احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2963/46-4761

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  میت کی جائداد  میں اس کے ورثاء کا حق شرعی طور پر ثابت ہوتاہے، اس میں کسی کے دعوی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ہر تقسیم کرنے والے پر لازم ہے کہ وراثت تقسیم کرتے وقت تمام حقداروں کو ان کا حق  تقسیم کرے، اور صرف اپنا حق وصول کرے، دیگر ورثہ کا حق چھوڑدے ۔  اگر کوئی جائداد پہلےسے تقسیم شدہ  نہیں ہے تو اب جلد از جلد اس کو تقسیم کرلیا جائے۔ صورت مسئولہ میں دادا کو جو پشتینی زمین ورثہ میں ملی  ہے اس میں ان کی تمام اولاد کا حق ہے۔ اس لئے جس طرح دو بیٹے وراثت کے مستحق ہیں ان کی چار بیٹیاں بھی وراثت کی مستحق ہیں۔ اب جبکہ دادا کے انتقال کے بعد تمام  چچا اور پھوپھی  بھی مرچکے ہیں تو ان کا جو حق بنتاہے اس کو ان کی اولاد کے حوالہ کردیاجائے وہ آپس میں شرعی طور پر تقسیم کرلیں گے۔ ان کے نام دنیاوی کاغذات میں گرچہ شامل نہ ہوں  مگر اللہ کے یہاں ان کا حق متعین ہے، اس کو دنیا کے رسم و رواج سے ختم نہیں کیاجاسکتاہے۔ اس لئے پھوپھیوں کی اولاد کو ان کا حق دیاجائے اور ان کو بتایاجائے کہ یہ آپ کا شرعی حق ہے، اور مقدار یہ ہے ، اور ان کو اپنے حصے پر قبضہ کا مکمل اختیار دیدیاجائے۔ اس کے باوجود جو ان میں سے لینے سے انکار کرے تو پھر  اس کا حصہ دیگر ورثاء میں شرعی طریقہ پر تقسیم کردیاجائے۔ ح جولوگ ناحق دوسروں کا مال کھائیں گے اور وراثت کی تقسیم شریعت کے مطابق  نہیں کریں گے ان سے قیامت میں بازپرس ہوگی۔  

قال اللہ تعالیٰ:{ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (11} [النساء: 11] "عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ألا من ظلم معاهدا، أو انتقصه، أو كلفه فوق طاقته، أو أخذ منه شيئا بغير طيب نفس، فأنا حجيجه يوم القيامة»" سنن أبي داود (3/ 171) قالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - : "(وَإِنْ أَخْرَجَتْ الْوَرَثَةُ احَدَهُمْ عَنْ عَرَضٍ أَوْ عَقَارٍ بِمَالٍ، أَوْ عَنْ ذَهَبٍ بِفِضَّةٍ، أَوْ بِالْعَكْسِ) أَيْ عَنْ فِضَّةٍ بِذَهَبٍ (صَحَّ قَلَّ، أَوْ كَثُرَ) يَعْنِي قَلَّ مَا أَعْطَوْهُ أَوْ كَثُرَ؛ لِأَنَّهُ يُحْمَلُ عَلَى الْمُبَادَلَةِ؛ لِأَنَّهُ صُلْحٌ عَنْ عَيْنٍ وَلَا يُمْكِنُ حَمْلُهُ عَلَى الْإِبْرَاءِ إذْ لَا دَيْنَ عَلَيْهِمْ وَلَا يُتَصَوَّرُ الْإِبْرَاءُ عَنْ الْعَيْنِ۔ "تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 49) وقال العلامۃ الشبلی –رحمہ اللہ- : " قَالَ الْأَتْقَانِيُّ مَعْنَى التَّخَارُجِ أَنْ يُصَالِحَ بَعْضُ الْوَرَثَةِ مِنْ نَصِيبِهِ عَلَى شَيْءٍ فَيَخْرُجُ مِنْ الْبَيْنِ وَإِنَّمَا أَخَّرَ هَذَا الْفَصْلَ لِقِلَّةِ وُقُوعِهِ؛ لِأَنَّ كُلَّ أَحَدٍ لَا يَرْضَى بِأَنْ يَخْرُجَ مِنْ الْبَيْنِ بِشَيْءٍ يَأْخُذُهُ؛ لِأَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّ الَّذِي يَأْخُذُهُ دُونَ نَصِيبِهِ. اهـ. (قَوْلُهُ وَلَا يُتَصَوَّرُ الْإِبْرَاءُ) أَيْ؛ لِأَنَّ الْإِبْرَاءَ عَنْ الْأَعْيَانِ غَيْرِ الْمَضْمُونَةِ لَا يَصِحُّ. اهـ " حاشية الشلبي (5/ 49)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2970/45-4701

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں کل ترکہ کو 15 حصوں میں تقسیم کریں گے جن  میں سے ہر ایک بیٹی کوپانچ پانچ حصے دیئے جائیں گے،  اور ایک ایک حصہ پانچوں بھتیجوں کو دیاجائے گا، اور بھتیجیاں محروم ہوں گی۔  

ومن لا فرض لھا من الاناث واخوھا عصبۃ لاتصیر عصبۃ باخیھا کالعم والعمۃ المال کلہ لعم دون العمۃ۔( سراجی، باب العصبات ص23)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2920/45-4614

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صور مذکورہ میں  بھتیجیاں اور بھانجے اور بھانجیاں سب ذوی الارحام ہیں اور ایک ہی درجہ کے ہیں ، اور ذوی الارحام کے لئے عصبہ اور اصحاب فرائض میں سے کوئی نہیں ہے، اس لئے صورت مذکورہ میں فاطمہ جان کی جائداد کو بارہ حصوں میں تقسیم کرکے ایک ایک حصہ سب کو دیدیاجائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2926/45-4519

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبر رات کو کھودی جائے یا دن میں کوئی فرق نہیں اور سوال میں مذکور صورت کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں، البتہ بلا عذر تدفین میں تاخیر خلاف سنت ہے۔ ویسرع فی جہازہ لما رواہ أبو داؤد عنہ صلی اللہ علیہ وسلم لما عاد طلحۃ بن البراء وانصرف قال: ما أری طلحۃ الا قد حدث فیہ الموت فاذا مات فأذنونی حتی أصلی علیہ وعجلوا بہ فانہ لا ینبغی لجیفۃ مسلم أن تحبس بین ظہرانی أہلہ والصارف عن وجوب التعجیل الاحتیاط للروح الشریفۃ فانہ یحتمل الاغماء‘‘ (رد المحتار: ج ٢، ص: ١٩٣) عن ابی ہریرۃ: یبلغ بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم أسرعوا بالجنازۃ فان یکن خیرا تقدموہا الیہ وان یکن شرا تضعوہ عن رقابکم‘‘ (سنن الترمذي: ج ٣، ص: ٣٣٥) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2916/45-4525 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں بیوی کے زیورات کے چار حصے کئے جائیں گے اس میں ایک حصہ شوہرکو ایک حصہ بیٹی کو اور دو حصہ بیٹے کو ملے گا۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2869/45-4583 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم نے اپنی زندگی میں جو کاروبار شروع کیا تھا چونکہ اس کی کاغذی کارروائی کے تعلق سے کسی کو نہیں بتایاتھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کاروبار میں آپ کی والدہ کا نام قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا، والد کا مقصد آپ کی والدہ کو اس کاروبار کا مالک بنانا نہیں تھا، اس لئے اس پورے کاروربار کو تمام ورثہ میں تقسیم کیاجائے گا اور اس کو والدہ کی پراپرٹی نہیں سمجھی جائے گی۔والد نے اپنی زندگی میں جو زمیں اور پلاٹ بیٹیوں کے لئے مختص کیا ہے لیکن کسی کو کسی پلاٹ کا مالک نہیں بنایا تھا تو ان کے اس کہنے کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور یہ تمام زمینیں اور پلاٹ بھی وراثت میں تقسیم ہوں گے۔ جس مکان میں والد رہتے تھے اس کے متعلق ان کا یہ کہنا کہ یہ بیٹے کا ہے ، یہ بھی معتبر نہیں ہے، اس لئے یہ مکان بھی وراثت میں تقسیم ہوگا۔ لہذا کاروبار، پلاٹ، مکان اور گھر میں یا بینک میں رکھے ہوئے روپئے پیسے سب کو شرعی اعتبار میں تمام ورثہ میں تقسیم کیاجائے گا۔ ساری جائداد اور پیسے کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے، آٹھواں حصہ مرحوم کی بیوی کو دینے کے بعد باقی سات حصے اولاد میں اس طرح تقسیم کریں گے کہ لڑکیوں کو اکہرا اور لڑکے کو دوہرا حصہ ملے گا۔ تاہم اگر تمام ورثہ والد کی تقسیم پر راضی ہوں تو اسی تقسیم کو باقی رکھاجاسکتاہے۔ لیکن اس میں سب کی رضامندی ضروری ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2868/45-4582 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم کی کل جائداد میں سے پہلے قرض کی رقم ادا کردی جائے پھر جو رقم بچے اس کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ میت کے پورے ترکہ کے 32 حصے کئے جائیں، جن میں 4 حصے مرحوم کی بیوی کو دیدیں ، 14 حصے بیٹے کو دیدیں اور سات سات حصے ہر ایک بیٹی کو دیدیں۔ گاڑی بیچنے کے بعد جو رقم آئی اس کو قرضہ کی ادائیگی کے بعد مذکورہ طریقہ پر آپس میں تقسیم کریں۔ چچا جان نے والد مرحوم کی دوکان سے جو پیسے لئے اس کا ان سے مطالبہ کیاجائے، اور جو کچھ انھوں نے اس رقم میں سے آپ لوگوں پر یا میت کے علاج پر خرچ کیا ہو اس کو منہا کرکے جس قدر رقم ان سے ملے اس کو اسی طریقہ پر تقسیم کرلیا جائے۔ چچا نے اگر دھوکہ کیا یا خیانت کی تو اس کا حساب ان کو قیامت میں دینا ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2864/45-4578 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبرستان اَمواتِ مسلمین کے لیے عام ہوتے ہیں، وہاں تدفین گاؤں کے تمام مسلمانوں کا حق ہے، پورے قبرستان میں کسی بھی جگہ مردہ کو دفن کرنا جائز ہے، البتہ حدیث میں آیاہے کہ میت کو نیک آدمی کے پڑوس کی برکتیں حاصل ہوتی ہیں اور اس کو اقرباء کے قرب سے انس محسوس ہوتا ہے، اس لئے اس سلسلہ میں بہتر ہوگا کہ جو سلسلہ پہلے سے چلا آرہاہے کہ ایک خاندان کے لوگ ایک خاص حصہ میں مدفون ہوتے آرہے ہیں اور قبرستان میں گنجائش بھی ہے، تو اسی سلسلہ کو باقی رکھاجائے۔ تاہم اگر کبھی قبرستان میں تنگی ہو تو کسی برادری والوں کا اصرار اور دوسروں کو اس حصہ میں تدفین سے روکنا شرعا جائز نہیں ہوگا۔ أخرج إِبْنِ أبي الدُّنْيَا فِي كتاب الْقُبُور عَن عَائِشَة رَضِي الله عَنْهَا قَالَت: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: مَا من رجل يزور قبر أَخِيه وَيجْلس عِنْده إِلَّا إستأنس ورد عَلَيْهِ حَتَّى يقوم. 0شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور (ص: 201) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2888/45-4574 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم بڑے ابو کا کل ترکہ 40 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے ہر ایک بڑی امی کو پانچ پانچ حصے، ہر ایک بھائی کو بارہ بارہ حصے اور بہن کو چھ حصے ملیں گے۔ جن بھائی بہنوں کا مرحوم کی زندگی میں انتقال ہوگیا ان کے لئے وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ تاہم اگر ان کی اولاد مالی اعتبار سے کمزور ہو تو از راہِ صلہ رحمی ان کو بھی ورثاء کا اپنے حصہ میں سے کچھ دیدینا کار ثواب ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2904/45-4546 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں مرحوم کی کل جائداد کو اس کی ایک بیوی اور چار بہنوں میں تقسیم کیاجائے گا۔ جو بہنیں مرحوم کی زندگی میں وفات پاگئیں ان کی اولاد کا اس وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ وراثت کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ کل جائداد کو 16 حصوں میں تقسیم کرکے چار حصے بیوی کو اور تین تین حصے ہر ایک بہن کو ملیں گے۔ تخریج حسب ذیل ہے: مرحوم ---12----تصحیح بعد الرد 16 --------------------------------------- بیوی1 اخت اخت اخت اخت 3 2 2 2 2 4 3 3 3 3 واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند