابن كثير رحمه الله "تفسير القرآن العظيم" (1/363)

عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في خطبته في حجة الوداع :  (فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ ، فَإِنَّكُم أَخَذتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ ، وَاستَحلَلتُم فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ ، وَلَكم عَلَيهِنَّ أَنْ لا يُوطِئْنَ فُرُشَكُم أَحَدًا تَكرَهُونَهُ ، فَإِن فَعَلنَ ذَلِكَ فَاضرِبُوهُنَّ ضَربًا غَيرَ مُبَرِّحٍ ، وَلَهُنَّ رِزقُهُنَّ وَكِسوَتُهُنَّ بِالمَعرُوفِ)  (صحيح مسلم [1218])

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

عائلی مسائل

Ref. No. 1739/43-1433

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خواب میں قبر کس حالت میں دیکھی، اس کی وضاحت نہیں ہے۔ اپنے والد مرحوم کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کریں، اور ان کے متعلقین کے حقوق کی دائیگی کا خیال رکھیں، اور اگر پہلے سے ایصال ثواب کا اہتمام کرتے ہیں تو اس کو برابر جاری رکھیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1339/42-719

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ حدیث والد کے نفقہ کو بیان کرنے کے لئے ہے۔ والد اگر ضرورتمند ہو تو وہ اپنے بیٹے کے مال میں بقدر ضرورت بلا اجازت استعمال کرسکتاہے۔ لیکن اس کے علاوہ وہ بیٹے کی جملہ پراپرٹی کا مالک نہیں ہے اور بیٹے کی اجازت کے بغیر اس کا مال استعمال کرنا کسی کو ہبہ کرنا یا کسی  دوسرے بیٹے کو دینے کے لئے مجبور کرنا یا زبردستی دیددینا جائز نہیں ہے۔ ضرورت کی حد تک ماں بھی اسی حکم میں شامل ہے، وہ بھی بقدرضرورت بیٹے کا مال خود کے لئے استعمال کرسکتی ہے۔

عَن أبي هُرَيْرَة ... كل أحد أَحَق بِمَالِه من وَالِده وَولده وَالنَّاس أَجْمَعِينَ) لَايناقضه "أَنْت وَمَالك لأَبِيك"؛ لِأَن مَعْنَاهُ إِذا احْتَاجَ لمَاله أَخذه، لَا أَنه يُبَاح لَهُ مَاله مُطلقًا". (التيسير بشرح الجامع الصغير 2/ 210) "وفي حديث جابر: أنت ومالك لأبيك. قال ابن رسلان: اللام للإباحة لا للتمليك، لأنّ مال الولد له وزكاته عليه وهو موروث عنه، انتهى". (شرح سنن الترمذي 20/ 262)
 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1650/43-1233

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ اسلامی میں، بچہ کی پرورش کا حق ماں کے بعد ننہالی اور ددہالی رشتہ والوں کو بترتیب حاصل ہوتی  ہے۔ سوتیلی ماں  کو پرورش کا حق نہیں۔ ننیہالی اور ددیہالی عورتوں میں سے اگر کوئی نہ ہو تو باپ بچہ کو اپنے پاس رکھے اور اس کی پرورش کرے یا دوسرے سے باجرت یا بلااجرت اس کی دیکھ بھال کرائے۔ اگر سوتیلی ماں پر اعتماد ہو تو اس سے بھی اس کی دیکھ بھال کراسکتاہے۔  

وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة، وإن علت، فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها، وإن علت كذا في فتح القدير. ذكر الخصاف في النفقات إن كانت للصغيرة جدة من قبل أبيها وهي أم أبي أمها فهذه ليست بمنزلة من كانت من قرابة الأم من جهة أمها كذا في البحر الرائق.  فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأب وأم، فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأم، فإن ماتت أوتزوجت فبنت الأخت لأب وأم، فإن ماتت أو تزوجت فبنت الأخت لأم لا تختلف الرواية في ترتيب هذه الجملة إنما اختلفت الروايات بعد هذا في الخالة والأخت لأب ففي رواية كتاب النكاح: الأخت لأب أولى من الخالة وفي رواية كتاب الطلاق: الخالة أولى وبنات الأخوات لأب وأم أو لأم أولى من الخالات في قولهم واختلفت الروايات في بنات الأخت لأب مع الخالة والصحيح أن الخالة أولى وأولى الخالات الخالة لأب وأم، ثم الخالة لأم، ثم الخالة لأب، وبنات الإخوة أولى من العمات والترتيب في العمات على نحو ما قلنا في الخالات كذا في فتاوى قاضي خان، ثم يدفع إلى خالة الأم لأب وأم، ثم لأم، ثم لأب، ثم إلى عماتها على هذا الترتيب. وخالة الأم أولى من خالة الأب عندنا، ثم خالات الأب وعماته على هذا الترتيب كذا في فتح القدير. والأصل في ذلك أن هذه الولاية تستفاد من قبل الأمهات فكانت جهة الأم مقدمة على جهة الأب كذا في الاختيار شرح المختار. بنات العم والخال والعمة والخالة لا حق لهن في الحضانة كذا في البدائع. وإنما يبطل حق الحضانة لهؤلاء النسوة بالتزوج إذا تزوجن بأجنبي، فإن تزوجن بذي رحم محرم من الصغير كالجدة إذا كان زوجها جدا لصغير أو الأم إذا تزوجت بعم الصغير لا يبطل حقها كذا في فتاوى قاضي خان. ومن سقط حقها بالتزوج يعود إذا ارتفعت وإذا كان الطلاق رجعيا لا يعود حقها حتى تنقضي عدتها لقيام الزوجية كذا في العيني شرح الكنز. ولو تزوجت الأم بزوج آخر وتمسك الصغير معها أو الأم في بيت الراب فللأب أن يأخذها منها. (الھندیۃ، الباب السادس عشر فی الحضانۃ 1/541)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1576/43-1270

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی مل کر دوکان چلاتے تھے، تو اس کی کیا صورت تھی؟ کیا دونوں نے پیسے لگائے تھے یا ایک نے؟ اگر دونوں نے پیسے لگائے تھے اور معاملہ صاف طور پر طے نہیں کیا تھا یہ معاملہ فاسد ہے،دونوں میں  نصف نصف تقسیم کردیں گے، اور اگر کسی ایک کے پیسے تھے تو دوسرا فریق  اس میں بطور اجیر ہوگا اور معاملہ جو طے ہوا تھا اس پر عمل کیا جائے گا، اور اگر کچھ طے نہیں ہوا تھا تو جس نے پیسے نہیں لگائے اس کو اجرت مثل دیاجائے گا، اور باقی سب کچھ اس کا ہوگا جس نے پیسے لگائے تھے۔  

والكسب بينهما ما إذا شرطاه على السواء أو شرطا الربح لأحدهما أكثر من الآخر، وقد صرح به في البزازية معللا بأن العمل متفاوت، وقد يكون أحدهما أحذق فإن شرطا الأكثر لأدناهما اختلفوا فيه. اهـ. والصحيح الجواز؛ لأن الربح بضمان العمل لا بحقيقته (البحر الرائق، اشتراک خیاط و صباغ 5/195)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1125/42-356

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ پر مذکورہ وعید صادق نہیں آتی ہے۔ کیونکہ آپ قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے واپس آنا چاہتے ہیں ، مدینہ منورہ کی تکالیف کی وجہ سے نہیں۔  دعاکریں کہ یا اللہ میں قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے جانے پر مجبور ہوں ورنہ آپ کے حبیب کے شہر کو کبھی نہ چھوڑتاچاہے جتنی تکلیف پہونچتی۔  اور حبیب ﷺ کے روضہ پر سلام  بھی عرض کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1126/42-357

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ نظربد سے موت واقع ہوجائے، تاہم حاسد حسد کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا، ماردینا اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ بری نظر شیطان کی نظر ہوتی ہے جس کے پیچھے حاسد کا حسد چھپاہوتا ہے۔ اللہ پاک نے اپنے قرآن میں فرمایا کہ حسد کرنے والوں کے شر سے پناہ مانگو۔ لہذا حاسدوں سے بچنا چاہئے۔ اپنی ترقی و خوبصورتی صبح وشام دعا ء پڑھ کر اللہ کی پناہ میں رکھیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1127/42-358

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کسی صاحب نسبت بزرگ سے رابطہ کریں، اور اہل خانہ کو بھی جوڑیں، پھر ان کی ہدایتوں پر عمل کریں ، ان شاء اللہ تمام پریشانیاں دور ہوجائیں گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1352/42-752

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ماں کو مکمل اختیار ہے کہ وہ جس بیٹے  کے ساتھ رہنا چاہے رہ سکتی ہے۔ بیٹیاں اپنے سسرال میں زبردستی اپنی والدہ کو رکھنے کی مجاز نہیں ہے۔ اور ماں کا اس طرح رویہ اختیار کرنا کسی مصلحت کی بنیاد پر ہوسکتاہے۔ نیز ہمارے معاشرہ میں ساس کا اپنے داماد کے گھر زیادہ دن رہنا پسند نہیں کیاجاتاہے۔ ہوسکتاہے ماں  کا یہ رویہ اسی وجہ سے ہو۔ ماں کی خدمت کے لئے اگر شوہر کی اجازت ہو تو ماں کے پاس کبھی کبھی چلی جائیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند