مساجد و مدارس

Ref. No. 1304 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  حکومت کا یہ فنڈ بچوں کی تعلیم و ترقی میں ہی صرف ہونا چاہئے۔ دوسرے کاموں میں دوسری مدات سے مدد لی جائے، حکومت کا یہ فنڈ اس طرح مسجد میں لگانا جائز نہیں ہے۔ اگر یہ  پیسے بچوں کو تقسیم کردیے جائیں تب بھی مناسب نہیں کہ تعلیم کے علاوہ دوسرے امور میں ان کو خرچ کیا جائے۔ تاہم اب اگر بچوں کے ذمہ داران ان پیسوں کو مسجد میں بطور چندہ دینا چاہیں تو وہ اپنی ملکیت میں ہونے کی وجہ سے ایسا تصرف کرسکتے ہیں؛ لیکن پھر بھی احتیا ط کے خلاف ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1938/44-1863

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مدرسہ کے احاطہ  میں موجود مسجد اگر مسجد شرعی ہے تو اس کے بھی وہی احکام ہیں جو دیگر مساجد کے ہیں، اورمساجد کی تعمیر کے مقاصد میں دینی تعلیم بھی شامل ہوتی ہے۔ اس لئے انتظامیہ کی اجازت سے مسجد میں قرآن کریم کی تعلیم کا نظم کرنا اور مسجد کی بجلی کا استعمال کرنا جائز ہے۔تاہم اگر مدرسہ میں گنجائش ہے اور مسجد میں حفظ کی کلاس سے  نمازیوں کو دشواری ہوتی ہے تو مدرسہ میں ہی نظم کرلینا بہتر ہے۔  

"وتعلیم الصبیان فیه بلاأجر و بالأجر یجوز". ( البزازیة،کتاب الکراهیة، الفصل الأول، نوع في المسجد، زکریا جدید۳/۲۰۱، وعلی هامش الهندیة، ۶/۳۵۷) "معلم الصبیان بأجر لو جلس فیه لضرورة الحر لا بأس به، وکذا التعلیم إن بأجر کره إلا للضرورة، وإن حسبة لا". ( البزازیة،زکریاجدید، ۱/۵۵، وعلی هامش الهندیة، ۴/۸۲) "أما الکاتب ومعلم الصبیان فإن کان بأجر یکره وإن کان حسبةً فقیل: لایکره، والوجه ماقاله إبن الهمام: أنه یکره التعلیم إن لم یکن ضرورةً؛ لأن نفس التعلیم ومراجعة الأطفال لایخلو عما یکره في المسجد". (حلبي کبیر، أشرفیه /۶۱۱، ۶۱۲)

"ویکره أن یخیط في المسجد؛ لأنه أعد للعبادة دون الاکتساب، کذا الوراق والفقیه إذا کتب بأجرة، وأما المعلم إذا علم الصبیان بأجرة، وإن فعلوا بغیر أجرة فلا بأس به". (الخانیة، کتاب الطهارة، فصل في المسجد، زکریا جدید۱/۴۳، وعلی هامش الهندیة ۱/۶۵، ۶۶) "معلم جلس في المسجد أو ورّاق کتب في المسجد، فإن کان المعلم یعلم بالأجروالورّاق یکتب لغیره، یکره لهما إلا أن یقع لهما الضرورة".  (التاتار خانیة، زکریا ۱۸/۶۶، رقم: ۲۸۴۷) "أما المعلم الذي یعلم الصبیان بأجر إذا جلس في المسجد یعلم الصبیان لضرورة الحر أو غیره لایکره. وفي نسخة الإمام: جعل مسألة المعلم کمسألة الکاتب". (الهندیة، الصلاة، فصل کره غلق باب المسجد، زکریا قدیم ۱/۱۱۰، جدید۱/۱۶۹)

"ومعلم الصبیان القرآن کالکاتب إن کان لأجر لا وحسبة لا بأس به". (اعلاء السنن ۵/۱۳۳، دارالکتب العلمیۃ بیروت۵/۱۷۹، الموسوعۃ الفقہیۃ ۳/۲۰۶، فتح القدیر کوئٹہ ۱/۳۶۹، زکریا ۱/۴۳۵، دارالفکر۱/۴۲۲، خلاصۃ الفتاویٰ اشرفیہ ۱/۲۲۹، حلبی کبیر،  سہیل اکیڈمی لاہور/۶۱۲)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2174/44-2291

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبرستان کی زمین میت کی تدفین کے لئے وقف ہے، اس زمین کو اس مقصد کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، اس لئے سوال میں مذکور امور کے لئے کسی دوسری جگہ کا انتظام کیا جائے۔

مراعاة غرض الواقفين واجبة. (رد المحتار على الدر المختار، كتاب الوقف، مطلب مراعاة غرض الواقفين واجبة، ج:6، ص:665). 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند


 

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1102/42-329

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر وہ قبرستان کسی طرح بھی قابل استعمال نہ ہو تو اس کو فروخت کرکے دوسری جگہ قبرستان  کی زمین خریدی جاسکتی ہے۔

والثانی ان  لایشترطہ سواء شرط عدمہ او سکت لکن صار بحیث لاینتفع بہ بالکلیۃ بان لایحصل منہ شیئا او لا یعنی بمؤنتہ فھو ایضا جائز  علی الاصح اذا کان باذن القاضی  وراہ المصلحۃ فیہ (شامی کتاب الوقف 6/583 زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس
سوال؟ ہمارے گاؤں میں ایک صاحب نے اپنی زمین میں مدرسہ بنوانے کے لئے کہا تھا اور ہم نے اس میں تعمیری کام شروع کرنے کے لئے اسکا امدادی چندہ بھی کیا اب وہ صاحب جنک زمیں ہے یہ کہنے لگے کہ میں اپنی زمین پر مسجد بنوانا چاہ رہا ہوں جبکہ ہمارے گاؤں میں کوئی مدرسہ بھی نہیں ہے معلوم یہ کرنا ہے کیا وہ جو ہم نے چندہ کرکے جمع کی اسکو ہم اسی گاؤں کے دوسرے مدرسہ کی تعمیر میں لگاسکتے ہیں؟

مساجد و مدارس

Ref. No. 902/41-12B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اصل تو یہ ہے کہ چندہ دینے والوں نے جس مقصد کے لئے چندہ دیا ہے، ان کی رقم  اسی مقصد میں لگائی جائے،  صورت مسئولہ میں جبکہ وہ مدرسہ ہی باقی نہیں رہا تو مدرسہ کے نام پر جو چندہ کیا گیا ہے اس کو کسی دوسرے مدرسہ میں لگانا درست ہوگا تاکہ اس رقم کو ضائع ہونے سے بچالیا جائے۔  ہمارے عرف میں عام طور پر ایک مدرسہ کی رقم دوسرے مدرسہ میں لگانا  چندہ دینے والوں  کے منشا کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

قولهم: شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة ". (الدر المختار 4 / 366) عملاً بما هو معتبر في متفاهم الناس وعرفهم، فوجب اعتبار المفهوم في كلام الواقف؛ لأنه يتكلم على عرفه (الفقہ الاسلامی وادلتہ للزحیلی 10/7628)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 00000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) مسجد کی وقف شدہ زمین پر بلاکسی معاوضہ کے مدرسہ چلانا درست نہیں ہے۔ (2) زید کا مسجد میں امامت کرنا اور سرکاری مدرسہ میں سروس کرنا دونوں عمل درست ہیں۔ اور مسجد سے تنخواہ لینا بھی جائز ہے۔ (3) مسجد کی خالی  پڑی زمین پر بلامعاوضہ کے مدرسہ کی عمارت  تعمیر کرنا وقف کا غلط استعمال کرنا ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2248/44-2397

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی تمام  ضروریات کی تکمیل اہل محلہ پر لازم ہے، اور مسجد کے پیسے کی حفاظت  کی ذمہ داری مسجد کی انتظامیہ پرہے۔ مسجد کی مستقل آمد کے لئے بہتر ہے کہ آپ حضرات آپس میں اسی عنوان سے چندہ  کرکے رقم جمع کریں کہ مسجد کے لئے کاروبار میں رقم لگانی ہے، پھر اس رقم کو پلاٹنگ وغیرہ میں اس انداز پر لگائیں کہ اس رقم کے ضائع ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔

حَشِيشُ الْمَسْجِدِ وَحُصْرُهُ مَعَ الِاسْتِغْنَاءِ عَنْهُمَا وَ كَذَا الرِّبَاطُ وَالْبِئْرُ إذَا لَمْ يُنْتَفَعْ بِهِمَا فَيُصْرَفُ وَقْفُ الْمَسْجِدِ وَالرِّبَاطِ وَالْبِئْرِ وَالْحَوْضِ إلَى أَقْرَبِ مَسْجِدٍ أَوْ رِبَاطٍ أَوْ بِئْرٍ أَوْ حَوْضٍ. (حصکفی، الدرالمختار، 4: 359، بیروت، دارالفکر)

قال في الشامی: مراعاة غرض الواقفین واجبة (۳/ ۴۶۴، الدر مع الرد)

واذا اراد ان یصرف شیئا من ذالک الی امام المسجد او الی موذن المسجد فلیس لہ ذالک الا ان کان الواقف شرط فی الوقف"(الفتاوی الھندیۃ الفصل الثانی فی الوقف وتصرف القیم وغیرہ ج2 ص463)

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2371/44-3575

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سڑکیں سرکار کی ہوتی ہیں، اس میں سرکار کی اجازت کے بغیر کسی طرح کا تصرف جائز نہیں ہے۔اس لئے مسجد والوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے تھا۔ لیکن اب جبکہ بورنگ ہوچکی ہے بہتر ہوگا کہ سرکاری طور پر اجازت لے لی جائے اور رسید کٹوالی جائے، تاہم اس پانی سے وضو اور نماز میں کوئی حرج نہیں ہے۔    

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1255

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  ان طلبہ کے سامان آپ کے پاس امانت ہیں ، ان کا سامان ان کے گھروں پر بھیج دیا جائے، یا ان کے گھر رابطہ کرکے ان کو مدرسہ کے دیگر طلبہ پر خرچ کرنے کی اجازت لے لی جائے۔ بغیر ان کی مرضی کے خرچ کرنا یا اپنے استعمال میں لانا درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند