آداب و اخلاق

Ref. No. 936/41-71 B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بے حیائی اور بے شرمی کی باتوں سے اجتناب لازم ہے، اور جماع وغیرہ کی کیفیات کو دوسروں کے سامنے بیان کرنے سے شریعت نے سختی سے منع کیا ہے۔ اس سلسلہ میں احادیث وارد ہیں اورایسے لوگوں کو  بدترین لوگ  کہاگیا ہے، اور جو لوگ اس گھناونی حرکت میں  مبتلا ہوں ، ان کو سمجھانا اور نہ ماننے کی صورت میں ان  سے دوری اختیار کرنا لازم ہے۔

عن أبي سَعيدٍ الخُدْريِّ رَضِيَ الله عنه قال: قال رَسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم: ((إنَّ مِن أشَرِّ النَّاسِ عندَ اللهِ مَنزِلةً يَومَ القيامةِ الرَّجُلَ يُفْضي إلى امرأتِه وتُفْضي إليه، ثمَّ يَنشُرُ سِرَّه)  (اخرجہ مسلم 1163) .

 عن أسماءَ بنتِ يَزيدَ رَضِيَ الله عنها: أنَّها كانت عندَ رَسولِ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم والرِّجالُ والنِّساءُ قُعودٌ عِندَه، فقال: ((لعَلَّ رَجُلًا يقولُ ما يَفعَلُ بأهلِه، ولعلَّ امرأةً تُخبِرُ بما فعَلَت مع زَوجِها! فأرَمَّ القَومُ، فقُلتُ: إي واللهِ يا رَسولَ اللهِ، إنهُنَّ لَيَقُلْنَ، وإنَّهم لَيَفعَلونَ! قال: فلا تفعَلوا؛ فإنَّما مَثَلُ ذلك مَثَلُ الشَّيطانِ لَقِيَ شَيطانةً في طَريقٍ فغَشِيَها والنَّاسُ يَنظُرونَ (اخرجہ احمد 1165)

إن من أشر الناس منزلة يوم القيامة الرجل يفضي إلى المرأة وتفضي إليه يعني بذلك الزوجة فيصبح ينشر سرها أو هي أيضا تصبح تنشر سره فيقول فعلت في امرأتي البارحة كذا وفعلت كذا والعياذ بالله فالغائب كأنه يشاهد كأنه بينهما في الفراش والعياذ بالله يخبره بالشيء السر الذي لا تحب الزوجة أن يطلع عليه أحد أو الزوجة كذلك تخبر النساء بأن زوجها يفعل بها كذا وكذا وكل هذا حرام ولا يحل وهو من شر الناس منزلة عند الله يوم القيامة فالواجب أن الأمور السرية في البيوت وفي الفرش وفي غيرها تحفظ وألا يطلع عليها أحدا أبدا فإن من حفظ سر أخيه حفظ الله سره فالجزاء من جنس العمل  (شرح ریاض الصالحین 4/827)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

آداب و اخلاق

Ref. No. 1482/42-942

الجواب وباللہ التوفیق:

(۱)موجودہ دور میں راستہ سے متعلق مستقل نظام وجود میں آچکا ہے،راستے کی اہمیت کا یہ شعور جو انسانوں میں اب عام ہوا ہے اسلام نے اس جانب بہت پہلے توجہ دلادی ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں راستوں کی افادیت اور کشادگی کے سلسلے میں امام ترمذی ؒ نے ایک روایت نقل کی ہے: راستے کی کم از کم چوڑائی سات ہاتھ یعنی دس فٹ ہے۔ ”اجعلوالطریق سبعۃ اذرع“ (الترمذی: ج ۳، ص:۰۳، رقم: ۵۵۳۱) (۲/۳) مذکورہ دونوں اجزاء مجمل ہیں، ان میں وضاحت نہیں ہے کہ جو مردے کو غفلت یا جان بوجھ کر درج شدہ راستے کی زمین میں دفنایے گیے ہیں وہ قبریں راستے میں کب بنی ہیں؟ قبریں جس جگہ پر بنی ہیں وہ قبرستان کے حق میں موقوفہ ہے یا  حکومتی رکارڈ میں وہ راستے ہی کے لیے درج ہے کسی کی مملوکہ زمین ہے؟ البتہ فقہاء نے کتابوں میں صراحت کی ہے کہ قبروں کو روند نا اور اس پر چلنا جائز نہیں ہے، اگر قبر بہت پرانی ہوگئی ہو پھر بھی اس کے اوپر چلنے سے احتیاط کرنی چاہئے۔ ”یکرہ المشي في طریق ظن أنہ محدث حتی إذا لم یصل إلی قبرہ إلا بوطئ قبرترکہ“ (الدر المختار ج۲ص ۵۴۲  .((۴) قبرستا ن کی زمین اگر موقوفہ ہو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو تو اس زمین پر کسی کے لئے تصرف کرنا شرعا جائز نہیں ہے؛ بلکہ جس مقصدکے لئے وقف ہے اسی مقصد میں استعمال کرنا لازم ہے، اور اگر کئی دہائی قبل مردے دفنائے گئے جس سے قبروں کے نشانات مٹ چکے ہوں اور اس میں مدفون اجسام مٹی بن چکے ہیں تو اس میں نئے مردوں کی تدفین کی جائے اور اگر تدفین کی حاجت نہیں رہی تو اس زمین کو کسی ایسے مصرف میں استعمال کیا جائے جو وقف ہی کہلائے مثلا مدرسہ،مسجد،عید گاہ یا جنازہ گاہ،وغیرہ بنا کر وقف کردیا جائے نیز اگر قبرستان کے وقف ہونے کا کوئی واضح ثبوت نہ ہو تو عام میت کا اس میں بلا روک ٹوک دفن ہوتے رہنا ہی اس کے وقف ہونے کا قرینہ شمار کیا جائے گا، کفایت المفتی میں مزید اس کی وضاحت ہے: مسجد کی طرح قبرستا ن میں بھی عام اموات کا بلا روک ٹوک دفن ہونا اس کے وقف ہونے کے لئے کافی ہے،(کفایت المفتی: ج:۷، ص:۲۱۲) نیز ذکر کردہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اگر اس زمین میں لوگ بلا روک ٹوک اپنے مردوں کو دفنا رہے تھے تو یہ وقف کی جائداد شمار ہوگی اس لئے اس میں گاڑیوں کے لئے اسٹینڈ وغیرہ بنانا جائز نہیں ہے۔

”فإن قلت: ھل یجوز أن تبنی علی قبور أہل المسلمین؟ قلت:قال ابن القاسم: لو ان مقبرۃ من مقا بر المسلین عفت فبنی قوم علیھا مسجد الم أر بذلک بأسا، وذلک لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاھم لا یجوز لأحد أن یملکھا، فإذا درست واستغنی عن الدفن فیھا جاز صرفھا إلی المسجد لأن المسجد أیضاً وقف من أوقاف المسلین لا یجوز تملکہ لأحد“ (عمدۃ القاری: ج ۶، ص: ۳۷۴)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

آداب و اخلاق

Ref. No. 1753-43-1470

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی کو بلانے کے لئے ایسے الفاظ کا استعمال کرنا چاہئے جن میں پیار اور نرمی ہو، اور سننے والے کو برا محسوس نہ ہو، اگر بہو کو اس طرح بلانے سے اپنائیت کا احساس ہوتاہے تو اس طرح بلانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اکثر لوگ  بے تکلف اس طرح بولتے ہیں اور سننے والے کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک گونہ اپنے پن کا احساس ہوتاہے ۔ اس لئے کوئی حرج نہیں ہے۔

عن علي بن أبي طالب قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "إن الله رَفيق يحب الرفق، ويعطي علي الرفق ما لا يعطي علي العنف" (مسند احمد 1/552)

عن جرير بن عبد الله البجلي، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "من يحرم الرفق يحرم الخير" (سنن ابن ماجہ، باب الرفق 4/646)

عن عائشة، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "إن الله رفيق يحب الرفق في الأمر كله" (سنن ابن ماجہ، باب الاحسان الی الممالیک 4/647)

عَنْ أَنَسٍ، عَنْ النَّبِيِّ -صلى الله عليه وسلم- قَالَ: "مَا كانَ الرِّفْقُ فِي شَيْءٍ قَطُّ إلاَّ زَانَهُ، ء وَلا كَانَ الْفُحْشُ فِي شيءٍ قَطُّ إِلاَّ شَانَهُ" (موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان، باب ماجاء فی الرفق 6/187)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند