Frequently Asked Questions
عائلی مسائل
Ref. No. 1762/43-1495
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قسم کا مدار الفاظ کے استعمال پر ہے، سوال میں اطلاع دینے یعنی کسی واقعہ کی خبر دینے پر قسم کھائی ہے، اس لئے اگر کوئی اطلاع دیگا تو حانث ہوجائے گا، مگر انشاء سے یعنی کسی کو کسی کام کا حکم کرنے اور منع کرنے سے اس کی قسم کا تعلق نہیں ہوگا اور اس سے قسم نہیں ٹوٹے گی۔ نیز ایک بار قسم ٹوٹ گئی تو اس کا کفارہ اداکردے اس کے بعد کچھ لکھے گا یا اطلاع دے گا تو اب دوبارہ حانث نہیں ہوگا۔ اور باربار قسم نہیں ٹوٹے گی جب تک دوبارہ قسم نہ کھالے۔
إذا علمت ذلك ظهر لك أن قاعدة بناء الأيمان على العرف معناه أن المعتبر هو المعنى المقصود في العرف من اللفظ المسمى، وإن كان في اللغة أو في الشرع أعم من المعنى المتعارف، ولما كانت هذه القاعدة موهمة اعتبار الغرض العرفي وإن كان زائدا على اللفظ المسمى وخارجا عن مدلوله كما في المسألة الأخيرة وكما في المسائل الأربعة التي ذكرها المصنف دفعوا ذلك الوهم بذكر القاعدة الثانية وهي بناء الأيمان على الألفاظ لا على الأغراض، فقولهم لا على الأغراض دفعوا به توهم اعتبار الغرض الزائد على اللفظ المسمى، وأرادوا بالألفاظ الألفاظ العرفية بقرينة القاعدة الأولى، ولولاها لتوهم اعتبار الألفاظ ولو لغوية أو شرعية فلا تنافي بين القاعدتين (الدرالمختار مع رد المحتار، باب الیمین فی الدخول 3/744)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1591/43-1148
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Zimal means burden, this name is not appropriate. So choose another name that has a good meaning or after the name of a companion.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
عائلی مسائل
Ref. No. 1592/43-1138
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ "زمل" لے معنی بوجھ کے ہیں ، یہ نام مناسب نہیں ہے۔ "اِیزِل" (الف اور زاء کے نیچے زیر کے ساتھ) کے معنی ہیں: تصویر بنانے میں استعمال ہونے والی لکڑی۔ یہ نام مناسب نہیں ہے۔''آیت '' کے معنی ہیں :علامت اور نشانی ۔ہمارے عرف میں جب آیت بولا جائے تو اس سے قرآن کی آیت مراد ہوتی ہے اور اسی کی طرف ذہن منتقل ہوتاہے۔گوکہ آیت نام رکھنا جائز ہے، لیکن مناسب نہیں۔ "یشفع" کامعنی ہے: وہ سفارش کرتا ہے۔ یہ نام مناسب نہیں ہے، شفیعۃ(سفارش کرنےوالی) مناسب نام ہے۔ "اسراء" کے معنی : رات کے وقت چلنا، یہ نام لڑکی کے لیے رکھنا درست ہے۔ "یسری" کا معنی ہے:آسانی ، سہولت اور مالی وسعت۔ یہ لڑکی کا نام رکھا جاسکتا ہے، قرآن عظیم میں یہ لفظ جنت کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ یسرا (الف کے ساتھ) مناسب نام نہیں ہے۔'سحر'' کا معنی ہے: طلوع آفتاب سے کچھ پہلے کا وقت۔ اور "نورِسحر" کا معنی ہوگا: طلوع آفتاب سے پہلے کی ہلکی روشنی۔ یہ نام رکھنا جائز ہے۔ "فجر" کا معنی ہے: رات کی تاریکی چھٹنا، صبح کی روشنی۔ مذکورہ نام رکھنا جائز ہے، البتہ بچے اور بچیوں کے نام انبیاء علیہم السلام یا صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم وعلیہن اجمعین کے اسماء میں سے کسی کے نام پر رکھنا چاہئے۔ اس لئے کوئی دوسرا نام تجویز کریں جو اچھے معنی والا ہو یا کسی صحابی و صحابیہ کے نام پر ہو۔
وقال أبو عبيد عن أصحابه سريت بالليل وأسريت فجاء باللغتين وقال أبو إسحق في قوله عز وجل سبحان الذي أسرى بعبده قال معناه سير عبده يقال أسريت وسريت إذا سرت ليلا (لسان العرب (14 / 377)
"الفَجْرُ : انكشافُ ظلمةِ الليل عن نور الصُّبْح. وهما فَجْرَانِ: أَحدهما: المستطيلُ، وهو الكاذبُ: والآخر: المستطيرُ المنتشرُ الأُفُقِ، وهو الصادقُ. يقال: طريقٌ فَجْرٌ: واضحٌ." (معجم الوسيط)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1783/43-1516
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آن لائن فتاوی عوام و خواص کے استفادہ کے لئے ہی ہوتے ہیں؛ اگر کوئی عالم دین مسئلہ بیان کرے اور اس میں آپ کو کوئی غلطی محسوس ہو تو ان سے اس کی وضاحت طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عالم صاحب نے جو مسئلہ بیان کیا پہلے ان سے ادب کے ساتھ اس کی وضاحت کرنے کی درخواست کریں پھر بھی کوئی بات خلاف واقعہ معلوم ہو تو ان کو آن لائن فتاوی کا حوالہ دینے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
فقہ فتاوی کا میدان کافی وسیع ہے ، مفتی اور عالم دین بھی انسان ہوتے ہیں اور غلطی کا امکان ہے، اس لئے مسئلہ کو سمجھنے اورحق کی رہنمائی کرنے میں کوئی حرج نہیں، نیز مفتی صاحب کو اصلاح قبول کرنے میں بھی دل تنگ نہ ہونا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1597/43-1201
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اذان دے کر جماعت کی طرف بلانے والا خود اس مسجد سے نکلے یہ مناسب معلوم نہیں ہوتاہے، اس لئے اذان سے قبل امام صاحب کو دوسری مسجد کی طرف سے روانہ ہوجاناچاہئے۔ چونکہ آپ کے ذمہ دوسری مسجد میں جماعت کی ذمہ داری ہے اس لئے نکلنے کی گنجائش ہوگی۔ اور آپ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔
وكره) تحريماً للنهي (خروج من لم يصل من مسجد أذن فيه) جرى على الغالب، والمراد دخول الوقت أذن فيه أو لا (إلا لمن ينتظم به أمر جماعة أخرى) أو كان الخروج لمسجد حيه ولم يصلوا فيه، أو لاستاذه لدرسه، أو لسماع الوعظ، أو لحاجة ومن عزمه أن يعود. نهر (و) إلا (لمن صلى الظهر والعشاء) وحده (مرة) فلايكره خروجه بل تركه للجماعة (إلا عند) الشروع في (الاقامة) فيكره لمخالفته الجماعة بلا عذر، بل يقتدي متنفلا لما مر (و) إلا (لمن صلى الفجر والعصر والمغرب مرة) فيخرج مطلقا (وإن أقيمت) لكراهة النفل بعد الاوليين، وفي المغرب أحد المحظورين البتيراء، أو مخالفة الإمام بالاتمام". (الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار96) ﻭﻣﻨﻬﺎ) - ﺃﻥ ﻣﻦ ﺃﺫﻥ ﻓﻬﻮ اﻟﺬﻱ ﻳﻘﻴﻢ، ﻭﺇﻥ ﺃﻗﺎﻡ ﻏﻴﺮﻩ: ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻥ ﻳﺘﺄﺫﻯ ﺑﺬﻟﻚ ﻳﻜﺮﻩ؛ ﻷﻥ اﻛﺘﺴﺎﺏ ﺃﺫﻯ اﻟﻤﺴﻠﻢ ﻣﻜﺮﻭﻩ، ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻻ ﻳﺘﺄﺫﻯ ﺑﻪ ﻻ ﻳﻜﺮﻩ۔(البنایۃ ج:2،ص: 97،ط: دارالکتب العلمیہ)
ﻳﻜﺮﻩ ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﺆﺫﻥ ﻓﻲ ﻣﺴﺠﺪﻳﻦ(الدر)قال الشامي:ﻗﻮﻟﻪ: ﻓﻲ ﻣﺴﺠﺪﻳﻦ) ﻷﻧﻪ ﺇﺫا ﺻﻠﻰ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ اﻷﻭﻝ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﺘﻨﻔﻼ ﺑﺎﻷﺫاﻥ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ اﻟﺜﺎﻧﻲ ﻭاﻟﺘﻨﻔﻞ ﺑﺎﻷﺫاﻥ ﻏﻴﺮ ﻣﺸﺮﻭﻉ؛ ﻭﻷﻥ اﻷﺫاﻥ ﻟﻠﻤﻜﺘﻮﺑﺔ ﻭﻫﻮ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ اﻟﺜﺎﻧﻲ ﻳﺼﻠﻲ اﻟﻨﺎﻓﻠﺔ، ﻓﻼ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻳﺪﻋﻮ اﻟﻨﺎﺱ ﺇﻟﻰ اﻟﻤﻜﺘﻮﺑﺔ ﻭﻫﻮ ﻻ ﻳﺴﺎﻋﺪﻫﻢ ﻓﻴﻬﺎ. اﻩـ.(شامی، ج:1، ص: 400،ط: دارالفکر بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 2708/45-4218
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بیوی اس طرح کی غلط حرکت کرتی ہے اور شوہر کو یقین ہو تو شوہر کو چاہئے کہ اسے سمجھائے اور خدا اور آخرت کا واسطہ دے، اس کے علاوہ اگر خود سمجھانے سے کام نہ چل سکے تو عورت کے گھر والوں سے بات چیت کرے اس کے علاوہ سمجھانے کی حد تک جو ضروری اور مناسب ہو وہ اقدام کرے، اسی طرح ایک شوہر کا حق ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر عورت گھر سے باہر نہ نکلے شوہر اپنےاس حق کو استعمال کر سکتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1148/42-368
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح دعا کرنے میں حرج نہیں ہے، تاہم منقول دعاؤں کا اہتمام ہونا چاہئے وہ باعث برکت بھی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 40/989
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسلمانوں کے علاوہ کسی کو السلام علیکم کے ذریعہ سلام کی ابتداء کرنے سے گریز کیا جائے، لیکن اگر کوئی غیر، السلام علیکم کہہ دے تو اس کا جواب 'آداب' وغیرہ جیسے الفاظ سے دیدیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1880/43-1752
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی کارشتہ بہت نازک ہوتاہے، اس کو بہت سنبھال کر رکھنا ہوتاہے، تھوڑی سی بے توجہی سے وہ رشتہ ٹوٹ جاتاہے اور دونوں گھرانے برباد ہوجاتے ہیں۔ موجودہ واقعہ بہت افسوس ناک ہے۔ بیوی سے پیار و محبت اس کا بنیادی حق ہے۔ خامیاں ہر ایک میں ہوتی ہیں ان کو اگر ٹھیک کرنا ہے تو نرمی اور پیار سے ہی ممکن ہے، سختی اور زبردستی سے کام خراب ہوجاتاہے۔ میاں بیوی کی اس لڑائی میں کون حق پر تھا اور کس کی غلطی کتنی تھی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، اس لئے آپ اور آ پ کے والد صاحب توبہ واستغفار کریں، مرحومہ کی مغفرت کے لئے دعاکریں کہ اس نے جرم عظیم کیا ہے، خودکشی گناہ کبیرہ ہے۔ اللہ آپ لوگوں کی اور مرحومہ کی مغفرت فرمائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1610/43-1177
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوتیلی ماں حکما ماں کے درجہ میں ہوتی ہے،سوتیلی ماں سے نکاح کرنا بنص قرآنی حرام ہے، اور اس سے زنا انتہائی قبیح عمل ہے، اور چونکہ زنا سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے اس لئے بشرط صحت سوال صورتِ مسئولہ میں دوسری بیوی زانی کے والد (اپنےشوہر) پر حرام ہوگئی؛ اب اس سے دوبارہ کبھی بھی نکاح نہیں ہوسکتاہے۔البتہ اس سے پہلی بیوی کے نکاح پر اثر نہیں پڑے گا وہ بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں رہے گی۔
{وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۭاِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا وَسَاۗءَ سَبِيْلًا}[النساء:22{ "قوله: (وامرأة أبيه وابنه وإن بعدا) أما حليلة الأب فبقوله تعالى: { ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء } النساء 22 فتحرم بمجرد العقد عليها والآية المذكورة استدل بها المشايخ كصاحب النهاية وغيره على ثبوت حرمة المصاهرة بالزنا بناء على إرادة الوطء بالنكاح فإن أريد به حرمة امرأة الأب والجد ما يطابقها من إرادة الوطء قصر عن إفادة تمام الحكم المطلوب حيث قال: و لا بامرأة أبيه(البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 100)
قوله: وحرم أيضًا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبًا ورضاعًا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبًا و رضاعًا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها". (شامی، رد المحتار3/32)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند