متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آجکل مردوں کی تعلیم کی طرف تو علماء و دیگر حضرات توجہ دے رہے ہیں لیکن عورتوں کی تعلیم کے لئے کوئی خاص نظم موجودہ دور میں مسلم معاشرہ میں نہیں پایا جاتا حالانکہ جس طرح مردوں پر حصول تعلیم لازم و ضروری ہے اسی طرح دینی تعلیم، تشریع اسلامی فقہ و حدیث وغیرہ کا حاصل کرنا عورتوں پر بھی ضروری ہے کم ازکم اس درجہ حصول تعلیم تو فرض ہے کہ نماز، روزہ، حج وزکوٰۃ اور ان کے شرائط مثلاً طہارت وغیرہ سے پورے طور پر اس کو جانکاری حاصل ہوجائے اور ارکان اسلام کی صحیح ادائے گی پر عورت قادر ہو۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمۃ‘‘ (الحدیث) بعض حضرات نے ’’مسلمۃ‘‘ کے لفظ کو مدرج فی الحدیث کہا ہے، اگر اس لفظ کو مدرج ہی مانا جائے تب بھی حدیث صرف مردوں کے لئے نہیں ہے بلکہ ’’مسلم‘‘ کے لفظ میں تبعاً عورتیں بھی داخل ہیں، نیز اتنا علم حاصل کرنا ضروریات و واجبات دین میں سے ہے اور اس سے زائد حاصل کرنے میں دینی ومعاشرتی فائدے بیشمار ہیں۔
 خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس عورتوں کو مسائل بتلاتے اور عورتیں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل دریافت کرتیں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خصوصاً فقہ اسلامی میں ید طولیٰ حاصل تھا۔ حضرات صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے مسائل دریافت کیا کرتے تھے، فقہاء کے یہاں بھی اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں صاحب بدائع صنائع علامہ کاسانی رحمہ اللہ جو فقہ حنفی کے اہم افراد و متبحرین میں شمار کئے جاتے ہیں، ان کی صاحبزادی اور اہلیہ فقہ میں بڑی مہارت رکھتی تھیں حتی کہ ہر فتویٰ پر ان کی صاحبزادی کے دستخط لازمی ہوتے تھے۔ لوگ ان سے مسائل معلوم کرتے اور وہ لوگوں کو مسائل بتلاتی تھیں۔ اسی طرح کی بہت سی مثالیں اسلامی معاشرہ میں ملتی ہیں۔ در مختار کے ایک مسئلہ سے اس کی پوری وضاحت ہوتی ہے در مختار میں ہے کہ: اگر کمسن لڑکی کی شادی باپ دادا کے علاوہ نے یا کسی کمسن باندی کی شادی غیر آقا نے کرادی تو وقت بلوغ ان دونوں کو خیار حاصل ہوگا کہ قاضی شرعی کے یہاں درخواست دے کر اس نکاح کو ختم کرادیں۔ شرط یہ ہے کہ جب بالغ ہو تو فوراً عدم رضا کا اظہارکرے اور اپنے تئیں یہ طے کرے کہ اس نکاح کو باقی نہیں رکھنا۔ اگر بلوغ کے سال دو سال بعد اپنا خیار فسخ حاصل کرنا چاہے تو خیار فسخ حاصل نہ ہوگا اگر آزاد عورت یہ کہے کہ مجھے مسئلہ معلوم نہیں تھا کہ فوراً فسخ کا اظہار ضروری ہے تو اس کی بات قابل اعتناء و اعتبار نہ ہوگی ہاں اگر باندی یہ کہے کہ مجھے مسئلہ معلوم نہیں تھا تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔ وجہ یہ ہے کہ باندی کو تو حصول علم کا موقع نہیں ملتا کہ وہ اتنا علم حاصل کرے اور آزاد عورت کو مواقع حاصل ہیں۔ اس لئے اس پر لازم تھا کہ وہ اتنا علم حاصل کرتی (کتاب النکاح از درمختار) معلوم ہوا کہ ایسے باریک جزئیات پر بھی نظر ہونی ضروری ہے آجکل عورتیں نماز روزہ، نماز میں سجدۂ سہو، سے ہی غافل ہیں اس لئے کہ ان کی تعلیم کا مردوں نے کوئی نظم ہی نہیں کیا، رہا یہ کہ عورتوں کی تعلیم کے لئے اگر مردوں کو معلم رکھا جائے تو ’’صوۃ المرأۃ عورۃ‘‘ سے اعتراض لازم آئے گا سو مندرجہ بالا واقعات کے پیش نظر اس کی ضرورت بھی شدید ہے پس مدرسہ میں اگر پردہ کے ساتھ تعلیم کا نظم ہو اور مرد معلم ہو تو بھی مضائقہ نہیں حتی الامکان عورتیں ہی تعلیم دیں، لیکن ضرورت کے وقت پردہ کے معقول نظم کے ساتھ اگر مرد بھی تعلیم دے تو اس کی بھی گنجائش ہوگی۔
البتہ یہ لازم ہے کہ خود مرد عورتوں کی خبر گیری نہ کریں اسٹاف عورتوں ہی کا ہو۔ اختلاط ہر گز نہ ہو۔ جہاں کلام و بات چیت لازم ہوجائے وہاں معقول پردہ کا لحاظ رکھا جائے۔ دارالاقامہ میں پردہ کا معقول نظم ہو اس کی دیواریں اونچی ہوں وغیرہ لیکن اگر کسی لڑکی کے بارے میں یہ یقین مکمل طور پر ہو یا خود اس لڑکی کو یقین ہو کہ زنا میں مبتلا ہوجائے گی تو وہ گھر ہی میں رہ کر معمولی علم حاصل کرے جو حضرات ایسے وقت پر بھی دارالاقامہ یا مدرسہ میں طالبات یا کسی طالبہ کا آنا لازم قرار دیں یہ درست نہیں ان لوگوں کی بات شرعاً قابل تردید ہے۔ بعض خصوصی واقعات و ضروریات لازمہ کے پیش نظر علماء دیوبند مدارس البنات نہ کھول سکے ان کا مشن مردوں کی تعلیم رہا مواقع اس کے نہ مل سکے کہ اس طرف کامل طور پر توجہ دے سکتے۔ الحاصل عورتوں کی تعلیم کے نظم کی ضرورت ہے اس کی مخالفت درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) وعن الشفاء بنت عبد اللّٰہ قالت: دخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و أنا   عند حفصۃ فقال: (ألا تعلمین ہذہ رقیۃ النملۃ کما علمتنیہا الکتابۃ، رواہ أبو داؤد۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الطب والرقي، الفصل الثاني‘‘: ج ۸، ص: ۳۷۸، رقم: ۴۵۶۱)
وقال صاحب بذل المجہود، وفیہ دلیل علی جواز تعلم نساء الکتابۃ الخ۔ (بذل المجہود: ج ۵، ص: ۸)
وکن نسائٌ یبعثن إلی عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا: بالدرجۃ فیہا الکرسف فیہ الصفرۃ، فتقول: ألا تعجلن حتی ترین القصۃ البیضاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الحیض: باب إقبال المحیض وإدبارہ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۶)
إعلم أنہ لما کان الرجال یہیجہم النظر إلی النساء علی عشقہن والتولہ بہن، ویفعل بالنساء مثل ذلک، وکان کثیراً ما یکون ذلک سبب لأن یبتغي قضاء الشہوۃ منہن علی غیر السنۃ الراشدۃ، کاتباع من ہي في عصمۃ غیرہ، أو بلا نکاح، أو غیر اعتبار کفائۃ والذي شوہد في ہذ الباب یغني عما سطر في الدفاتر اقتضت الحکمۃ أن یسد ہذا الباب۔ (الإمام الشاہ ولي اللّٰہ محدث الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ: ج ۱، ص: ۶۸۶)
وکل عمل ولو تبرعاً لأجنبي ولو قابلۃ أو مغلسۃ لتقدم حقہ علی فرض الکفایۃ، ومن مجلس العلم إلا لنازلۃ امتنع زوجہا من سؤالہا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطلاق: باب النفقۃ، مطلب في الکلام علی المؤنسۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۲۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص182

متفرقات

Ref. No. 1965/44-1886

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The above mentioned dreams are the result of the thoughts that you have in your mind while you are awake, this is called a mishmash of dreams.  So, ignore them. Such dreams have no interpretation.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

متفرقات

Ref. No. 1362/42-768

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس میں دینی چیزوں  کی ناقدری ہے اور  توہین ہے۔ اس لئے اس  سے بچنا چاہئے۔ لا يقرأ جهرا عند المشتغلين بالأعمال) الفتاوى الهندية :5/ 316(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2760/454328

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ {بِسْمِ اللہِ مَجْرٖہَا وَمُرْسَاہَا إِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ} (الحصن الحصین، 208،)

مذکورہ دعا بحری جہاز یا کشتی پرسوار ہوں تو پڑھی جائے، البتہ پل پر سے گزرتے ہوئے، جب بلندی پر چڑھے تو ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ پڑھے، اور جب بلندی سے نیچے اترے تو ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ‘‘ کہے، اور جب کسی میدان یا پانی بہنے کی جگہ سے گزرے تو ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ ‘‘پڑھے۔

نیز مذکورہ دعا پانی پینے کے بعد پڑھنا  امام حسن بصری ؒسے ثابت ہے۔ امام ابن ابی الدنیا نے کہا: مجھے اسحاق بن اسماعیل  الطالقانی نے حدیث بیان کی: ہمیں جریر بن عبدالحمید نے عبداللہ بن شبرمہ سے حدیث بیان کی کہ حسن بصری جب پانی پیتے تو یہ دعا پڑھتے تھے۔ (کتاب ا لشکر:۷۰؍ وسندہ صحیح موسوعۃ الامام ابن ابی الدنیا: ج ۱، ص: ۴۸۷)

 لہٰذا پانی پینے کے بعد آثار سلف صالحین کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ دعا پڑھنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس بندے سے راضی ہوجاتا ہے جو کھانا کھاتا ہے تو اس پر اللہ کی حمد بیان کرتا ہے اور مشروب پیتا ہے تو اس پر اللہ کی حمد بیان کرتا ہے۔ (صحیح مسلم: رقم: ۲۷۳۴)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1493/42-954

وباللہ التوفیق:۔ قبرستان کا سابقہ گیٹ اور موجودہ گیٹ کے درمیان تیس گز زمین قبرستان کی ملک تھی یا محض قبرستان جانے کے لئے  بطور راستہ استعمال کی جارہی تھی  ۔نیز اس کے برابر میں جو پلاٹ عرفان کا ہے اس کاراستہ مالک زمین نے کہاں دیا۔ مسجد جو بنی ہے وہ قبرستان کی زمین ہے یا الگ سے لی گئی ہے۔ ان تمام تفصیلات کے ساتھ دارالافتاء سے رجوع کریں یا علاقہ کے معتبر مفتیان کرام سے معائنہ کرائیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1666/43-1292

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہبہ کے تام ہونے اور ملکیت کا فائدہ دینے کے لیے قبضہ اور تصرف کا مکمل اختیار دینا شرط ہے، لہٰذا والد کا اپنی اولاد میں موجودہ مکان کو مشترکہ طور پر ہبہ کرنا درست نہیں ہوگا، اگروالد نے زبانی طور پر ہبہ کیا ہو اور مکمل قبضہ اور تصرف کا اختیار  نہ دیا ہو تو وہ  مکان بدستور والد کی ملکیت میں رہے گا اور والد کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوکر تمام ورثاء میں ضابطہء شرعی کے موافق تقسیم ہوگا۔ والد  اگر  اپنی اولاد کے درمیان کمروں کی تقسیم کردیں اور ایک کمرہ اپنے لئے رکھ لیں تو یہ مناسب ہے۔  

لأن هبة المشاع باطلة وهو الصحيح كما في مشتمل الأحكام نقلا عن تتمة الفتاوى والهبة الفاسدة لا تفيد الملك على ما في الدرر وغيرها والمسألة مسطورة في التنوير أيضا (العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ، کتاب الھبۃ 2/85)

وفي الجوهرة، وحيلة هبة المشغول أن يودع الشاغل أولا عند الموهوب له ثم يسلمه الدار مثلا فتصح لشغلها بمتاع في يده (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعا به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين لأنها (لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي وقيل: يجوز لشريكه، وهو المختار (فإن قسمه وسلمه صح) لزوال المانع (شامی، کتاب الھبۃ 5/692)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2197/44-2345

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  چونکہ اس شخص نے اپنی مصروفیات کی وجہ سے ملازمت اختیار کرنے سےا نکار کردیا، اس لئے اس کا دست برداری کے کاغذ پر صلح کا عوض وصول کرنا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 845 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  درود شریف پڑھنا ایک عمل خیر بلکہ افضل عبادات میں سے ہے، شریعت میں کارخیر کرنے پر ہی نہیں بلکہ ہر خیر کی چیز سننے اور دیکھنے پر بھی ثواب ملتا ہے۔ اس لئے درود شریف پڑھنا اور سننا بھی لائق اجروثواب ہے۔ ظاہر ہے کہ جب غلط چیزوں کے دیکھنے اور سننے پر گناہ ہے تو اچھی چیزوں کے دیکھنے اور سننے پر ثواب یقینا ہوگا۔

واللہ تعالی اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 931/41-61

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ کے دوست کسی فانی شی کے حصول میں غالبا زیادہ منہمک رہے ہیں۔ اور عبادتیں بھی غالبا اسی کے حصول کی غرض سے زیادہ کرتے ہوں گے۔ جب عبادتیں حقیقی مقاصد سے ہٹ کر کی جاتی ہیں تو وہ کبھی سکون نہیں پہونچاتی ہیں۔ آپ کے دوست کو چاہئے کہ اپنی عبادتیں صرف اللہ کی رضاء کے لئے کریں،  اور اپنے گناہوں کی بھی صدق دل سے معافی مانگیں ۔ ان شاء اللہ  تمام دنیاوی مشکلات بھی حل ہوجائیں گی۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: واستغفروا ربکم انہ کان غفارا، یرسل السماء علیکم مدرارا ، ویمددکم باموال وبنین ویجعل لکم جنات ویجعل لکم انھارا۔

اللہ کی رضاء کے لئے عبادت کرنے اور اپنے گناہوں کی صدق دل سے معافی مانگنے سے اللہ تعالی معاف بھی فرمائیں گے۔  رحمتیں بھی برسائیں گے، مال بھی دیں گے، اور لڑکا نہ ہو تو لڑکا بھی ملے گا، یعنی دنیا میں بھی ترقی ہوگی اور آخرت میں بھی اچھامقام نصیب ہوگا۔ یقینا اللہ کی یاد سے دل کو سکون ملتا ہے بشرطیکہ عبادت خالص رضائے الہی کے لئے ہو۔ قرآن میں ہے: الا بذکراللہ تطمئن القلوب۔ آپ کے دوست کو چاہئے کہ اس پر عمل کرے اور مذکورہ خیالات سے توبہ کرے، اور اپنے ایمان کی حفاظت کرے۔ واللہ الموفق۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال کتابیں اسرائیلی روایات کی حامل ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہوگئی ہیں، (۱) چونکہ ان میں اکثر وبیشتر واقعات وقصص غیر معتبر ہیں ؛ اس لیے پرہیز اولیٰ ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غلط واقعات کا بیان عقائد اسلامیہ میں رخنہ اندازی کا باعث، البتہ اگر فضائل وشمائل کے باب میں اسرائیلی روایات بھی ہوں، تو چونکہ مقصد راہ خدا وندی کی طرف ترغیب دلانا ہے؛ اس لئے اس میں مضائقہ نہیں ہے۔
مذکورہ کتابوں میں جو باتیں دوسری معتبر کتابوں میں بھی آئی ہیں، وہ مذکورہ کتابوں میں بھی معتبر ہیں، علماء حقانی سے معلوم کرکے کتاب پڑھیں یا سنیں۔

(۱) وحدثوا عن بني إسرائیل ولا حرج أي: الحرج الضیق والإثم وہذا لیس علی معنی إباحۃ الکذب علیہم بل دفع لتوہم الحرج في التحدیث عنہم وإن لم یعلم صحتہ وإسنادہ لبعد الزمان۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۶، رقم: ۱۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص185