Frequently Asked Questions
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 3372/46-9243
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ قرآن کریم میں اس ذبیحہ کے کھانے سے منع کیاگیا ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، علما احناف نے اس کو عمدا ترک تسمیہ پر محمول کیا ہے، اگر عمدا ترک تسمیہ پر بھی جانور حلال گردانا گیا تو قرآن کا حکم (ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ ) مرتفع ہوجائے گا، اس لئے سہوا اگر تسمیہ چھوٹ جائے تو حرج نہیں ہے ذبیحہ حلال ہوگا مگر عمدا ترک تسمیہ کی صورت میں ذبیحہ حرام و مردار ہوگا، اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ ترک تسمیہ کے سلسلہ میں ذابح صحیح مسئلہ سے واقف تھا یا نہیں۔ لیکن اگر ذابح نے تسمیہ کے علاوہ ذبح کے وقت کوئی اور ذکر کیا تھا مثلا اللہ اکبر ، سبحان اللہ ، الحمدللہ وغیرہ تو وہ بھی ذاکر کے حکم میں ہوگا اور اس کے ذبیحہ کا کھانا حلال ہوگا۔
لا تحل ذبیحة ……تارک تسمیة عمداً……فإن ترکھا ناسیاً حل ………والشرط فی التسمیة ھو الذکر الخالص عن شوب الدعاء وغیرہ……والمستحب أن یقول: بسم اللہ أللہ أکبر الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الذبائح، ۹: ۴۳۱-۴۳۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ویجري ذلک المذکور في کل ما یتعلق بنطق کتسمیة علی ذبیحة الخ (المصدر السابق، ۲: ۲۵۳)، قولہ: ”ویجري ذلک المذکور“:یعنی: کون أدنی ما یتحقق بہ الکلام إسماع نفسہ أو من بقربہ (رد المحتار)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Divorce & Separation
Ref. No. 3371/46-9244
In the name of Allah, the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Your issue (seeking khula) does not fall under the jurisdiction of the Darul Ifta. You maybe Islamically entitled to seek khula, but if the husband is not willing to grant it, then you should approach the Darul Qaza (Islamic judicial panel). The Darul Qaza has proper procedures and solutions for such matters.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 3370/46-9264
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال واضح رہے کہ کسی بھی مسلمان پر بغیر کسی واضح شرعی دلیل کے کافرہونے کا حکم لگانا اور اس سلسلے میں جلدبازی دکھانا سخت گناہ ہے خود کفر کا حکم لگانے والے کے لئے بھی خطرناک ہے اس سے خود کے بھی ایمان جانے کا خطرہ بن جانا ہے، لہذا اس سے مکمل پر ہیز کرنا چاہئے ۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر وؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا کہ جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے کسی ایک پر کفر لوٹ گیا، یعنی یا تو کہنے والے پر یا اس شخص پر جس کو اس نے کافر کہا ۔( مسلم شریف حدیث نمبر ۲۱۵) لہذا اس معاملے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے ایسے افراد کو جنہوں نے کفریہ اور شرکیہ اعمال کئے ہوں اولا تو حکمت و تدبیرسے سمجھانا چاہئے ، اگر وہ تائب ہو جائیں تو پھر تجدید ایمان اور تجدید نکاح عمل میں لایا جائے ۔ اور اگر سمجھانے سے بھی باز نہ آئیں تو پھر ان سے قطع تعلق کرلینا چاہئے۔ صورت مسئولہ میں جو قطع تعلق یعنی بائکاٹ کا جو عمل بغیر ان کا موقف جانے اور بغیرسمجھائے شروع کردیا گیا اور اب تک اس پر عمل جاری ہے یہ سخت گناہ ہے۔ اس سے تمام لوگوں کو توبہ واستغفار کرنا چاہئے۔ خاص طور پر ان حضرات کو جو اس میں اب بھی شریک ہیں اور دوسروں کو بھی تلقین کررہے ہیں۔
رہا اس لڑکے کا مسئلہ جو یہ وضاحت کررہاہے کہ وہ اس عمل میں شریک نہیں تھا اس کی اس وضاحت کو قبول کرلینا چاہئے ، لہذا اس کو تجدید ایمان و تجدید نکاح کی کوئی ضرورت نہیں ہے، احیتاطا اگر وہ دونوں عمل کرلے تو کوئی حرج نہیں ہے مگر توبہ واستغفار ضرور کرے۔
لیکن ان تین لڑکوں کا عمل جیسا کہ نقل کیاگیا ہے واقعی کفریہ ہے لہذا ان کے لئے تجدید ایمان وتجدید نکاح ضروری تھا جو ہوگیا ہے تو اب کسی طرح کی کوئی سختی نہیں کرنی چاہئے۔
والدین کو زبردست مورد الزام ٹھہرانا ، بغیر کسی شرعی دلیل کے سخت گناہ ہے اور حرام ہے جیسا کہ اوپر کی تحریر سے واضح ہوگیا ہے۔
وقال الامام النووی: التوبۃ ما استجمعت ثلاثۃ أمور:أن یقلع عن المعصیۃ، وأن یندم علی فعلہا، وأن یعزم عزما جازماً علی أن لا یعود إلی مثلہا أبداً ۔۔۔۔۔( آلوسی،روح المعاني:14/353)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 3369/46-9245
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: سرکار نے اپنےقانون کے اعتبار سے نوکری کے لئے جس کو منتخب کیا ہے، وہی اس نوکری کا مستحق ہے۔ یہ سرکار کی طرف سے ایک انعام ہے، لہذا سرکار جس کو انعام دے گی وہی اس کا مستحق ہوگا، اور اس میں دوسروں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، اس کو باپ کی وراثت کے طور پر نہیں لیا جائے گا۔ اس لئے باپ کے انتقال کے بعد ملنے والی سرکاری نوکری میں دیگر بھائی اور بہنوں کا شرعاً کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ تاہم اگر بھائی بہنوں میں سے کوئی کمزور ہو تو اس کی مدد کرنا اخلاقی ذمہ داری ہے اور شریعت میں باعث اجروثواب ہے۔ وآت ذا القربیٰ حقہ والمسکین وابن السبیل الآیۃ (سورۃ الاسراء ۲۶)
تاہم خیال رہے کہ والدین کی وراثت میں اس نوکری کی وجہ سے کوئی کمی نہیں ہوگی، بلکہ بڑے بھائی کو بھی وراثت میں پورا حصہ ملے گا۔ مذکور ملازمت ملنے کی وجہ سے سائل اپنے شرعی حصہ سے محروم نہ ہوگا۔
لان ارث انما یجری فی المتروک من ملک او حق للمورث علی ما قال علیہ السلام : من ترک مالا او حقاً فھو لورثتہ۔ (البدائع الصنائع 5/57)۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3367/46-9235
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: دونوں طرف کے افراد اپنے موقف پر سخت رہیں گے تو بات نہیں بنے گی۔ آپ نے مشورہ طلب کیا ہے تو آپ کو ہی ہم مشورہ میں کچھ کہہ سکتے ہیں، اس لئے مشورہ یہ ہے کہ آپ کے گھروالوں میں سے چند افراد جو سفر کی استطاعت رکھتے ہوں، وہ چلے جائیں اور نکاح کی مجلس میں شرکت کرلیں، گھر کے تمام افراد کا جانا ضروری نہیں ہے۔ اور لڑکی کا مجلس نکاح میں حاضر ہونا بھی ضروری نہیں ہے، لڑکی اپنے نکاح کا کسی کو وکیل بناکر مجلس نکاح میں بھیج دے۔ اسی طرح لڑکے والوں کا ندوہ میں نکاح پڑھوانے پر اصرار غیرضروری ہے، دونوں گھرانوں کے معزز افراد کو ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ کسی کو زحمت نہ ہو۔
حدثنا شعبة، عن عبد الله بن أبي السفر، وإسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه»." (صحیح البخاري، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، ج: 1، صفحہ: 11، رقم الحدیث: دار طوق النجاة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 3366/46-9237
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: طواف میں اضطباع یعنی چادر بائیں بغل میں ڈال کر داہنے کندھے کو کھلارکھنا ساتوں چکروں میں مسنون ہے لہٰذا ساتوں چکروں میں اضطباع کرنا چاہیے۔ اگر بھول جائے توبھی طواف درست ہوجائے گا۔
وأما سنن الطواف فالاضطباع في جمیع أشواطہ وینبغي أن یفعلہ قبل الشروع في الطواف بقلیل․ (غنیة الناسک: ۱۱۸)
"واعلم أن الاضطباع سنۃ فی جمیع أشواط الطواف کما صرح بہ ابن الضیاء ، فإذا فرغ من الطواف ترکہ حتی إذا صلی رکعتی الطواف مضطجعاً تکرہ لکشفہ منکبہ، ویأتی الکلام علی أنہ لا اضطباع فی السعي، قولہ : (استناناً) أی فی کل طواف بعدہ سعی کطواف القدوم والعمرۃ، وکطواف الزیارۃ إن کان أخر السعی ولم یکن لابساً."(شامی ج:3، ص:448)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 3365/46-9236
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: (۱) زندوں کی طرف سے طواف کرنے کا مطلب ہے طواف کرکے یا عمرہ کرکے زندہ کو اس کا ثواب پہنچانا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لئے کہ دوسرے کی طرف سے طواف اور عمرہ کیاجاسکتاہے۔ (۲)حجر اسو د کا استلام سنت ہے،واجب نہیں ،اگر طواف میں استلام بھول گیا توبھی طواف ادا ہوجائےگا؛بعد میں اس کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ۔
الأصل أن کل من أتی بعبادة مّا لہ جعل ثوابہا لغیرہ وإن نواہا عند الفعل لنفسہ لظاہر الأدلة اھ در مختار وفي شرحہ الفتاوی رد المحتار (قولہ بعبادة ما) أي سواء کانت صلاة أو صوما أو صدقة أو قراء ة أو ذکرا أو طوافا أو حجّا أو عمرة أو غیر ذلک ا ھ․․․ (قولہ لغیرہ) أي من الأحیاء والأموات ( بحر عن البدائع اھ ج۲/۲۳۶، مطبوعہ نعمانیہ (أول باب الحج عن الغیر فی کتاب الحج)
"ثم يبدأ بالحجر.......ويستلمه، وصفة الاستلام أن يضع كفيه على الحجر ويقبله يفعل ذلك إن أمكنه من غير أن يؤذي أحدا........وإلا مس الحجر بيده وقبل يده، وإن لم يستطع ذلك أمس الحجر شيئا في يده من عرجون وغيره ثم قبل ذلك الشيء كذا في الكافي فإن لم يستطع شيئا من ذلك يستقبله ويرفع يديه مستقبلا بباطنهما إياه ويكبر ويهلل ويحمد ويصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - كذا في فتح القدير وهذا الاستقبال مستحب وليس بواجب كذا في السراج الوهاج.
وترك الاستلام فيما بين ذلك أجزأه، وإذا ترك رأسا فقد أساء كذا في شرح الطحاوي." (فتاوی ہندیہ، کتاب المناسک،ج1،ص225،ط؛دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
Ref. No. 3364/46-9238
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The use of bots or fake traffic generators to simulate high website traffic creates a misleading impression for users and clients, falsely suggesting that the site is receiving substantial organic engagement. In reality, such tactics constitute deception and fraud.
Similarly, redirecting expired high Domain Authority (DA) domains solely to enhance one’s own DA—without adding genuine value—also falls within the scope of deceit. Exploiting vulnerabilities within digital systems for personal gain is likewise ethically impermissible.
Moreover, employing tools with the primary intent of artificially inflating DA or DR metrics to impress or mislead others represents yet another form of deception.
If one’s intent and actions are rooted in misrepresentation, deception, or the creation of a false image, such conduct is not permissible. In Islam, all forms of dishonesty—including fraud, deceit, and misguidance—are unequivocally forbidden, whether in traditional commerce, modern marketing, or digital environments.
The Prophet Muhammad ﷺ said: “Whoever deceives is not one of us.” (Sahih Muslim, Hadith 101)
This Hadith emphasizes the seriousness of deception in Islam, highlighting its incompatibility with ethical behavior in all spheres of life, including the digital domain.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3363/46-9239
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: رشوت کا لین دین شریعت اسلام میں حرام ہے۔ تاہم اگر احمد اس نوکری کا اہل ہے اور نوکری کا حق ادا کررہا ہے تو اس کی نوکری درست ہے۔ اور اس کی کمائی میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ البتہ رشوت دینے کا جوگناہ ہوا اس کے لئے توبہ و استغفارکرے اور اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔
"عن عبد الله بن عمرو قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي". (مشكاة المصابيح (2/ 1108)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 3362/46-9240
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: سب سے پہلے آپ یہ سمجھ لیجیے کہ ہر سوال کے جواب کا قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ اور قرآن و حدیث سے نئے مسائل کا حکم معلوم کرنے کے لئے جن باریکیوں سے گزرنا ہوتاہے اس کاعام لوگوں کی سمجھ میں آنا ضروری نہیں ۔ اس لئے مجتہدین اور کبار علماء نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ قرآن و حدیث سےمسلمہ اصول وضوابط کے تحت جدید مسائل اخذ کرکے کتابیں مرتب کی ہیں اور مسائل بیان کرتے وقت اس کی علت کی جانب بھی رہنمائی کی ہے، اس لئے ہمیں ان کتابوں کا حوالہ بھی کافی ہونا چاہئے۔
چھوٹے جانور میں یا بڑے جانور کے ایک حصے میں شرعاً ایک ہی نیت کی جاسکتی ہے، خواہ قربانی کی نیت ہو یا عقیقہ کی، ایک حصے میں دو نیتیں درست نہیں ۔
البتہ قربانی کے بڑے جانور (اونٹ ، بھینس وغیرہ) کے سات حصوں میں قربانی کے حصہ کے علاوہ عقیقہ کی نیت سے مستقل حصہ شامل کیا جاسکتا ہے، جو حصہ عقیقہ کی نیت کا ہوگا وہ عقیقہ شمار ہوگا، باقی حصے قربانی کے شمار ہوں گے۔ قربانی کے ساتھ عقیقہ کرتے ہوئے قربانی کی بھینس وغیرہ میں لڑکے کے لیے دو حصے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ رکھ لے۔ چونکہ قربانی اور عقیقہ دونوں کا مقصد تقرب الی اللہ ، اللہ کی رضا وخوشنودی حاصل کرنا ہے، اس لئے دونوں کو ایک جانور میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک ہی جانور میں سات لوگوں کی طرف سے قربانی کی نیت درست ہے اور یہ حدیث سے ثابت ہے۔
’’حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا مالك، ح وحدثنا يحيى بن يحيى، - واللفظ له - قال: قرأت على مالك، عن أبي الزبير، عن جابر بن عبد الله، قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الحديبية البدنة عن سبعة، والبقرة عن سبعة»‘‘۔۔۔’’ وحدثني محمد بن حاتم، حدثنا وكيع، حدثنا عزرة بن ثابت، عن أبي الزبير، عن جابر بن عبد الله، قال: «حججنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فنحرنا البعير عن سبعة، والبقرة عن سبعة»‘‘(مسلم (2/ 955)
" والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى، والتقدير بالسبع يمنع الزيادة، ولا يمنع النقصان، (الهندية (5/ 304)
"فَلَا يَجُوزُ الشَّاةُ وَالْمَعْزُ إلَّا عَنْ وَاحِدٍ وَإِنْ كَانَتْ عَظِيمَةً سَمِينَةً تُسَاوِي شَاتَيْنِ مِمَّا يَجُوزُ أَنْ يُضَحَّى بِهِمَا ؛ لِأَنَّ الْقِيَاسَ فِي الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ أَنْ لَا يَجُوزَ فِيهِمَا الِاشْتِرَاكُ ؛ لِأَنَّ الْقُرْبَةَ فِي هَذَا الْبَابِ إرَاقَةُ الدَّمِ وَأَنَّهَا لَا تَحْتَمِلُ التَّجْزِئَةَ ؛ لِأَنَّهَا ذَبْحٌ وَاحِدٌ وَإِنَّمَا عَرَفْنَا جَوَازَ ذَلِكَ بِالْخَبَرِ فَبَقِيَ الْأَمْرُ فِي الْغَنَمِ عَلَى أَصْلِ الْقِيَاسِ". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (10/ 278)
"وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل؛ لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد ذكره محمد". (فتاوی شامی 6/ 326، کتاب الاضحیة، ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند