احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2869/45-4583 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم نے اپنی زندگی میں جو کاروبار شروع کیا تھا چونکہ اس کی کاغذی کارروائی کے تعلق سے کسی کو نہیں بتایاتھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کاروبار میں آپ کی والدہ کا نام قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے استعمال کیا گیا تھا، والد کا مقصد آپ کی والدہ کو اس کاروبار کا مالک بنانا نہیں تھا، اس لئے اس پورے کاروربار کو تمام ورثہ میں تقسیم کیاجائے گا اور اس کو والدہ کی پراپرٹی نہیں سمجھی جائے گی۔والد نے اپنی زندگی میں جو زمیں اور پلاٹ بیٹیوں کے لئے مختص کیا ہے لیکن کسی کو کسی پلاٹ کا مالک نہیں بنایا تھا تو ان کے اس کہنے کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور یہ تمام زمینیں اور پلاٹ بھی وراثت میں تقسیم ہوں گے۔ جس مکان میں والد رہتے تھے اس کے متعلق ان کا یہ کہنا کہ یہ بیٹے کا ہے ، یہ بھی معتبر نہیں ہے، اس لئے یہ مکان بھی وراثت میں تقسیم ہوگا۔ لہذا کاروبار، پلاٹ، مکان اور گھر میں یا بینک میں رکھے ہوئے روپئے پیسے سب کو شرعی اعتبار میں تمام ورثہ میں تقسیم کیاجائے گا۔ ساری جائداد اور پیسے کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے، آٹھواں حصہ مرحوم کی بیوی کو دینے کے بعد باقی سات حصے اولاد میں اس طرح تقسیم کریں گے کہ لڑکیوں کو اکہرا اور لڑکے کو دوہرا حصہ ملے گا۔ تاہم اگر تمام ورثہ والد کی تقسیم پر راضی ہوں تو اسی تقسیم کو باقی رکھاجاسکتاہے۔ لیکن اس میں سب کی رضامندی ضروری ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2868/45-4582 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم کی کل جائداد میں سے پہلے قرض کی رقم ادا کردی جائے پھر جو رقم بچے اس کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ میت کے پورے ترکہ کے 32 حصے کئے جائیں، جن میں 4 حصے مرحوم کی بیوی کو دیدیں ، 14 حصے بیٹے کو دیدیں اور سات سات حصے ہر ایک بیٹی کو دیدیں۔ گاڑی بیچنے کے بعد جو رقم آئی اس کو قرضہ کی ادائیگی کے بعد مذکورہ طریقہ پر آپس میں تقسیم کریں۔ چچا جان نے والد مرحوم کی دوکان سے جو پیسے لئے اس کا ان سے مطالبہ کیاجائے، اور جو کچھ انھوں نے اس رقم میں سے آپ لوگوں پر یا میت کے علاج پر خرچ کیا ہو اس کو منہا کرکے جس قدر رقم ان سے ملے اس کو اسی طریقہ پر تقسیم کرلیا جائے۔ چچا نے اگر دھوکہ کیا یا خیانت کی تو اس کا حساب ان کو قیامت میں دینا ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2864/45-4578 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبرستان اَمواتِ مسلمین کے لیے عام ہوتے ہیں، وہاں تدفین گاؤں کے تمام مسلمانوں کا حق ہے، پورے قبرستان میں کسی بھی جگہ مردہ کو دفن کرنا جائز ہے، البتہ حدیث میں آیاہے کہ میت کو نیک آدمی کے پڑوس کی برکتیں حاصل ہوتی ہیں اور اس کو اقرباء کے قرب سے انس محسوس ہوتا ہے، اس لئے اس سلسلہ میں بہتر ہوگا کہ جو سلسلہ پہلے سے چلا آرہاہے کہ ایک خاندان کے لوگ ایک خاص حصہ میں مدفون ہوتے آرہے ہیں اور قبرستان میں گنجائش بھی ہے، تو اسی سلسلہ کو باقی رکھاجائے۔ تاہم اگر کبھی قبرستان میں تنگی ہو تو کسی برادری والوں کا اصرار اور دوسروں کو اس حصہ میں تدفین سے روکنا شرعا جائز نہیں ہوگا۔ أخرج إِبْنِ أبي الدُّنْيَا فِي كتاب الْقُبُور عَن عَائِشَة رَضِي الله عَنْهَا قَالَت: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: مَا من رجل يزور قبر أَخِيه وَيجْلس عِنْده إِلَّا إستأنس ورد عَلَيْهِ حَتَّى يقوم. 0شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور (ص: 201) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2888/45-4574 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم بڑے ابو کا کل ترکہ 40 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے ہر ایک بڑی امی کو پانچ پانچ حصے، ہر ایک بھائی کو بارہ بارہ حصے اور بہن کو چھ حصے ملیں گے۔ جن بھائی بہنوں کا مرحوم کی زندگی میں انتقال ہوگیا ان کے لئے وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ تاہم اگر ان کی اولاد مالی اعتبار سے کمزور ہو تو از راہِ صلہ رحمی ان کو بھی ورثاء کا اپنے حصہ میں سے کچھ دیدینا کار ثواب ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2904/45-4546 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں مرحوم کی کل جائداد کو اس کی ایک بیوی اور چار بہنوں میں تقسیم کیاجائے گا۔ جو بہنیں مرحوم کی زندگی میں وفات پاگئیں ان کی اولاد کا اس وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ وراثت کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ کل جائداد کو 16 حصوں میں تقسیم کرکے چار حصے بیوی کو اور تین تین حصے ہر ایک بہن کو ملیں گے۔ تخریج حسب ذیل ہے: مرحوم ---12----تصحیح بعد الرد 16 --------------------------------------- بیوی1 اخت اخت اخت اخت 3 2 2 2 2 4 3 3 3 3 واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2895/45-4563 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں مرحوم کی چھ بیٹیاں اور اییک بیٹاہے، ان کے علاوہ ورثہ میں سے کوئی نہیں ہے، تو ترکہ کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ لڑکے کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا حصہ ملے گا۔ لہذا مرحوم کا کل ترکہ آٹھ حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے بیٹے کو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ مرحوم نے جو کچھ مال ، زمین و مکان یا زیورات چھوڑے ان کو جمع کرلیاجائے اور ان کی مالیت نکال لی جائے پھر مذکورہ طریقہ پرپورے ترکہ کو تقسیم کرلیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2891/45-4533 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال، صورت مسئولہ میں مرحوم کی کل جائداد کو 12حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے ہر ایک بھائی کو دو دواور ہر ایک بہن کو ایک ایک حصہ ملے گا، ۔ چچا کو اس وراثت میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2718/45-4217

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ و باللہ التوفیق: فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق بہتر یہ ہے کہ آدمی کا انتقال جس جگہ پر ہو جائےاسی جگہ قریبی قبرستان میں اس کو دفن کیا جائے البتہ امام محمدؒنےایک میل یا دومیل کی مسافت پر منتقل کرنے کو جائز کہا ہے ۔لیکن ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنا یا ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنا مکروہ تحریمی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انتقال کے بعد جلدی تجہیز و تکفین کا حکم دیا گیا ہےجب کہ منتقل کرنے میں خاص کر ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنے میں غیرمعمولی تاخیر ہوگی جو پسندیدہ عمل نہیں ہے ۔

(قوله ولا بأس ‌بنقله ‌قبل ‌دفنه) قيل مطلقا، وقيل إلى ما دون مدة السفر، وقيده محمد بقدر ميل أو ميلين لأن مقابر البلد ربما بلغت هذه المسافة فيكره فيما زاد.(ردالمحتار على درالمختار ،كتاب الصلاة،باب صلاةالجنازة،ج:2،ص:146)أما إذا أرادوا نقله قبل الدفن أو تسوية اللبن فلا بأس بنقله نحو ميل أو ميلين.قال المصنف في التجنيس: لأن المسافة إلى المقابر قد تبلغ هذا المقدار. وقال السرخسي: قول محمد بن سلمة ذلك دليل على أن نقله من بلد ‌إلى ‌بلد ‌مكروه، والمستحب أن يدفن كل في مقبرة البلدة التي مات بها۔(فتح القدير،فصل في الدفن،ج:2،ص:141)

نقل ‌من ‌بلد إلى بلد مكروه" أي تحريما لأن قدر الميلين فيه ضرورة ولا ضرورة في النقل إلى بلد آخر وقيل أيجوز ذلك إلى ما دون مدة السفر وقيل في مدة السفر أيضا(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح، أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي، كتاب الصلاة، فصل في حملها و دفنها،ص614

جہاں تک منتقل کرنے کی صورت میں الکوحل کے استعمال کا حکم ہے اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ تمام قسم کے الکوحل حرام اور ناپاک نہیں ہیں بلکہ جو کجھور ،انگور اور منقی سے بنے وہ الکحل نجس ہیں جب کہ آج کے دور میں دوائی اور عطر میں جوالکوحل کا استعمال ہورہاہے عموما ان چیزوں کے علاوہ سے بنتے ہیں اس لیے جائز ہیں ۔فقہ البیوع میں مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں ،

وقد ثبت من مذہب الحنفیۃ المختار ان غیر الأشربۃ ( المصنوعۃ من التمر او من العنب ) لیست نجسۃ(فقہ البیوع ١/٢٩٤)تکملۃ فتح الملہم میں ہے : ان معظم الکحول التی تستعمل الیوم الادویۃ و العطور و غیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر انما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ کما ذکر نا فی باب بیوع الخمر ( تکملۃ فتح الملہم ،کتاب الاشربۃ، ٣/ ٦٠٨)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2072/44-0000

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں  مرحوم کا ترکہ کل 24 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے دو تہائی یعنی 16 حصے دونوں بہنوں میں  برابر برابر تقسیم ہوں گے، اور باقی 8 میں سے ہر ایک بہن کو ایک ایک حصہ اور ہر ایک بھائی کو دو دو حصے ملیں گے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 846

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  اگر کسی طرح کا کوئی نشان نہ ہو تو اگر مسلمانوں کے علاقہ میں پائی جائے یا ایسے علاقہ میں جہاں مسلمانوں کی کثرت ہو تو اس کو مسلمان ہی سمجھا جائے گا، اور اسکی جنازہ کی نماز پڑھ کر مسلمانوں کے قبرستان میں  تدفین کردی جائے گی۔

واللہ تعالی اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند