Frequently Asked Questions
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2682/45-4141
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرض کی جو رقم معاف کی گئی ہے وہ میت سے معاف کی گئی ہے لہذا اگر قرض خواہ اپنا قرض لے کر میت کے بچوں کو دیدیتے تو کوئی حرج نہیں تھا لیکن جب انہوں نے قرض معاف کیا ہے تو باقی ماندہ کل رقم میں یعنی چالیس ہزار میں سے ماں کو سدس ملے گا اور اس کے ساتھ جو دیگر مال واسباب ہوں ان کو بھی تقسیم سے قبل شامل کرکے ماں کو سدس دیاجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1130/42-349
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے والد نے جو کچھ جائداد چھوڑی ہے، اس کو 120 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے آپ کے دادا کو 20 حصے، دادی کو 20 حصے، آپ کی والدہ کو 15 حصے، آپ دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو 26 حصے(کل 52حصے) اور آپ کی بہن کو 13 حصے ملیں گے۔
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 39 / 0000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹانا والد کا تعاون ہے؛ صرف اس وجہ سے وراثت میں زید کو زیادہ حصہ نہیں ملے گا، والد کے ساتھ کام کرتے ہوئے اگر کوئی ماہانہ تنخواہ وغیرہ طے ہوئی تھی تو اس کا حساب کرکے پہلے اس کو دیدیا جائے گا پھر وراثت ےتقسیم ہوگی اور تمام لڑکوں کو برابربرابر حصہ ملے گا۔ تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ قرض وغیرہ کی ادائیگی کے بعد کل جائداد کو 72 حصوں میں تقسیم کرکے 9 حصے مرحوم کی بیوی کو، 7 حصے بیٹی کو، اور چودہ چودہ حصے ہر ایک بیٹے کو ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1067
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ جنازہ کی نماز کے بعدمیت کا چہرہ دکھانے سے احتراز کیا جاناچاہئےکیونکہ بعض مرتبہ احوال برزخ شروع ہوجاتے ہیں، تاہم اگر کوئی قریبی رشتہ دار آجائے تو اس کو مردے کا چہرہ دکھانے کی گنجائش ہے، لیکن اگر کوئی تغیر دیکھے تو کسی سے بیان نہ کرے۔ البتہ اس کو رسم ہرگز نہ بنایا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1132/42-333
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (الف) زید کی کل جائداد کو 64 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے بیوی کو8 حصے، ہر ایک بیٹے کو 14 حصے (کل 42حصے)، اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے (کل 14 حصے) ملیں گے۔
(ب) اگر کوئی اپنی زندگی میں ہی اپنی جائداد تقسیم کرنا چاہتا ہے تو کرسکتا ہے، اور اس میں بہتر یہ ہے کہ تمام مذکرومؤنث اولاد کو برابر برابر حصہ دے۔ لیکن اگر وراثت کے اعتبار سے حصوں کی تقسیم کرے تو بھی جائز ہے؟ لیکن اسے ہبہ کہیں گے، وراثت نہیں۔
(ج) فاطمہ کی کل جائداد کو 32 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے شوہر کو 8 حصے، ہر ایک بیٹے کو 6 حصے(کل 18حصے)، اور ہر ایک بیٹی کو 3 حصے (کل 6 حصے) ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2189/44-2332
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم کے انتقال کے وقت جو کچھ ان کی ملکیت میں تھا، اس پورے جائداد کو اس طرح تقسیم کریں گے کہ آپ کی سوتیلی بہن کو مرحوم کی بیٹی کی حیثیت سے حصہ ملے گا، لہذا مرحوم کی کل جائداد کو 64 حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے بیوی کو 8(آٹھ) حصے، تینوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو 14 (چودہ) حصے، اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو 7 (سات) حصے ملیں گے۔ والد صاحب نے جو کچھ اپنی زندگی میں بیچ دیا یا کسی کو دے کر مالک بنادیا اس کا اب کوئی حساب نہیں ہوگا، اس لئے انتقال سے دس سال قبل جو زمین بیچی تھی ان پیسوں میں سے ان کے انتقال کے وقت جو بچ گیا تھا صرف اس میں میراث تقسیم ہوگی۔ سرکار کی جانب سے آپ کی والدہ کو جو پینشن کی رقم ملتی ہے اس کی مالک آپ کی والدہ ہی ہیں، اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے، اس لئے کہ یہ رقم سرکار خاص ان کو ہی دے رہی ہےاور یہ سرکار کی جانب سے ایک عطیہ ہے وہ جس کو چاہے دے سکتی ہے۔
امداد الفتاوی میں ہے: "چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چا ہے تقسیم کردے۔"امداد الفتاویٰ ، کتاب الفرائض جلد ۴ ص:۳۴۳)
"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله سبحانه وتعالى أعلم." (بدائع الصنائع، کتاب الحدود ، فصل فی شرائط جواز اقامة الحدود جلد ۷ ص : ۵۷ ط : دار الکتب العلمیة)
"لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص." (فتاوی شامی، کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد جلد ۵ ص : ۵۱ ط : دارالفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2551/45-3889
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آدمی اپنی زندگی میں اپنی جائداد کا مالک ہوتاہے، وہ جیسا چاہے اپنی ملکیت میں تصرف کا اختیار رکھتاہے، کسی کو کم دے یا زیادہ دے اس کی اپنی مرضی ہے، شریعت نے اس کو کسی خاص حکم کا پابند نہیں ہے، تاہم شریعت نے اس بات کو پسند کیا ہے کہ باپ اپنی اولاد کے درمیان برابری کرے، اور اپنی زندگی میں جائدادتقسیم کرتے ہوئے لڑکے اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہ کرے۔اس لئے اگر آپ اپنی مرضی سے لڑکوں کو کاروبار والی جگہ اور لڑکیوں کو کم مالیت والی جگہ دینا چاہیں تو آپ کو اختیار ہے گوکہ مناسب نہیں ہے۔ اور اگر لڑکیوں کو اس پر کچھ نقد وغیرہ دے کر خوش کردیں تو اور بھی بہتر ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2652/45-4009
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال اگر وارثین میں صرف مذکورہ افراد ہیں تو مرحوم کی کل جائداد کو 12 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے دو حصے ماں کو ملیں گے اورپانچ پانچ حصے ہر ایک علاتی بھائی کو ملیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1234/42-635
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بڑے بھائی کی شادی کے موقع پر جو کچھ خرچ ہوا وہ بلا کسی شرط کے خرچ ہوا ہے، اس لئے وہ تمام بھائیوں کی طرف سے تبرع سمجھا جائے گا۔ اور اس کا حساب میں شمار نہیں ہوگا۔ اور چھوٹےدونوں بھائیوں کی شادی میں بڑا بھائی اپنی سہولت کے مطابق از راہ تبرع جو دینا چاہے دے گا یا نہیں دے گا، یہ اس کی مرضی پر منحصرہے؛ اس سے خرچ میں شرکت کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ اس لئے اب جو دوکان موجود ہے اس کو تین حصوں میں تقسیم کرکے سب کو برابربرابر حصہ دیا جائے گا۔
وکذلک لو اجتمع اخوۃ یعملون فی ترکۃ ابیھم ونما المال فھو بینھم سویۃ ولو اختلفوا فی العمل والرای (شامی ، کتاب الشرکۃ ، 6/392)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2772/45-4324
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بچہ زندہ پیداہوا یعنی پیدا ہوتے وقت اس میں زندگی کی کوئی علامت پائی گئی پھر فوت ہوگیا تو اس کا نام رکھاجائے گا، غسل دیاجائے گا ، مسنون کفن دیاجائے گااور نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اور اگر ماں کے پیٹ میں ہی مرچکاتھا اورپیدائش کے وقت زندگی کی کوئی علامت اس میں موجود نہیں تھی ، تو اس کا نام رکھاجائے گا، غسل دیاجائے گا اور ایک کپڑے میں لپیٹ کردفن کردیاجائے گا، مسنون کفن نہیں دیاجائے گا اور نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔
"(وإلا) يستهل (غسل وسمي) عند الثاني، وهو الأصح، فيفتى به على خلاف ظاهر الرواية إكراماً لبني آدم، كما في ملتقى البحار. وفي النهر عن الظهيرية: وإذا استبان بعض خلقه غسل وحشر هو المختار (وأدرج في خرقة ودفن ولم يصل عليه).
(قوله: وإلا يستهل غسل وسمي) شمل ما تم خلقه، ولا خلاف في غسله وما لم يتم، وفيه خلاف. والمختار أنه يغسل ويلف في خرقة، ولا يصلى عليه كما في المعراج والفتح والخانية والبزازية والظهيرية شرنبلالية. وذكر في شرح المجمع لمصنفه أن الخلاف في الأول، وأن الثاني لا يغسل إجماعاً. اهـ.
واغتر في البحر بنقل الإجماع على أنه لايغسل فحكم على ما في الفتح والخلاصة من أن المختار تغسيله بأنه سبق نظرهما إلى الذي تم خلقه أو سهو من الكاتب. واعترضه في النهر بأن ما في الفتح والخلاصة عزاه في المعراج إلى المبسوط والمحيط اهـ وعلمت نقله أيضاً عن الكتب المذكورة. وذكر في الأحكام أنه جزم به في عمدة المفتي والفيض والمجموع والمبتغى اهـ فحيث كان هو المذكور في عامة الكتب فالمناسب الحكم بالسهو على ما في شرح المجمع لكن قال في الشرنبلالية: يمكن التوفيق بأن من نفى غسله أراد غسل المراعى فيه وجه السنة، ومن أثبته أراد الغسل في الجملة كصب الماء عليه من غير وضوء وترتيب لفعله كغسله ابتداء بسدر وحرض. اهـ. قلت: ويؤيده قولهم: ويلف في خرقة حيث لم يراعوا في تكفينه السنة فكذا غسله (قوله: عند الثاني) المناسب ذكره بعد قوله الآتي وإذا استبان بعض خلقه غسل لأنك علمت أن الخلاف فيه خلافاً لما في شرح المجمع والبحر (قوله: إكراماً لبني آدم) علة للمتن كما يعلم من البحر، ويصح جعله علة لقوله فيفتى به (قوله: وحشر) المناسب تأخيره عن قوله هو المختار لأن الذي في الظهيرية والمختار أنه يغسل. وهل يحشر؟ عن أبي جعفر الكبير أنه إن نفخ فيه الروح حشر، وإلا لا. والذي يقتضيه مذهب أصحابنا أنه إن استبان بعض خلقه فإنه يحشر، وهو قول الشعبي وابن سيرين. اهـ. ووجهه أن تسميته تقتضي حشره؛ إذ لا فائدة لها إلا في ندائه في المحشر باسمه. وذكر العلقمي في حديث: «سموا أسقاطكم فإنهم فرطكم» الحديث.
فقال: فائدة سأل بعضهم هل يكون السقط شافعا، ومتى يكون شافعاً، هل هو من مصيره علقة أم من ظهور الحمل، أم بعد مضي أربعة أشهر، أم من نفخ الروح؟ والجواب أن العبرة إنما هو بظهور خلقه وعدم ظهوره كما حرره شيخنا زكريا (قوله: ولم يصل عليه) أي سواء كان تام الخلق أم لا (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 228)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند