Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 3301/46-9057
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آیت لا تضار والدۃ کا مفہوم یہ ہےکہ اگر میاں بیوی کے درمیان علاحدگی ہوجائے اور بیوی اجرت مثل یا بلا اجرت کے دودھ پلانے پر راضی ہوجائے تو بچے کو ماں سے جد ا کرکے اس کو تکلیف نہ دی جائے گی ،اسی طرح اگر بچہ ماں کے علاوہ کا دودھ قبول کررہاہو اور ماں دودھ پلانے کے لیے تیار نہ ہو تو ماں کو مجبور کرکے تکلیف نہیں دی جائے گی اسی طرح ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر ماں دودھ پلاتی ہے تو باپ کو اجرت مثل سے زیادہ دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔اس آیت کا تعلق جرم و سزا اور قصاص سے متعلق نہیں ہےاس لیے اگر چہ قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا لیکن دیت وغیرہ دینی ہوگی،اسی طرح ہم دیکھتے ہیں بیٹے کو قاتل کو میراث نہیں ملے گی۔ ۔ لا تُضَارَّ والِدَةٌ بِوَلَدِها يعني لا ينزع الولد من أمه بعد أن رضيت بإرضاعه ولا يدفع إلى غيرها وقيل معناه لا تكره الأم على إرضاع الولد إذا قبل الصبي لبن غيرها لأن ذلك ليس بواجب عليها وَلا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ يعني لا تلقي المرأة الولد إلى أبيه وقد ألفها تضاره بذلك، وقيل معناه لا يلزم الأب أن يعطي أم الولد أكثر مما يجب عليه لها إذا لم يرضع الولد من غير أمه، فعلى هذا يرجع الضرار إلى الوالدين فيكون المعنى: لا يضار كل واحد منهما صاحبه بسبب الولد. وقيل يحتمل أن يكون الضرر راجعا إلى الولد. والمعنى: لا يضار كل واحد من الأبوين الولد فلا ترضعه حتى يموت فيتضرر(تفسیر خازن،1/166)ومعنى {لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّه بِوَلَدِهِ}: لا تضار والدة زوجها بسبب ولدها، بأن تطلب منه ما ليس بعدل من الرزق والكسوة، وأن تشغل قلبه بالتفريط في شأن الولد، وأن تقول له: اطلب مرضعًا، بعد أن ألفها الرضيع، ولا يضر مولود له - وهو الأب - زوجته المرضعة بسبب ولده، بأن يمنعها شيئًا مما وجب لها عليه من رزق أو كسوة، أو يأخذ منها الصبي - وهي تريد إرضاعه - أو يكرهها على الإرضاع(.التفسیر الوسیط،1/393) "ولا قصاص على الأبوين، والأجداد، والجدات من قبل الآباء، والأمهات عندنا، وقال مالك إن رمى الأب ولده بسيف أو سكين فقتله فلا قصاص عليه... وحجتنا في ذلك قوله: عليه السلام «لا يقاد الوالد بولده ولا السيد بعبده» وقضى عمر بن الخطاب رضي الله عنه في من قتل ابنه عمدا بالدية في ماله، ومنهم من استدل بقوله - عليه السلام - «أنت ومالك لأبيك» فظاهر هذه الإضافة يوجب كون الولد مملوكا لأبيه ثم حقيقة الملك تمنع وجوب القصاص كالمولى إذا قتل عبده فكذلك شبهة الملك باعتبار الظاهر ... ثم على الآباء، والأجداد الدية بقتل الإبن عمدا في أموالهم في ثلاث سنين...وإن كان الوالد قتل ولده خطأ فالدية على عاقلته، وعليه الكفارة في الخطأ، ولا كفارة عليه في العمد عندنا؛ لأن فعله محظور محض كفعل الأجنبي والمحظور المحض لا يصلح سببا لإيجاب الكفارة عندنا." (کتاب المبسوط ،كتاب الديات،109،10،11،12/25/26،ط:دار الكتب العلمية)
"(سئل) هل يحبس الوالد في دين ولده أم لا؟ (الجواب) : لا يحبس والد في دين ولده كما صرح به في الملتقى وغيره من الكتب المعتبرة ونكر الوالد ليدخل جميع الأصول فلا يحبس أصل في دين فرعه؛ لأنه لا يستحق العقوبة بسبب ولده وكذا لا قصاص عليه بقتله ولا بقتل مورثه ولا يحد بقذفه ولا بقذف أمه الميتة كما في البحر من الحبس وقال في محيط السرخسي من آخر كتاب أدب القضاء لا يحبس أحد الأبوين والجدين والجدتين إلا في النفقة لولدهما لقوله تعالى {وصاحبهما في الدنيا معروفا} [لقمان: 15] وليس الحبس من المعروف ولأن في الحبس نوع عقوبة تجب ابتداء للولد ولا يجوز أن يعاقب ابتداء بتفويت حق على الولد كالقصاص اهـ."(العقود الدریۃ،كتاب القضاء،باب الحبس،مسائل شتى،307/1،ط:دارالمعرفة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3288/46-9006
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب شرعی طور پر حویلی کی تقسیم ہوچکی ہے اور بہنوں نے اپنا حصہ فروخت بھی کر دیا ہے تو اب دوبارہ اس طرح کا مطالبہ کرنا جس میں دوسرے فریق کو اس قدر ضرر اور نقصان لازم آئے بالکل درست نہیں ہے، بہنوں کو جائداد کی تقسیم کے وقت یہ مطالبہ کرنا چاہئے تھا۔ اب جس قدر آپسی رضامند سے طے ہو جائے وہ کر لیا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3250/46-8042
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایام بیض کے روزے رکھنا اور پیر و جمعرات کے روزے رکھنا سنت سے ثابت ہے۔ صوم داؤدی بھی حدیث سے ثابت ہے اور یہ نفلی روزے ہر آدمی کی قدرت و استطاعت کے اعتبار سے افضل ہوں گے، ورنہ عام حالات میں ایام بیض کے روزے افضل ہوں گے، تاہم صوم داؤدی سے زیادہ روزہ رکھنے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔ والدین اگر نفلی روزے سے منع کرتے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر ان کو آپ سے جسمانی خدمت کی ضرورت ہے اور آپ کے روزہ رکھنے سے یہ خدمت متاثر ہو تو آپ روزہ نہ رکھیں، آپ کو ان شاء اللہ ثواب ملے گا، اور اگر کوئی وجہ نہ ہو تو والدین کے سامنے نفلی عبادات کے اجر وثواب کی قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کریں، علماء کے بیانات سنوائیں تاکہ بخوشی آپ کو اجازت دیدیں۔
میں ہے:
"2449- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَخِي مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ مِلْحَانَ الْقَيْسِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَصُومَ الْبِيضَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ، قَالَ: وَقَالَ: «هُنَّ كَهَيْئَةِ الدَّهْرِ»." (سنن ابی داؤد، بَابٌ فِي صَوْمِ الثَّلَاثِ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، 2 / 328، ط: المكتبة العصرية، صيدا – بيروت)
"حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبَانٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ مَوْلَى قُدَامَةَ بْنِ مَظْعُونٍ ، عَنْ مَوْلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّهُ انْطَلَقَ مَعَ أُسَامَةَ إِلَى وَادِي الْقُرَى فِي طَلَبِ مَالٍ لَهُ، فَكَانَ يَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، فَقَالَ لَهُ مَوْلَاهُ : لِمَ تَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ وَأَنْتَ شَيْخٌ كَبِيرٌ ؟ فَقَالَ : إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، وَسُئِلَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ : " إِنَّ أَعْمَالَ الْعِبَادِ تُعْرَضُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ ". (سنن ابی داؤد ، سنن أبي داود ، كِتَاب الصَّوْمُ ، بَابٌ فِي صَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ ، رقم الحديث : ٢٤٣٦)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندمتفرقات
Ref. No. 3240/46-8007
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحومہ کو خواب میں بیمار یا غمزدہ دیکھنا اس بات کا اشارہ دیتاہے کہ ان کو ثواب اور دعائے مغفرت کی ضرورت ہے۔ اس لئے آپ ان کے لئے ایصالِ ثواب اورصدقۂ جاریہ کا اہتمام کریں۔ نیز یہ بھی معلوم کریں کہ ان کے ذمہ کچھ (نماز و روزہ وغیرہ) واجب الاداء تو نہیں ہیں اگر ہوں تو ان کی ادائیگی کی کوشش کریں۔ ان شاء اللہ آپ کے ایصال ثواب اور صدقہ جاریہ کا ان کو پورا فائدہ پہونچے گا اور ان کو قبرکی راحتیں میسر ہوں گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3239/46-8009
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈھول باجا اور آلاتِ موسیقی کا استعمال شریعت میں ناجائز ہے اور حمدونعت رسول ﷺ کے ساتھ موسیقی کے استعمال اور بھی برا ہے۔آج کےمروجہ قوالی میں بہت زیادہ مفاسد پائے جاتے ہیں، اس لئے ایسی قوالی جس میں آلات موسیقی کا استعمال بہت نمایاں طور پر کیاگیا ہو، گرچہ قوالی کےمضامین کتنے ہی عمدہ ہوں ، اس کا سننا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر قوالی کے مضامین اچھے اور شریعت کے مطابق ہیں ، عشقیہ اشعار پر مشتمل نہیں ہیں تو ان کو بغیر موسیقی کے سننا جائز ہے۔
"قال الشارح: زاد في الجوهرة: وما يفعله متصوفة زماننا حرام لا يجوز القصد والجلوس إليه ومن قبلهم لم يفعل كذلك، وما نقل أنه - عليه الصلاة والسلام - سمع الشعر لم يدل على إباحة الغناء. ويجوز حمله على الشعر المباح المشتمل على الحكمة والوعظ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/349)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3237/46-8006
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے جو واقعہ نقل کیا ہے وہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ بخاری (5126۔ فتح) و مسلم (2766)
خیال ہے کہ حقوق العباد میں بہت محتاط رہنا چاہئے، تاہم اگر کسی کی حق تلی ہوجائے تو اس سے معافی مانگنا چاہئے، اگر آپ نے معافی مانگنے کا ارادہ کیا مگر اس شخص کا انتقال ہوگیا تو اب اس سے معافی مانگنے کی کوئی شکل تو نہیں ہے، تاہم اس کے لئے دعائے مغفرت کرنے سے اور اس کی طرف سے صدقہ وغیرہ دینے سے امید ہے کہ اللہ تعالی آپ سے اس بارے میں بازپُرس نہ فرمائیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3235/46-8011
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا اس لڑکی سے بات چیت کرنا شرعا حرام تھا اور غلط تھا۔ اب شریعت کی اتباع میں اگر آپ نے اس سے بات چیت بند کردی اور اس کی وجہ سے وہ ٹینشن میں آئی اور حادثہ ہوا تو آپ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اللہ کی رضا کے لئے کام کرتے ہوئے کسی کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔ ایکسیڈنٹ مقدر تھا وہ ہوگیا۔ اب آپ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ، اللہ تعالی ہی گناہوں کو معاف کرنے والے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3231/46-8010
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۱۔ جب باپ الگ کمائی کرتاہے اور بیٹا الگ کمائی کرتاہے تو ہر ایک اپنی اپنی کمائی کا مالک ہے، کسی کو دوسرے سے حساب مانگنے کا حق نہیں ہے، البتہ اگر والدین محتاج و ضرورتمند ہیں وت ان کا نفقہ اولاد پر لازم ہے۔ ۲۔ والد کے ذریعہ لئے گئے قرض کی ادائیگی اگرچہ بیٹے پر لازم نہیں ہے لیکن اسلام نے غیروں کے ساتھ بھی حسن سلوک وہمدردی کی تعلیم دی ہے۔ والدین اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ اولاد ان کے ساتھ حسن سلوک کرے جیسے انسان سپنے بیوی بچوں کی ضروریات کا خیال رکھتاہے والدین کا بھی خیال رکھے۔ والدین نے یہ قرض اولادکی وجہ سے لیا ہے تو اس کی ادائیگی پر تعاون کرنا باعث اجروثواب بھی ہے اور والدین کی دعاوں کا ذریعہ بھی ۔ ۳۔ قرآن کریم و احادیث میں بدگمانی ، غیبت اور تجسس سے منع کیاگیا اور اس کو گناہ قراردیا۔ نیز قطع تعلق سے منع کیاگیاہے بلکہ صلہ رحمی اور تعلق جوڑنے کا حکم دیاگیا ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ (سورۃ الحجرات ۱۲)
وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِ (سورۃ الرعد ۲۱) وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ (سورۃ البقرۃ 27) وقال النبی ﷺ صل من قطعک واحسن الی من اسائ الیک و قل الحق ولو علی نفسک (صحیح الجامع 3769)
اس لئے آپ کے والدین کا یہ عمل شرعا جائز نہیں ہے۔
۴۔ شادی کے بعد شوہر کو اپنی بیوی کو اپنے ساتھ ہی رکھنا چاہئے، اس میں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ علیحدہ رہنے کی صورت میں گناہ میں مبتلا ہونے یا دیگر مفاسد کا اندیشہ ہوتاہے، البتہ اگر والدین ضرورت مند ہیں تو ان کے نفقہ وضروریات کا خیال رکھنا یاجسمانی اعتبار سے کمزور ہیں تو ان کی خدمت کا خیال رکھنا بھی اولاد پر لازم ہے۔ اگرآپ باہر رہتے ہیں اور ازخود ان کی خدمت نہیں کرسکتےتو ان کے لئے کسی خادم وغیرہ کا انتظام کردینا بھی کافی ہے۔
وعلی الرجل الموسر ان ینفق علی ابویہ واجدادہ وجداتھا اذا کانوا فقرا وان خالفوہ فی الدین (الھدایۃ ، باب النفقۃ 2/440)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3226/46-7096
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شاید مرحوم کے ذمہ کچھ روزوں اور نمازوں کی قضا تھی، جن کاوہ خواب میں آکرکفارہ اداکرنے کا مطالبہ کررہے ہیں، اگر اس کے بارے میں کچھ معلوم ہو اور ٓپ اپنی طرف سے کفارہ اداکردیں تو مرحوم کے حق میں بہتر ہوگا ۔ اور اگرقضا روزوں اور نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو تو اپنی مرضی سے جو کچھ میسر ہو صدقہ کردیں یا کچھ مسکینوں کو کھانے کھلادیں، تو امید ہے کہ کچھ تلافی ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3218/46-7079
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اجنبیہ عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا ، اس کے ساتھ غلط تعلق کرنا وغیرہ امور حرام ہیں، ایسا شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، اس پر توبہ و استغفار لازم ہے۔ اس عورت سے اگر ممکن ہو تو نکاح کرلے اورنکاح نہ کرسکتاہو تو اس سے بالکل قطع تعلق کرلے۔ اسلامی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی حد وغیرہ نافذ نہ ہوگی۔ البتہ اپنے فعل پر ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف برابر توبہ کا خواستگار رہے تو ان شاء اللہ اس کی معافی کی امید ہے اور اس کی توبہ مقبول ہوگی۔
قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُواعَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَاتَقْنَطُوامِن رَّحْمَةِاللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُالذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ [الزمر:53]
اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ‘‘ [البقرة:222]
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند