احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2072/44-0000

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں  مرحوم کا ترکہ کل 24 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے دو تہائی یعنی 16 حصے دونوں بہنوں میں  برابر برابر تقسیم ہوں گے، اور باقی 8 میں سے ہر ایک بہن کو ایک ایک حصہ اور ہر ایک بھائی کو دو دو حصے ملیں گے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 846

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  اگر کسی طرح کا کوئی نشان نہ ہو تو اگر مسلمانوں کے علاقہ میں پائی جائے یا ایسے علاقہ میں جہاں مسلمانوں کی کثرت ہو تو اس کو مسلمان ہی سمجھا جائے گا، اور اسکی جنازہ کی نماز پڑھ کر مسلمانوں کے قبرستان میں  تدفین کردی جائے گی۔

واللہ تعالی اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1873/43-1723

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نماز جنازہ پڑھانے کا حق سب سے پہلے سلطان کو ہے پھر اس کے نائب  یعنی امیر شہرکو پھر قاضی کو پھر قاضی کے نائب کو پھر امام مسجد کو بشرطیکہ وہ ولی سے افضل ہو۔ اگر ولی میت خود نماز جنازہ پڑھائے تو اس کو یہ  حق ہے لیکن  اگر امام محلہ صالح دین دار اور ولی سے افضل ہے تو ولی میت کو چاہیے کہ امام سے نماز پڑھانے کی درخواست کرے ۔

رہا نماز جنازہ کے بعد دعا کا مسئلہ تو نمازِ جنازہ خود دعا ہے اور اس میں میت کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ہی اصل ہے، جنازہ کی نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا قرآن و سنت، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین سے ثابت نہیں ہے؛ اس لیے جنازہ کی نماز کے بعد اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا مکروہ و ممنوع ہے، ہاں  تدفین کے بعد قبر  کے پاس کھڑے ہوکر دعا کرنا ثابت ہے، اس پر عمل کرنا چاہئے۔

ویقدّم في الصلاة علیہ السلطان إن حضر أو نائبہ وہو أمیر المصر ثم القاضي ثم صاحب الشرط ثم خلیفة القاضي ثم إمام الحي فیہ إیہام وذلک أن تقدیم الولاة واجب وتقدیم إمام الحي مندوب فقط بشرط أن یکون أفضل من الولي وإلا فالولي أولی کما في المجتبی (درمختار)

ان تقدیم الوُلاة واجب، وتقدیم إمام الحی مندوب، فقط بشرط أن یکون أفضل من الولی، وإلاّ فالولی أولی کما فی المجتبی۔( الدر المختار) المحيط البرهاني في الفقه النعماني (ج:2، ص:205، ط:دار الكتب العلمية، ’’ولا يقوم الرجل بالدعاء بعد صلاة الجنازة؛ لأنه قد دعا مرة، لأن أكثر صلاة الجنازة الدعاء.‘‘ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (ج:3، ص:1213، ط:دار الفكر، بيروت) ’’ولا يدعو للميت بعد صلاة الجنازة لأنه يشبه الزيادة في صلاة الجنازة.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: محمد اسعد جلال

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2068/44-2067

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان اپنی جائداد تقسیم کرنا ہبہ کہلاتاہے اور  اس کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کرے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے۔ اور جو بیٹا مرحوم ہوگیا اس کے حصہ کے بقدر اس کی اولاد کو دینا بھی جائز ہے، اور اگر زیادہ ضرورتمند ہوں تو زیادہ بھی دے سکتاہے۔

' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» و في رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»'۔ (مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال»، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل". (رد المحتار، كتاب الوقف 4/ 444 ط:سعيد)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2489/45-3856

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میت کی تمام اولاد اگر آپسی رضامندی سے وراثت کی تقسیم  میں کمی زیادتی کرے تو اس کی گنجائش ہے ۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ پہلے شرعی ضابطہ کے مطابق تقسیم عمل میں آئے پھر جوکوئی اپنا حصہ کسی دوسرے کو دینا چاہے وہ اپنی مرضی سے دوسرے کو دے سکتاہے۔  صورت مسئولہ میں بڑے بیٹے کا اپنی مرضی سے حصہ لینا درست نہیں ہے، اور باپ کی موجودگی میں جو کچھ اس نے تعمیر میں مدد کی وہ ازراہ تبرع تھی، اس کی وجہ سے وراثت میں سے زیادہ حصہ کا مطالبہ جائز نہیں ہے۔ تمام جائداد کی تقسیم میں جائداد کی مالیت کے اعتبار سے تقسیم عمل میں آئے گی۔ اس لئے زمین مع مکان اور خالی زمین کی تقسیم میں فرق ہوگا، اور مکان لینے والوں پر خالی زمین والے کو تعمیر کے عوض کچھ رقم دینے کا فیصلہ بھی  باہمی رضامندی سےدرست ہوگا۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1255-42-592

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ایسی مجبوری میں از راہ انسانیت ان کا تعاون کرنے کی گنجائش ہے، تاہم جلانے میں کسی تعاون کی ضرورت نہیں ، اس لئےلاش کو جلانے کے عمل میں اور ان کے مذہبی رسومات میں تعاون سے گریز کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1117 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ایسی کوئی روایت ہمارے سامنے سے نہیں گذری۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1881/43-1751

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں مرحومہ کی کل جائداد کو  32 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے ایک چوتھائی یعنی آٹھ حصے مرحومہ کے شوہر کو ، ہر ایک بیٹے کو چھ چھ اور ہر ایک بیٹی کو تین تین حصے ملیں گے۔ مرحومہ کے بھائی کو اس کی وراثت میں حصہ نہیں ملے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 950/41-92

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بینک میں جتنی رقم موجود ہے ، وہ اور اس کے علاوہ جو بھی جائداد والد نے چھوڑی ہے، اس میں تمام اولاد کا حق ہے۔  کل مال کا آٹھواں حصہ مرحوم کی بیوی کے لئے ہے اور باقی جائداد اولاد میں اس طرح تقسیم ہوگی کہ بیٹوں کو دوہرا اور بیٹیوں کو اکہرا حصہ ملے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1038/41-266

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  خاتون کے شوہر  کی کل جائداد کواولاً  48/حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے 6/حصے خاتون یعنی بیوی کو ملیں گے، آٹھ آٹھ حصے ماں باپ  میں سے ہر ایک کو ملیں گے۔ اور ہر ایک بیٹے کو 13 حصے ملیں گے۔  پھر جو کچھ باپ کو ملا ہے  اس کو اس کی جائداد میں شامل کرکے  کل جائداد کو اس کی اولاد میں تقسیم کریں گے ، اس طور پر کہ مرحوم  سسرکی بیوی (خاتون کی ساس) کو  آٹھ میں سے ایک حصہ ملے گا، اور باقی سات حصے اس کی اولاد میں لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا حصہ دے کر تقسیم کریں گے۔ اولاد کی موجودگی میں بھائیوں کا حصہ نہیں ہوتا ہے۔ نیز  انتقال کے وقت جو کچھ آدمی کی ملکیت میں ہے  بینک میں  موجود رقم ہو  یاسونا چاندی اور  زمین وغیرہ ہو سب وراثت میں تقسیم ہوگا۔ البتہ شوہر کے انتقال کے بعد جو سرکار ی کی طرف سے بیوی کو ملتا ہے اس پر بیوی کا حق ہے اس کو شوہر کی وراثت میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند