متفرقات

Ref. No. 1473/42-920

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بطور تاکید اور بعض مرتبہ بطور فرض   اور تقدیر  اس طرح کے الفاظ کا اضافہ کردیا جاتاہے اور اس  میں کوئی  حرج نہیں ہے۔ قرآن میں ہے کہ " لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وماتاخر"(سورۃ الفتح)  واللہ غفور  رحیم (سورۃ التحریم) جبکہ آپ ﷺ معصوم ہیں۔  

وقوله - عَزَّ وَجَلَّ -: (وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ). أي: غفور لما تقدم من ذنبك وما تأخر لو كان. أو يكون رحيما؛ حيث لم يعاقبك بما اجترأت من الإقدام على اليمين؛ لا بإذن سبق من اللَّه تعالى لك فيه. (تفسیر الماتریدی، تاویلات اھل السنۃ2، 10/77)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1838/43-1669

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ استقرار حمل کے بعد اگر کوئی خاص وجہ نہ ہو تو ایک مہینہ کے حمل کو بھی ضائع کرناجائز نہیں ہے۔  البتہ اگر کوئی معقول وجہ ہو جیسے کہ حمل سے عورت کی جان کو خطرہ  ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہویا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس  سے پہلے بچہ کو نقصان ہوتو ایسی مجبوری کی صورتوں میں  ابھی ابتدائی مرحلہ میں  اسقاط  حمل کی گنجائش ہے۔

"وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج. (قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم! يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوماً، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط؛ لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة، كذا في الفتح. وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح۔ (شامی،  مطلب فی اسقاط الحمل، باب نکاح الرقیق، 3/176ط؛ سعید)

"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل." (الموسوعة الفقهیة الکویتیة 30/285)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2343/44-3527

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    صورت مذکورہ میں بھائی کوچاہئے کہ اپنی بہن سے وقتی طور پر قطع تعلق کرلے تاکہ وہ اپنے گناہ سے باز آجائے اور اس کی اصلاح ہوسکے۔ البتہ اگر قطع تعلق سے اس کے مزید بگڑنے کااندیشہ ہو تو اس سے قطع تعلق نہ کیا جائے، بلکہ  وقتًا فوقتًا اس کو حکمت سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔

" أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر و هو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها."

(فتح الباری شرح صحیح البخاری،قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، 10/497،ط:دارالمعرفۃ بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 40/916

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پولیو کی دوا میں جب تک تحقیق سے کسی غلط چیز کی ملاوٹ کا ثبوت  نہ ہوجائے اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا۔ حکومت کا یہ اقدام ملک سے پولیو کے خاتمے کے لئے ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہے، اس لئے بلاوجہ اس میں شبہ کرنا مناسب نہیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1118/42-344

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں، زندہ لوگوں کو بھی ایصال ثواب کرسکتے ہیں۔ چونکہ زندہ لوگوں کا عمل ابھی جاری ہے، اور جو اس دنیا سے فوت ہوگئے ہیں، وہ ثواب کے زیادہ محتاج ہیں، اس لئے مردہ لوگوں کو ایصال ثواب کیاجاتاہے۔ تاہم زندہ لوگوں کو بھی ایصال ثواب کرسکتے ہیں۔  

فإن من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيا  (البحرالرائق 3/63) (بدائع الصنائع 2/212)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1655/43-1238

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ناظم مدرسہ نے تنخواہ میں کمی کردی اور اساتذہ کو اس سے شروع میں ہی آگاہ کردیا، اور سب نے اس سے اتفاق کرلیا، اس لئے ناظم مدرسہ پر تنخواہ وضع کرنے کا کوئی الزام نہیں آئے گا۔ البتہ ناظم مدرسہ نے اساتذہ کے تئیں شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنخواہ کے بقیہ حصہ کی تلافی کی ایک شکل اساتذہ کے سامنے رکھی، اور اس کے مطابق جو چندہ کرے گا وہ اس کا مستحق ہوگا، اور جو نہیں کرے گا وہ مستحق نہیں ہوگا۔ ناظم صاحب نے چندہ کی شرط ان کے لئے رکھی ہے جو بقیہ پچیس فیصد کی تلافی چاہتے ہیں ورنہ ان پر چندہ لازم نہیں۔ اور جن لوگوں نے پچیس فی صد اضافی تنخواہ لے لی اور چندہ نہیں کیا تویقینا شرط کے مطابق وہ  پچیس فی صد کے حقدار نہ ہونے کی وجہ سے اس کے مستحق نہیں تھے، اس لئے یا تو وہ پیسے ناظم صاحب کو واپس کریں یا پھر اگلی تنخواہوں میں وضع کرائیں، ناظم مدرسہ نے  اگلی تنخواہوں میں وضع کرکے اس میں بھی  اساتذہ کی رعایت کی  ہے۔

لقول النبي ﷺ: المسلمون على شروطهم (رواه الترمذي في (الأحكام) باب ما ذكر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلح برقم 1352)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1266

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:   مذکورہ بات درست نہیں ہے۔ ٹخنوں سے نیچے تک پائجامہ یا کرتا  درست نہیں ہے۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 41/848

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کے گروپ میں شامل ہوکر اپنی  نیکی کا اظہار کرنا درست معلوم نہیں ہوتا ۔ ہرشخص  خاموشی اور اخلاص کے ساتھ  پڑھے، ریاکاری وغیرہ امور عبادت کے ثواب کو ضائع کردیتے ہیں۔ اس لئے بچنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1574/43-1100

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ euthanasia کا مطلب: لاعلاج اور انتہائی تکلیف دہ بیماری یا ناقابل واپسی کوما میں مبتلا مریض کو بلا کسی تکلیف و درد کے بذریعہ انجکشن یا دوا جان سے مارڈالنااور قتل کرنا۔

زندگی اللہ کی امانت ہے، اللہ نے دی ہے اور وہی اس کا مالک ہے، اپنی حیات کو ختم کرنے کا کسی کو اختیار نہیں دیا گیا اس لئے خود کشی حرام ہے اور احادیث میں خود کشی پر سخت وعید آئی ہے ، اگرخدا نخواستہ کوئی بقول ڈاکٹر  لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوجائے تو  بھی  خلاصی حاصل کرنے کی خاطر خودکشی کا راستہ اختیار کرنا جائز نہیں ہوگا۔ نیز کسی آدمی کا  خودکشی کرنا اور دوسرے کو قتل کرنا، دونوں کا ایک حکم ہے، دونوں حرام ہیں۔کوئی کسی ناقابل برداشت تکلیف میں ہو اور  اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے خودکشی کرنا چاہے تو یہ ایسا ہی حرام ہے، جیساکہ بلاوجہ خودکشی کرنا  حرام ہے۔ تکلیف سے نجات حاصل کرنے کے لئے بجائے خودکشی کے کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرنا جو موت  کا سبب بن جائے وہ بھی بحکم خودکشی کے ہے۔ان سب کی ممانعت بہت صراحت کے ساتھ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔تاہم  اگر دوا سے کوئی خاص فائدہ نہ ہو اور دوا چھوڑدی جائے تو یہ قتل نفس کے زمرے میں نہیں آئے گا، اسی طرح اگر مصنوعی آلہ  تنفس کو اگر ہٹادیاجائے اور سانس رک جائے اور موت واقع ہوجائے تو یہ بھی قتل نفس کے زمرے میں نہیں آئے گا۔  قتل نفس کے لئے انجکشن لینا یا دینا دونوں حرام ہے اور بعض صورتوں میں لگانے والے یا دوا دینے والے پر دیت بھی لازم ہوسکتی ہے۔ جو صورت پیش آئے اس کی وضاحت کے ساتھ سوال کرلیا جائے تاکہ اسی کے مطابق جواب دیا جاسکے۔ 

وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ الاَّ بِالْحَقِّ“ (سورۃ الانعام 151) یکرہ تمنی الموت لغضب، أو ضیق عیش، وفی صحیح مسلم: لا یتمنین أحدکم الموت لضرّ نزل بہ(شامی 5/270) استعجالا للموت أو لغیر مصلحة، فانہ لو کان علی طریق المداواة التي یغلب الظن علی نفعہا، لم یکن حراما“ شرح مسلم للنووی 1/73) وان قیل: لا ینجو أصلا لا یتداوی بل یترک، کذا فی الظہیریة“ ((الھندیۃ 6/239) الأسباب المزیلة للضرر تنقسم الی مظنون کالفصد وسائر أبواب الطب وترکہ لیس محظورا“ ((الھندیۃ کتاب الکراہیة باب الثامن عشر) بخلاف من امتنع عن التداوي حتی مات (یعنی لایکون عاصیًا)“(شامی 5/512) من تردّی من جبل فقتل نفسہ فہو فی نار جہنم یتردّی فیہا خالدًا مخلدًا فیہا ابدًا، ومن تحسّی سمًا فقتل نفسہ فسمہ فی یدہ یتحساہ فی نار جہنم خالدًا مخلدًا فیہا ابدًا، ومن قتل نفسہ بحدیدة فحدیدتہ فی یدہ یتوجأ بہا فی بطنہ فی نار جہنم خالدًا مخلدًا ابدًا (مسلم مع فتح الملہم 1/265)  ن جندب بن عبد اللہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کان فیمن کان قبلکم رجل بہ جرح، فجزع، فأخذ سکینا فحز بہا یدہ، فما رقأ الدم حتی مات، قال اللہ تعالی: بادرَنی عبدی بنفسہ، حرمت علیہ الجنة․ رواہ البخاری (3463) عن أبی ہریرة قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قتل نفسہ بحدیدة فحدیدتہ فی یدہ یتوجأ بہا فی بطنہ فی نار جہنم“ ومن شرف سما فقتل نفسہ (الحدیث)“ قولہ فحدیدتہ فی یدہ، قال ابن دقیق العید: ․․․ ویوٴخذ منہ أن جنایة الانسان علی نفسہ کجنایتہ علی غیرہ فی الاسلام، لأن نفسہ لیست ملکا لہ مطلقا بل ہی للّٰہ تعالیٰ فلا یتصرف فیہا الا بما أذن فیہ (فتح الملہم: 1/562)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2473/45-3740

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں، اور سابقہ گناہوں سے توبہ کرکے اعمال صالحہ پر جمنے کی کوشش کریں ۔ ہر فرض نماز کے بعد داہنا ہاتھ سر پر رکھ کر 'یاقوی' گیارہ مرتبہ پڑھ لیا کریں، سوتے وقت گیارہ مرتبہ سورہ فاتحہ ، اول و آخر گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھ لیا کریں،اور خمیرہ گاؤزبان عنبری جواہر والا خاص ہمدرد کا اور خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا دونوں برابر مقدار میں صبح کو پانچ گرام گرم پانی سے لے لیا کریں، انشاء اللہ جسم میں طاقت رہے گی اور حافظہ بھی قوی ہوگا، اس کے علاوہ ضرورت ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند