عائلی مسائل

Ref. No. 1597/43-1201

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اذان دے کر جماعت کی طرف بلانے والا خود اس مسجد سے نکلے یہ مناسب معلوم نہیں ہوتاہے، اس لئے اذان سے قبل امام صاحب کو دوسری مسجد کی طرف سے روانہ ہوجاناچاہئے۔ چونکہ آپ کے ذمہ دوسری مسجد میں جماعت کی ذمہ داری ہے اس لئے نکلنے کی گنجائش ہوگی۔ اور آپ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

وكره) تحريماً للنهي (خروج من لم يصل من مسجد أذن فيه) جرى على الغالب، والمراد دخول الوقت أذن فيه أو لا (إلا لمن ينتظم به أمر جماعة أخرى) أو كان الخروج لمسجد حيه ولم يصلوا فيه، أو لاستاذه لدرسه، أو لسماع الوعظ، أو لحاجة ومن عزمه أن يعود. نهر (و) إلا (لمن صلى الظهر والعشاء) وحده (مرة) فلايكره خروجه بل تركه للجماعة (إلا عند) الشروع في (الاقامة) فيكره لمخالفته الجماعة بلا عذر، بل يقتدي متنفلا لما مر (و) إلا (لمن صلى الفجر والعصر والمغرب مرة) فيخرج مطلقا (وإن أقيمت) لكراهة النفل بعد الاوليين، وفي المغرب أحد المحظورين البتيراء، أو مخالفة الإمام بالاتمام". (الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار96) ﻭﻣﻨﻬﺎ) - ﺃﻥ ﻣﻦ ﺃﺫﻥ ﻓﻬﻮ اﻟﺬﻱ ﻳﻘﻴﻢ، ﻭﺇﻥ ﺃﻗﺎﻡ ﻏﻴﺮﻩ: ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻥ ﻳﺘﺄﺫﻯ ﺑﺬﻟﻚ ﻳﻜﺮﻩ؛ ﻷﻥ اﻛﺘﺴﺎﺏ ﺃﺫﻯ اﻟﻤﺴﻠﻢ ﻣﻜﺮﻭﻩ، ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻻ ﻳﺘﺄﺫﻯ ﺑﻪ ﻻ ﻳﻜﺮﻩ۔(البنایۃ ج:2،ص: 97،ط: دارالکتب العلمیہ)

ﻳﻜﺮﻩ ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﺆﺫﻥ ﻓﻲ ﻣﺴﺠﺪﻳﻦ(الدر)قال الشامي:ﻗﻮﻟﻪ: ﻓﻲ ﻣﺴﺠﺪﻳﻦ) ﻷﻧﻪ ﺇﺫا ﺻﻠﻰ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ اﻷﻭﻝ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﺘﻨﻔﻼ ﺑﺎﻷﺫاﻥ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ اﻟﺜﺎﻧﻲ ﻭاﻟﺘﻨﻔﻞ ﺑﺎﻷﺫاﻥ ﻏﻴﺮ ﻣﺸﺮﻭﻉ؛ ﻭﻷﻥ اﻷﺫاﻥ ﻟﻠﻤﻜﺘﻮﺑﺔ ﻭﻫﻮ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ اﻟﺜﺎﻧﻲ ﻳﺼﻠﻲ اﻟﻨﺎﻓﻠﺔ، ﻓﻼ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻳﺪﻋﻮ اﻟﻨﺎﺱ ﺇﻟﻰ اﻟﻤﻜﺘﻮﺑﺔ ﻭﻫﻮ ﻻ ﻳﺴﺎﻋﺪﻫﻢ ﻓﻴﻬﺎ. اﻩـ.(شامی، ج:1، ص: 400،ط: دارالفکر بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 2708/45-4218

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بیوی اس طرح کی غلط حرکت کرتی ہے اور شوہر کو یقین ہو تو شوہر کو چاہئے کہ اسے سمجھائے اور خدا اور آخرت کا واسطہ دے، اس کے علاوہ اگر خود سمجھانے سے کام نہ چل سکے تو عورت کے گھر والوں سے بات چیت کرے اس کے علاوہ سمجھانے کی حد تک جو ضروری اور مناسب ہو وہ اقدام کرے، اسی طرح ایک شوہر کا حق ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر عورت گھر سے باہر نہ نکلے شوہر اپنےاس حق کو استعمال کر سکتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

عائلی مسائل

Ref. No. 1148/42-368

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح دعا کرنے میں حرج نہیں ہے، تاہم منقول دعاؤں کا اہتمام ہونا چاہئے وہ باعث برکت بھی  ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 40/989

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسلمانوں کے علاوہ کسی کو السلام علیکم کے ذریعہ سلام کی ابتداء کرنے سے گریز کیا جائے، لیکن اگر کوئی غیر، السلام علیکم کہہ دے تو اس کا جواب 'آداب' وغیرہ جیسے الفاظ سے دیدیا جائے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1880/43-1752

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی کارشتہ بہت نازک ہوتاہے، اس کو بہت سنبھال کر رکھنا ہوتاہے، تھوڑی سی بے توجہی سے وہ رشتہ ٹوٹ جاتاہے اور دونوں گھرانے برباد ہوجاتے ہیں۔ موجودہ واقعہ بہت افسوس ناک ہے۔ بیوی سے پیار و محبت  اس کا بنیادی حق ہے۔ خامیاں ہر ایک میں ہوتی ہیں ان کو اگر ٹھیک کرنا ہے تو نرمی اور پیار سے ہی ممکن ہے، سختی اور زبردستی سے کام خراب ہوجاتاہے۔ میاں بیوی کی اس لڑائی میں کون حق پر تھا اور کس کی غلطی کتنی تھی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، اس لئے آپ اور آ پ کے والد صاحب توبہ واستغفار کریں، مرحومہ  کی مغفرت کے لئے دعاکریں کہ اس نے جرم عظیم کیا ہے، خودکشی گناہ کبیرہ ہے۔ اللہ آپ لوگوں  کی اور مرحومہ کی مغفرت فرمائے۔    

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

عائلی مسائل

Ref. No. 1610/43-1177

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوتیلی ماں حکما ماں کے درجہ میں ہوتی ہے،سوتیلی ماں  سے نکاح کرنا بنص قرآنی حرام ہے، اور اس سے زنا انتہائی قبیح عمل ہے،  اور چونکہ زنا سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے اس لئے  بشرط صحت سوال صورتِ  مسئولہ میں  دوسری بیوی زانی کے والد (اپنےشوہر) پر حرام ہوگئی؛ اب اس سے دوبارہ کبھی بھی نکاح نہیں ہوسکتاہے۔البتہ  اس سے پہلی بیوی کے نکاح پر اثر نہیں پڑے گا وہ بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں رہے گی۔

{وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۭاِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا وَسَاۗءَ سَبِيْلًا}[النساء:22{  "قوله: (وامرأة أبيه وابنه وإن بعدا) أما حليلة الأب فبقوله تعالى: { ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء } النساء 22 فتحرم بمجرد العقد عليها والآية المذكورة استدل بها المشايخ كصاحب النهاية وغيره على ثبوت حرمة المصاهرة بالزنا بناء على إرادة الوطء بالنكاح فإن أريد به حرمة امرأة الأب والجد ما يطابقها من إرادة الوطء قصر عن إفادة تمام الحكم المطلوب حيث قال: و لا بامرأة أبيه(البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 100)

قوله: وحرم أيضًا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبًا ورضاعًا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبًا و رضاعًا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها". (شامی، رد المحتار3/32)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 38 / 1043

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اس کا پڑھنا درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 2754/45-4291

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ خواب اس بات کی دلیل ہے کہ جس کے متعلق آپ نے خواب دیکھاہے اس کو بیماری سے شفا نصیب ہوگی۔ آپ بھی استغفار کی کثرت رکھیں اور روزانہ بعد نماز مغرب 41 مرتبہ  سورہ فاتحہ مع درود شریف اول و آخر گیارہ مرتبہ  پڑھنا بہت مفید ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

عائلی مسائل

Ref. No. 1159/42-398

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کو اس کے پہلے شوہر سے جو مال ملا ہے جس کو تجارت میں لگاکر وہ بچوں کا خرچہ پورا کرتی ہے اس مال میں دوسرے شوہر کا کوئی حق نہیں ہے، اور نہ شوہر عورت سے زبردستی کرکے وہ پیسے لے سکتا ہے۔ اور اگر عورت شوہر کو وہ پیسے نہیں دیتی ہے تو عورت نافرمان نہیں کہلائے گی۔

  للرجال نصیب ممااکتسبوا وللنساء نصیب ممااکتسبن( سور ۃ النساء 32)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1400/42-813

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی کا خودکشی کی دھمکی دینا شرعا غلط ہے۔ البتہ آپ نے جو قسم کھائی ہے وہ جھوٹی قسم ہے جس سے بچناضروری تھا، اس پر اللہ سے معافی مانگٰیں توبہ کریں۔ تاہم اس قسم  سے کوئی کفارہ ذمہ میں لازم نہیں ہوتا۔

(قوله تغمسه في الإثم ثم النار) بيان لما في صيغة فعول من المبالغة ح (قوله وهي كبيرة مطلقا) أي اقتطع بها حق مسلم أو لا، وهذا رد على قول البحر ينبغي أن تكون كبيرة إذا اقتطع بها مال مسلم أو آذاه، وصغيرة إن لم يترتب عليها مفسدة، فقد نازعه في النهر بأنه مخالف لإطلاق حديث البخاري «الكبائر الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس»  (شامی، کتاب الایمان 3/705)

والأصل عندنا في اليمين الغموس: أنه آثم، وعليه التوبة، والتوبة كفارة. وهكذا في كل يمين في عقدها معصية أن تلزمه الكفارة وهي التوبة. وأما الكفارة التي تلزم في المال، فهى لا تلزم بالحنث؛ لأنه بالحنث يأثم، والحنث نفسه إثم؛ لذلك لم يجز إلا بالحنث. (تفسیر الماتریدی: تاویلات اھل السنۃ، الباب 225، ج2ص144)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند