Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 3237/46-8006
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے جو واقعہ نقل کیا ہے وہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ بخاری (5126۔ فتح) و مسلم (2766)
خیال ہے کہ حقوق العباد میں بہت محتاط رہنا چاہئے، تاہم اگر کسی کی حق تلی ہوجائے تو اس سے معافی مانگنا چاہئے، اگر آپ نے معافی مانگنے کا ارادہ کیا مگر اس شخص کا انتقال ہوگیا تو اب اس سے معافی مانگنے کی کوئی شکل تو نہیں ہے، تاہم اس کے لئے دعائے مغفرت کرنے سے اور اس کی طرف سے صدقہ وغیرہ دینے سے امید ہے کہ اللہ تعالی آپ سے اس بارے میں بازپُرس نہ فرمائیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3235/46-8011
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا اس لڑکی سے بات چیت کرنا شرعا حرام تھا اور غلط تھا۔ اب شریعت کی اتباع میں اگر آپ نے اس سے بات چیت بند کردی اور اس کی وجہ سے وہ ٹینشن میں آئی اور حادثہ ہوا تو آپ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اللہ کی رضا کے لئے کام کرتے ہوئے کسی کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔ ایکسیڈنٹ مقدر تھا وہ ہوگیا۔ اب آپ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ، اللہ تعالی ہی گناہوں کو معاف کرنے والے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3231/46-8010
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۱۔ جب باپ الگ کمائی کرتاہے اور بیٹا الگ کمائی کرتاہے تو ہر ایک اپنی اپنی کمائی کا مالک ہے، کسی کو دوسرے سے حساب مانگنے کا حق نہیں ہے، البتہ اگر والدین محتاج و ضرورتمند ہیں وت ان کا نفقہ اولاد پر لازم ہے۔ ۲۔ والد کے ذریعہ لئے گئے قرض کی ادائیگی اگرچہ بیٹے پر لازم نہیں ہے لیکن اسلام نے غیروں کے ساتھ بھی حسن سلوک وہمدردی کی تعلیم دی ہے۔ والدین اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ اولاد ان کے ساتھ حسن سلوک کرے جیسے انسان سپنے بیوی بچوں کی ضروریات کا خیال رکھتاہے والدین کا بھی خیال رکھے۔ والدین نے یہ قرض اولادکی وجہ سے لیا ہے تو اس کی ادائیگی پر تعاون کرنا باعث اجروثواب بھی ہے اور والدین کی دعاوں کا ذریعہ بھی ۔ ۳۔ قرآن کریم و احادیث میں بدگمانی ، غیبت اور تجسس سے منع کیاگیا اور اس کو گناہ قراردیا۔ نیز قطع تعلق سے منع کیاگیاہے بلکہ صلہ رحمی اور تعلق جوڑنے کا حکم دیاگیا ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ (سورۃ الحجرات ۱۲)
وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِ (سورۃ الرعد ۲۱) وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ (سورۃ البقرۃ 27) وقال النبی ﷺ صل من قطعک واحسن الی من اسائ الیک و قل الحق ولو علی نفسک (صحیح الجامع 3769)
اس لئے آپ کے والدین کا یہ عمل شرعا جائز نہیں ہے۔
۴۔ شادی کے بعد شوہر کو اپنی بیوی کو اپنے ساتھ ہی رکھنا چاہئے، اس میں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ علیحدہ رہنے کی صورت میں گناہ میں مبتلا ہونے یا دیگر مفاسد کا اندیشہ ہوتاہے، البتہ اگر والدین ضرورت مند ہیں تو ان کے نفقہ وضروریات کا خیال رکھنا یاجسمانی اعتبار سے کمزور ہیں تو ان کی خدمت کا خیال رکھنا بھی اولاد پر لازم ہے۔ اگرآپ باہر رہتے ہیں اور ازخود ان کی خدمت نہیں کرسکتےتو ان کے لئے کسی خادم وغیرہ کا انتظام کردینا بھی کافی ہے۔
وعلی الرجل الموسر ان ینفق علی ابویہ واجدادہ وجداتھا اذا کانوا فقرا وان خالفوہ فی الدین (الھدایۃ ، باب النفقۃ 2/440)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3226/46-7096
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شاید مرحوم کے ذمہ کچھ روزوں اور نمازوں کی قضا تھی، جن کاوہ خواب میں آکرکفارہ اداکرنے کا مطالبہ کررہے ہیں، اگر اس کے بارے میں کچھ معلوم ہو اور ٓپ اپنی طرف سے کفارہ اداکردیں تو مرحوم کے حق میں بہتر ہوگا ۔ اور اگرقضا روزوں اور نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو تو اپنی مرضی سے جو کچھ میسر ہو صدقہ کردیں یا کچھ مسکینوں کو کھانے کھلادیں، تو امید ہے کہ کچھ تلافی ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3218/46-7079
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اجنبیہ عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا ، اس کے ساتھ غلط تعلق کرنا وغیرہ امور حرام ہیں، ایسا شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، اس پر توبہ و استغفار لازم ہے۔ اس عورت سے اگر ممکن ہو تو نکاح کرلے اورنکاح نہ کرسکتاہو تو اس سے بالکل قطع تعلق کرلے۔ اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی حد وغیرہ نافذ نہ ہوگی۔ البتہ اپنے فعل پر ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف برابر توبہ کا خواستگار رہے تو ان شاء اللہ اس کی معافی کی امید ہے اور اس کی توبہ مقبول ہوگی۔
قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُواعَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَاتَقْنَطُوامِن رَّحْمَةِاللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُالذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ [الزمر:53]
اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ‘‘ [البقرة:222]
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3214/46-7072
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بچپن میں کہیں سے آپ نے کوئی سامان وغیرہ لیا تھا جس کا پیسہ نہیں دیا تھا تو اب اس دوکان میں پیسے دیدینے سے آپ کا ذمہ پورا ہوجائے گا اور ان شاء اللہ کل قیامت میں بازپرس سے بچ جائیں گے۔ اگر سوال کچھ اور ہو تو دوبارہ تفصیل لکھ کر بھیجیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3028/46-4868
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ اکثر مؤرخین اور سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو انصار کی چھوٹی چھوٹی لڑکیاں اور پردہ نشین عورتیں جمال نبوی کو دیکھنے کے لئے اپنی چھتوں پر چڑھی ہوئی تھیں اور مذکورہ اشعار گا رہی تھیں، مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی نے اس واقعہ کو قبا میں داخل ہوتے وقت لکھا ہے کہ جب آپ قبا میں داخل ہوئے تو انصار کی چھوٹی لڑکیاں جوش مسرت میں یہ اشعار پڑھی تھیں۔ (تاریخ الاسلام: ج 1، ص: 129)
لیکن زیادہ حضرات مؤرخین مثلا علامہ شبلی نعمانی سید سلیمان ندوی، مولانا ادریس کاندھلوی علامہ عینی وغیرہ نے اس کو مدینہ میں دخول کے وقت ذکر کیا ہے۔ (عمدۃ القاری: ج 17، ص: 80؛ سیرت مصطفیٰ: ج 1، ص: 344)
حافظ ابن حجر نے اس واقعہ و غزوہ تبوک سے واپسی کے وقت مانا ہے اور مدینہ میں دخول کے وقت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (فتح الباری: ج 7، ص: 315)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3204/46-7069
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ظالم شخص کے ظلم سے بچنے کے لئے دعا اور وظیفہ کا اہتمام کیاجاسکتاہے، اور قرآن و حدیث سے ثابت بھی ہے، ونجنا من القوم الظالمین۔ لیکن ظالم کے ظلم سے بچنے کے لئے ایسا عمل کرنا جو خود ناجائز اور حرام ہو یا سفلی عمل کرنا یہ درست نہیں ہے۔ عملیات میں سے وہ عمل جو قرآن و حدیث کی آیات و ادعیہ پر مشتمل ہو وہ کرنا جائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3173/46-7002
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر موٹر مسجد کے لئے کسی نے وقف کیا ہو تو اس کو مسجد کے لئے ہی استعمال کیاجائے گا، اس سے مدرسہ میں پانی بھرنا جائز نہیں ہوگا، اور مسجد کا متولی مسجد کے سامان کا منتظم ہوتاہے وہ مالک نہیں ہوتاہے کہ جیسا چاہے تصرف کرسکے۔ البتہ اگر مسجد کےمصلین سے چندہ لے کر موٹر خریداگیاہے اور چندہ سے ہی اس کا بجلی بل اداکیاجاتاہے تو نماز کے وقت ایک اعلان کرکے مصلین سےاجازت لی جاسکتی ہے ، اگر مصلین راضی ہوں تو اس کی گنجائش ہوگی، ورنہ مدرسہ اپنا کوئی اور انتظام کرے۔
مراعاة غرض الواقفین واجبة (رد المحتار: ۶/۶۶۵، ط زکریا دیوبند) شرط الواقف کنص الشارع․ (۶/۶۴۹، ط زکریا دیوبند)
”متولی المسجد لیس لہ أن یحمل سراج المسجد إلی بیتہ ولہ أن یحملہ من البیت إلی المسجد“ کذا في فتاوی قاضي خان اھ (فتاوی عالمگیري: ۲:۴۶۲ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)، ”ولا تجوز إعارة أدواتہ لمسجد آخر اھ“ (الأشباہ والنظائر ص۴۷۱ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)، ”ولا تجوز إعارة الوقف والإسکان فیہ کذا في محیط السرخسي“ اھ (فتاوی عالمگیري ۲:۴۲۰)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3142/46-6034
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ بے معنی سا لفظ ہے، اس لئے بہتر ہے کہ کوئی اچھے معنی والا لفظ دیکھ کر نام رکھاجائے۔ اور نام رکھنے کے معاملہ میں صحابہ اور بزرگان دین کے ناموں کا انتخاب کرنا چاہئے ۔ نام میں جدت پیداکرنے کے لئے مہمل الفاظ کا انتخاب بالکل غیرمناسب ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند