اسلامی عقائد

Ref. No. 1517/43-1022

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  فجر کی سنت گھر پر ہی پڑھ لیں تو زیادہ بہتر ہے، البتہ اگر مسجد میں ہیں تو صف سے ہٹ کر سنت پڑھیں اور اگر ایک ہی صف کی جگہ ہے، اس کے علاوہ کوئی جگہ نہیں ہے تو اسی صف میں ایک کنارہ لوگوں سے الگ ہٹ کر سنت پڑھ کرامام  کے ساتھ فرض میں شامل ہوجائیں ، اس کی گنجائش ہے۔

''وكذا يكره تطوع عند إقامة صلاة مكتوبة) أي إقامة إمام مذهبه ؛ لحديث: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة» (إلا سنة فجر إن لم يخف فوت جماعتها) ولو بإدراك تشهدها، فإن خاف تركها أصلاً۔ (قوله: إلا سنة فجر)؛ لما روى الطحاوي وغيره عن ابن مسعود: أنه دخل المسجد وأقيمت الصلاة فصلى ركعتي الفجر في المسجد إلى أسطوانة، وذلك بمحضر حذيفة وأبي موسى، ومثله عن عمر وأبي الدرداء وابن عباس وابن عمر، كما أسنده الحافظ الطحاوي في شرح الآثار، ومثله عن الحسن ومسروق والشعبي شرح المنية. (شامی 1/377)

والحاصل أن السنة في سنة الفجر أن يأتي بها في بيته، وإلا فإن كان عند باب المسجد مكان صلاها فيه، وإلا صلاها في الشتوي أو الصيفي إن كان للمسجد موضعان، وإلا فخلف الصفوف عند سارية، لكن فيما إذا كان للمسجد موضعان والإمام في أحدهما، ذكر في المحيط أنه قيل لا يكره لعدم مخالفة القوم، وقيل يكره لأنهما كمكان واحد. قال: فإذا اختلف المشايخ فيه فالأفضل أن لا يفعل. قال في النهر: وفيه إفادة أنها تنزيهية اهـ. لكن في الحلية قلت: وعدم الكراهة أوجه للآثار التي ذكرناها اهـ ثم هذا كله إذا كان الإمام في الصلاة، أما قبل الشروع فيأتي بها في أي موضع شاء كما في شرح المنية. (شامی، باب ادراک الفریضۃ 2/57)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص پر توبہ لازم ہے، بظاہر جملۂ مذکورہ سے مسلکی تشدد معلوم ہوتا ہے، نہ کہ اہانت؛ اس لئے کفر عائد نہیں ہوا؛ البتہ غیر محتاط وغیر مہذب جملہ بولنے کی وجہ سے توبہ واستغفار لازم ہے۔ (۱)

(۱) إن ما یکون کفراً اتفاقاً یبطل العمل والنکاح، وما فیہ خلاف یؤمر بالاستغفار والتوبۃ الخ۔اہـ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: الإسلام یکون بالفعل کالصلوۃ بجماعۃ‘‘: ج ۶، ص: ۲۳۰)

عن أبي ہریرۃ، رضي اللّٰہ عنہ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: إني لا أقول إلا حقا! قال بعض أصحابہ: فإنک تداعنا یا رسول اللّٰہ! -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- فقال: إني لا أقول إلا حقّاً۔ (أخرجہ أبو عبد اللّٰہ أحمد بن حنبل، في مسندہ: ج ۱۴، ص: ۱۸۵، رقم: ۸۴۸۱)

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1789/43-1530

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کارٹون کس طرح کے ہیں، اس کی وضاحت نہیں کی گئی۔ بہر حال ایسے جاندار کی تصویر سے اجتناب کرتے ہوئے  جس میں آنکھ، ناک صاف طور پر معلوم  و ظاہر ہوں کارٹون بنانے اور اس کو نشر کرنے میں اور اس سے پیسے کمانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  اور ایسے کارٹون جس میں واضح طور پر آنکھ ناک معلوم ہوں  ان کو بنانا جائز نہیں   اور کمائی بھی جائز نہیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1886/43-1757

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   طلاق نامہ پر دستخط کرنے کے لئے مجبور کرنے کی مذکورہ صورت  اکراہ ملجی کی ہے، کیونکہ مذکورہ بالا کیسیز سخت بے عزتی کا باعث ہیں، اورآج کل  اس طرح کے پولیس کیس میں جان و مال اورتلف عضو کا بھی شدید خطرہ ہے۔ اس لئے مذکورہ صورت میں صرف دستخط کردینے سے جبکہ زبان سے طلاق کا لفظ نہیں بولا ہے، کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

وأما ) ( أنواعه ) فالإكراه في أصله على نوعين إما إن كان ملجئا أو غير ملجئ فالإكراه الملجئ هو الإكراه بوعيد تلف النفس أو بوعيد تلف عضو من الأعضاء والإكراه الذي هو غير ملجئ هو الإكراه بالحبس والتقييد" (الھندیۃ.(35/5)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند  

متفرقات

Ref. No. 2081/44-2081

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ واللہ الموفق: نکاح کا مقصد دائمی الفت و محبت کا ایک رشتہ قائم کرنا اورشرم گاہ کی حفاظت کے ساتھ توالدو تناسل کی انسانی ضرورت کو پـورا کرنا ہےاسی لیے اسلام میں نکاح متعہ او رموقت کو حرام قرار دیا گیا ہے کہ اس میں ایک متعین وقت کے لیے شادی کی جاتی ہے ۔البتہ حضرات فقہاءاحناف نے متعہ یا موقت کے لیے عقد نکاح میں وقت کی قید کو ضروری قرار دیا ہے اس لیے اگر عقد میں وقت اور زمانے کی صراحت نہ ہو صرف دل میں ہو تو اس پر متعہ یا موقت کا اطلاق احناف کے نزدیک نہیں ہوتاہے اسی لیے اصولی طورپر نکاح کی یہ صورت کہ دو گواہوں کی موجودگی میںایجاب و قبول ہو اور زبان سے وقت اور زمانہ کو متعین نہ کیا جائے تو یہ درست ہے ۔تاہم مقصد نکاح کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنا مکروہ ہے ۔اس لیے بلا ضرورت شدیدہ طلاق دینے کی نیت سے نکاح کرنا کراہت سے خالی نہیں ۔مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں : تیسری صورت یہ ہے کہ مرد عورت باقاعدہ دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کے ذریعہ نکاح کریں اور نکاح میں اس بات کابھی کوئی ذکر نہیں ہوتاکہ یہ نکاح مخصوص مدت کے لیے کیا  جارہا ہے لیکن فریقین میں سے کسی ایک یا دونوں کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ ایک مخصوص مدت گزرنے کے بعد طلاق کے ذریعہ ہم نکاح ختم کردیں گے فقہاء کرام کی تصریح کے مطابق اس طرح کیا ہوا نکاح درست ہوجاتاہے اور مردو عورت باقاعدہ میاں بیوی بن جاتے ہیں اور ان کے درمیان نکاح کا رشتہ دائمی اور ابدی طورپر قائم ہوجاتاہے او ران پر ضروری نہیں ہوتاکہ وہ اپنے ارادے کے مطابق معین مدت پر طلاق دیں بلکہ ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ بغیر کسی عذر کے طلاق کا اقدام نہ کریں او رچوں کہ شریعت میں نکاح کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے بنایا گیا ہے اس لیے ان کایہ دلی ارادہ کہ کچھ عرصے بعد طلاق دے دیں گے شرعا ایک مکروہ  ا رادہ ہے لہذا اس ارادے کے ساتھ نکاح کرنا بھی مکروہ ہے۔  (فقہی مقالات 1/258)وبطل نكاح متعة، ومؤقت ، وإن جهلت المدة أو طالت في الأصح وليس منه ما لو نكحها على أن يطلقها بعد شهر أو نوى مكثه معها مدةمعينة(الدر المختار مع رد المحتار،3/51) أما إذا كان في تعيين الزوج أنه لا يقيم معها إلا سنة أو شهرا أو نحو ذلك ولم يشترط ذلك، فإنه نكاح صحيح عند عامة أهل العلم ما عدا الأوزاعي، فإنه قال في هذه الصورة: وهو متعة ولا خير فيه.(البنایۃشرح الہدایۃ5/62)لو تزوجہا مطلقا و فی نیتۃ ان یعقد معہا مدۃ نواہا فالنکاح صحیح ( عالمگیری،1/183)اما لو تزوج و فی نیتہ أن یطلقہا بعد مدۃ نواہا صح( فتح القدیر3/152)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن شریف کو گالی دینا کفر ہے۔ ’’العیاذ باللّٰہ‘‘ پس اس شخص سے جب وہ تو بہ بھی نہیں کرتا، مرتدین اور کفار جیسا معاملہ کیا جائے اور اس سے قطع تعلق کرلیا جائے۔(۱) ’’قال اللّٰہ تبارک وتعالی: {وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِي الْکِتٰبِ أَنْ إِذَاسَمِعْتُمْ أٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُبِھَا وَیُسْتَھْزَأُ بِھَا فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِيْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖٓ صلے ز  إِنَّکُمْ إِذًا مِّثْلُھُمْط إِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ  الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْکٰفِرِیْنَ فِيْ جَھَنَّمَ جَمِیْعاًہلا۱۴۰}(۲)

(۱) إذا أنکر آیۃ من القرآن واستخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أو عاب شیأ من القرآن کفر۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۷)

إذا أنکر الرجل آیۃ من القرآن، أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي ’’الخزانۃ‘‘: أو عاب کفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)

(۲) سورۃ النساء: ۱۴۔

دار العلوم وقف دیوبند

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول 178)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’محسن انسانیت‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے؛ البتہ اگر کوئی آدمی کسی دوسرے کے لئے تاویلاً بول دے تو گنجائش ہے اس لئے مطعون نہ کیا جائے۔(۱)

۱) {إِنَّمَآ  أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ} (سورہ کہف: ۱۱۰)
ألا أیہا الناس إنما أنا بشر۔ الحدیث، رواہ مسلم۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن، باب مناقب أہل بیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۸)
 عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن اللّٰہ فضلني علی الأنبیاء۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب السیر: باب ما جاء في الغنیمۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۳، رقم: ۱۵۵۳)
وأفضل الأنبیاء -علیہم السلام- محمد علیہ السلام۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’أفضل الأنبیائؑ محمد -ﷺ-: ص: ۱۴۰)
 لا یبلغ ولي درجۃ الأنبیاء علیہم۔(علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث لا یبلغ ولي درجۃ الأنبیائؑ‘‘: ص: ۱۶۴)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 193

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہماری نظر سے کوئی ایسی حدیث نہیں گزری جس میں کسی خاص نماز کے پڑھنے کا حکم دیا ہو صرف روزہ مشروع ہے۔(۱)

(۱) ومن البدع التي أحدثوہا في ہذا الشہر الکریم إن أول لیلۃ جمعۃ منہ یصلون في تلک اللیلۃ في الجوامع والمساجد وصلوٰۃ الرغائب إلخ۔ (أبو عبد اللّٰہ الشہیر بابن الحجاج، المدخل، ’’من البدع المحدثۃ في الجمعۃ الأولیٰ من رجب‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۳)
یستحب صوم یوم عاشوراء ویستحب أن یصوم قبلہ یوماً وبعدہ یوماً۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصوم: باب صوم التطوع، الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۴۶۹۸، رقم: ۲۰۴۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص471

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2437/45-3704

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

During the state of Ihram, one is not allowed to use fragrance or items that contain fragrance. Generally, make-up items contain fragrance, though in slightest amount. So, one should avoid such make-up items. However, if the make-up items do not contain any fragrance and do not smell as perfume, then it can be used and there is no harm using it during Ihram.

عن أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تطیبي وأنت محرمۃ ولا تمسي الحناء فإنہ طیب۔ (المعجم الکبیر للطبراني ۲۳؍۴۱۸ رقم: ۱۰۱۲، معرفۃ السنن والآثار ۴؍۲۶ رقم: ۲۸۶۱، نصب الرایۃ، الحج / باب الجنایات ۳؍۱۲۴)

والإسلام قد حرم علی المرأۃ أن تکشف شیئاً من عورتہا أمام الأجانب خشیۃ الفتنۃ۔ (روائع البیان ۲؍۱۶۲، بحوالہ: فتاویٰ محمودیہ ۲۸؍۹۵ میرٹھ)

ثم اعلم أن المحرم رجلاً کان أو امرأۃ ممنوع عن استعمال الطیب، فإن طیب محرم بالغ عضواً کاملاً فعلیہ دم، فإن طیب أقل من عضو تجب الصدقۃ ہو الصحیح۔ (البحر العمیق ۲؍۸۲۸)

والمحرم رجلاً کان أو امرأۃ ممنوع من استعمال الطیب، فإذا طیب عضواً کاملاً فعلیہ دم، وفي أقلہ صدقۃ أي في الصحیح۔ (مناسک ملا علی القاري ۳۱۲)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث کی معتبر کتابوں میں یہ حدیث ہمیں نہیں ملی؛ لیکن قرآن کریم کی آیت سے اس طرح کے مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ (۱)

(۱) {لّٰبِثِیْنَ فِیْھَآ أَحْقَابًا ہج ۲۳} (سورۃ النباء: ۲۳) وفي التفسیر:
أحقاباً جمع حقب والحقب الواحد: ثمانون سنۃ کل سنۃ إثنا عشر شہراً، کل شہر ثلاثون یوماً، کل یوم ألف سنۃ، روي ذلک عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ  عنہ۔ (البغوي، تفسیر البغوي، ’’سورۃ النباء‘‘۲۳، ج ۵،ص: ۲۰۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص110