متفرقات

Ref. No. 1645/43-1318

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تمباکو وغیرہ کی تجارت  کو علماء نے جائز قرار دیاہے، اس لئے  اس کی تجارت  جائز ہے اور  اس کی آمدنی اور نفع   حلال ہے، تاہم یہ کوئی  اچھا کاروبار نہیں ہے، کوئی مناسب اور غیرمشکوک کاروبار تلاش کرنا چاہئے۔

(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون. (شامی، کتاب الاشربۃ 6/454)

قلت التوفيق بينهما ممكن بما نقله شيخنا عن القهستاني آخر كتاب الأشربة ونصه أن البنج أحد نوعي القت حرام؛ لأنه يزيل العقل وعليه الفتوى بخلاف نوع آخر منه، فإنه مباح كالأفريت؛ لأنه وإن اختل العقل لكنه لا يزيل وعليه يحمل ما في الهداية وغيرها من إباحة البنج كما في شرح اللباب (البحرالرائق، انکرالزانی الاحصان 5/30)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1566/43-1127

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔عمومی احوال میں عورتوں کو گھروں میں ہی رہنے کی تاکید ہے، کیونکہ از روئے حدیث ان کا گھر سے باہر نکلنا فتنہ کا باعث  ہے۔ عورتوں کے اندر مرودوں کی رغبت، اور مردوں کے اندر عورتوں کی رغبت ودیعت کی گئی ہے، اور شیطان اس سلسلہ میں آزاد چھوڑا گیا ہے، اس لئے اگر مرد و عورت دونوں گھر سے باہر ہوں گے تو فتنہ کا اندیشہ غالب ہے۔ تاہم مردوں کے ذمہ گھر کے اخراجات اور بہت سے کام ہوتے ہیں ان کو گھر سے نکلنا ضروری ہوتاہے، اس لئے مرد حضرات باہر کام کریں اور عورتیں گھر کے کام کاج سنبھالیں تو زندگی بہت پُرسکون گزرتی ہے۔ البتہ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ بعض مرتبہ عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کی شدید ضرورت ہوتی ہے، اور کوئی محرم ڈرائور نہیں ہوتاہے۔ لہذا بوقت ضرورت شدیدہ عورت اگر حجاب کے ساتھ گاڑی چلاکر باہر جائے تو اس کی گنجائش ہوگی۔ تاہم سفر شرعی کے لئے محرم کا ہونا ضروری ہے۔

"قال تعالی: {وقرن في بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاهلیة الأولی} [الأحزاب :۳۳]فدلت الآیة علی أن الأصل في حقهن الحجاب بالبیوت والقرار بها ، ولکن یستثنی منه مواضع الضرورة فیکتفی فیها الحجاب بالبراقع والجلابیب ۔۔۔۔ ۔۔۔ فعلم أن حکم الآیة قرارهن في البیوت إلا لمواضع الضرورة الدینیة کالحج والعمرة بالنص ، أو الدنیویة کعیادة قرابتها وزیارتهم أو احتیاج إلی النفقة وأمثالهابالقیاس، نعم! لا تخرج عند الضرورة أیضًا متبرجةّ بزینة تبرج الجاهلیة الأولی، بل في ثیاب بذلة متسترة بالبرقع أو الجلباب ، غیر متعطرة ولامتزاحمة في جموع الرجال؛ فلا یجوز لهن الخروج من بیوتهن إلا عند الضرورة بقدر الضرورة مع اهتمام التستر والاحتجاب کل الاهتمام ۔ وما سوی ذلک فمحظور ممنوع"(احکام القرآن للفقیہ المفسر العلامۃ محمد شفیع رحمہ اللّٰہ 3/318-319) "لاتركب مسلمة على سرج. الحديث. هذا لو للتلهي، ولو لحاجة غزو أو حج أو مقصد ديني أو دنيوي لابد لها منه فلا بأس به". الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة (6/ 423("عن أبي أحوص عن عبد اللّٰه  عن النبي ﷺ قال : ’’ المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشیطان ‘‘ ۔ (سنن الترمذی 1/221 الرقم 1173) إن المرأة تقبل في صورة شيطان، وتدبر في صورة شيطان، فإذا أبصر أحدكم امرأة فليأت أهله، فإن ذلك يرد ما في نفسه»"(مسلم2/1021) " عن ابن عمر مرفوعاّ: ’’ لیس للنساء نصیب في الخروج إلا مضطرة ‘‘ (’’کنز العمال 16/391 الفصل الأول في الترهیبات) "وحيث أبحنا لها الخروج فبشرط عدم الزينة في الكل، وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية إلى نظر الرجال واستمالتهم" (شامی3/146)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 39/1068

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہوسکتا ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2607/45-4119

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    آپ ﷺ کا معمول رات میں سرمہ لگانے کا تھا، اس لئے رات میں سرمہ لگانا سنت ہے، تاہم دن میں ایسا سرمہ لگانا جس سے زینت مقصود ہوتی ہے مردوں کے لئے مکروہ ہے؛ سادہ سرمہ  یا فائدہ کی غرض سے لگائے جانے والے سرمہ میں  دن میں بھی کوئی کراہت نہیں ہے۔  خواتین کے لئے ہر طرح کا سرمہ  رات اور دن میں درست ہے۔ آپ ﷺ سے اثمد سرمہ لگانا ثابت ہے۔ سرمہ لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ رات کو سونے سے قبل دونوں آنکھوں میں تین تین سلائی سرمہ لگائے اور دائیں جانب سے ابتداء کرے۔

"عن عكرمة، عن ابن عباس:’’أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يكتحل بالإثمد كل ليلة قبل أن ينام، وكان يكتحل في كل عين ثلاثة أميال‘‘.(مسند أحمد (5 / 343)
"26149- حدثنا عيسى بن يونس ، عن عبد الحميد بن جعفر ، عن عمران بن أبي أنس ، قال : كان النبي صلى الله عليه وسلم يكتحل بالإثمد ، يكتحل اليمنى ثلاثة مراود واليسرى مرودين.
26150- حدثنا يزيد بن هارون ، عن عباد بن منصور ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: كان للنبي صلى الله عليه وسلم مكحلة يكتحل منها ثلاثة في كل عين". (مصنف ابن أبي شيبة – (ج 8 / ص 411)
"عن عكرمة، عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن خير ما تداويتم به اللدود والسعوط والحجامة والمشي، وخير ما اكتحلتم به الإثمد، فإنه يجلو البصر وينبت الشعر. وكان لرسول الله صلى الله عليه وسلم مكحلة يكتحل بها عند النوم ثلاثا في كل عين". (جامع الترمذي (رقم الحدیث:2048)
"(لا) يكره (دهن شارب و) لا (كحل) إذا لم يقصد الزينة". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 417)
"ولايكره كحل، ولا دهن شارب كذا في الكنز. هذا إذا لم يقصد الزينة فإن قصدها كره كذا في النهر الفائق، ولا فرق بين أن يكون مفطراً أو صائماً كذا في التبيين". (الفتاوى الهندية (1/ 199)
"لا بأس بالإثمد للرجال باتفاق المشايخ، ويكره الكحل الأسود بالاتفاق إذا قصد به الزينة، واختلفوا فيما إذا لم يقصد به الزينة، عامتهم على أنه لايكره، كذا في جواهر الأخلاطي (الفتاوى الهندية (5/ 359)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2039/44-2014

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مسجد کمیٹی اور واقف کی جانب سے اس کی اجازت ہو تو ذاتی استعمال کے لئے مسجد کا پانی دوسری جگہ لیجانے کی گنجائش ہے، البتہ بہتر ہے کہ جو لوگ پانی استعمال کریں عرفی قیمت کے مطابق اس کے پیسے مسجد کے چندہ میں دیدیں۔ تاہم مسجد کی چیز مسجد ہی میں استعمال ہونی چاہئے، نیز کسی بھی طرح کی مسجد کی بے حرمتی سے بچنا لازم ہے۔

شرب الماء من السقایۃ جائز للغنی والفقیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الھندیۃ 5/341)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2547/45-3884

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لائیو ویڈیو کال، تصاویر محرمہ کے زمرے میں نہیں آتی ہے، اس لئے ویڈیو کال کی گنجائش ہے، تاہم ویڈیو کال کرتے وقت بہت احتیاط کرنی چاہئے کہ تصویر میں گھر کے وہ افراد نہ آجائیں جن کی اجازت نہیں، یا جن کو دیکھنا شرعا جائز نہیں ہے وغیرہ۔ تاہم بعض حضرات ویڈیوکال کو بھی تصاویر محرمہ کے زمرے میں شامل کرتے ہیں، اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ اس سے بھی پرہیز کیاجائے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2756/45-4290

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فرائض کی ادائیگی سب سے پہلے لازم ہے پھر اس کے بعد آدمی نوافل پڑھے یا نہ پڑھے یہ اس کا اپنا اختیار ہے، تاہم اگر کوئی فرائض ادا نہیں کرتا اور کسی موقع پر نفل پڑھتاہے تو اس کی وہ عبادت امید ہے کہ قبول کی جائے گی گرچہ فرائض کے ترک کی بناء پر وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا اور اس کا گناہ اور وبال اس پر ہوگا، لیکن فرض چھوڑنے والے سے فرض کی ادائیگی کی ترغیب دی جائے گی نوافل پڑھنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2471/45-3742

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   حضرت عثمان ؓ کے والد  عفان نے اسلام قبول کیا تھا یا نہیں، اس سلسلہ میں مستند  کتب متداولہ میں کہیں کوئی  صراحت نہیں ملتی ہے،  اس لئے اس سلسلہ میں کچھ بھی کہنا درست نہیں ہوگا، تاہم عفان نام بذات خود اچھا معنی رکھتا ہے، اس لئے عفان نام رکھنا درست ہے، اس میں کسی طرح کا شبہہ نہ کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2132/44-2202

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اصلاح باطن اور اہتمام کے ساتھ سنت و شریعت کی پابندی کی ضرورت ہے۔ خواب میں اس جانب بھی اشارہ ملتاہے کہ جانے انجانے میں کچھ ایسے اعمال سرزد ہورہے ہیں  جواہل سنت والجماعت کے عقائد کے منافی ہیں ۔ اس لئے کسی متبع سنت شیخ سے تعلق قائم کرکے اپنے احوال بیان کریں اور ان سے عقائد و اعمال کی اصلاح کے لئے مسلسل رابطہ میں رہیں، ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1653/43-1319

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دوسرے کی زمین پر ظالمانہ قبضہ کرنا حرام ہے، ایسا شخص فاسق ہے، اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے۔ اگر وہ شخص زمین واپس نہیں کرتا یا زمین کے مالک کو پیسے دیکر صلح نہیں کرتا تو اس کو ہٹاکر کسی اور مناسب شخص کو امام بنالینا چاہئے۔

"و" لذا كره إمامة "الفاسق" العالم لعدم اهتمامه بالدين فتجب إهانته شرعا فلا يعظم بتقديمه للإمامة وإذا تعذر منعه ينتقل عنه إلى غير مسجده للجمعة وغيرها وإن لم يقم الجمعة إلا هو تصلى معه "والمبتدع" بارتكابه ما أحدث على خلاف الحق المتلقى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبهة أو استحسان وروى محمد عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى وأبي يوسف أن الصلاة خلف أهل الأهواء لا تجوز والصحيح أنها تصح مع الكراهة خلف من لا تكفره بدعته لقوله صلى الله عليه وسلم: "صلوا خلف كل بر وفاجر وصلوا على كل بر وفاجر وجاهدوا مع كل بر وفاجر" رواه الدارقطني كما في البرهان وقال في مجمع الروايات وإذا صلى خلف فاسق أو مبتدع يكون محرزا ثواب الجماعة لكن لا ينال ثواب من يصلي خلف إمام تقي (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، فصل فی بیان الاحق بالامامۃ 1/302)

قوله: وفاسق) من الفسق: وهو الخروج عن الاستقامة، ولعل المراد به من يرتكب الكبائر كشارب الخمر، والزاني وآكل الربا ونحو ذلك. وأما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لايهتم لأمر دينه، وبأن في تقديمه للإمامة تعظيمه، وقد وجب عليهم إهانته شرعًا  (شامی کتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:560، ط:سعید) "وفي النهر عن المحيط: صلّى خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعة، وكذا تكره خلف أمرد وسفيه ومفلوج، وأبرص شاع برصه، وشارب الخمر وآكل الربا ونمام، ومراء ومتصنع.  - - - قوله: نال فضل الجماعة) أفاد أنّ الصلاة خلفهما أولى من الانفراد، لكن لاينال كما ينال خلف تقي ورع لحديث: «من صلّى خلف عالم تقي فكأنما صلى خلف نبي»، قال في الحلية: ولم يجده المخرجون نعم أخرج الحاكم في مستدركه مرفوعًا: «إن سركم أن يقبل الله صلاتكم فليؤمكم خياركم، فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم»." (شامی کتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:562، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند