احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3058/46-4893

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔آپ کا اپنی جائداد کووقف علی الاولاد کرنا  شرعا معتبر ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،اس طرح وقف کرنا جائز ہے ،اور اِس سلسلے میں کوئی تحدید نہیں ہے کہ ایک شخص کتنی جائداد وقف کر سکتا ہے ۔ اور اس سلسلہ میں آپ کا اپنی اولاد کو اپنے اعتماد میں لینا اور ان کا اس وقف پر راضی ہوجانا بھی شرعا پسندیدہ عمل ہے۔

متی وقف علی اولادہ حال صحتہ وقال علی الفریضۃ الشرعیۃ قسم علی ذکورھم واناثھم بالسویۃ  وفی صحیح مسلم من حدیث النعمان بن بشیر : اتقو اللہ واعدلوا فی اولادکم ۔۔۔۔۔لانھم فسروا العدل فی الاولاد بالتسویۃ فی العطایا حال الحیاۃ ( ج: ۴، ص: ۴۴۴)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3035/46-4835

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں حقوق متقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد مرحوم  کی کل جائداد کو 18 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے ہر ایک بیٹی کو تین حصے،ماں کو تین حصے، بہن کو ایک حصہ اور بھائی کو دو حصے ملیں گے۔ یعنی کل مال کا دو ثلث بیٹیوں میں تقسیم ہوگا ، اور ایک سدس ماں کو دیاجائے گا اور پھر جو کچھ باقی بچے گا اس کو  بھائی بہنوں میں  للذکر مثل حظ الانثیین کے مطابق تقسیم کیاجائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3041/46-4863

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شہاب الدین مرحوم کی کل  جائداد منقولہ وغیرمنقولہ کو اس کی تمام اولاد اور موجودہ بیوی کے درمیان اس طرح تقسیم کیاجائے گا کہ کل مال کا ثمن یعنی آٹھواں حصہ مرحوم کی بیوی کو دینے کے بعد مابقیہ جائدادکو اس کی تمام اولاد میں للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے تقسیم کریں گے۔ چنانچہ تمام ترکہ کو 80 حصوں میں تقسیم کرکے فاطمہ بیوی کو 10 حصے، چاروں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو 14 حصے اور دو بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو سات حصے دیں گے۔

پھر فاطمہ کا انتقال ہوا تو فاطمہ کا کل ترکہ جو اس کی ملکیت میں ہے یا  جو اس کو اپنے مرحوم شوہر سے ملا ہے  سب کو اس کے دو حقیقی بیٹوں اور ایک حقیقی بیٹی کے درمیان للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے تقسیم کریں گے، اورسوتیلی ماں(فاطمہ) کے ترکہ میں سے  سوتیلے(مریم کے) بیٹوں کا شرعی قانون کے مطابق کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ فاطمہ کا کل ترکہ اگر 10 ہے جو شوہر سے ملا ہے تو  بیٹوں کو چارچار  اور بیٹی کو دو حصے ملیں گے۔

 پھر جب سعیدہ کا انتقال ہوا  تو اس کی پوری ملکیت اور جو کچھ اس کو اپنے مرحوم باپ سے اور پھر مرحومہ ماں سے ملا ہے ان سب کو اس کے دو حقیقی بھائیوں کے درمیان  برابر برابر تقسیم کریں گے،اور سوتیلے بھائیوں کو  سوتیلی بہن کے ترکہ سے کچھ نہیں  ملے گا۔ چنانچہ سعیدہ کو اپنے باپ سے سات حصے اور ماں سے دو حصے ملے تھے، تو اگر اس کے پاس کل نو حصے ہیں تو دونوں بھائی نصف نصف لے لیں گے۔

اگر اب تک میراث تقسیم نہیں ہوئی ہے تو موجود وارثین کے درمیان اس کو اس طرح تقسیم کرسکتے ہیں کہ کل ترکہ کے 320 حصے کریں، جن میں سے غلام محمد کو 56 حصے، احمد شیخ کو 56 حصے، عبدالعزیز کو 90 حصے، ضیاء الدین کو 90 حصے اور شریفہ کو 28 حصے دیدئے جائیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3016/46-4808

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال ، صورت مسئولہ میں  اگر مرحومین کا  کوئی مزید وارث نہیں ہے تو والدین کے انتقال کے بعد جو کچھ جائداد منقولہ اور غیرمنقولہ ترکہ میں موجود ہے، اس کو  9 حصوں میں تقسیم کریں گے،  جن میں سے تمام بیٹوں کو دو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ دیاجائے گا۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2963/46-4761

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  میت کی جائداد  میں اس کے ورثاء کا حق شرعی طور پر ثابت ہوتاہے، اس میں کسی کے دعوی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ہر تقسیم کرنے والے پر لازم ہے کہ وراثت تقسیم کرتے وقت تمام حقداروں کو ان کا حق  تقسیم کرے، اور صرف اپنا حق وصول کرے، دیگر ورثہ کا حق چھوڑدے ۔  اگر کوئی جائداد پہلےسے تقسیم شدہ  نہیں ہے تو اب جلد از جلد اس کو تقسیم کرلیا جائے۔ صورت مسئولہ میں دادا کو جو پشتینی زمین ورثہ میں ملی  ہے اس میں ان کی تمام اولاد کا حق ہے۔ اس لئے جس طرح دو بیٹے وراثت کے مستحق ہیں ان کی چار بیٹیاں بھی وراثت کی مستحق ہیں۔ اب جبکہ دادا کے انتقال کے بعد تمام  چچا اور پھوپھی  بھی مرچکے ہیں تو ان کا جو حق بنتاہے اس کو ان کی اولاد کے حوالہ کردیاجائے وہ آپس میں شرعی طور پر تقسیم کرلیں گے۔ ان کے نام دنیاوی کاغذات میں گرچہ شامل نہ ہوں  مگر اللہ کے یہاں ان کا حق متعین ہے، اس کو دنیا کے رسم و رواج سے ختم نہیں کیاجاسکتاہے۔ اس لئے پھوپھیوں کی اولاد کو ان کا حق دیاجائے اور ان کو بتایاجائے کہ یہ آپ کا شرعی حق ہے، اور مقدار یہ ہے ، اور ان کو اپنے حصے پر قبضہ کا مکمل اختیار دیدیاجائے۔ اس کے باوجود جو ان میں سے لینے سے انکار کرے تو پھر  اس کا حصہ دیگر ورثاء میں شرعی طریقہ پر تقسیم کردیاجائے۔ ح جولوگ ناحق دوسروں کا مال کھائیں گے اور وراثت کی تقسیم شریعت کے مطابق  نہیں کریں گے ان سے قیامت میں بازپرس ہوگی۔  

قال اللہ تعالیٰ:{ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (11} [النساء: 11] "عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «ألا من ظلم معاهدا، أو انتقصه، أو كلفه فوق طاقته، أو أخذ منه شيئا بغير طيب نفس، فأنا حجيجه يوم القيامة»" سنن أبي داود (3/ 171) قالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - : "(وَإِنْ أَخْرَجَتْ الْوَرَثَةُ احَدَهُمْ عَنْ عَرَضٍ أَوْ عَقَارٍ بِمَالٍ، أَوْ عَنْ ذَهَبٍ بِفِضَّةٍ، أَوْ بِالْعَكْسِ) أَيْ عَنْ فِضَّةٍ بِذَهَبٍ (صَحَّ قَلَّ، أَوْ كَثُرَ) يَعْنِي قَلَّ مَا أَعْطَوْهُ أَوْ كَثُرَ؛ لِأَنَّهُ يُحْمَلُ عَلَى الْمُبَادَلَةِ؛ لِأَنَّهُ صُلْحٌ عَنْ عَيْنٍ وَلَا يُمْكِنُ حَمْلُهُ عَلَى الْإِبْرَاءِ إذْ لَا دَيْنَ عَلَيْهِمْ وَلَا يُتَصَوَّرُ الْإِبْرَاءُ عَنْ الْعَيْنِ۔ "تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (5/ 49) وقال العلامۃ الشبلی –رحمہ اللہ- : " قَالَ الْأَتْقَانِيُّ مَعْنَى التَّخَارُجِ أَنْ يُصَالِحَ بَعْضُ الْوَرَثَةِ مِنْ نَصِيبِهِ عَلَى شَيْءٍ فَيَخْرُجُ مِنْ الْبَيْنِ وَإِنَّمَا أَخَّرَ هَذَا الْفَصْلَ لِقِلَّةِ وُقُوعِهِ؛ لِأَنَّ كُلَّ أَحَدٍ لَا يَرْضَى بِأَنْ يَخْرُجَ مِنْ الْبَيْنِ بِشَيْءٍ يَأْخُذُهُ؛ لِأَنَّ الظَّاهِرَ أَنَّ الَّذِي يَأْخُذُهُ دُونَ نَصِيبِهِ. اهـ. (قَوْلُهُ وَلَا يُتَصَوَّرُ الْإِبْرَاءُ) أَيْ؛ لِأَنَّ الْإِبْرَاءَ عَنْ الْأَعْيَانِ غَيْرِ الْمَضْمُونَةِ لَا يَصِحُّ. اهـ " حاشية الشلبي (5/ 49)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2970/45-4701

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں کل ترکہ کو 15 حصوں میں تقسیم کریں گے جن  میں سے ہر ایک بیٹی کوپانچ پانچ حصے دیئے جائیں گے،  اور ایک ایک حصہ پانچوں بھتیجوں کو دیاجائے گا، اور بھتیجیاں محروم ہوں گی۔  

ومن لا فرض لھا من الاناث واخوھا عصبۃ لاتصیر عصبۃ باخیھا کالعم والعمۃ المال کلہ لعم دون العمۃ۔( سراجی، باب العصبات ص23)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2920/45-4614

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صور مذکورہ میں  بھتیجیاں اور بھانجے اور بھانجیاں سب ذوی الارحام ہیں اور ایک ہی درجہ کے ہیں ، اور ذوی الارحام کے لئے عصبہ اور اصحاب فرائض میں سے کوئی نہیں ہے، اس لئے صورت مذکورہ میں فاطمہ جان کی جائداد کو بارہ حصوں میں تقسیم کرکے ایک ایک حصہ سب کو دیدیاجائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2926/45-4519

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبر رات کو کھودی جائے یا دن میں کوئی فرق نہیں اور سوال میں مذکور صورت کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں، البتہ بلا عذر تدفین میں تاخیر خلاف سنت ہے۔ ویسرع فی جہازہ لما رواہ أبو داؤد عنہ صلی اللہ علیہ وسلم لما عاد طلحۃ بن البراء وانصرف قال: ما أری طلحۃ الا قد حدث فیہ الموت فاذا مات فأذنونی حتی أصلی علیہ وعجلوا بہ فانہ لا ینبغی لجیفۃ مسلم أن تحبس بین ظہرانی أہلہ والصارف عن وجوب التعجیل الاحتیاط للروح الشریفۃ فانہ یحتمل الاغماء‘‘ (رد المحتار: ج ٢، ص: ١٩٣) عن ابی ہریرۃ: یبلغ بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم أسرعوا بالجنازۃ فان یکن خیرا تقدموہا الیہ وان یکن شرا تضعوہ عن رقابکم‘‘ (سنن الترمذي: ج ٣، ص: ٣٣٥) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2916/45-4525 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں بیوی کے زیورات کے چار حصے کئے جائیں گے اس میں ایک حصہ شوہرکو ایک حصہ بیٹی کو اور دو حصہ بیٹے کو ملے گا۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2869/45-4583 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم نے اپنی زندگی میں جو کاروبار شروع کیا تھا چونکہ اس کی کاغذی کارروائی کے تعلق سے کسی کو نہیں بتایاتھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کاروبار میں آپ کی والدہ کا نام قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا، والد کا مقصد آپ کی والدہ کو اس کاروبار کا مالک بنانا نہیں تھا، اس لئے اس پورے کاروربار کو تمام ورثہ میں تقسیم کیاجائے گا اور اس کو والدہ کی پراپرٹی نہیں سمجھی جائے گی۔والد نے اپنی زندگی میں جو زمیں اور پلاٹ بیٹیوں کے لئے مختص کیا ہے لیکن کسی کو کسی پلاٹ کا مالک نہیں بنایا تھا تو ان کے اس کہنے کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور یہ تمام زمینیں اور پلاٹ بھی وراثت میں تقسیم ہوں گے۔ جس مکان میں والد رہتے تھے اس کے متعلق ان کا یہ کہنا کہ یہ بیٹے کا ہے ، یہ بھی معتبر نہیں ہے، اس لئے یہ مکان بھی وراثت میں تقسیم ہوگا۔ لہذا کاروبار، پلاٹ، مکان اور گھر میں یا بینک میں رکھے ہوئے روپئے پیسے سب کو شرعی اعتبار میں تمام ورثہ میں تقسیم کیاجائے گا۔ ساری جائداد اور پیسے کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے، آٹھواں حصہ مرحوم کی بیوی کو دینے کے بعد باقی سات حصے اولاد میں اس طرح تقسیم کریں گے کہ لڑکیوں کو اکہرا اور لڑکے کو دوہرا حصہ ملے گا۔ تاہم اگر تمام ورثہ والد کی تقسیم پر راضی ہوں تو اسی تقسیم کو باقی رکھاجاسکتاہے۔ لیکن اس میں سب کی رضامندی ضروری ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند