متفرقات

Ref. No. 1660/43-1284

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میونسپل کارپوریشن یا نگرپالیکا کی اجازت ہو یا اجازت لے لی جائے تو سڑک پر بھی بورنگ کی اجازت ہے، البتہ اس کا خیال رکھا جائے کہ اس کی وجہ سے کسی کو  کوئی پریشانی نہ ہو، اس لئے بورنگ کرانے والے  راستہ  ضرور ٹھیک کرادیا کریں ۔

باب ما يحدثه الرجل في الطريق وغيره لما ذكر القتل مباشرة شرع فيه تسببا فقال: (أخرج إلى طريق العامة كنيفا) هو بيت الخلاء (أو ميزابا أو جرصنا كبرج وجذع وممر علو وحوض طاقة ونحوها، عيني، أو دكانا جاز) إحداثه (إن لم يضر بالعامة) ولم يمنع منه، فإن ضر لم يحل..."( الدر المختار للحصفكي - (ج 7 / ص 164)
"( قوله : لقوله صلى الله عليه وسلم { لا ضرر ولا ضرار في الإسلام } ) الحديث ... أي لا يضر الرجل أخاه ابتداء ولا جزاء ؛ لأن الضرر بمعنى الضر وهو يكون من واحد والضرار من اثنين بمعنى المضارة وهو أن تضر من ضرك" (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق - (ج 17 / ص 451)

"باب ما يحدثه الرجل في الطريق وغيره... قوله: (أو دكانا) هو المرضع المرتفع مثل المصطبة... وعن أبي يوسف: إنما ينقضه إن ضر بهم... قوله: (بغير إذن الامام) فإن أذن فليس لاحد أن يلزمه وأن ينازعه، لكن لا ينبغي للامام أن يأذن به إذا ضر بالناس بأن كان الطريق ضيقا.." (تكملة حاشية رد المحتار - (ج 1 / ص 164)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:زبیدہ جعفر بن منصور کی لڑکی تھی، اس کی کنیت ام جعفر تھی، یہ ہارون رشید جو عباسی خاندان کا چوتھا خلیفہ تھا، اس کی بیوی تھی، اس نے خواب دیکھا تھا کہ انسان، جانور، پرند، چرند اس سے صحبت کر رہے ہیں، تو وہ گھبرا کر اٹھ گئی، بہت ہی پریشان ہوئی۔ علماء نے اس کو خواب کی یہ تعبیر بتلائی کہ آپ کوئی نہر یا تالاب بنوائیں گی جس سے انسان، جانور، پرند سیراب ہوں گے؛ چنانچہ زبیدہ کی خواہش پر بادشاہ ہارون رشید نے نہر بنوانے کا حکم دیا(۱)۔ دریائے نیل سے نکالی گئی تھی، اب بھی اس نہر کے نشانات مکہ مکرمہ میں ہیں ۱۹۸۱ء ؁میں جب میں خود حج کو گیا تھا، میں نے خود دیکھے ہیں، اب بھی نہر زبیدہ کے نام سے مشہور ہے۔(۲)

(۱) ملا علي قاري، مرقات المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘: ج ۱، ص: ۴۸)

(۲) محمد بن أحمد بن الضیاء محمد القرشي المکي الحنفي، تاریخ مکۃ المشرفۃ والمسجد الحرام والمدینۃ الشریفۃ والقبر الشریف: ج ۱، ص: ۳۱۵)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص177

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسلام نے مرد و عورت کسی کو بھی تعلیم سے نہیں روکا ہے  بلکہ تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ وہ تعلیم انسانیت کے لیے نافع ہو اور شرعی طور پر جائز ہوتو اس کا حاصل کرنا مردوں کے لیے بھی جائز ہے اور عورتوں کے لیے بھی جائز ہے لیکن چوں کہ بالغ لڑکی کا باہر نکلنا عام طور پر فتنہ سے خالی نہیں ہوتا ہے جب کہ موجودہ حالات میں بالغ لڑکیوں کو مختلف فتنوں کا سامنا ہے جن میں بعض فتنے منظم سازش کے تحت سر ابھار رہے ہیں؛ اس لیے اس وقت لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بہت زیادہ حساسیت کی ضرورت ہے۔ اس کی کوشش ہونی چاہیے کہ ادارے مخلوط تعلیم کے نہ ہوں اس لیے کہ مخلوط تعلیمی اداروں میں فتنہ کااندیشہ زیادہ ہے(۱) بہتر یہی ہے کہ کوئی محرم اس کو چھوڑنے اور لانے جائے تاکہ اس کی مکمل نگرانی ہوسکے تاہم اگر گاڑی سے لانے لے جانے کا نظم کیا جائے اور ساتھ میں کوئی نگراں ہو، تو بھی گنجائش ہے۔
’’عن الشِّفَاء بنتِ عبدِ اللّٰہ، قالت: دخلَ عليَّ النبي صلَّی اللّٰہ علیہ وسلم وأنا عندَ حفصۃَ، فقال لی: ’’ألا تُعَلِّمین ہذہ رُقْیَۃَ النملۃ، کما علَّمتنیہا الکتابۃَ‘‘(۲)

(۱) اتفق الفقہاء علی وجوب حجب عورۃ المرأۃ والرجل البالغین بسترہا عن نظر الغیر الذي لا یحل لہ النظر إلیہا، وعورۃ المرأۃ التي یجب علیہا ححبہا من الأجنبي ہي في الجملۃ جمیع جسدہا عد الوجہ والکفین وقول النبي یا أسماء أبي المرأۃ إذا بلغت الحیض لم تصلح أن یری منہا إلا ہذا وہذا وأشار إلی وجہہ وکفیہ۔ (وزارۃ الأوقاف و الشئون، الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ: ج ۱۷، ص: ۶)
(۲) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطب: باب ما جاء في الرقي‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۰، رقم: ۳۸۸۷۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص178

متفرقات

Ref. No. 41/1027

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ضرار نام رکھنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس کا معنی ہے نقصان پہنچانے والا، اور نام کے معانی کے اثرات  انسان کی ذات پر پڑتے ہیں۔ اس لئے کوئی دوسرا نام رکھ لینا چاہئے جیسے عبد اللہ ، عبدالجبار ،زبیر وغیرہ۔ ہاں، اگر جرّار جیم سے ہو تو معنی میں کوئی خرابی نہیں ہے، جرار کے معنی ہیں کھینچنے والا، بہادر، دلیر۔ اس لئے یہ نام رکھا جاسکتاہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:تعلیم نسواں کی موجودہ دور میں شدید ضرورت ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر لڑکیاں تعلیم و تہذیب یافتہ ہوںگی، تو نسلوں کے ایمان کی حفاظت ہوگی لیکن اس کے ساتھ شریعت کے اصولوں کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے اس لیے بالغ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کو ہی معلمات مقرر کیا جائے لیکن اگر بڑی کتابوں کو پڑھانے کے لیے معلمات دستیاب نہ ہوں تو بدرجہ مجبوری پردہ کے نظم کے ساتھ مرد وں کو مقرر کیا جاسکتا ہے اور ایسے مردکے پیچھے نماز درست ہے۔(۱)

(۱) ثلاثۃ لہم أجران: رجل من أہل الکتاب آمن بنبیہ وآمن بمحمد والعبد المملوک إذا أدی حق اللّٰہ وحق موالیہ ورجل لہ أمۃ فأدبہا فأحسن تأدیبہا علمہا فأحسن تعلیمہا ثم اعتقہا فتزوج فلہ أجران۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۷۹، رقم: ۱۱)
قالت النساء للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: غلبن علیک الرجال فاجعل لنا یوماً من نفسک فوعدہن یوماً لیقہن فیہ فوعظہن وأمرہن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العلم، باب ہل یجعل للنساء یوماً علی حدۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۱۰۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص180

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آجکل مردوں کی تعلیم کی طرف تو علماء و دیگر حضرات توجہ دے رہے ہیں لیکن عورتوں کی تعلیم کے لئے کوئی خاص نظم موجودہ دور میں مسلم معاشرہ میں نہیں پایا جاتا حالانکہ جس طرح مردوں پر حصول تعلیم لازم و ضروری ہے اسی طرح دینی تعلیم، تشریع اسلامی فقہ و حدیث وغیرہ کا حاصل کرنا عورتوں پر بھی ضروری ہے کم ازکم اس درجہ حصول تعلیم تو فرض ہے کہ نماز، روزہ، حج وزکوٰۃ اور ان کے شرائط مثلاً طہارت وغیرہ سے پورے طور پر اس کو جانکاری حاصل ہوجائے اور ارکان اسلام کی صحیح ادائے گی پر عورت قادر ہو۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ‘‘ (الحدیث) بعض حضرات نے ’’مسلمۃ‘‘ کے لفظ کو مدرج فی الحدیث کہا ہے، اگر اس لفظ کو مدرج ہی مانا جائے تب بھی حدیث صرف مردوں کے لئے نہیں ہے بلکہ ’’مسلم‘‘ کے لفظ میں تبعاً عورتیں بھی داخل ہیں، نیز اتنا علم حاصل کرنا ضروریات و واجبات دین میں سے ہے اور اس سے زائد حاصل کرنے میں دینی ومعاشرتی فائدے بیشمار ہیں۔
 خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس عورتوں کو مسائل بتلاتے اور عورتیں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل دریافت کرتیں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خصوصاً فقہ اسلامی میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ حضرات صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے مسائل دریافت کیا کرتے تھے، فقہاء کے یہاں بھی اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں صاحب بدائع صنائع علامہ کاسانی رحمہ اللہ جو فقہ حنفی کے اہم افراد و متبحرین میں شمار کئے جاتے ہیں، ان کی صاحبزادی اور اہلیہ فقہ میں بڑی مہارت رکھتی تھیں حتی کہ ہر فتویٰ پر ان کی صاحبزادی کے دستخط لازمی ہوتے تھے۔ لوگ ان سے مسائل معلوم کرتے اور وہ لوگوں کو مسائل بتلاتی تھیں۔ اسی طرح کی بہت سی مثالیں اسلامی معاشرہ میں ملتی ہیں۔ در مختار کے ایک مسئلہ سے اس کی پوری وضاحت ہوتی ہے در مختار میں ہے کہ: اگر کمسن لڑکی کی شادی باپ دادا کے علاوہ نے یا کسی کمسن باندی کی شادی غیر آقا نے کرادی تو وقت بلوغ ان دونوں کو خیار حاصل ہوگا کہ قاضی شرعی کے یہاں درخواست دے کر اس نکاح کو ختم کرادیں۔ شرط یہ ہے کہ جب بالغ ہو تو فوراً عدم رضا کا اظہارکرے اور اپنے تئیں یہ طے کرے کہ اس نکاح کو باقی نہیں رکھنا۔ اگر بلوغ کے سال دو سال بعد اپنا خیار فسخ حاصل کرنا چاہے تو خیار فسخ حاصل نہ ہوگا اگر آزاد عورت یہ کہے کہ مجھے مسئلہ معلوم نہیں تھا کہ فوراً فسخ کا اظہار ضروری ہے تو اس کی بات قابل اعتناء و اعتبار نہ ہوگی ہاں اگر باندی یہ کہے کہ مجھے مسئلہ معلوم نہیں تھا تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔ وجہ یہ ہے کہ باندی کو تو حصول علم کا موقع نہیں ملتا کہ وہ اتنا علم حاصل کرے اور آزاد عورت کو مواقع حاصل ہیں۔ اس لئے اس پر لازم تھا کہ وہ اتنا علم حاصل کرتی (کتاب النکاح از درمختار) معلوم ہوا کہ ایسے باریک جزئیات پر بھی نظر ہونی ضروری ہے آجکل عورتیں نماز روزہ، نماز میں سجدۂ سہو، سے ہی غافل ہیں اس لئے کہ ان کی تعلیم کا مردوں نے کوئی نظم ہی نہیں کیا، رہا یہ کہ عورتوں کی تعلیم کے لئے اگر مردوں کو معلم رکھا جائے تو ’’صوۃ المرأۃ عورۃ‘‘ سے اعتراض لازم آئے گا سو مندرجہ بالا واقعات کے پیش نظر اس کی ضرورت بھی شدید ہے پس مدرسہ میں اگر پردہ کے ساتھ تعلیم کا نظم ہو اور مرد معلم ہو تو بھی مضائقہ نہیں حتی الامکان عورتیں ہی تعلیم دیں، لیکن ضرورت کے وقت پردہ کے معقول نظم کے ساتھ اگر مرد بھی تعلیم دے تو اس کی بھی گنجائش ہوگی۔
البتہ یہ لازم ہے کہ خود مرد عورتوں کی خبر گیری نہ کریں اسٹاف عورتوں ہی کا ہو۔ اختلاط ہر گز نہ ہو۔ جہاں کلام و بات چیت لازم ہوجائے وہاں معقول پردہ کا لحاظ رکھا جائے۔ دارالاقامہ میں پردہ کا معقول نظم ہو اس کی دیواریں اونچی ہوں وغیرہ لیکن اگر کسی لڑکی کے بارے میں یہ یقین مکمل طور پر ہو یا خود اس لڑکی کو یقین ہو کہ زنا میں مبتلا ہوجائے گی تو وہ گھر ہی میں رہ کر معمولی علم حاصل کرے جو حضرات ایسے وقت پر بھی دارالاقامہ یا مدرسہ میں طالبات یا کسی طالبہ کا آنا لازم قرار دیں یہ درست نہیں ان لوگوں کی بات شرعاً قابل تردید ہے۔ بعض خصوصی واقعات و ضروریات لازمہ کے پیش نظر علماء دیوبند مدارس البنات نہ کھول سکے ان کا مشن مردوں کی تعلیم رہا مواقع اس کے نہ مل سکے کہ اس طرف کامل طور پر توجہ دے سکتے۔ الحاصل عورتوں کی تعلیم کے نظم کی ضرورت ہے اس کی مخالفت درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) وعن الشفاء بنت عبد اللّٰہ قالت: دخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و أنا   عند حفصۃ فقال: (ألا تعلمین ہذہ رقیۃ النملۃ کما علمتنیہا الکتابۃ، رواہ أبو داؤد۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الطب والرقي، الفصل الثاني‘‘: ج ۸، ص: ۳۷۸، رقم: ۴۵۶۱)
وقال صاحب بذل المجہود، وفیہ دلیل علی جواز تعلم نساء الکتابۃ الخ۔ (بذل المجہود: ج ۵، ص: ۸)
وکن نسائٌ یبعثن إلی عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا: بالدرجۃ فیہا الکرسف فیہ الصفرۃ، فتقول: ألا تعجلن حتی ترین القصۃ البیضاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الحیض: باب إقبال المحیض وإدبارہ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۶)
إعلم أنہ لما کان الرجال یہیجہم النظر إلی النساء علی عشقہن والتولہ بہن، ویفعل بالنساء مثل ذلک، وکان کثیراً ما یکون ذلک سبب لأن یبتغي قضاء الشہوۃ منہن علی غیر السنۃ الراشدۃ، کاتباع من ہي في عصمۃ غیرہ، أو بلا نکاح، أو غیر اعتبار کفائۃ والذي شوہد في ہذ الباب یغني عما سطر في الدفاتر اقتضت الحکمۃ أن یسد ہذا الباب۔ (الإمام الشاہ ولي اللّٰہ محدث الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ: ج ۱، ص: ۶۸۶)
وکل عمل ولو تبرعاً لأجنبي ولو قابلۃ أو مغلسۃ لتقدم حقہ علی فرض الکفایۃ، ومن مجلس العلم إلا لنازلۃ امتنع زوجہا من سؤالہا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطلاق: باب النفقۃ، مطلب في الکلام علی المؤنسۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۲۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص182

متفرقات

Ref. No. 1965/44-1886

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The above mentioned dreams are the result of the thoughts that you have in your mind while you are awake, this is called a mishmash of dreams.  So, ignore them. Such dreams have no interpretation.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

متفرقات

Ref. No. 1362/42-768

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس میں دینی چیزوں  کی ناقدری ہے اور  توہین ہے۔ اس لئے اس  سے بچنا چاہئے۔ لا يقرأ جهرا عند المشتغلين بالأعمال) الفتاوى الهندية :5/ 316(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2760/454328

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ {بِسْمِ اللہِ مَجْرٖہَا وَمُرْسَاہَا إِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} (الحصن الحصین، 208،)

مذکورہ دعا بحری جہاز یا کشتی پرسوار ہوں تو پڑھی جائے، البتہ پل پر سے گزرتے ہوئے، جب بلندی پر چڑھے تو ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ پڑھے، اور جب بلندی سے نیچے اترے تو ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ‘‘ کہے، اور جب کسی میدان یا پانی بہنے کی جگہ سے گزرے تو ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ ‘‘پڑھے۔

نیز مذکورہ دعا پانی پینے کے بعد پڑھنا  امام حسن بصری ؒسے ثابت ہے۔ امام ابن ابی الدنیا نے کہا: مجھے اسحاق بن اسماعیل  الطالقانی نے حدیث بیان کی: ہمیں جریر بن عبدالحمید نے عبداللہ بن شبرمہ سے حدیث بیان کی کہ حسن بصری جب پانی پیتے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ (کتاب ا لشکر:۷۰؍ وسندہ صحیح موسوعۃ الامام ابن ابی الدنیا: ج ۱، ص: ۴۸۷)

 لہٰذا پانی پینے کے بعد آثار سلف صالحین کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ دعا پڑھنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس بندے سے راضی ہوجاتا ہے جو کھانا کھاتا ہے تو اس پر اللہ کی حمد بیان کرتا ہے اور مشروب پیتا ہے تو اس پر اللہ کی حمد بیان کرتا ہے۔ (صحیح مسلم: رقم: ۲۷۳۴)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1493/42-954

وباللہ التوفیق:۔ قبرستان کا سابقہ گیٹ اور موجودہ گیٹ کے درمیان تیس گز زمین قبرستان کی ملک تھی یا محض قبرستان جانے کے لئے  بطور راستہ استعمال کی جارہی تھی  ۔نیز اس کے برابر میں جو پلاٹ عرفان کا ہے اس کاراستہ مالک زمین نے کہاں دیا۔ مسجد جو بنی ہے وہ قبرستان کی زمین ہے یا الگ سے لی گئی ہے۔ ان تمام تفصیلات کے ساتھ دارالافتاء سے رجوع کریں یا علاقہ کے معتبر مفتیان کرام سے معائنہ کرائیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند