Frequently Asked Questions
عائلی مسائل
Ref. No. 995
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: غربت کی وجہ سے مذکورہ صورت اختیار کرنا نص قطعی کے مخالف ہونے کی وجہ سے قطعاً حرام ہے۔ جو بچہ بھی پیداہوتا ہے وہ اپنا رزق لے کر آتا ہے ؛ جو آپ کا رازق ہے وہی آپ کے بچوں کا رازق ہے۔ وقتی طور پر بدحالی کو آپ نے دائمی کیسے سمجھ لیا ہے؟ ہوسکتا ہے آنے والی اولاد کی برکت سے اللہ تعالی آپ کو اس قدر عطا فرمادیں کہ ان کی ضروریات بھی پوری ہوجا یا کریں۔ اس لئے قطعاً ذہن میں ایسے شبہات کو جگہ نہ دیں۔ اللہ تعالی آپ کو صبر اور استقامت عطا کرے، آمین۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1693/43-1334
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کے انتقال کے وقت بیوی ملتان میں تھی تو وہیں عدت گزارے۔ عام حالات میں دوران عدت سفر وغیرہ سے حتی الامکان گریز کرنا لازم ہے۔ البتہ اگر ملتان میں رہنا ممکن نہ ہو اور سفر کرکے کراچی آنا ہی ناگزیر ہو تو کسی محرم کے ساتھ دن میں سفر کرکے اپنے مقام پر پہونچ جائے اور عدت وہیں گزارے پھر دوبارہ سفر نہ کرے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ کی بہن حضرت فریعہ بنت مالک ؓ بیوہ ہوگئیں تواللہ کے رسولِ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا : اُمْکُثِیْ فِیْ بَیْتِکَ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتَابَ اَجَلَہٗ (ابوداؤد : ۲۳۰۰، ترمذی : ۱۲۰۴)
فقہاء نے لکھا ہے کہ بیوہ عورت وقتِ ضرورت دن میں تو گھر سے باہر جاسکتی ہے ، لیکن رات اسے ضرور اپنے گھر ہی میں گزارنی چاہیے۔ (فتاویٰ عالم گیری ،۱/۵۳۴ ، بدائع الصنائع ،۳/۲۰۵، ۲۰۶، فتح القدیر ،۳/۲۸۵)
حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ عَمَّتِهِ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، أَنَّ الفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ وَهِيَ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، أَخْبَرَتْهَا [ص:501] أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِي بَنِي خُدْرَةَ، وَأَنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ أَبَقُوا، حَتَّى إِذَا كَانَ بِطَرَفِ القَدُومِ لَحِقَهُمْ فَقَتَلُوهُ، قَالَتْ: فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي، فَإِنَّ زَوْجِي لَمْ يَتْرُكْ لِي مَسْكَنًا يَمْلِكُهُ وَلَا نَفَقَةً، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ»، قَالَتْ: فَانْصَرَفْتُ، حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الحُجْرَةِ، أَوْ فِي المَسْجِدِ، نَادَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أَمَرَ بِي فَنُودِيتُ لَهُ، فَقَالَ: «كَيْفَ قُلْتِ؟»، قَالَتْ: فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ القِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ لَهُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِي، قَالَ: «امْكُثِي فِي بَيْتِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الكِتَابُ أَجَلَهُ»، قَالَتْ: فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ أَرْسَلَ إِلَيَّ، فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَاتَّبَعَهُ وَقَضَى بِهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ فَذَكَرَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»، " وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا الحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: لَمْ يَرَوْا لِلْمُعْتَدَّةِ أَنْ تَنْتَقِلَ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، [ص:502] وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ «،» وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَعْتَدَّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَإِنْ لَمْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا ".: «وَالقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ» (سنن الترمذی 3/500 الرقم 1204) (سنن ابی داؤد، باب فی المتوفی عنھا تنتقل 3/608 الرقم 2300)
أبانها، أو مات عنها في سفر) ولو في مصر (وليس بينها) وبين مصرها مدة سفر رجعت ولو بين مصرها مدته وبين مقصدها أقل مضت (وإن كانت تلك) أي مدة السفر (من كل جانب) منهما ولا يعتبر ما في ميمنة وميسرة، فإن كانت في مفازة (خيرت) بين رجوع ومضي (معها ولي، أو لا في الصورتين، والعود أحمد) لتعد في منزل الزوج (و) لكن (إن مرت) بما يصلح للإقامة كما في البحر وغيره. زاد في النهر: وبينه وبين مقصدها سفر (أو كانت في مصر) أو قرية تصلح للإقامة (تعتد ثمة) إن لم تجد محرما اتفاقا، وكذا إن وجدت عند الإمام (ثم تخرج بمحرم) إن كان". (الدر المختار علی تنویر الابصار (3/ 538)
"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه. (قوله: في بيت وجبت فيه) هو ما يضاف إليهما بالسكنى قبل الفرقة ولو غير بيت الزوج كما مر آنفا، وشمل بيوت الأخبية كما في الشرنبلالية. (قوله: ولا يخرجان) بالبناء للفاعل، والمناسب " تخرجان " - بالتاء الفوقية -؛ لأنه مثنى المؤنث الغائب أفاده ط. (قوله: إلا أن تخرج) الأولى الإتيان بضمير التثنية فيه وفيما بعده ط، وشمل إخراج الزوج ظلما، أو صاحب المنزل لعدم قدرتها على الكراء، أو الوارث إذا كان نصيبها من البيت لا يكفيها بحر: أي لا يكفيها إذا قسمته لأنه لا يجبر على سكناها معه إذا طلب القسمة، أو المهايأة ولو كان نصيبها يزيد على كفايتها. (قوله: أو لا تجد كراء البيت) أفاد أنها لو قدرت عليه لزمها من مالها، وترجع به المطلقة على الزوج إن كان بإذن الحاكم كما مر. (قوله: ونحو ذلك) منه ما في الظهيرية: لو خافت بالليل من أمر الميت والموت ولا أحد معها لها التحول - والخوف شديد - وإلا فلا. (قوله: فتخرج) أي معتدة الوفاة".(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 536)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1810/43-1560
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدین اگر اپنا خرچ خود اٹھالیتے ہوں، تو اولاد پر ان کوخرچ دینا لازم نہیں ہے۔ اور اگر خود کفیل نہیں ہیں اور اولاد میں سے کوئی ان کا پورا خرچ اپنی خوشی سے برداشت کرتاہے اور اس میں سبقت لے جاتاہے تو وہ خوش نصیب ہے، اس صورت میں بھی تمام اولاد سے نفقہ ساقط ہوجائے گا۔ لیکن اگر کوئی ایک والدین کا نفقہ دینے کے لئے تیار نہ ہو، تو تمام اولاد پر حسب وراثت والدین کا نفقہ واجب ہوگا۔
(و)تجب (علی موسر) ولو صغیراً (یسار الفطرة) علی الأرجح……(النفقة لأصولہ)…(الفقراء) ولو قادرین علی الکسب ……(بالسویة) بین الابن والبنت إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطلاق، باب النفقة، ۵: ۳۵۰- ۳۵۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۰: ۶۲۷- ۶۳۴، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔
قولہ: ”الفقراء“: قید بہ؛ لأنہ لا تجب نفقة الموسر إلا الزوجة (رد المحتار)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 839 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
کسی مریض پر شریعت کے مطابق دم کرنے کے لئے اگر کسی کامل پیر کی اجازت بھی ہو تو اس سے اس میں مزید تاثیر پیداہوتی ہے۔ شریعت کےمطابق دَم کرنے کی اجازت ہے۔ ابتدائی طور پر روزانہ ایک تسبیح استغفار کی پڑھیں۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 38 / 1139
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشر ط صحت سوال صورت مسئولہ میں جبکہ بچہ کے اعضاء بن چکے ہیں اور جان پڑچکی ہے، اس کو ضائع کرنا حرام ہے۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہو جیساکہ رپورٹ میں ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 2366/44-3571
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کزن یعنی چچا زاد ، پھوپھی زاد، خالہ زاداور ماموں زاد کے ساتھ نکاح جائز ہے جبکہ حرمت کی کوئی اور وجہ مثلاً رضاعت وغیرہ نہ پائی جائے، اور رضاعت کے ثبوت کے لئے دلیل کا ہونا ضروری ہے، لہذا عورت کا بلا گواہ کے یہ دعوی کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اس دعوی کی وجہ سے کوئی حرمت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ دونوں بدستور میاں بیوی رہیں گے۔
یَا اَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ اللَّاتِيْ آتَيْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا اَفَاءَ اللّٰهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالاتِكَ اللَّاتِيْ هَاجَرْنَ مَعَكَ۔۔۔۔ (القرآن الکریم: (الاحزاب، الآیۃ: 50)
قوله ( قرابة ) كفروعه وهم بناته وبنات أولاده وإن سفلن۔۔۔وفروع أجداده وجداته ببطن واحد فلهذا تحرم العمات والخالات وتحل بنات العمات والاعمام والخالات والأخوال فتح (رد المحتار: (فصل فی المحرمات، 28/3، ط: دار الفکر)
حل بنات العمات والاعمام والخالات والاخوال (ردالمحتار مع الدر المختار، کتاب النکاح، ج 04، ص 107، مطبوعہ کوئٹہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
عائلی مسائل
Ref. No. 1828/43-1628
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہرشخص اپنی زمین میں پورے طو پر تصرف کا مالک ہوتاہے، اپنی زمین کے چاروں جانب کچھ حصہ چھوڑ کردیوار چلانا، اور بغیر جگہ چھوڑے بالکل آخری کنارہ پر دیوار چلانا بھی درست ہے۔ البتہ اگر آپ نے اپنی زمین کے آخری کنارہ پر دیوار اٹھائی تو پھر اس جانب کھڑکی یا دروازہ یا روشن دان کھولنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ہمارے عرف اورملک کے قانون میں بھی کھڑکی وغیرہ کھولنے کی اجازت صرف اسی جانب ہوتی ہے جس جانب اپنی زمین ہو۔ اس لئے دوسرے کی زمین کی طرف گرچہ وہ ابھی تعمیر سے خالی ہو، کھڑکی وغیرہ کھولنا درست نہیں ہے۔ ملک کے قانون کے مطابق عمل کریں۔
ہمارے یہاں بعض علاقوں میں یہ عرف ہے کہ ہر دومکانوں کے درمیان کچھ جگہ (گلی کے لئے) چھوڑی جاتی ہے تاکہ دونوں مکان والے اپنی کھڑکی اس گلی میں کھول سکیں ، جہاں یہ عرف ہو وہاں اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 2535/45-3878
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اپنے والدین سے اگر وہ ایسی بات کرے گا تو توہین ہوگی، اور بے شرمی پر محمول ہوگا، اس لئے اگر ممکن ہو تو والدین کو غیرمحرم سے تعلقات کی حرمت کی عمومی بات کرے ، ان پر کوئی الزام نہ لگائے اور اپنے شبہہ کا اظہار نہ کرے۔ اور اگر ایسا نہ کرسکے اور خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت ہو تو اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 2594/45-4093
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے ایجاب و قبول کے نتیجہ میں شوہر پر بیوی کے حقوق اور بیوی پر شوہر کے حقوق واجب ہوجاتے ہیں، ان میں سے جو بھی دوسرے کی حق تلفی کرے گا، حق کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا، گہنگار ہوگا، اس لئے اگر شوہر بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ گنہگار، اور ملامت کا مستحق ہوگا۔ بیوی اگر پریشان ہواور علیحدگی چاہتی ہو تو کسی شرعی دارالقضاء میں فسخ نکاح کا دعوی کرسکتی ہے۔
فقال سبحانه وتعالى : ( وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ"أي : ولهن على الرجال من الحق مثل ما للرجال عليهن ، فليؤد كل واحد منهما إلى الآخر ما يجب عليه بالمعروف۔ (ابن كثير رحمه الله "تفسير القرآن العظيم" (1/363)
عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في خطبته في حجة الوداع : (فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ ، فَإِنَّكُم أَخَذتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ ، وَاستَحلَلتُم فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ ، وَلَكم عَلَيهِنَّ أَنْ لا يُوطِئْنَ فُرُشَكُم أَحَدًا تَكرَهُونَهُ ، فَإِن فَعَلنَ ذَلِكَ فَاضرِبُوهُنَّ ضَربًا غَيرَ مُبَرِّحٍ ، وَلَهُنَّ رِزقُهُنَّ وَكِسوَتُهُنَّ بِالمَعرُوفِ) (صحيح مسلم [1218])
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند