متفرقات

Ref. No. 2600/45-4099

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    کسی کے انتظار کرنے کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہوتاہے کہ آدمی تمام فرائض و طبعی تقاضوں کو چھوڑ کر آنے والے کی راہ تکتا رہے، اس لئے  فکری طور پر کسی کا انتظارکرنے کے ساتھ عبادت میں مشغول ہونا یا اپنی طبعی ضرورت کو پورا کرنا وغیرہ سارے امور ممکن ہیں۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 819

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  کسی بھی جاندار کی تصویر  لگا نے سے احتراز کیا جائے، اور شناخت کے لیے کوئی دوسرا طریقہ  بھی اختیار کیا جاسکتاہے۔  واللہ اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1354/42-767

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کتاب لکھ کر اس کو کسی کتب خانہ والے کے ہاتھ  بیچ دینا اور حق طباعت کا بھی پیسہ لےلینا درست ہے۔نیز  اگرصرف حق طباعت کو فروخت کیا جائے تو   بھی  درست ہے۔ حق طباعت آج کل عرف کی بنا پر  ایک  ایسا قانونی حق  بن چکا ہے جس کا رجسٹریشن ہوتاہے اور اب یہ اعیان و اموال کے درجہ میں ہے، اور ایک مال متقوم ہے۔ بیع  کے اندر مبیع کا مال متقوم ہونا ضروری ہے۔   البتہ اگر سافٹ کاپی فروخت کریں اور اس کے ساتھ حق طباعت بھی دیدیں اور دونوں کا پیسہ ایک ہی عقد میں طے کرلیں تو یہ صورت زیادہ بہتر ہے۔ دراصل یہ مسئلہ علماء کے درمیان مختلف فیہ ہے مگر دارالعلوم دیوبند نے حق طباعت کو مال متقوم  مان کر اس کی خریدوفروخت کی اجازت دی ہے۔ اور اسی کو راجح قراردیاہے۔

والحاصل أن القياس في جنس هذه المسائل أن يفعل صاحب الملك ما بدا له مطلقا لأنه يتصرف في خالص ملكه وإن كان يلحق الضرر بغيره، لكن يترك القياس في موضع يتعدى ضرره إلى غيره ضررا فاحشا كما تقدم وهو المراد بالبين فيما ذكر الصدر الشهيد وهو ما يكون سببا للهدم وما يوهن البناء سبب له أو يخرج عن الانتفاع بالكلية وهو ما يمنع من الحوائج الأصلية كسد الضوء بالكلية على ما ذكر في الفرق المتقدم واختاروا الفتوى عليه. (فتح القدیر، مسائل شتی من کتاب القضاء 7/326)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2378/44-3590

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جو چیز جس نیک کام کے لئے وقف ہو اس کو اسی مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہئے، قبرستان  کے لئے چندہ کی گئی رقم کو عیدگاہ کی تعمیر میں لگانا بظاہر واقف کے منشاء کے خلاف ہے، جبکہ شریعت میں واقف کے منشاء کی رعایت بہرحال ضروری ہوتی ہے۔ اور اگر قبرستان کی رقم کسی درخت  وغیرہ کے فروخت کرنے سے حاصل ہوئی ہے  اور وہ قبرستان کی ضرورت سے زائد ہو، بظاہر مستقبل قریب میں قبرستان کو اس کی ضرورت نہ ہو، تو انتظامیہ کے مشورہ سے اس کو عیدگاہ کی تعمیر میں لگایا جاسکتاہے۔

وفي فتاوى الشيخ قاسم: وما كان من شرط معتبر في الوقف فليس للواقف تغييره ولا تخصيصه بعد تقرره ولا سيما بعد الحكم. (ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الوقف، مطلب في أحكام الوقف على فقراء قرابته، ج:4، ص:453)

وإذا لزم الوقف وتم لا يملك أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارجعن ملكه. (دررالحكام شرح غرر الأحكام، كتاب الوقف، ج:2، ص:135)

شرط الواقف كنص الشارع فيجب اتباعه كما صرح به في شرح المجمع للمصنف. (ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الوقف، مطلب القاضي اذا قضى في مجتهد فيه، ج:4، ص:495)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 40/935

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی صورت میں شادی کے بعد بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، البتہ اس طرح کے الفاظ  زبان سے نکالنا آئندہ کسی ضرر کا باعث بن سکتا ہے، اس لئے  زبان سے کچھ بھی بولنے میں بہت احتیاط کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 40/1124

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  واللہ الموفق:(۱) بعض لوگ اپنے مخصوص اعمال کے ذریعہ جن کو اپنے قابو میں کرلیتے ہیں پھر وہ علاج وغیرہ میں ان سے مدد لیتے ہیں ایسے جنات کو وہ اپنا مؤکل کہتے ہیں (۲) جن کا موجود ہونا اور اس کا جسم انسانی میں حلول کرنا اور اس کے ذریعہ سے اپنا اثر ڈالنے کا ثبوت قرآن کریم سے ہے (۳)جو عامل حضرات آیات کریمہ، اذکار،یا دیگر مباح چیزوں کے ذریعہ علاج کرتے ہیں ان سے علاج کرانا درست ہے اور تعویذ کے ذریعہ علاج کرانے کا ثبوت بھی احادیث سے ہے (۴)عامل حضرات جو مؤکل سے علاج کراتے ہیں وہ اگر امور مباحہ سے متعلق ہو تو درست ہے لیکن جنات سے غیب کی خبر معلوم کرنادرست نہیں ہے (۵) اگر عامل حضرات غیر اللہ سے مدد لے کر علاج کرتے ہیں یا غیر اللہ کو کسی چیز میں مؤثر سمجھتے ہیں تو یہ شرک ہے لیکن اگر قرآن و حدیث کے علاوہ غیر معلوم الفاظ سے علاج کرتے ہیں تو یہ ناجائز ہے لیکن اس کو شرک نہیں کہا جائے گا۔لاباس بالمعاذات اذا کتب فیہا القرآن و اسماء اللہ تعالی (شامی ۶/۳۶۳)عن عوف بن مالک الاشجعی قال کنا نرقی فی الجاہلیۃ قلنا یا رسول اللہ کیف تری ذلک فقال لا بأس فی الرقی ما لم تکن شرکا (سنن ابی داؤد ۲/۲۴۵)

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2800/45-4389

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں زید نے مطلق بات نہ کرنے کی قسم کھائی ہے، اس لئے  اسی کال پر رہتے ہوئے بات کرے گا تب بھی حانث ہوجائے گا، البتہ بذریعہ میسیج جواب دینے پر حانث نہیں ہوگا۔

﴿لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾ (المائدة: 89)

الكلام) والتحديث (لا يكون إلا باللسان) فلا يحنث بإشارة وكتابة كما في النتف.... وفي الرد: (قوله فلا يحنث بإشارة وكتابة) وكذا بإرسال رسول." (الدر المختار مع رد المحتار،كتاب الايمان، ‌‌باب اليمين في الأكل والشرب واللبس والكلام، 792/3، سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 1134/42-355

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آج کل خون کی بہت کثرت سے ضرورت پڑتی ہے اور بسا اوقات جس گروپ کا خون چاہئے افرادِ خاندان میں کوئی ایسا نہیں ہوتاہے جس کا گروپ موافق ہو، اور بسا اوقات کسی حادثے کی وجہ سے بہت زیادہ لوگوں کو خون کی ضرورت پڑ جاتی ہے، جس کا فوری طور پر دستیاب ہونا مشکل ہوتا ہے، اس ضرورت کے پیشِ نظر بلڈ بینک کا قائم کرنا بھی جائز ہے، حضرت مفتی نظام الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں:
جب خون کے استعمال کی گو بدرجہ مجبوری گجائش ہوگئی تو چوں کہ ایسی مجبوریاں اچانک بھی پیدا ہوجاتی ہیں، اور خون کی بہت زیادہ مقدار کی متقاضی ہوجاتی ہیں، جیسے ریل کے ایکسڈینٹ کے موقع پر   - --   پھر اس میں بھی خون کا نمبر بالکل یکساں ہونا ضروری ہوتا ہے، ورنہ بجائے نفع کے نقصان کا اندیشہ ہوجاتا ہے، اس لئے اچانک پیش آمدہ ضروریات کے لئے ہر نمبر کے خون کا فراہم رکھنا ضروری ہوتا ہے ، اور مقدار کی تعیین وتحدید معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کافی مقدار میں محفوظ رکھنا ضروری ہوگا، اور اس کا ایک خزانہ بنانا لازم ہوگا، جس کو آج کل کی اصطلاح میں بینک کا نام دیا جاتا ہے ،  لأن الشيء إذا ثبت ثبت بجمیع لوازمہ۔ (منتخبات نظام الفتاوی، ۱؍۴۲۲)
حضرت مفتی صاحب کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ بلڈ بینک کا قیام جائز ہے اور جب بلڈ بینک کا قیام جائز ہوا تو بلڈ بینک کو خون کا عطیہ دینا بھی جائز ہے، اس کے لئے بلڈ کیمپ قائم کرنا اور لوگوں کو خون دینے کی ترغیب دینا بھی جائز ہے ، اس سلسلے میں مسلمانوں کو اپنا بلڈ بینک قائم کرنا بھی مفید ثابت ہوگا، تاکہ مسلمانوں کو بلا شرط وعوض کے خون فراہم کرکے کمزور اور معذور انسانوں کی خدمت کی جاسکے، اس کے لئے کسی مخصوص دن کیمپ قائم کرنا اور لوگوں کو ترغیب دینا بھی درست ہے، نیز اگر بینک کسی مریض کو خون دیتے وقت اس کے کسی رشتہ دار سے خون کا مطالبہ کرے تو یہ ہبہ بالعوض ہے، اس لئے بینک کایہ مطالبہ جائز ہے، تاکہ بینک میں خون کا اسٹاک موجود رہے اور آئندہ دوسرے مریض کی ضرورت پوری کی جاسکے، علامہ شامی لکھتے ہیں:
وہب لرجل عبدا بشرط أن یعوضہ ثوبا إن تقایضا جاز وإلا لا۔
(رد المحتار ۸؍۵۰۸، مکتبہ زکریادیوبند)
اگر کسی مریض کو خون کی شدید ضرورت ہو اور اس کا خون نادر گروپ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے دستیاب نہ ہورہا ہو تو ایسی صورت میں جس شخص کے پاس اس گروپ کا خون ہے اگر اس کے خون دینے میں اس کو کوئی جسمانی ضررلاحق نہ ہو اور اس کو جس مقدار خون کی ضرورت ہے اس کے جسم میں اس سے زیادہ خون ہوتو ایسے شخص کے لئے ایک انسان کی جان بچانے کے لئے خون کا عطیہ دینا مستحب ہوگا، اس لئے کہ یہ مصیبت زدہ شخص کی مصیبت دور کرنا اور کسی کے ساتھ احسان اور تعاون علی البر والخیر کی قبیل سے ہے، جس کے مستحب ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے، حضورﷺ کا ارشاد ہے:
جو شخص کسی مسلمان کی دنیا میں کسی مصیبت کو دور کردے گااللہ تعالیٰ قیامت میں اس کی مصیبت کو دور فرمادیں گے۔(مسلم شریف، رقم الحدیث:۳۸)۔معلوم ہوا کہ فقہ اکیڈمی انڈیا کے تجاویز صحیح اور معتبر ہیں فقط

واللہ اعلم بالصواب۔
دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند