متفرقات

Ref. No. 40/935

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی صورت میں شادی کے بعد بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، البتہ اس طرح کے الفاظ  زبان سے نکالنا آئندہ کسی ضرر کا باعث بن سکتا ہے، اس لئے  زبان سے کچھ بھی بولنے میں بہت احتیاط کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 40/1124

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  واللہ الموفق:(۱) بعض لوگ اپنے مخصوص اعمال کے ذریعہ جن کو اپنے قابو میں کرلیتے ہیں پھر وہ علاج وغیرہ میں ان سے مدد لیتے ہیں ایسے جنات کو وہ اپنا مؤکل کہتے ہیں (۲) جن کا موجود ہونا اور اس کا جسم انسانی میں حلول کرنا اور اس کے ذریعہ سے اپنا اثر ڈالنے کا ثبوت قرآن کریم سے ہے (۳)جو عامل حضرات آیات کریمہ، اذکار،یا دیگر مباح چیزوں کے ذریعہ علاج کرتے ہیں ان سے علاج کرانا درست ہے اور تعویذ کے ذریعہ علاج کرانے کا ثبوت بھی احادیث سے ہے (۴)عامل حضرات جو مؤکل سے علاج کراتے ہیں وہ اگر امور مباحہ سے متعلق ہو تو درست ہے لیکن جنات سے غیب کی خبر معلوم کرنادرست نہیں ہے (۵) اگر عامل حضرات غیر اللہ سے مدد لے کر علاج کرتے ہیں یا غیر اللہ کو کسی چیز میں مؤثر سمجھتے ہیں تو یہ شرک ہے لیکن اگر قرآن و حدیث کے علاوہ غیر معلوم الفاظ سے علاج کرتے ہیں تو یہ ناجائز ہے لیکن اس کو شرک نہیں کہا جائے گا۔لاباس بالمعاذات اذا کتب فیہا القرآن و اسماء اللہ تعالی (شامی ۶/۳۶۳)عن عوف بن مالک الاشجعی قال کنا نرقی فی الجاہلیۃ قلنا یا رسول اللہ کیف تری ذلک فقال لا بأس فی الرقی ما لم تکن شرکا (سنن ابی داؤد ۲/۲۴۵)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2800/45-4389

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں زید نے مطلق بات نہ کرنے کی قسم کھائی ہے، اس لئے  اسی کال پر رہتے ہوئے بات کرے گا تب بھی حانث ہوجائے گا، البتہ بذریعہ میسیج جواب دینے پر حانث نہیں ہوگا۔

﴿لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (المائدة: 89)

الكلام) والتحديث (لا يكون إلا باللسان) فلا يحنث بإشارة وكتابة كما في النتف.... وفي الرد: (قوله فلا يحنث بإشارة وكتابة) وكذا بإرسال رسول." (الدر المختار مع رد المحتار،كتاب الايمان، ‌‌باب اليمين في الأكل والشرب واللبس والكلام، 792/3، سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1134/42-355

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آج کل خون کی بہت کثرت سے ضرورت پڑتی ہے اور بسا اوقات جس گروپ کا خون چاہئے افرادِ خاندان میں کوئی ایسا نہیں ہوتاہے جس کا گروپ موافق ہو، اور بسا اوقات کسی حادثے کی وجہ سے بہت زیادہ لوگوں کو خون کی ضرورت پڑ جاتی ہے، جس کا فوری طور پر دستیاب ہونا مشکل ہوتا ہے، اس ضرورت کے پیشِ نظر بلڈ بینک کا قائم کرنا بھی جائز ہے، حضرت مفتی نظام الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں:
جب خون کے استعمال کی گو بدرجہ مجبوری گجائش ہوگئی تو چوں کہ ایسی مجبوریاں اچانک بھی پیدا ہوجاتی ہیں، اور خون کی بہت زیادہ مقدار کی متقاضی ہوجاتی ہیں، جیسے ریل کے ایکسڈینٹ کے موقع پر   - --   پھر اس میں بھی خون کا نمبر بالکل یکساں ہونا ضروری ہوتا ہے، ورنہ بجائے نفع کے نقصان کا اندیشہ ہوجاتا ہے، اس لئے اچانک پیش آمدہ ضروریات کے لئے ہر نمبر کے خون کا فراہم رکھنا ضروری ہوتا ہے ، اور مقدار کی تعیین وتحدید معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کافی مقدار میں محفوظ رکھنا ضروری ہوگا، اور اس کا ایک خزانہ بنانا لازم ہوگا، جس کو آج کل کی اصطلاح میں بینک کا نام دیا جاتا ہے ،  لأن الشيء إذا ثبت ثبت بجمیع لوازمہ۔ (منتخبات نظام الفتاوی، ۱؍۴۲۲)
حضرت مفتی صاحب کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ بلڈ بینک کا قیام جائز ہے اور جب بلڈ بینک کا قیام جائز ہوا تو بلڈ بینک کو خون کا عطیہ دینا بھی جائز ہے، اس کے لئے بلڈ کیمپ قائم کرنا اور لوگوں کو خون دینے کی ترغیب دینا بھی جائز ہے ، اس سلسلے میں مسلمانوں کو اپنا بلڈ بینک قائم کرنا بھی مفید ثابت ہوگا، تاکہ مسلمانوں کو بلا شرط وعوض کے خون فراہم کرکے کمزور اور معذور انسانوں کی خدمت کی جاسکے، اس کے لئے کسی مخصوص دن کیمپ قائم کرنا اور لوگوں کو ترغیب دینا بھی درست ہے، نیز اگر بینک کسی مریض کو خون دیتے وقت اس کے کسی رشتہ دار سے خون کا مطالبہ کرے تو یہ ہبہ بالعوض ہے، اس لئے بینک کایہ مطالبہ جائز ہے، تاکہ بینک میں خون کا اسٹاک موجود رہے اور آئندہ دوسرے مریض کی ضرورت پوری کی جاسکے، علامہ شامی لکھتے ہیں:
وہب لرجل عبدا بشرط أن یعوضہ ثوبا إن تقایضا جاز وإلا لا۔
(رد المحتار ۸؍۵۰۸، مکتبہ زکریادیوبند)
اگر کسی مریض کو خون کی شدید ضرورت ہو اور اس کا خون نادر گروپ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے دستیاب نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں جس شخص کے پاس اس گروپ کا خون ہے اگر اس کے خون دینے میں اس کو کوئی جسمانی ضررلاحق نہ ہو اور اس کو جس مقدار خون کی ضرورت ہے اس کے جسم میں اس سے زیادہ خون ہوتو ایسے شخص کے لئے ایک انسان کی جان بچانے کے لئے خون کا عطیہ دینا مستحب ہوگا، اس لئے کہ یہ مصیبت زدہ شخص کی مصیبت دور کرنا اور کسی کے ساتھ احسان اور تعاون علی البر والخیر کی قبیل سے ہے، جس کے مستحب ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، حضورﷺ کا ارشاد ہے:
جو شخص کسی مسلمان کی دنیا میں کسی مصیبت کو دور کردے گااللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی مصیبت کو دور فرمادیں گے۔(مسلم شریف، رقم الحدیث:۳۸)۔معلوم ہوا کہ فقہ اکیڈمی انڈیا کے تجاویز صحیح اور معتبر ہیں فقط

واللہ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند