Frequently Asked Questions
مساجد و مدارس
Ref. No. 2169/44-2275
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مدرسہ والے سرکاری محکمہ سے اس کی اجازت لے لیں تو ایسا کرنا درست ہوگا، ورنہ اس سے احتراز کیاجائے۔ فریج صحیح ہے یا خراب وہ بہر حال سرکار کی پراپرٹی ہے، کسی دوسرے کے لئے اس کا ذاتی استعمال بغیر اجازت کے جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1320/42-697
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مائک خریدنے کے لئے گرچہ چندہ محلہ والوں سے لیا گیا ہو مگر ان کے دینے کا مقصد بھی مسجد میں اذان دینا اورمسجد سے متعلق دیگر امور ہیں۔ اس لئے اگر مسجد میں کوئی چیز گم ہوگئی تو اس کا اعلان مسجد کے مائک سے ہوسکتاہے، اسی طرح اگر کوئی بچہ گم ہوجائے تو اس کے لئے بھی اعلان کی گنجائش ہے، لیکن اس کے علاوہ مسجد کے مائک سے ہر گمشدہ چیز کا اعلان کرنا جائز نہیں ہے۔ نیز اس کی عام اجازت دینے میں منتظمین کو کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑسکتاہے اور آپسی نزاع کا باعث بھی ہے۔ اس لئے مسجد کے مائک سے انسانی جان کے علاوہ دیگرگمشدہ چیزوں کا اعلان درست نہیں ہے۔ تاہم مسجد میں میت اور جنازہ کا اعلان درست ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے نجاشی (شاہِ حبشہ) کی موت کا اعلان مسجد میں کیاتھا، اسی طرح ’’غزوۂ موتہ‘‘ کے امراء کی شہادت کی اطلاع دی، اس وقت آپ ﷺ مسجد میں منبر پر تشریف فرماتھے۔( شرح البخاری للعینی 4/22) (آپ کے مسائل اور ان کا حل 3/261) تاہم اگر خاص مائک کے لئے ہی محلہ والوں سے چندہ کرکے مائک خریدا گیا ہواور مسجد کے باہر سے اعلان ہو تو پھر اس سے عام اعلانات بھی ہوسکتے ہیں اور اذان بھی دی جاسکتی ہے۔
شرط الواقف کنص الشارع أی فی المفہوم والدلالة ووجوب العمل بہ۔ (الدر المختار، کتاب الوقف / مطلب فی قولہم شرط الواقف کنص الشارع، وکذا فی الأشباہ والنظائر، کتاب الوقف / الفن الثانی، الفوائد: ۱۰۶/۲) (تنقیح الفتاویٰ الحامدیة ۱۲۶/۱)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
مساجد و مدارس
Ref. No. 2117/44-2140
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی اس خالی زمین پر جو مسجد کے لئے وقف تھی، مسجد بنانا بلا شبہہ جائز ہے، اس کو مسجد ہی رہنے دیا جائے، اب اس پر مسجد کے احکام نافذ ہوں گے۔ جولوگ وہاں مسجد بنانے کے خلاف ہیں ان کے پاس ممانعت کی کوئی وجہ شرعی اگر ہو تو ضرور مطلع کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2577/45-3951
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طالب علم کو سبق پڑھانا اور سبق یاد کرانے کے لئے اس سے پوچھنا اور تنبیہ کرنا استاذ کی اخلاقی ذمہ داری ہے،بچہ کے دماغ میں بٹھانا اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اور ذمہ داروں کی پوچھ گچھ کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پر کوئی الزام لگانا مقصود ہے، چنانچہ جو بچہ غبی ہے، کئی بار یاد کرانے پر بھی وہ یاد نہیں رکھ پاتاہے تو ذمہ داران اس کی بابت کوئی سوال نہیں کرتے ہیں۔ لیکن جو طالب علم ذہنی طور پر ٹھیک ہے اور پھر بھی فیل ہورہاہے اس کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ استاذ کی مکمل توجہ اور تنبیہ نہ ہونے کی وجہ سے بچہ نے سستی کی، اگر متعلقہ استاذ تھوڑی سختی سے پیش آتے تو بچہ فیل نہ ہوتا۔ تاہم اگر استاذ نے اپنے طور پر سبق سن کر ، تنبیہ اور سختی سے پیش آکر سبق یاد کرانے کی کوشش کی لیکن پھر بھی بچہ فیل ہوا تو استاذ پر کوئی الزام نہیں۔ اگر استاذ نے پڑھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی، اپنی ذمہ ادری کو مکمل طور پر پورا کیا، اور کلاس کے اکثر بچے پاس ہوئے پھر ایک دو بچے فیل ہوجائیں تو یہ استاذ کی غلطی متصور نہ ہوگی، اور اس طالب علم کے حوالہ سے استاذ مسئول نہ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1445/42-905
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ داڑھی منڈوانا یا کٹواکر ایک مشت سے کم رکھنا گناہ ہے،ایسا شخص فاسق ہے، اس کو امام بنانا مکروہِ تحریمی ہے، اگرتوبہ کرلے تو پھر جب تک داڑھی ایک مشت نہ ہو جائے اس وقت وہ شخص امامت کا اہل نہیں ہے۔
"و أما الأخذ منها وهي دون ذلك كما فعله بعض المغاربة و مخنثة الرجال فلم يبحه أحد، و أخذ كلها فعل يهود الهند و مجوس الأعاجم". (٢/ ٤١٨، ط: سعيد( و أیضاً: "صلى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة". و في الشامية: "(قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أن الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع".(شامی 1/562)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2578/45-3952
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکیوں کی تعلیم کا مسئلہ بڑا نازک ہے، ایک طرف ان کی دینی تعلیم بھی ضروری ہے دوسری طرف ان کی عفت و عصمت کی حفاظت کا انتظام کامل بھی ضروری ہے۔ اس لئے اولا تو بچیوں کو گھروں میں کسی خاتون کے ذریعہ تعلیم دینے کی کوشش کی جائے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مجبوری میں لڑکیوں کے مدرسہ میں داخل کیاجاسکتاہے جہاں پڑھانے والی خواتین ہوں۔ اور ایسے مدرسے بھی قائم کئے جاسکتے ہیں ۔ اور اس سلسلہ میں بہتر یہ ہے کہ مدرسہ غیراقامتی ہو کہ لڑکیاں محرم کے ساتھ پڑھنے جائیں اورمحرم کے ساتھ گھر واپس آئیں، اور مردوں سے بالکل اختلاط نہ ہو اور پردہ کا پورا اہتمام رہے۔ اور اگر اقامتی ادارہ کی سخت ضرورت ہو تو مکمل احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس کی گنجائش ہوگی، اور مہتمم وغیرہ سب پر معقول اور مناسب پردہ لازم ہوگا۔ مہتمم نیک طبیعت ہو اور پورے طور چوکنا اور محتاط رہے کہ کہیں کوئی بے احتیاطی نہ ہونے پائے اور کسی فتنے کا دروازہ نہ کھلے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1200/42-499
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد شرعی کے کسی بھی حصہ کو مسجد کے علاوہ کسی دوسرے استعمال میں لانا درست نہیں ہے۔ البتہ اگر ابتدائے بناء کے وقت ہی مسجد کے نیچے مصالح مسجد کے لئے کسی جگہ کو خاص کرلیاجائے تو بعض علماء کے نزدیک اس کی گنجائش ہے۔ لیکن بیت الخلاء مصالح مسجد میں شامل نہیں ہوتاہے، اس لئے مسجد شرعی کے کسی بھی حصہ میں خواہ اوپر یا نیچے بیت الخلاء بنانا جائز نہیں ہے۔
لوبنی فوقہ بیتا للامام لایضر لانہ من المصالح اما لو تمت المسجدیۃ ثم اراد لبناء منع (الدرالمختار 6/548) لو جعل الواقف تحتہ بیتا للخلاء ھل یجوز کما فی مسجد محلۃ الشحم فی دمشق، لم ارہ صریحا قال الرافعی الظاہر عدم صحتہ، جعلہ مسجدا بجعل بیت الخلاء تحتہ کمایاتی انہ لو جعل السقایۃ اسفلہ لایکون مسجدا فلذا بیت الخلاء لانھما لیسا من المصالح (ردالمحتار 2/428زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1930/43-1831
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کھیتی کی زمین جو مسجد کے لئے وقف ہے، اور وہاں اب تک مسجد نہیں بنی ہے، بلکہ مسجد کے لئے آمدنی اس سے آتی ہے تو اس کو بدل کر دوسری زمین لینا جو اس سے بہتر ہو، درست ہے۔ اس صورت میں مسجد کے لئے آمدنی دوگنی ہوجاتی ہے اور یہ بظاہر واقف کے منشاء کے خلاف بھی نہیں ہے۔ اس لئے مذکورہ زمین تبدیل کی جاسکتی ہے۔ اور سابقہ زمین کو قبرستان بنایاجاسکتاہے۔
والثانی أن لایشرطہ سواء شرط عدمہ أو سکت لکن صار بحیث لاینتفع بہ بالکلیۃ بأن لایحصل منہ شیئ أصلا أو لا یفی بمؤنتہ فہو أیضا جائز علی الأصح۔ (شامی، کتاب الوقف مطلب فی استبدال الوقف وشروطہ، مطبوعہ کوئٹہ ۳/۴۲۴، کراچی ۴/۳۸۴، زکریا ۶/۵۸۳، البحر الرائق کوئٹہ ۵/۲۲۳، زکریا ۵/۳۷۳)
وصح شرط أن یستبدل بہ أی بالوقف غیرہ أی یبیعہ و یشتری بثمنہ أرضا أخریٰ إذا شاء عند أبی یوسف استحسانا لأن فیہ تحویلہ إلی ما یکون خیرا من الأول أو مثلہ فکان تقریراً لا إبطالا فإذا فعل صارت الثانیۃ کالأولیٰ فی شرائطہا۔ (مجمع الأنہر، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۲/۵۷۶)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2035/44-2010
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(1) مسجد کے تہہ خانے میں دوکانیں بناکر کرایہ پر دینا درست ہے۔ مسجد شہید ہونے سے تمام مکان پر مسجدیت لازم نہیں ہوگئی۔(2) جو حصہ خارج مسجد ہے تعمیر کے وقت نیت کرکے اس کو مسجد میں داخل کیاجاسکتاہے، وہ حصہ آئندہ سے مسجد شرعی کا حصہ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند