Frequently Asked Questions
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3302/46-9056
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں زید کا کل ترکہ پندرہ (15) حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے دو ثلث یعنی دس حصے دونوں بیٹیوں میں برابر برابر تقسیم کریں گے، پھر مابقیہ میں سے ہر بھتیجے کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ اور بھتیجیوں کا اس ترکہ میں شرعا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
و من لا فرض لھا من الاناث و اخوھا عصبۃ لاتصیر عصبۃ باخیھا کالعم والعمۃ ، المال کلہ للعم دون العمۃ (سراجی ص 23 مکتبہ بلال دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2920/45-4614
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صور مذکورہ میں بھتیجیاں اور بھانجے اور بھانجیاں سب ذوی الارحام ہیں اور ایک ہی درجہ کے ہیں ، اور ذوی الارحام کے لئے عصبہ اور اصحاب فرائض میں سے کوئی نہیں ہے، اس لئے صورت مذکورہ میں فاطمہ جان کی جائداد کو بارہ حصوں میں تقسیم کرکے ایک ایک حصہ سب کو دیدیاجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2926/45-4519
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبر رات کو کھودی جائے یا دن میں کوئی فرق نہیں اور سوال میں مذکور صورت کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں، البتہ بلا عذر تدفین میں تاخیر خلاف سنت ہے۔ ویسرع فی جہازہ لما رواہ أبو داؤد عنہ صلی اللہ علیہ وسلم لما عاد طلحۃ بن البراء وانصرف قال: ما أری طلحۃ الا قد حدث فیہ الموت فاذا مات فأذنونی حتی أصلی علیہ وعجلوا بہ فانہ لا ینبغی لجیفۃ مسلم أن تحبس بین ظہرانی أہلہ والصارف عن وجوب التعجیل الاحتیاط للروح الشریفۃ فانہ یحتمل الاغماء‘‘ (رد المحتار: ج ٢، ص: ١٩٣) عن ابی ہریرۃ: یبلغ بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم أسرعوا بالجنازۃ فان یکن خیرا تقدموہا الیہ وان یکن شرا تضعوہ عن رقابکم‘‘ (سنن الترمذي: ج ٣، ص: ٣٣٥) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند