Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 2372/44-3587
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آیوشمان کارڈ بنوانے والوں کو حکومت یہ سہولت دیتی ہے کہ اگر وہ بیمار ہوجائیں تو پانچ لاکھ تک کا علاج مفت ہوسکتاہے اور یہ کارڈ مفت بنتاہے۔ یہ حکومت کی طرف سے ایک تعاون ہے ، اگر یہ کارڈ جھوٹ بول کر نہ بنوایاگیاہو تو اس کارڈ کو بنوانے اور اس کے ذریعہ علاج کرانے میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے، اور نہ یہ توکل کے خلاف ہے، کیونکہ دنیا دارالاسباب ہے اور اسباب اختیار کرنا ممنوع نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 40/913
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسلمان مسلمان کا دینی بھائی ہے اور غیرمسلم وطنی بھائی ہیں اور کچھ تو نسبی بھائی بھی ہوتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2311/44-3469
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صحاح ستہ میں کل چھ کتابیں ہیں ان کے نام یہ ہیں: بخاری شریف، مسلم شریف، ترمذی شریف، ابوداؤد شریف، نسائی شریف، اور سنن ابن ماجہ۔
ان میں بھی ترتیب ہے ۔پہلا درجہ بخاری شریف کا ہے دوسرا درجہ مسلم شریف کا ،تیسرا درجہ ابو داود کا، چوتھا ترمذی کا ،اور پانچواں نسائی کا ہے ابن ماجہ کو تمام لوگ صحاح میں شامل نہیں مانتے ہیں، ابو طاہر مقدسی نے ابن ماجہ کوصحاح میں شامل کیا ہے بعد میں لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے، کتب احادیث میں صحاح کا مقام اہمیت کا حامل ہے اس لیے صحاح ستہ کا مطالعہ کرنا درست اور بہتر ہے تاہم بخاری ومسلم کے علاوہ کتب صحاح میں ضعیف احادیث بھی ہیں ان ماجہ میں بعض روایت موضوع بھی ہیں اس لیے تمام روایات سے استدلال درست نہیں ہے بلکہ حدیث کی حیثیت کو دیکھ کر استدلال کرنا چاہئے۔
ان کتب احادیث کے اردو ترجمے بھی ہوئے ہیں علماء دیوبند نے عموماً ان کی اردو شرحیں لکھی ہیں جن میں ترجمہ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے، بخاری شریف کے لیے تحفۃ القاری (مفتی سعید احمد پالنپوریؒ) نصر الباری مولانا عثمان غنی صاحب، ترمذی شریف کے لیے تحفۃ الالمعی (حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوریؒ) مطالعہ کے لیے بہتر ہیں۔
اردو ترجمہ مسلم (مولانا مفتی کفیل الرحمن نشاط عثمانی ابو داود کے لئے الدر المنضود (حضرت مولانا عاقل صاحب) ابن ماجہ کے لیے تکمیل الماجہ (مفتی غلام رسول قاسمی) مفید کتابیں ہیں جن میں ترجمہ کے ساتھ مطلب تشریف بھی ہے آپ ان کتابوں کے صرف تراجم پر بھی اکتفا کر سکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1473/42-920
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بطور تاکید اور بعض مرتبہ بطور فرض اور تقدیر اس طرح کے الفاظ کا اضافہ کردیا جاتاہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قرآن میں ہے کہ " لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وماتاخر"(سورۃ الفتح) واللہ غفور رحیم (سورۃ التحریم) جبکہ آپ ﷺ معصوم ہیں۔
وقوله - عَزَّ وَجَلَّ -: (وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ). أي: غفور لما تقدم من ذنبك وما تأخر لو كان. أو يكون رحيما؛ حيث لم يعاقبك بما اجترأت من الإقدام على اليمين؛ لا بإذن سبق من اللَّه تعالى لك فيه. (تفسیر الماتریدی، تاویلات اھل السنۃ2، 10/77)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1838/43-1669
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ استقرار حمل کے بعد اگر کوئی خاص وجہ نہ ہو تو ایک مہینہ کے حمل کو بھی ضائع کرناجائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی معقول وجہ ہو جیسے کہ حمل سے عورت کی جان کو خطرہ ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہویا حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس سے پہلے بچہ کو نقصان ہوتو ایسی مجبوری کی صورتوں میں ابھی ابتدائی مرحلہ میں اسقاط حمل کی گنجائش ہے۔
"وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج. (قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم! يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوماً، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط؛ لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة، كذا في الفتح. وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح۔ (شامی، مطلب فی اسقاط الحمل، باب نکاح الرقیق، 3/176ط؛ سعید)
"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل." (الموسوعة الفقهیة الکویتیة 30/285)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2343/44-3527
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں بھائی کوچاہئے کہ اپنی بہن سے وقتی طور پر قطع تعلق کرلے تاکہ وہ اپنے گناہ سے باز آجائے اور اس کی اصلاح ہوسکے۔ البتہ اگر قطع تعلق سے اس کے مزید بگڑنے کااندیشہ ہو تو اس سے قطع تعلق نہ کیا جائے، بلکہ وقتًا فوقتًا اس کو حکمت سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔
" أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر و هو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها."
(فتح الباری شرح صحیح البخاری،قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، 10/497،ط:دارالمعرفۃ بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 40/916
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پولیو کی دوا میں جب تک تحقیق سے کسی غلط چیز کی ملاوٹ کا ثبوت نہ ہوجائے اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا۔ حکومت کا یہ اقدام ملک سے پولیو کے خاتمے کے لئے ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہے، اس لئے بلاوجہ اس میں شبہ کرنا مناسب نہیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1118/42-344
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں، زندہ لوگوں کو بھی ایصال ثواب کرسکتے ہیں۔ چونکہ زندہ لوگوں کا عمل ابھی جاری ہے، اور جو اس دنیا سے فوت ہوگئے ہیں، وہ ثواب کے زیادہ محتاج ہیں، اس لئے مردہ لوگوں کو ایصال ثواب کیاجاتاہے۔ تاہم زندہ لوگوں کو بھی ایصال ثواب کرسکتے ہیں۔
فإن من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيا (البحرالرائق 3/63) (بدائع الصنائع 2/212)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1655/43-1238
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ناظم مدرسہ نے تنخواہ میں کمی کردی اور اساتذہ کو اس سے شروع میں ہی آگاہ کردیا، اور سب نے اس سے اتفاق کرلیا، اس لئے ناظم مدرسہ پر تنخواہ وضع کرنے کا کوئی الزام نہیں آئے گا۔ البتہ ناظم مدرسہ نے اساتذہ کے تئیں شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنخواہ کے بقیہ حصہ کی تلافی کی ایک شکل اساتذہ کے سامنے رکھی، اور اس کے مطابق جو چندہ کرے گا وہ اس کا مستحق ہوگا، اور جو نہیں کرے گا وہ مستحق نہیں ہوگا۔ ناظم صاحب نے چندہ کی شرط ان کے لئے رکھی ہے جو بقیہ پچیس فیصد کی تلافی چاہتے ہیں ورنہ ان پر چندہ لازم نہیں۔ اور جن لوگوں نے پچیس فی صد اضافی تنخواہ لے لی اور چندہ نہیں کیا تویقینا شرط کے مطابق وہ پچیس فی صد کے حقدار نہ ہونے کی وجہ سے اس کے مستحق نہیں تھے، اس لئے یا تو وہ پیسے ناظم صاحب کو واپس کریں یا پھر اگلی تنخواہوں میں وضع کرائیں، ناظم مدرسہ نے اگلی تنخواہوں میں وضع کرکے اس میں بھی اساتذہ کی رعایت کی ہے۔
لقول النبي ﷺ: المسلمون على شروطهم (رواه الترمذي في (الأحكام) باب ما ذكر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلح برقم 1352)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1266
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: مذکورہ بات درست نہیں ہے۔ ٹخنوں سے نیچے تک پائجامہ یا کرتا درست نہیں ہے۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند