Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3282/46-9007
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی شخص گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے زمین پر بیٹھ کر سجدہ نہیں کر سکتا ہے تو ایسی صورت میں قیام کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے اس لئے کہ قیام ورکوع سجدہ کے لئے وسیلہ ہیں ایسے شخص کو اختیار ہے چاہے مکمل نماز بیٹھ کر اشارہ سے پڑھے یا قیام ورکوع اور سجدہ اشارہ سے کرے، دونوں صورتیں جائز ہیں، البتہ فقہاء نے ایسی صورت میں پوری نماز بیٹھ کر پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے اور کرسی کے مقابلہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا افضل ہے۔
وفی الذخيرة: رجل بلحقه خراج ان سجد سال وهو قادر علي الركوع والقيام والقرأة يصلي قاعدا يولي" ولو صلي قائما بركوع وقعد وأما بالسجود أجزأه والأول أفضل" لأن القيام والركوع لم يشرعا قربة بنفسها بل ليكونا وسيلتين الي السجود. (رد المحتار، ’’كتاب الصلاة: باب صلاة المريض‘‘: ج 2، ص: 97، سعيد)
(وان تعذر) ليس تعذرهما شرطا بلا تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ قاعدا) وهو أفضل من الايماء قائما لقربة من الأرض. (الدر المختار مع رد المحتار: ج 2، 97، سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3287/46-9013
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بے شمار لوگ فوت ہوئے مگرآپ کا معمول غائبانہ نماز جنازہ کا نہیں تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دور دراز علاقوں میں مقیم صحابہ سے بھی غائبانہ نماز جنازہ ثابت نہیں ہے۔ اس لئے ویڈیو کال پر نماز جنازہ پڑھنا یا جنازہ کی نماز کی اقتداء کرنا درست نہیں ہے، اس طرح کے رواج کو جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ (2) مسجد میں کچھ صفیں خالی ہیں ان کو چھوڑ کر مسجد کی دیوار سے متصل مسجد کے باہر صف بنانا مکروہ ہے البتہ نماز درست ہوجائے گی۔ لیکن اگرمسجد اور باہر کی صفوں کے درمیان گزرگاہ ہے تو پھر اس طرح قتداء درست نہ ہوگی بلکہ پہلے مسجد کی صفوں کو پُرکرنا ضروری ہوگا۔
(1) فلاتصح علی غائب وصلاة النبي صلی الله علیه وسلم علی النجاشي لغویة أوخصوصیة(شامی، باب صلاۃ الجنازۃ، 2/209،ط:سعید)
عن عمران بن حصین أنّ النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: إن أخاکم النجاشي توفي فقوموا فصلّوا علیہ، فقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وصفّوا خلفہ فکبروا اربعًا وہم لا یظنّون إلا إن جنازتہ بین یدیہ رواہ ابن حبان کما في نصب الرایة وفي روایة: فصلینا خلفہ ونحن لا نری إلا أن الجنازة قُدّامنا (فتح الباري، نقلاً عن إعلاء السنن)
أخرج الحاکم وصحّحہ عن النبي - علیہ السلام- أنہ قال: کان آدم رجلاً أشعر طوالا کأنہ نخلة سحوق فلمّا حضرہ الموت، نزلت الملائکة بحنوطہ․․․ فلما مات علیہ الصلاة والسلام․․․ صلّوا علیہ (الطحطاوي علی المراقي: ۱/۵۸۰)
(2) في الدر المختار: (ويمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعهن قدر قامة الرجل مفتاح السعادة أو (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر إلا إذا اتصلت الصفوف فيصح مطلقا، كأن قام في الطريق ثلاثة، وكذا اثنان عند الثاني لا واحد اتفاقا لأنه لكراهة صلاته صار وجوده. كعدمه في حق من خلفه.اھ وفي رد المحتار: (قوله إلا إذا اتصلت الصفوف) الاستثناء عائد إلى الطريق والنهر دون الخلاء لأن الصفوف إذا اتصلت في الصحراء لم يوجد الخلاءتأمل، وكذا لو اصطفوا على طول الطريق صح إذا لم يكن بين الإمام والقوم مقدار ما تمر فيه العجلة، وكذا بين كل صف وصف كما في الخانية وغيرها.اھ (1/ 584)۔ وفی الطحطاوی: وأن لایفصل بین الإمام والماموم نہر یمر فیه الزوروق (إلی قوله) ولا طریق تمر فیة العجلة ولیس فیه صفوف متصلة ولامنع فی الصلاة فاصل یسع فیه صفین علی المفتی بهاھ (۱/ ۱۵۹)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3290/46-9018
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(1) سورہ فاتحہ کی ایک آیت یا آیت کے ایک جزء کے تکرار سے نماز صحیح ہوجاتی ہے، ہاں اکثر فاتحہ کے تکرار سے سجدہ سہو واجب ہوجاتاہے، البتہ فرض کی آخری دو رکعت میں واجب نہیں ہوتاہے، (2) فرض نماز میں سورہ فاتحہ کے علاوہ دوسری سورتوں میں آیتوں کا تکرار بلاضرورت و عذر مکروہ ہے، البتہ عذر ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ (3) سورہ فاتحہ اور دیگر سورتوں کا تکرار سنن و نوافل میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
فلو قرآھا فی رکعۃ من الاولین مرتین وجب سجود السھو لتاخیر الواجب (ردالمحتار 2/152)
وفی الھندیۃ واذا کرر آیۃ واحدۃ مرارا فان کان التطوع الذی یصلی وحدہ فذالک غیرمکروہ وان کان فی الصلوۃ المفروضۃ فھو مکروہ فی حالۃ الاختیار واما فی حالۃ العذر والنسیان فلاباس (الھندیۃ 1/107)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3286/46-9033
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ باغ کو کئی سالوں کے لئے ٹھیکہ پر دینا شرعا درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ بلازمین پھلوں کی بیع ہے تو یہ معدوم کی بیع ہے کیونکہ ابھی پھل درختوں پر آئے نہیں ہیں، اور اس کو بیع سلم بھی قرار نہیں دیاجاسکتاہے، اس لئے کہ متعین باغ یا متعین درختوں میں سلم کا معاملہ درست نہیں ہے، نیز اس کے عدم جواز پر صریح احادیث موجود ہیں، اسی کو بیع معاومہ یا بیع سنین سے تعبیرکیاگیا ہے (سنن ترمذی ، باب ماجاء فی المخابرۃ) ۔ اس کے جواز کی ایک صورت یہ ہے کہ اپنے باغ کی خود ہی دیکھ ریکھ کی جائے اور جب پھل آجائیں تو اب اس کی بیع کی جائے۔ جواز کی دوسری صورت یہ ہے کہ جس شخص کو باغ ٹھیکہ پر دینا مقصود ہو باغ کا مالک اس کو باغ مساقاۃ یعنی پیداوار کے حصہ معینہ پر سیرابی کے لئے دیدے اور اپنے لئے پیداوار کا کم حصہ رکھے اور اکثر اس کے لئے رکھے، مثلا ایک فیصد یا پانچ فیصد اپنے لئے رکھے پھر اسی شخص کو وہ زمین ایک بڑی رقم (جو پھلوں کی قیمت کے مساوی ہو) کے بدلے ٹھیکہ پر دیدے اور باغ کے پھل میں جو حصہ مالک نے لے رکھا ہے وہ ٹھیکہ والے کے لئے چاہے تو مباح کردے ، تو اس طرح معاملہ درست ہوجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3285/46-9012
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حصن المسلم دعاؤں پر مشتمل ایک کتاب ہے، جس میں تقریبا تمام مواقع کی دعائیں درج ہیں، یہ کتاب عمدہ اور بہت مفید ہے، اور اس کو پڑھ کر ان دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
خوردونوش
Ref. No. 3283/46-9015
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انڈے کے اوپر نجاست کو زائل کرنا ضروری ہے، نجاست کا اثر زائل کرنا ضروری نہیں ہے، پانی سے دھونے سے پاکی حاصل ہوجاتی ہے، کسی پاؤڈر وغیرہ سے داغ کو زائل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انڈا پاک ہے ، نجاست کے داغ کے ساتھ اس کو ابال سکتے ہیں اور کھاسکتے ہیں، انڈا ناپاک نہیں ہوگا۔ باقی طبعی طور پر اچھا نہ لگے تو پاؤڈر وغیرہ سے دھونے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ نیز اگر انڈے پر ظاہری نجاست دھونے سے زائل ہوگئی، صرف نشان باقی ہے تو ایسے انڈے کو بوائل کرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوگا۔
"(قوله: رطوبة الفرج طاهرة) ولذا نقل في التتارخانية أن رطوبة الولد عند الولادة طاهرة، وكذا السخلة إذا خرجت من أمها، وكذا البيضة فلا يتنجس بها الثوب ولا الماء إذا وقعت فيه، لكن يكره التوضؤ به للاختلاف، وكذا الإنفحة هو المختار. وعندهما يتنجس، وهو الاحتياط. اهـ. قلت: وهذا إذا لم يكن معه دم ولم يخالط رطوبة الفرج مذي أو مني من الرجل أو المرأة." (شامی، كتاب الطهارة،باب الأنجاس، ج:1،ص:349،ط:سعيد)
"ورطوبة الفرج طاهرة عند الإمام خلافاً لصاحبيه: وهي رطوبة الولد عند الولادة، ورطوبة الخلة (الخل) إذا خرجت من أمها، وكذا البيضة، فلا يتنجس بها الثوب ولا الماء، لكن يكره التوضؤ به." (الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي، الباب الأول الطهارات، الأعيان الطاهرة،ج:1،ص:294،ط:دار الفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3284/46-9014
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The right to initiate divorce (Talaq) is exclusively granted to the husband in Islamic law. For Khula to be considered valid, the husband's consent is also essential. A divorce or annulment granted solely by a civil court does not dissolve the marriage under Shariah. Consequently, if a woman obtains Khula from a civil court without her husband's consent, it is not recognized as valid in Islamic law, and any subsequent marriage based on such a decree would be considered unlawful.
However, if a woman files her case with an Islamic arbitration council (Darul Qaza), certain circumstances allow a Muslim Qadi (Islamic judge) to dissolve the marriage without the husband's consent. For example, if the husband neglects his marital obligations and refuses to issue a divorce, the Qadi, under specific conditions, can annul the marriage on behalf of the husband. Following such an annulment, the woman is required to observe a waiting period (Iddah) of three menstrual cycles. Once the Iddah is completed, she is free to marry another man of her choice.
"(قال) : والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد." (المبسوط للسرخسي (6 / 173) باب الخلع، ط: دارالمعرفة، بیروت)
"و أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول." (بدائع، 3 / 145، فصل في حکم الخلع، ط: سعید)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
مساجد و مدارس
Ref. No. 3296/46-9046
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو زمین مسجد کے لیے ایک بار وقف ہوگئی اور وقف کی نیت کے ساتھ اس پر قبضہ بھی ہو چکا ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ شرعی طور پر وقف مکمل ہو چکا ہے۔ اور جب وقف تام ہوجاتاہے تو وہ موقوفہ زمین واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے اور واقف اس زمین کو واپس لینے کا اختیار نہیں رکھتا ہے۔ البتہ، اگر زمین کو وقف نہیں کیاگیا تھا بلکہ صرف استعمال کے لئے وقتی طور پر دیاگیا تھا ، اور وقف کی نیت ظاہر نہیں کی گئی تھی ، تو پھر اس کا حکم مختلف ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3295/46-9047
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زید کی نانی کی جائداد پر اس کے نانا کا کوئی اختیار نہیں تھا، لہذا ان کا زبردستی نانی کی اجازت کے بغیر بلکہ منع کرنے کے باوجود ان کی پروپرٹی کو تقسیم کرنا شرعا ناجائز اور غیر نافذ العمل ہے۔ جن لوگوں کو معلوم تھا ان کو اس تقسیم سے روکنا چاہئے تھا، یا پھر تقسیم کے بعد بھی نانی کو وہ جائداد واپس کرنی چاہئے تھی۔ لیکن اگر اس وقت واپس نہیں کیا تو اب نانی کے مطالبہ پر ان کی پراپرٹی ان کو لوٹانا لازم ہوگا۔ اور زید کی نانی کو مکمل اختیار ہوگا کہ اپنی زندگی میں وہ وراثت کے مطابق سب میں تقسیم کریں یا سب کو برابر تقسیم کریں، اور چاہیں تو کسی اور کو ہدیہ میں بھی کچھ جائداد دے سکتی ہیں۔ زید کے نانا کے مالک بنانے سے مامو لوگ مالک نہیں ہوں گے بلکہ ان کو وہ جائداد مالک کو ہی لوٹانی لازم ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندPrayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 3282/46-9007
ANSWER
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If a person is unable to prostrate on the ground due to knee pain, the obligation of standing (qiyam) in prayer is waived, as standing and bowing (ruku), are the means of prostration (sajdah). Such an individual has the option either to perform the entire prayer while sitting and using gestures or to stand and use gestures for both bowing and prostration. Both options are permissible.
However, the jurists (fuqaha) have recommended performing the entire prayer while sitting in such cases, as it is considered better. Moreover, praying on the ground (while sitting) is deemed superior to praying on a chair.
وفی الذخيرة: رجل بلحقه خراج ان سجد سال وهو قادر علي الركوع والقيام والقرأة يصلي قاعدا يولي" ولو صلي قائما بركوع وقعد وأما بالسجود أجزأه والأول أفضل" لأن القيام والركوع لم يشرعا قربة بنفسها بل ليكونا وسيلتين الي السجود. (رد المحتار، ’’كتاب الصلاة: باب صلاة المريض‘‘: ج 2، ص: 97، سعيد)
(وان تعذر) ليس تعذرهما شرطا بلا تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ قاعدا) وهو أفضل من الايماء قائما لقربة من الأرض. (الدر المختار مع رد المحتار: ج 2، 97، سعيد)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband