مساجد و مدارس

Ref. No. 961

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اس میں اصل یہ ہے کہ واقف نے جو سامان جس مسجد کے لئے وقف  کیا ہے اس کو اسی مسجد میں استعمال کیا جائے ، کسی دوسری مسجد میں منتقل نہ کیا جائے ، تاہم ضیاع مال سے بھی اجتناب ضروری ہے،  اس لئے اگر کسی مسجد کا سامان زائد ہونے کی وجہ سے خراب ہورہا ہو تو متولی اور اہل محلہ کے مشورہ سے دوسری مسجد میں منتقل کیا جاسکتا  ہے۔ مسجد کی چٹائی نماز کے لئے کسی دوسری جگہ وقتی ضرورت کے لئے لیجانا درست ہے، تاہم متولی اور اہل محلہ کی رائے سے کیا جائے اور حفاظت کا مکمل خیال  رکھا جائے۔ مسجد کا سامان ذاتی استعمال کے لئے گھروں میں لیجانے کی اجازت نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2154/44-2231

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بہتر ہے کہ مدرسہ کے اوقات کے علاوہ اس کا نظم رکھاجائے، البتہ اگر کبھی مدرس صاحب مفوضہ امور انجام دینے کے بعد   فارغ ہیں اور کوئی بچہ آگیا تو اس کو سپارہ دے کر پیسہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ حرام نہیں ہوگا۔ تاہم اگر مدرس صاحب پڑھائی کا نقصان کرکے ، اور کھنٹہ چھوڑکر سپارے فروخت کرتے ہیں تو یہ خیانت ہوگی اور ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا لیکن پیسہ حلال ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 960

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بلا کسی وجہ شرعی کے اوپر کی منزل میں نماز پڑھنا اور نیچے کے حصے کو چھوڑدینا مکروہ ہے۔لہذا نماز نیچے کی منزل میں ہی پڑھی جائے ۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2323/44-3487

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محلہ والوں  کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی مسجد  کی تمام ضروریات کا خیال رکھیں، تاہم مسجد کے لئے ان سے زبردستی چندہ لینا جائز نہیں  ہوگا۔ اگرچندہ اس طرح ہو کہ  مسجد کی ضروریات ان کے سامنے رکھی جائیں اور کہاجائے کہ مسجد کمیٹی نے یہ طے کیا ہے کہ محلہ کے افراد یہ طے شدہ رقم دیدیں تو ضرروریات پوری ہوسکتی ہیں، اس لئے ہم آپ سے یہ چندہ کرنے آئے ہیں، توامید ہے کہ اس طرح محلہ والے چندہ دینے کے لئے تیار ہوجائیں گے۔  اور اگر کچھ افراد چندہ نہ دیں تو ان کو چھوڑدیاجائے، ان سے بالکل بھی تعرض نہ کیا جائے ، ان سے  زبردستی کرنا یاکسی بھی طرح ان کو اذیت دینا شرعا جائز نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1031

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر وقت پر آنے پرداخلہ فیس میں رعایت کردی جائے یا بالکل معاف کردی جائے  اور جو طلبہ تاخیر سے آئیں ان سے داخلہ فیس وصول کی جائے، یا ان کی مفت خوراکی بند کردی جائے اور ان سے خوراکی کے پیسے وصول کئے جائیں تو یہ جرمانہ نہیں بلکہ رعایت کرنا یا رعایت نہ کرنا ہوا اور یہ صورت بلاشبہ درست ہے۔ اور جب لینا درست ہوا تو ان کو ذمہ داران ان تمام مواقع میں خرچ کرسکتے ہیں جہاں وہ داخلہ فیس خرچ کرتے ہیں۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 38 / 1084

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ضرورت کے پیش نظر کیمرے نصب کرنے کی گنجائش ہے۔ 

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 997 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: مذکورہ مسئلہ  درست ہے، مفتی صاحب نے صحیح فرمایا ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2088/44-2269

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

عیدگاہ ایک  کھلا ہوا میدان ہوتا ہے، حفاظت کے لیے اس کی چہاردیواری کراسکتے ہیں، عیدگاہ میں اوپر لنٹر ڈالنا یعنی چھت بنانا مناسب نہیں، اگر عید کے دن  لوگ زیادہ ہوں تو آگے پیچھے جگہ دیکھ کر صفیں بڑھالی جائیں، امام کا عیدگاہ میں ہی کھڑا ہونا ضروری نہیں ہے اگر آگے گنجائش ہے تو امام باہر صفوں کے آگے کھڑا ہوسکتاہے۔ پھر بھی اگرکچھ لوگوں کو  جگہ نہیں ملی تو وہ  محلے کی بڑی مسجد میں یا جامع مسجد میں نماز عید ادا کرلیں مگر عیدگاہ  کے اوپرچھت نہ ڈالیں تو بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1807/43-1571

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس کو توڑنے میں اور پھر بنانے میں کافی صرفہ آئے گا، اور نمازیوں کو اس سے کوئی پریشانی بھی نہیں ہے،  مسجد کی مسجدیت میں کوئی فرق نہیں آرہاہے تو اس ٹینک کو اسی حالت پر رہنے دیاجائے ۔  وضوخانہ اور اس کے لوازمات آج کل مصالح مسجد میں سے ہیں۔ اس لئے اس کی گنجائش ہے۔ اس میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ان شاء اللہ پورا ثواب حاصل ہوگا۔

وحاصلہ أنّ شرط کونہ مسجدا أن یکون سفلہ وعلوہ مسجدا لینقطع حق العبد عنہ لقولہ تعالی: وأنّ المساجد للہ (الجن: ۱۸) بخلاف ما إذا کان السرداب والعلوّ موقوفا لمصالح المسجد فہو کسرداب بیت المقدس ، ہذا ہو ظاہر الروایة ۔ (ردالمحتار، مطلب في أحکام المسجد: ۶/۵۴۷، ط: زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 39 / 951

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جو زمین مسجد کی ہے اس کو مسجد کے ساتھ شامل کردیا جانا ضروری ہے۔ اسکی آسان شکل کیا ہو گی اس کے متعلق کسی قریبی معتبر علماء ومفتیان سے معائنہ کرالیں تاکہ آسان حل نکل سکے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند