Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3437/47-9351
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: جن لوگوں سے آپ نے پیسے لئے ہیں ان سے جو معاہدہ ہوا ہے اگر وہ شریعت کے مطابق ہو تو اسی کے مطابق منافع کی تقسیم کریں گے، اور آپ کے اور انویسٹر کے درمیان متعینہ فیصدی کے اعتبار سے منافع کی تقسیم ہوگی۔ اور شرکاء کے درمیان منافع کی تقسیم کا یہ طریقہ ہوگا کہ جس کی رقم سب سے کم ہو اس سے دیگر شرکاء کے پیسوں کی تقسیم کردی جائے اس سے ہر ایک کے شیئر نکل آئیں گے۔ جیسے سوال مذکور میں سب سے کم رقم ۲۵ ہزار ہے، اس کو ایک شیئر مانیں ، پچاس ہزار کے دو شیئر ہوگئے اور ایک لاکھ والے کے چار شیئر ہوگئے۔ اب منافع کو سات حصوں میں تقسیم کرکے ایک شیئر والے کو ایک حصہ ، دوشیئرز والے کو دو حصے اور چار شیئرز والے کو چار حصے دیدئے جائیں گے۔ پھر ہر ایک سے اپنا حق المحنت وصول کیاجائے جو ابتدائے عقد میں طے ہوا تھا۔ چنانچہ اگر مثال کے طور پر سات سو کا نفع ہوا تو ایک سو روپئے۲۵ ہزار والے کو، دو سو روپیے پچاس ہزار والے کو اور چار سو روپئے ایک لاکھ والے کو دئے جائیں گے۔ پھر ہر ایک سے دس فیصد یا پچاس فیصد جو طے ہوا تھا وہ ان سے الگ الگ لے لیا جائے۔ اگر اس سلسلہ میں کوئی اور رہنمائی چاہئے تو دوبارہ تفصیل کے ساتھ سوال لکھ کر بھیجیں یا پھر کسی قریبی دارالافتا سے رجوع کریں۔
إذا شرطا الربح على قدر المالين متساويا أو متفاضلا، فلا شك أنه يجوز ويكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما والوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضل. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 62):
(والربح في الشركة الفاسدة بقدر المال، ولا عبرة بشرط الفضل). الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 326):
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Divorce & Separation
Ref. No. 3435/47-9352
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
For a Khula (a divorce initiated by the wife) to be valid, it is essential that the husband accepts the proposal of Khula. If the wife has a Khula document prepared—whether through an individual or the court—and sends it to the husband, but the husband refuses to accept it, such a Khula is not as per shariah effective. It has no impact on the marital bond, and the marriage remains intact. In such a case, the wife should return to her husband. If there are issues in the marriage, efforts should be made—with the involvement of family members—to seek reconciliation and restore harmony in the relationship.
"و أمّا ركنه فهو الإيجاب و القبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرْقة و لايستحَق العوض بدون القَبول." (بدائع الصنائع ، کتاب الطلاق،فصل فی الخلع:۳/۱۴۵،ط:دارالکتاب العربی)
"و أما ركنه فهو الإيجاب و القبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة و لايستحق العوض بدون القبول."(المبسوط للسرخسی ، باب الخلع:۶/۱۷۳،ط:دارلفکر)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
حج و عمرہ
Ref. No. 3409/46-9301
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ احرام کی حالت میں حرم سے باہر جانا اگر کسی شرعی یا معقول ضرورت یا غیر ارادی طور پر ہو (جیسے گاڑی یا بس کا رخ غلط ہو گیا)، تو دم واجب نہیں ہوتا۔البتہ حلق یا قصر کا عمل مکہ مکرمہ یا منیٰ (یعنی حدودِ حرم) کے اندر کرنا ضروری ہے۔آپ نے بعد میں منیٰ واپس آ کر حلق کرلیا، اس لئے آپ پر شرعاً کوئی دم واجب نہیں ہوگا۔ لیکن اگر اس دوران کوئی اور جنایت کی ہوگی یااحرام کے منافی کوئی کام کرلیا ہوگا تو اس کا دم الگ سے واجب ہوگا۔
وفي الہدایة والتقصیر والحلق في العمرة غیر موقت بالزمان بالإجماع، فإن لم یقصر حتی رجع وقصر فلا شيء علیہ، في تولہم جمیعًا وفیہ أیضا: ومن اعتمر فخرج من الحرم وقصر فعلیہ الدم عند أبي حنیفة ومحمد رحمہما اللہ وقال أبویوسف لا شيء علیہ․"
والتحلل لا يحصل إلا بالحلق أو التقصير في الحرم..." (بدائع، ج2، ص 197)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3434/47-9345
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ عائشہ کی بیٹی مریم کا نکاح عامر سے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان کے درمیان آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہے۔ عامر مریم کا سوتیلا ماموں ہے حقیقی ماموں نہیں ہے؛ اس لیے اگر حرمت کی کوئی دوسری وجہ رضاعت وغیرہ نہ ہو تو یہ نکاح جائز ہے۔
" أن الرجل كما يحرم عليه تزوج أصله أو فرعه كذلك يحرم على المرأة تزوج أصلها أو فرعها، وكما يحرم عليه تزوج بنت أخيه يحرم عليها تزوج ابن أخيها وهكذا، فيؤخذ في جانب المرأة نظير ما يؤخذ في جانب الرجل لا عينه وهذا معنى، قوله في المنح: كما يحرم على الرجل أن يتزوج بمن ذكر يحرم على المرأة أن تتزوج بنظير من ذكر ."(شامی، کتاب النکاح ،فصل فی المحرمات ،3/ 29،ط:سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3432/47-9321
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ (۱) اگر مسجد کے آداب کا مکمل خیال کیاجائے تو سخت مجبوری میں اپنی ذاتی ضروریات کے لئے مسجد شرعی کی حدود میں اعلان کرنے کی گنجائش ہے تاہم مسجد کی حدود سے باہر اعلان کرنا چاہئے۔ اسی طرح غیرشرعی چیزوں کے لئے بھی اعلان کرنا جائز نہیں ہے۔ (۲) مدارس و مساجد کی ضروریات کے لئے اعلان کرنا درست ہے۔ (۳) ظاہری اعتبار سے جو مستحق نظر آئے اس کو دے سکتے ہیں، زیادہ تحقیق حال کی ضرورت نہیں ہے، چنانچہ اگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غیرمستحق تھا تب بھی آپ کی زکوۃ اداہوجائےگی اور ثواب ثابت ہوجائے گا۔
(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اهـ ومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اهـ. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 164
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3431/47/9322
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ رسم و رواج اور مروجہ خرافات سے بچتے ہوئے اس طرح مجلس منعقد کرنے کی گنجائش ہے، تاہم بہتر ہوگا کہ ایک دو دن آگے پیچھے کرلے ۔ فتاوٰی رشیدیہ میں ہے:سالگرہ یادداشت عمرِاطفال کے واسطے کچھ حرج نہیں معلوم ہوتااور بعد سال کے بوجہ اللہ کھلانابھی درست ہے۔ (حرمت وجواز کے مسائل، ص: 567، ط: عالمی مجلس تحفظ اسلام) باقی کیک کاٹنے اور دیگر خرافات سے احتراز کریں۔
"قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تشبه بقوم فهو منهم» " رواه أحمد، وأبو داود.
(من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب." (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح :كتاب اللباس، الفصل الثاني ،222/8، ط: مكتبة حنفية)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 3430/47-9319
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ بشرط صحت سوال، (۱) مذکورہ قبرستان کے اس حصہ میں جہاں ایک زمانہ سے تدفین نہیں ہوررہی ہے اور وہ جگہ اگلے پچاسوں سال تک بھی خالی ہی رہے گی تو اس جگہ مسجد اور عیدگاہ بنانا جائز ہے۔(۲) اور قبرستان کو اگر قبرستان کی آمدنی کی ضرورت نہیں ہے تو مذکورہ مسجد و جنازہ گاہ میں اہل کمیٹی کے مشورہ سے اس آمدنی کو استعمال کیاجاسکتاہے۔(۳) اگر کھدائی کے دوران کوئی قبرظاہرہوجائے اور میت کی ہڈیاں ملیں تو ان کو کہیں دوسری جگہ دفن کردیاجائے۔ یا پھر قبر میں مٹی ڈال کر اچھی طرح بند کردیاجائے، اس کو کھولنے کی ضرورت نہیں ہے۔
والمقبرۃ إذاعفت ودثرت، تعود ملکًا لأربابہا، فإذا عادت ملکًا یجوز أن یبنی موضع المسجد دارًا أو موضع المقبرۃ مسجدًا وغیر ذٰلک۔ وأما المقبرۃ الداثرۃ إذا بُني فیہا مسجد لیصلي فیہا، فلم أر فیہ بأسًا؛ لأن المقابر وقف، وکذا المسجد فمعناہما واحد۔ (عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري / باب ہل تنبش قبور مشرکي الجاہلیۃ ویتخذ مکانہا مساجد ۴؍۱۷۴ مکتبۃ الإدارۃ الطباعۃ المنیریۃ دمشق) وأما المتخذ لصلاۃ جنازۃ أو عیدٍ فہو مسجد في حق جواز الاقتداء، وإن انفصل الصفوف رفقًا بالناس، لا في حق غیرہ، بہ یفتی، نہایۃ۔ فحل دخولہ لجنب وحائض کفناء مسجد ورباط ومدرسۃ۔ (الدر المختار، کتاب الصلاۃ / باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ۱؍۶۵۷ کراچی) ونقل في الذخیرۃ عن شمس الأئمۃ الحلواني أنہ سئل عن مسجد أو حوض خرب، ولا یحتاج إلیہ، لتفرق الناس عنہ: ہل للقاضي أن یصرف أوقافہ إلی مسجد أو حوض آخر؟ فقال: نعم۔ (شامي، کتاب الوقف / مطلب فیما لو خرب المسجد أو غیرہ ۴؍۳۵۹ کراچی، وکذا في البحر الرائق، کتاب الوقف / فصل في أحکام المسجد ۶؍۲۳۷ مصطفیٰ البابي الحلبي مصر
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 3429/47-9320
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اگر کپڑے پر کوئی اس طرح کا نشان نہیں ہے تو بلاوجہ شک و شبہ میں پڑنا درست نہیں ہے۔ اس طرح تو پھر کسی بھی چیز پر اعتماد نہیں کیاجاسکتاہے۔ اس لئے اگر کوئی ناپاکی لگی ہوئی نہیں ہے اور نہ ہی آپ نے اپنی آنکھوں سے کچھ دیکھاہے تو بلاوجہ شبہ میں نہ پڑیں۔ اپنے وسوسہ اور وہم سے باہر نکلیں اور اس کو پاک شمار کرکے اس میں نماز وغیرہ پڑھ سکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3428/47-9329
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں عورت پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔کیونکہ شوہر کے وعدۂ طلاق سے یا طلاق کی دھمکی دینے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اور اس سلسلہ میں شوہر کا قول معتبر ہے، لہذا عورت کو چاہئے کہ شوہر کی بات پر اعتماد کرکے اس کے ساتھ رہے۔ اور شوہر پر لازم ہے کہ بیوی کو آئندہ طلاق دینے سے گریز کرے اور اگر کوئی بات پیش آئے تو دونوں اس کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کریں۔ ضرورت پڑے تو اہل خانہ سے بھی مشورہ لیا جائے، اور طلاق دینے میں جلدی نہ کرے۔
"الوعد بالطلاق لا يقع به الطلاق" (الفتاویٰ الہندیہ 1/374)
التهديد بالطلاق لا يقع به الطلاق ما لم يصدر اللفظ. (رد المحتار، 3/246، دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 3441/47-9327
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ (۱) شادی کے وقت جو زیورات لڑکی کو دئے جاتے ہیں ان میں عرف یہی ہے کہ وہ لڑکی کی ملکیت ہوتے ہیں۔ اور بعد میں والدین ان کو واپس نہیں لیتے ہیں۔ اس لئے لڑکیوں کو جو زیورات دئے گئے وہ ان کی ملکیت ہیں، ان میں وراثت جاری نہ ہوگی۔ (۲) ۲۵ لاکھ کی سوسائٹی پر ایک بہن کا دعوی کرنا جبکہ اس کے پاس کوئی اور ثبوت نہیں ہے، یہ دعوی بلا دلیل ہے جس کا شرعا کوئی اعتبار نہیں۔ تاہم مرحوم نے اپنی زندگی میں اگر کسی کو کوئی فلیٹ یا مکان دے کر مالک بنادیا اور قبضہ میں دیدیا ہو تو اس کا حکم الگ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند