Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس مسئلہ میں تقریبا حضرات اہل علم کا اتفاق ہے کہ موبائل میں قرآن کریم کی تلاوت جائز ہے؛ البتہ یہاں یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ جس وقت موبائل میں قرآن کی تلاوت کی جائے اور قرآن کریم کے نقوش موبائل کی اسکرین پر نمایاں ہوں، جسے دیکھ کر قاری پڑھ رہا ہے، تو اس وقت موبائل کو بلا وضو ہاتھ لگانا درست ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں حضرات اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ جس وقت موبائل کی اسکرین پر قرآن کے نقوش ظاہر ہوں، تو وہ مصحف کے حکم میں ہے اور پورے قرآن کو بلا وضو چھونا درست نہیں ہے {لاَ یَمَسُّہُ اِلاَّ الْمُطَہَّرُوْنَ} دوسری رائے یہ ہے کہ صرف اسکرین کو چھونا درست نہیں ہے، باقی موبائل کے دوسرے حصے کو چھونا درست ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ جس وقت موبائل کی اسکرین پر قرآن کے نقوش ہوں، تو وہ قرآن کے حکم میں نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو موبائل کے دوسرے پارٹس غلاف منفصل کے حکم میں ہے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ اس اسکرین کو بھی بلا وضو ہاتھ لگانا جائز ہے اور دیگر حصے کو بھی۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک کاغذ پر قرآن لکھ کر اس کو فریم کردیا ہو، وہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ موبائل یا کمپیوٹر کی اسکرین پر جوآیات نظر آتی ہیں، وہ سافٹ ویر ہیں، یعنی ایسے نقوش ہیں، جن کو چھوا نہیں جا سکتاہے، نیز ماہرین کے مطابق یہ نقوش بھی کمپیوٹر یا موبائل کے شیشے پر نہیں بنتے؛ بلکہ فریم پر بنتے ہیں اور شیشے پر نظر آتے ہیں؛ لہٰذا اسے مصحف قرآنی کے غلاف منفصل پرقیاس کیا جاسکتاہے، یعنی: ایسا غلاف جو قرآن کریم کے ساتھ لگا ہوا نہ ہو؛ بلکہ اس سے جدا ہو۔ فقہاء کرام کی تصریح کے مطابق اس کو چھونا درست ہے۔
تینوں نقطہائے نظر دلائل پر مبنی ہیں اور اپنی جگہ درست معلوم ہوتے ہیں؛ لیکن یہاں ضروری ہے کہ قرآن کریم کے آداب کو ملحوظ رکھاجائے۔ سماج اور معاشرے میں جو لوگ موبائل میں قرآن پڑھتے ہیں؛ وہ قرآن سمجھ کر ہی پڑھتے ہیں؛ اگر چہ اس پر قرآن کی حقیقت صادق نہ آئے؛ اس لیے یہ تیسری رائے اگر چہ دلائل کے اعتبار سے قوی ہے؛ لیکن فتوی اور عمل کے لیے مناسب نہیں ہے؛ اسی لیے زیادہ تر حضرات اہل علم نے پہلی اوردوسری رائے اختیار کی ہے۔
فقہاء کے یہاں اصول یہ ہے کہ غیر مصحف میں صرف نقوش کو بلا وضو چھونا درست نہیں ہے باقی حصے کو چھونا درست ہے۔ اس اصول کی روشنی میں موبائل پر نمایاں نقوش کو بلا وضو چھونا درست نہ ہوگا؛ باقی دیگر حصے کو چھونا درست ہوگا ۔ علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں:
’’یحرم بہ أي بالأکبر و بالأصغر مس مصحف أي ما فیہ آیۃ -إلا بغلاف متجاف غیر مشرز -وقال إبن عابدین :لکن لا یحرم في غیر المصحف إلا بالمکتوب أي موضع الکتابۃ‘‘(۱)
البتہ احتیاط اس میں ہے کہ اسکرین پر آیات کے نمایاں ہونے کی صورت میں پورے موبائل کو مصحف کے حکم میں رکھ کربلا وضو چھونے کی اجازت نہ دی جائے ،اس میں قرآن کریم کا ادب بھی ملحوظ رہے گا۔ علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں :
’’ومسہ أي القرآن و لو في لوح أو درہم أو حائط لکن لا یمنع إلامن مس المکتوب بخلاف المصحف فلا یجوز مس الجلد و موضع البیاض منہ‘‘۔(۱)
علامہ ابن نجیم مصری تحریر فرماتے ہیں :
’’وتعبیر المصنف بمس القرآن أولی من تعبیر غیرہ بمس المصحف لشمول کلامہ ما إذا مس لوحا مکتوبا علیہ آیۃ و کذا الدرہم والحائط ۔۔۔۔۔لکن لا یجوز مس المصحف کلہ المکتوب و غیرہ بخلاف غیرہ فإنہ لا یمنع إلا مس المکتوب‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: یطلق الدعاء علی ما یشمل الثناء،‘‘ ج۱، ص: ۳۱۵ (زکریا بک ڈپو دیوبند)۔
(۱)ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب : لو أفتی مفت بشيء من۔۔۔‘‘ ج ۱، ص: ۴۸۸
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض‘‘، ج۱، ص:۳۹۴(دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص129
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دونوں کی شرمگاہیں شہوت کی حالت میں آپس میں مل جانے کی وجہ سے وضو ٹوٹ گیا، اب دونوں از سرنو وضو کرکے نماز ادا کریں، جیسا کہ درمختار میں مذکور ہے: و مباشرۃ فاحشۃ بتماس الفرجین و لو بین المرأتین والرجلین مع الانتشار للجانین المباشر و المباشر، و لو بلا بلل علی المعتمد(۱) ۔
ومباشرۃ فاحشۃ ۔۔۔ وہي أن یباشر امرأتہ مجردین وانتشر آلتہ وأصاب فرجہ فرجہا ولم یربللا۔ إشارۃ إلی انتقاض الوضوء من أي جانب کان سواء بین الرجل والمرأۃ أو بین الرجلین الخ۔(۲) ومباشرۃ فاحشۃ یعني أن من النواقض الحکمیۃ المباشرۃ الفاحشۃ وہي أن یباشر امرأتہ متجردین ولا في فرجہا مع انتشار الآلۃ ولم یربللا الخ۔ (۳)
(۱)ابن عابد ین، رد المحتار علی الدر المختار،’’کتاب الطہارۃ، مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض‘‘ج۱؍ ص:۲۷۷
(۲)عبد الرحمن بن محمد المعروف بشیخ زادہ، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۳۴ (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۳)زین الدین ابن نجیم الحنفي، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص: ۸۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص230
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں غسل واجب نہیں ہوگا، اس لیے کہ محض مادہ تولید کا دخول یا خروج موجب غسل نہیں ہے، بلکہ انسان اس عمل کی وجہ سے جو جنسی لذت حاصل کرتا اور جو لذت پورے جسم کو پہنچتی ہے شریعت غسل کے ذریعہ اس کی تطہیر کرنا چاہتی ہے۔ ٹیوب کے ذریعہ جو مادہ منویہ عورت کے رحم میں پہنچایا جاتا ہے اس میںکوئی تسکین نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ عورت ناگوار خاطر بطور علاج اس کو گوارہ کرتی ہے۔ عورت کے رحم میں منی کا داخل کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ عورت کے جسم میں انگلی داخل کرنا یہ موجب غسل نہیں ہے، اسی طرح ٹیوب کا داخل کرنا موجبغسل نہ ہوگا۔
ولا عند إدخال إصبع و نحوہ کذکر غیر آدمي (۱)إذا وطئی إمرأتہ دون الفرج فدب ماؤہ إلی فرجھا ثم خرج، أو وطئھا في الفرج فاغتسلت ثم خرج ماء الرجل من فرجھا فلا غسل علیھا (۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار،’’کتاب الطہارۃ، قبیل مطلب في رطوبۃ الفرج‘‘ج۱، ص:۳۰۴
(۲) ابن قدامۃ، المغنی ، ’’کتاب الطہارۃ، باب ما یوجب الغسل، فصل: إذا وطیٔ إمرأتہ الخ‘‘ ج۱، ص:۲۶۵(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص318
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص کے پیچھے نماز درست ہوجائے گی تاہم مستقل ایسے شخص کو امام بنانا درست نہیں، (۱) کوئی اور خامی ہو تو تحریر فرما کر معلوم کر لیا جائے۔
(۱) عن عبداللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال لنا علیہ السلام: یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب: المساجد ومواضع الصلاۃ: باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۶۷۳؛ و أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۵، رقم: ۲۳۵)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا)
ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالماً بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (أیضاً:)
فإن کان لایغیر المعنی لاتفسد صلاتہ عند عامۃ المشایخ ۔۔۔۔۔ ہکذا في المحیط وإن غیر المعنی نحو أن یقرأ وزرابیب مبثوثۃ مکان وزرابي تفسد، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع، صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج۱، ص: ۱۳۷)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص217
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں اختلاف جس بنا پر ہے وہ غیر شرعی اختلاف ہے، اختلاف کرنے والوں کو چاہئے کہ امام و پیشوا کا منصب پہچان کر اختلاف کو ختم کریں اور بغیر وجہ شرعی اختلاف کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ایسے امام کے پیچھے نماز بلا کراہت درست ہے۔(۱)
(۱) رجل أم قوماً وہم لہ کارہون إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ یکرہ لہ ذلک وإن ہو أحق بالإمامۃ لایکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘:ج۱، ص: ۱۴۴)
لو أم قوما وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أولأنہم أحق بالإمامۃ فیہ کرہ لہ ذلک تحریماً وإن أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (الحصکفی، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج۲، ص: ۲۹۷)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص301
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز باجماعت میں اقامت کہنا سنت ہے، جب کہ انفرادی طور پر اگر نماز پڑھی جائے تو اس صورت میں اقامت کہنا مستحب ہوگا اور اگر کوئی شخص اقامت کے بغیر ہی نماز پڑھ لے تو نماز ادا ہو جائے گی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے اور گناہ کا باعث ہے، الحاصل: قصداً اقامت کو چھوڑنا مکروہ ہے اگر کسی عذر کی وجہ سے نماز گھر پر ہی ادا کرنی پڑے تو ایسی صورت میں مسجد کی اقامت کافی ہے، گھر میں اقامت چھوٹ جائے یا چھوڑ دے تو گناہ نہیں ہوگا۔
’’و‘‘ کذا’’الإقامۃ سنۃ مؤکدۃ‘‘ في قوۃ الواجب؛ لقول النبي صلي اللّٰہ علیہ وسلم: إذا حضرت الصلاۃ فلیؤذن لکم أحدکم ولیؤمکم أکبرکم، وللمدوامۃ علیہا ’’للفرائض‘‘، ومنہا الجمعۃ فلایؤذن لعید واستسقاء وجنازۃ ووتر‘‘(۱)
’’ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ۔ کذا في فتاویٰ قاضي خان، ولا یکرہ ترکہما لمن یصلي في المصر إذا وجد في المحلۃ، ولا فرق بین الواحد والجماعۃ۔ ہکذا في التبیین، والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتاشي، وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما، ولو ترک الأذان وحدہ لایکرہ کذا في المحیط، ولو ترک الإقامۃ یکرہ۔ کذا في التمرتاشي‘‘(۲)
(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۷۶۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان‘‘ الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص198
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس کی نماز پوری ہو جائے وہ اپنی نماز پوری ہونے پر بیٹھا رہے امام نماز پوری کرکے جب سلام پھیرے تو اس کے ساتھ سلام پھیردے۔(۱)
(۱) و لو کان الذین خلف الإمام المحدث کلہم مسبوقون، ینظر إن بقي علی الإمام شيء من الصلاۃ فإنہ یستخلف واحدا منہم، لأن المسبوق یصلح خلیفۃ لما بینا، فیتم صلاۃ الإمام ثم یقوم إلی قضاء ما سبق بہ من غیر تسلیم لبقاء بعض أرکان الصلاۃ علیہ۔ وکذا القوم یقومون من غیر تسلیم ویصلون وحدانا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب شرائط جواز الاستخلاف‘‘: ج ۱، ص:۵۳۰،دارالکتاب، دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص44
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز خشوع وخضوع سے پڑھنی چاہئے بلا ضرورت بدن کھجلانا، بدن پر ہاتھ پھیرتے رہنا مکروہ تحریمی ہے۔ ’’وعبثہ بہ وبثوبہ وبجسدہ للنہي إلالحاجۃ ولا بأس بہ خارج الصلاۃ‘‘(۲) یعنی بلا ضرورت اپنے کپڑے اور بدن سے کھیلنا مکروہ تحریمی ہے۔(۳)
(۲) وکرہ (کفہ) أي رفعہ ولو لتراب کمشمرکم أو ذیل وعبثہ بہ أي بثوبہ و بجسدہ للنہی إلالحاجۃ۔ (قولہ للنہي) وہو ما أخرجہ القضاعي عنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ کرہ لکم ثلاثا: العبث في الصلاۃ، والرفث في الصیام، والضحک في المقابر۔ وہي کراہۃ تحریم کما في البحر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۶، ۴۰۷)
(۳) یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ، وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، الفصل الثاني، فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴، مکتبۃ الفیصل دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص158
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: تغیر فاحش اور معنی کی واضح طور پر تبدیلی ہوئی اس وجہ سے نماز کا اعادہ ضروری ہے فرض ادا نہیں ہوا۔(۱)
(۱)وإن غیر المعنی تغییرا فاحشاً فإن قرأ‘‘ وعصی آدم ربہ فغوی ’’بنصب المیم‘‘ آدم ’’ورفع باء‘‘ ربہ ’’ … وما أشبہ‘‘ ذلک لو تعمد بہ یکفر وإذا قرأ خطأ فسدت صلاتہ … الخ۔ (الفتاویٰ الخانیۃ علی ہامش الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸، ط: المطعبۃ اکبری الأمیریۃ، بولاتہ، مصر)
ومنہا ذکر کلمۃ علی وجہ البدل إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن لا تفسد ’’صلاتہ‘‘ نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم … وإن کان في القرآن ولکن لا تتقاربان في المعنی نحو إن قرأ {وعدا علینا إنا کنا غافلین} مکان ’’فاعلین‘‘ ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷،زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص276
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اذان فجر کے بعد جماعت تک اور اس کے بعد طلوع آفتاب تک سنت فجر کے علاوہ کسی قسم کی نفل یا سنت آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے؛ اس لیے سنت فجر کے علاوہ کسی قسم کی سنت یا نوافل نہ پڑھنی چاہیے اور اگر فرض سے قبل سنت فجر نہیں پڑھی گئی، تو فرض کے بعد سنت فجر بھی پڑھنے کی اجازت نہیں طلوع آفتاب تک،البتہ اس کے بعد پڑھ سکتا ہے۔(۱)
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا صلاۃ بعد الفجر إلا سجدتین … وروي عنہ: غیر واحد وہو ما أجمع علیہ أہل العلم کرہوا أن یصلي الرجل بعد طلوع الفجر إلا رکعتي الفجر ومعنی ہذا الحدیث إنما یقول لا صلاۃ بعد الفجر إلا رکعتي الفجر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما جاء لا صلاۃ بعد طلوع الفجر إلا رکعتین‘‘: ج ۱، ص: ۹۶، مکتبہ: نعیمیہ دیونبد)
لا صلاۃ بعد الصبح حتی ترتفع الشمس ولا صلاۃ بعد العصر حتی تغیب الشمس۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب لا تتحری الصلاۃ قبل غروب الشمس:ج ۱، ص: ۳۱۲، رقم: ۵۶۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص386