Frequently Asked Questions
مساجد و مدارس
Ref. No. 2580/45-3953
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صف اول کا اہتمام کرنا بڑی فضیلت کی بات ہے، لیکن مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے کسی کےلیے مسجد میں اپنی مخصوص جگہ متعین کرنے کی گنجائش نہیں ہے، جو شخص مسجد میں پہلے آئے گا وہی آگے کی صف میں موجود خالی جگہ کا زیادہ حق دار ہوگا، صف اول میں پہلے آکر رو مال وغیرہ ڈال دینے سے وہ جگہ اس کے لیے مخصوص نہیں ہوجاتی ہے، ہاں اگر فوراً واپس آنا ہو اور مذکورہ جگہ پر رومال ڈال دے تو اس کے لیے وہ جگہ مخصوص ہوگی، حضرات فقہاء نے فوری طور پر لوٹنے کی صورت میں اس جگہ کو مخصوص کرنےکی اجازت دی ہے۔ لہٰذا مذکورہ صورت کہ رومال ڈال کر صف کے اخیر میں قرآن پڑھنے سے وہ جگہ مخصوص نہیں ہوگی۔
وتخصيص المكان لنفسه، وليس له إزعاج غيره. لأنه يخل بالخشوع، قال في القنية: له في المسجد موضع معين يواطب عليه وقد شغله غيره قال الأوزاعي له أن يزعجة وليس له ذلك عندنا لأن المسجد ليس ملكا لأحد قلت وينبغي تقيده بما اذا لم يقم عنه علي نيه عوده بلا مهلة كما لو قام للوضوء ومثلاً ولا سيما اذا وضع فيه ثوبه لتحقق سبق يده. (شامي: ج 3، ص: 436)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2676/45-4147
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں آپ پر ضمان نہیں آئے گا کیونکہ بکری کی ہلاکت میں آپ کی طرف سے کوئی تعدی نہیں پائی گئی اور فقہاء کرام نے ضابطہ مقرر کیا ہے۔ ’’الأمانات لا تضمن الا بالتعدي أو التفریط‘‘
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1304 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: حکومت کا یہ فنڈ بچوں کی تعلیم و ترقی میں ہی صرف ہونا چاہئے۔ دوسرے کاموں میں دوسری مدات سے مدد لی جائے، حکومت کا یہ فنڈ اس طرح مسجد میں لگانا جائز نہیں ہے۔ اگر یہ پیسے بچوں کو تقسیم کردیے جائیں تب بھی مناسب نہیں کہ تعلیم کے علاوہ دوسرے امور میں ان کو خرچ کیا جائے۔ تاہم اب اگر بچوں کے ذمہ داران ان پیسوں کو مسجد میں بطور چندہ دینا چاہیں تو وہ اپنی ملکیت میں ہونے کی وجہ سے ایسا تصرف کرسکتے ہیں؛ لیکن پھر بھی احتیا ط کے خلاف ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1938/44-1863
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مدرسہ کے احاطہ میں موجود مسجد اگر مسجد شرعی ہے تو اس کے بھی وہی احکام ہیں جو دیگر مساجد کے ہیں، اورمساجد کی تعمیر کے مقاصد میں دینی تعلیم بھی شامل ہوتی ہے۔ اس لئے انتظامیہ کی اجازت سے مسجد میں قرآن کریم کی تعلیم کا نظم کرنا اور مسجد کی بجلی کا استعمال کرنا جائز ہے۔تاہم اگر مدرسہ میں گنجائش ہے اور مسجد میں حفظ کی کلاس سے نمازیوں کو دشواری ہوتی ہے تو مدرسہ میں ہی نظم کرلینا بہتر ہے۔
"وتعلیم الصبیان فیه بلاأجر و بالأجر یجوز". ( البزازیة،کتاب الکراهیة، الفصل الأول، نوع في المسجد، زکریا جدید۳/۲۰۱، وعلی هامش الهندیة، ۶/۳۵۷) "معلم الصبیان بأجر لو جلس فیه لضرورة الحر لا بأس به، وکذا التعلیم إن بأجر کره إلا للضرورة، وإن حسبة لا". ( البزازیة،زکریاجدید، ۱/۵۵، وعلی هامش الهندیة، ۴/۸۲) "أما الکاتب ومعلم الصبیان فإن کان بأجر یکره وإن کان حسبةً فقیل: لایکره، والوجه ماقاله إبن الهمام: أنه یکره التعلیم إن لم یکن ضرورةً؛ لأن نفس التعلیم ومراجعة الأطفال لایخلو عما یکره في المسجد". (حلبي کبیر، أشرفیه /۶۱۱، ۶۱۲)
"ویکره أن یخیط في المسجد؛ لأنه أعد للعبادة دون الاکتساب، کذا الوراق والفقیه إذا کتب بأجرة، وأما المعلم إذا علم الصبیان بأجرة، وإن فعلوا بغیر أجرة فلا بأس به". (الخانیة، کتاب الطهارة، فصل في المسجد، زکریا جدید۱/۴۳، وعلی هامش الهندیة ۱/۶۵، ۶۶) "معلم جلس في المسجد أو ورّاق کتب في المسجد، فإن کان المعلم یعلم بالأجروالورّاق یکتب لغیره، یکره لهما إلا أن یقع لهما الضرورة". (التاتار خانیة، زکریا ۱۸/۶۶، رقم: ۲۸۴۷) "أما المعلم الذي یعلم الصبیان بأجر إذا جلس في المسجد یعلم الصبیان لضرورة الحر أو غیره لایکره. وفي نسخة الإمام: جعل مسألة المعلم کمسألة الکاتب". (الهندیة، الصلاة، فصل کره غلق باب المسجد، زکریا قدیم ۱/۱۱۰، جدید۱/۱۶۹)
"ومعلم الصبیان القرآن کالکاتب إن کان لأجر لا وحسبة لا بأس به". (اعلاء السنن ۵/۱۳۳، دارالکتب العلمیۃ بیروت۵/۱۷۹، الموسوعۃ الفقہیۃ ۳/۲۰۶، فتح القدیر کوئٹہ ۱/۳۶۹، زکریا ۱/۴۳۵، دارالفکر۱/۴۲۲، خلاصۃ الفتاویٰ اشرفیہ ۱/۲۲۹، حلبی کبیر، سہیل اکیڈمی لاہور/۶۱۲)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2174/44-2291
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبرستان کی زمین میت کی تدفین کے لئے وقف ہے، اس زمین کو اس مقصد کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، اس لئے سوال میں مذکور امور کے لئے کسی دوسری جگہ کا انتظام کیا جائے۔
مراعاة غرض الواقفين واجبة. (رد المحتار على الدر المختار، كتاب الوقف، مطلب مراعاة غرض الواقفين واجبة، ج:6، ص:665).
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1102/42-329
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر وہ قبرستان کسی طرح بھی قابل استعمال نہ ہو تو اس کو فروخت کرکے دوسری جگہ قبرستان کی زمین خریدی جاسکتی ہے۔
والثانی ان لایشترطہ سواء شرط عدمہ او سکت لکن صار بحیث لاینتفع بہ بالکلیۃ بان لایحصل منہ شیئا او لا یعنی بمؤنتہ فھو ایضا جائز علی الاصح اذا کان باذن القاضی وراہ المصلحۃ فیہ (شامی کتاب الوقف 6/583 زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
مساجد و مدارس
Ref. No. 902/41-12B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اصل تو یہ ہے کہ چندہ دینے والوں نے جس مقصد کے لئے چندہ دیا ہے، ان کی رقم اسی مقصد میں لگائی جائے، صورت مسئولہ میں جبکہ وہ مدرسہ ہی باقی نہیں رہا تو مدرسہ کے نام پر جو چندہ کیا گیا ہے اس کو کسی دوسرے مدرسہ میں لگانا درست ہوگا تاکہ اس رقم کو ضائع ہونے سے بچالیا جائے۔ ہمارے عرف میں عام طور پر ایک مدرسہ کی رقم دوسرے مدرسہ میں لگانا چندہ دینے والوں کے منشا کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
قولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ". (الدر المختار 4 / 366) عملاً بما هو معتبر في متفاهم الناس وعرفهم، فوجب اعتبار المفهوم في كلام الواقف؛ لأنه يتكلم على عرفه (الفقہ الاسلامی وادلتہ للزحیلی 10/7628)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 00000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) مسجد کی وقف شدہ زمین پر بلاکسی معاوضہ کے مدرسہ چلانا درست نہیں ہے۔ (2) زید کا مسجد میں امامت کرنا اور سرکاری مدرسہ میں سروس کرنا دونوں عمل درست ہیں۔ اور مسجد سے تنخواہ لینا بھی جائز ہے۔ (3) مسجد کی خالی پڑی زمین پر بلامعاوضہ کے مدرسہ کی عمارت تعمیر کرنا وقف کا غلط استعمال کرنا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2248/44-2397
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی تمام ضروریات کی تکمیل اہل محلہ پر لازم ہے، اور مسجد کے پیسے کی حفاظت کی ذمہ داری مسجد کی انتظامیہ پرہے۔ مسجد کی مستقل آمد کے لئے بہتر ہے کہ آپ حضرات آپس میں اسی عنوان سے چندہ کرکے رقم جمع کریں کہ مسجد کے لئے کاروبار میں رقم لگانی ہے، پھر اس رقم کو پلاٹنگ وغیرہ میں اس انداز پر لگائیں کہ اس رقم کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔
حَشِيشُ الْمَسْجِدِ وَحُصْرُهُ مَعَ الِاسْتِغْنَاءِ عَنْهُمَا وَ كَذَا الرِّبَاطُ وَالْبِئْرُ إذَا لَمْ يُنْتَفَعْ بِهِمَا فَيُصْرَفُ وَقْفُ الْمَسْجِدِ وَالرِّبَاطِ وَالْبِئْرِ وَالْحَوْضِ إلَى أَقْرَبِ مَسْجِدٍ أَوْ رِبَاطٍ أَوْ بِئْرٍ أَوْ حَوْضٍ. (حصکفی، الدرالمختار، 4: 359، بیروت، دارالفکر)
قال في الشامی: مراعاة غرض الواقفین واجبة (۳/ ۴۶۴، الدر مع الرد)
واذا اراد ان یصرف شیئا من ذالک الی امام المسجد او الی موذن المسجد فلیس لہ ذالک الا ان کان الواقف شرط فی الوقف"(الفتاوی الھندیۃ الفصل الثانی فی الوقف وتصرف القیم وغیرہ ج2 ص463)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند