Miscellaneous

Ref. No. 3525/47-9490

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔         پورے سرکے بال برابر رکھنا سنت ہے،  سر کے کچھ بال منڈانا اور کچھ رکھنا یا اسی طرح کچھ حصے کے بال بڑے اورکچھ کے چھوٹے رکھنا قزع کے تحت داخل ہے اور ناجائز ہے۔ کھیل کود کا حکم الگ ہے، البتہ اگر کسی زخم کی وجہ سے سر کے بعض حصہ کو مونڈا گیا ہے تاکہ اس پر مرہم پٹی کرنے میں آسانی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔

خواتین کے لئے بلاعذر سر کے بال کاٹنا جائز نہیں ہے، تاہم اگر علاج کے لئے بال کٹوانے ہوں یا بال کمر سے نیچے تک لمبے  ہوں اور بھدے معلوم ہوں تو زائد بالوں کو کٹوانے  کی اجازت ہے۔  غرض یہ ہے کہ عورتوں کا مردوں کی مشابہت میں یا فیشن کے طور پر بال کٹوانا جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 3524/47-9489

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔          مذکورہ ایپ کے ذریعہ آپ کے ریچارج کرنے پر آپ کے ریفر کنندہ شخص کو ملنے والی ایک ہزار کی رقم اس کے لئے جائز ہے، روزانہ ویڈیوز پر  OK کرنے اور اسٹار دینے سے جو رقم مل رہی ہے اس میں دھوکہ ہے کیونکہ یہ اس لئے کیاجاتاہے تاکہ ناظرین کے اعداد و شمار زیادہ نظر آئیں اور خریدار ان کے پروڈکٹ کی طرف راغب ہوں، اس کے لئے طریقہ کار سے ریٹینگ بڑھوائی جاتی ہے ،  اور ایک ہی ویڈیوز پر متعدد مرتبہ کلک کرنے سے بھی یہی تاثر  دینا مقصود ہوتاہے جوکہ خلاف واقعہ ہے، اور دھوکہ ہے اس لئے اس عمل پر اجرت لینا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

آداب و اخلاق

Ref. No. 3523/47-9488

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔         جو اصل باپ ہے وہی باپ رہے گا  اس سے باپ کی نسبت  کبھی ختم نہیں ہوگی۔اس لئے بیٹا اپنے باپ  کو بلاشبہہ ابو کہہ سکتاہے، اور بچہ کو اس کے باپ کی طرف ہی منسوب کیاجائے گا۔ خیال ہے کہ کاغذی کارروائیوں میں بھی باپ کی جگہ  باپ کا نام ہی لکھاجائے گا۔ بہنوئی کا بچہ کی باپ کی جگہ اپنا  نام لکھنا بھی جائز نہیں ہوگا۔

    واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 3522/47-9487

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔         غیر اللہ کے نام پر نذر و نیاز کرنا شرک ہے، اور اس نذر کے تحت جو چیز پیش کی گئی ہو، وہ چیز استعمال کے لائق نہیں ہوتی، اگرچہ وہ ظاہری اعتبار سے ناپاک (نجس) نہ ہو، مگر شرعی طور پر حرام اور قابلِ اجتناب ہوتی ہے۔  قرآن میں محرمات کی فہرست میں یہ بھی داخل ہے۔ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۔ (سورہ بقرہ: 173)۔ لہذاان کا استعمال جائز نہیں ہے، تاہم ایسی اشیاء ظاہری طور پر نجس نہیں ہوتیں یعنی ہاتھ لگنے سے کپڑے ناپاک نہیں ہوتے۔

"ما ذبح لصنم أو لغير الله فهو ميتة لا يحل أكله." (رد المحتار:  کتاب الذبائح ج 6، ص 343)

"وإن نذر لغير الله لم يجز، وكان معصية" (الھندیۃ، ج 5، ص 360)

    واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 3521/47-9496

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔         "جب تک زمین کو باقاعدہ وقف نہ کیا جائے، اس پر بنائی گئی مسجد شرعی اعتبار سے 'مسجد' نہیں کہلاتی، بلکہ وہ صرف نماز کی جگہ (مصلّٰی) ہوگی۔" اس پر مسجد کے احکام مرتب نہیں ہوں گے اور اس میں نماز پڑھنے پر مسجد کا ثواب نہیں ملے گا۔  جب زمین وقف کی جاتی ہے، تو وہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی ملکیت بن جاتی ہے، اور وہاں مسجد کے تمام احکام (مثلاً: اعتکاف، اذان،  عورتوں کا داخلہ، خریدوفروخت کی ممانعت وغیرہ) لاگو ہو جاتے ہیں۔

"ولا تصير مسجدًا حتى يوقفها مالكها على وجه التأبيد لله تعالى." (رد المحتار، جلد 3، صفحہ 371)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 3520/47-9495

In the name of Allah, the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Riding a scooter or bike is not forbidden for women in itself. However, it is discouraged due to concerns like improper covering, going out alone, or the risk of fitnah (temptation or harm).

If there is a genuine need, a woman may go out, but she should do so with proper hijab, avoid situations that may lead to fitnah, complete her work quickly, and return home without delay. It is better to go out during the day, as going out late at night can be more dangerous and problematic.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Business & employment

Ref. No. 3519/47-9494

In the name of Allah, the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If a person uses lawful means within the boundaries of the law to protect their legitimate income from non-obligatory taxes, it is permissible in Shari‘ah. However, it must be noted that engaging in any illegal activity may not only result in financial loss but also harm one’s dignity and reputation. Therefore, all illegal actions must be strictly avoided.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 3518/47-9493

In the name of Allah, the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If something (like a plot of land) is bought on installments at a fixed price — and no discount was agreed upon at the time of the contract — and later the seller offers, "If you pay the full amount early, we will give you a discount," then accepting this discount is allowed in Islam and it is not considered interest (riba).

It is permissible for the rightful owner to take the full payment or to forgive part of it. However, if someone demands extra money unfairly — for example, charging a penalty for late payment — this is considered interest (riba) and is forbidden in Islam.

"وإذا كان لرجل على رجل دين إلى أجل، وهو من ثمن مبيع فحط عنه شيئا ‌على ‌أن ‌يعجل ‌له ما بقي فلا خير فيه ولكن يرد ما أخذ والمال كله إلى أجله، وهو مذهب عبد الله بن عمر - رضي الله عنهما - وكان زيد بن ثابت - رضي الله عنه - يجوز ذلك ولسنا نأخذ بقوله؛ لأن هذا مقابلة الأجل بالدراهم ومقابلة الأجل بالدراهم ربا، ألا ترى أن في الدين الحال لو زاده في المال ليؤجله لم يجز فكذلك في المؤجل إذا حط عنه البعض ليعجل له ما بقي والذي روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «لما أجلى بني النضير فقالوا: إن لنا ديونا على الناس فقال - صلى الله عليه وسلم - ضعوا وتعجلوا» فتأويل ذلك ضعوا وتعجلوا من غير شرط أو كان ذلك قبل نزول حرمة الربا." (المبسوط  للسرخسی، ج:13،ص:126،باب العیوب اللتی یطعن المشتری بہا،دارالمعرفۃ)

"الفضل عند التعجیل فی الثمن لیس بربا لأنہ من باب التنازل لا من باب القرض." (رد المحتار، جلد 6، صفحہ 79)GPT

" حط البائع مقدارا من الثمن المسمى بعد العقد صحيح و معتبر" )شرح المجلة لسليم رستم باز : المادة: 256 ، ص: 133)۔

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طلاق و تفریق

Ref. No. 3517/47-9485

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔         اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں اگر غصہ کی شدت کو آپ نے جنون سے تعبیر کیا ہے لیکن اصلا جنون نہیں تھا تو شدید غصہ میں بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، اگر تین طلاق دی گئی  ہےتو اب ساتھ رہنا ہرگز جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3516/47-9484

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔          خلع کے لئے شوہر کی رضامندی ضروری ہے۔ اگر شوہر خلع کے لئے تیار نہ ہو اور طلاق بھی نہ دیتا ہو تو کسی قریبی دار القضاء میں جاکر فسخ نکاح کا معاملہ درج کرائیں وہاں سے آپ کو ان شاء اللہ اطمینان بخش جواب ملے گا اور اس کا حل وہاں سے ہی ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند