مساجد و مدارس

Ref. No. 1088 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  زکوة اور صدقات واجبہ میں تملیک ضروری ہے، زکوة کی رقم فقراء کی ملکیت میں دینا ضروری ہے، بلا تملیک ان رقومات کا استعمال مدرسہ یا کسی بھی دوسرے رفاہی کاموں میں درست نہیں ہے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں بلا تملیک زکوة کی رقم سے مدرسہ کے لئے زمین خریدنا اور سایہ وغیرہ کا انتظام کرنا بھی درست نہیں ہے۔ اہل خیر حضرات نفلی صدقات اور امداد سے اس میں تعاون کریں ، یا پھر زکوة کی رقم کسی غریب کو دیدی جائے اور اس کو بااختیار بنادیا جائے پھر اس کو مدرسہ کے لئے خرچ کرنے کی ترغیب دی جائے اگر وہ اپنی مرضی سے دیدے تو اس کو مدرسہ کی زمین یا تعمیر میں لگانا درست ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1865/43-1728

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر واقف نے خود وقف میں اولاد کی تولیت کی وصیت نہیں کی ہے تو اب اس کی اولاد کو محض وراثۃ متولی بننے  کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ متولی مقرر کرنے کا حق قاضی کو ہے  اور اگر قاضی نہ ہو تو دیندار اور سربرآوردہ  شخصیات  جس کو متولی مقرر کریں اس کو تولیت دیدی جائے۔اس لئے مناسب معلوم ہوتاہے کہ  مسجد کی کمیٹی  بنالی جائے اور اس کے ذریعہ سے  کسی کو متولی مقرر کردیا جائے۔

فإن کان الواقف میتًا فوصیہ أولیٰ من القاضي، فإن لم یکن أوصیٰ إلی أحد فالرأي في ذٰلک إلی القاضي۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب القسمۃ / الباب الثالث عشر في المتفرقات ۵؍۲۳۲ زکریا

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 929/41-72

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جومال حرام طریقہ سے کمایا گیا ہو اس کو کسی حیلہ یا بہانے سے مسجد میں لگانا درست نہیں ہے۔ مال حرام کا حکم مالک کو واپس کرنا ہے، اور اگر مالک کا عمل نہ ہو تو بلانیت ثواب صدقہ کرنا ہے۔

لان سبیل الکسب الخبیث التصدق اذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ والحاصل انہ ان علم اربان الاموال وجب ردہ علیھم والا فان علم عین الحرام لایحل لہ ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ۔ (شامی 5/99)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2137/44-2197

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی اشیاء مسجد کے کاموں کے لئے  ہی استعمال کی جائیں، مسجد کی چیز دوسرے کسی کام میں یہاں تک کی رفاہی کام میں بھی استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے مذکورہ امور کے لئے مسجد کا مائک استعمال کرنا بالکل درست نہیں ہے، یہ سلسلہ فوری طور پر بند کردینا چاہئے، اور ذاتی یا رفاہی استعمال کے لئے  ایک الگ مائک کا نظم کرنا چاہئے اور مسجد کے باہر سے مذکورہ امور کے لئے اعلان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ نماز کے اوقات کا خیال رکھاجائے۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2555/45-3882

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مسجد میں پڑی ہوئی کوئی چیز پائی جائے تو وہ ’’لقطہ ‘‘ کے حکم میں ہے، اگر اس سامان کے اس جگہ رہنے دینے سے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو متولی پر لازم ہے کہ اس سامان کی حتی الوسع تشہیر کرے نمازوں کے بعد اعلان کرے، اور جس مدرسہ سے بچے آتے ہوں ان سے رابطہ کرکے اصل مالک تک اس لقطہ کو پہونچانے کی کوشش کرے۔ اگر باربار تشہیر اور پوری کوشش کے باوجود  اصل مالک کا پتا نہ چل سکے تو اس کو اپنے پاس محفوظ  رکھے، تاکہ مالک کے آجانے کی صورت میں مشکل ادائیگی میں آسانی ہو اور کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ لیکن اگرمالک کا پتا دشوار ہو اور مایوسی ہی ہاتھ لگے تو پھر  مالک ہی کی طرف سے  وہ لقطہ کسی فقیر کو صدقہ کردے، اور اگر ملتقط خود زکاۃ کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے۔تاہم اس کا خیال رہے کہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد  اگر اصل مالک آجاتاہے تو یا تو وہ صدقہ کو نافذ کردے اور اس پر راضی ہوجائے تو ٹھیک ہے ، اور اگر اپنے سامان  کا  مطالبہ کرے تو پھر ملتقط پر ضمان لازم ہوگا۔  

"وللملتقط أَن ينْتَفع باللقطة بعد التَّعْرِيف لَو فَقِيراً، وَإِن غَنِياً تصدق بهَا وَلَو على أَبَوَيْهِ أَو وَلَده أَو زَوجته لَو فُقَرَاء، وَإِن كَانَت حقيرةً كالنوى وقشور الرُّمَّان والسنبل بعد الْحَصاد ينْتَفع بهَا بِدُونِ تَعْرِيف، وللمالك أَخذهَا، وَلَايجب دفع اللّقطَة إِلَى مدعيها إلاّ بِبَيِّنَة، وَيحل إِن بَين علامتها من غير جبر". (ملتقی الابحر ، جلد ١،ص: ٥٢٩-٥٣١،ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1869/43-1730

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت میں مال پر جرمانہ جائز نہیں، کیونکہ کسی مسلمان کو شرعی وجہ کے بغیر کسی کامال لینا جائز نہیں ہے ۔ ۔ظلم وزیادتی کے ذریعے لئے ہوئے مال کو مدرسہ میں  پر خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔جس قدر جلد ہوسکے جرمانہ کی رقم ادا کردی جائے، اگر جلد اداکرنا ممکن نہ ہو تو اس  کو قسطوار اداکردیاجائے تاکہ حقدار کو اس کا حق مل جائے ۔ اس رقم سے تعمیر شدہ کمرے کو تعلیم کے لئے استعمال کیا جاسکتاہے، بشرطیکہ جس قدر رقم اس میں لگی ہے وہ اس کے مالک کو لوٹادی جائے۔

''وفي شرح الآثار : التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ .والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال''۔ (رد المحتار) (4/ 61)

"مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي." (رد المحتار) (4/ 61)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 41/874

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حلال ہے، تاہم اگر کسی مفسدہ کا اندیشہ ہو تو لینے سے گریز کرنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2348/44-3528

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     متولی صاحب کی ذمہ داری ہے کہ نمازیوں کی تکلیف دور کریں، اور مسجد کے سامان کی حفاظت کریں، جو چیز کام کی نہ ہو اس کو بیچ کر دوسری ضرورت  کی چیزیں خرید لیں۔ چند لوگ بیٹھ کر اگر ان کو سمجھائیں تو شاید ان کے پاس اگر کوئی وجہ ہو تو اس کی روشنی میں مسئلہ کا حل نکالا جاسکے۔   متولی صاحب کے پاس  اے سی نہ چلانے کی کوئی وجہ تو  ہوگی۔ اتنی سی بات کی وجہ سے متولی کو تولیت سے ہٹانے کی بات کرنا مناسب نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2059/44-2063

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن کریم کی تلاوت پر اجرت لینا دینا جائز نہیں ہے، البتہ کسی بھی طرح اجرت نہ ہوتے ہوئے کوئی مدرسہ میں امدادی رقم دیدے تو اسے مدرسہ کے تمام مصارف میں خرچ کرسکتے ہیں۔ (شامی)  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2058/44-0000

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مہتمم صاحب جو آپ کو ہدیہ دیتے ہیں اس کا لینا آپ کے لئے درست ہے، اور اس کی تحقیق آپ کے ذمہ لازم نہیں  کہ وہ کون سا پیسہ ہے۔ اگر مہتمم صاحب نے مدرسہ کی رقم کو غلط مصرف میں خرچ کیا تو وہ ذمہ دار ہوں  گے، مدرسہ میں مختلف قسم کی آمدات ہوتی ہیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف