نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قعدہ اخیرہ سے مراد وہ قعدہ ہے جو امام کا قعدہ اخیرہ ہو جس میں مسبوق کو صرف تشہد پڑھنا چاہئے خواہ آہستہ آہستہ ٹھہر کر پڑھے کہ امام کے سلام تک تشہد پورا ہوجائے یا تشہد ہی کو مکرر پڑھتا رہے اس پر درود دعاء کا اضافہ نہ کرے۔(۲)

(۲) ومنہا أن المسبوق ببعض الرکعات یتابع الأمام في التشہد الأخیر، وإذا أتم التشہد لا یشتغل بما بعدہ من الدعوات الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹، مکتبہ فیصل دیوبند)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص43

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس طرح چادر یا کپڑا اوڑھ کر نماز پڑھنے میں کوئی کراہت نہیں ہے۔ چادر اوڑھے ہوئے ہی ہاتھ اٹھائیں یا باہر نکال کر ہاتھ اٹھائیں دونوں درست اور جائز ہیں؛ لیکن چادر اس طرح اوڑھ کر نماز پڑھنا کہ منہ اور ناک چھپ جائے مکروہ ہے۔(۱)
(۱)یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار والتلثم، قال الشامي: قولہ والتلثم: وہو تغطیۃ الأنف والفم في الصلاۃ لأنہ یشبہ فعل المجوس حال عبادتہم النیران۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۳، زکریا)
ویکرہ التلثم وہو تغطیۃ الأنف والفم في الصلاۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص158

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: {انی لأجد} کے معنی ہیں کہ میں یقیناً اور بلا شبہ پاتا ہوں، محسوس کر رہا ہوں اور ’’انی لا أجد‘‘ کے معنی ہیں کہ میں بالکل نہیں پاتا محسوس نہیں کرتا تو ’’لا أجد‘‘ پڑھنے سے معنی بالکل بدل گئے اس لیے نماز نہیں ہوئی۔(۲)

(۲) وإن غیر المعنی تغییرا فاحشاً فإن قرأ‘‘ وعصی آدم ربہ فغوی ’’بنصب المیم‘‘ آدم ’’ورفع باء‘‘ ربہ ’’ … وما أشبہ‘‘ ذلک لو تعمد بہ یکفر وإذا قرأ خطأ فسدت صلاتہ … الخ۔ (الفتاویٰ الخانیۃ علی ہامش الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۸)
إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن لا تفسد ’’صلاتہ‘‘ نحو: إن قرأ مکان العلیم الحکیم … وإن کان في القرآن ولکن لا تتقاربان في المعنی نحو: إن قرأ {وعدا علینا إنا کنا غافلین} مکان ’’فاعلین‘‘ ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص275

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دو دو رکعت پڑھنا بہتر ہے۔(۱)

(۱) حدثنا أبو الیمان قال: أخبرنا شعیب عن الزہري قال: أخبرني سالم بن عبد اللّٰہ: أن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: إن رجلاً قال: یا رسول اللّٰہ( صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کیف صلاۃ اللیل؟ قال: مثنیٰ مثنیٰ فإذا خفت الصبح فأوتر بواحدۃ۔ (فیض الباري، ’’کتاب التہجد: باب کیف کانت صلاۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم و کم کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی من اللیل‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۱۱۳۷، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)
والأفضل في اللیل عند أبي یوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ مثنیٰ مثنیٰ، وفي النہار أربع أربع، وعند الشافعي رحمہ اللّٰہ فیہما مثنیٰ مثنیٰ، وعند أبي حنیفۃ فیہما أربع أربع۔ (بدر الدین العیني، البنایۃ في شرح الھدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل‘‘: ج ۲، ص: ۶۱۵، دارالفکر)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص385

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 954

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: زید اپنی ملکیت میں مکمل بااختیار ہے، چاہے برابر تقسیم کرے  اور یہ بہتر ہے اور چاہے حصہ میراث کے اعتبار سے تقسیم کرے اور چاہے تو کسی کوکچھ  کم اور کسی کچھ کو زیادہ جیسی ضرورت ہو دیدے تاہم اس کا خیال رکھے  کسی  پر عرفاً ظلم  نہ سمجھاجائے؛ ورثہ کے علاوہ کسی اور کو بھی کچھ دینا چاہے  تو دے سکتا ہے ، اس کو اپنی ملکیت میں تصرف کا مکمل اختیار ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 39 / 939 In the name of Allah the most Gracious the most Merciful The answer to your question is as follows: Salah (namaz) and Ghusl are not mandatory at all on women during monthly period. In the days other than monthly period, if women see white discharge without any lust or wet dream, it will invalidate their wudhu and not ghusl. So in this case, you have to do wudhu only when you want to perform salah. Ghusl is not obligatory on you in the case you have mentioned. And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 870/41-134

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful 

The answer to your question is as follows:

You can make niyyat of such optional prayers along with Salat al-Tasbeeh prayer.  It is written in Fatawa Mahmoodiya that making niyyat of Istighfar, Salatul hajat etc in Tahiyyatul Wudu is allowable. The same is mentioned in other Fiqh books. (Fatawa Mahmudiya 7/712)

 وکذا یصح لو نوی نافلتین او اکثر کمالونوی تحیۃ مسجد وسنۃ وضوء وضحی وکسوف (حاشیۃ الطحطاوی باب شروط الصلوۃ وارکانہا 1/216)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

تجارت و ملازمت

Ref. No. 956/41-121

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   لون کی رقم پر بہرحال سود دینا پڑتا ہے، لہذا ایسی صورت اختیار کرنے کی پوری کوشش کریں کہ لون نہ لینا پڑے۔ اگر تنخواہ دینے کے لئے لون لینے کی ضرورت ہو تو  فی الحال ملازمین سے معذرت کردیں کہ اس وقت تنخواہ دینے کی گنجائش نہیں ہے ، جب گنجائش ہوگی تو دے دی جائے گی۔ پھر ملازمین کے بعد اگر خود کے گزارہ کی کوئی گنجائش نہ ہو اور غیرسودی قرض بھی نہ ملے تو اپنے طور پر سودی قرض لے سکتے ہیں۔

 یجوز للمحتاج الاستقراض بالربح۔  والضرورات تبیح المحظورات ۔(الاشباہ)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1065/41-244

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ کمپنی اپنے یوزرس کو اس طرح کے پیسے بطور انعام دیتی ہے، اس لئے اس کا استعمال  جائز ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1160/42-384

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) میت کے چھوڑے ہوئے کل سامان و جائداد  کل چالیس حصوں میں بانٹیں گے جن میں سے مرحوم کی بیوہ کو 5 حصے، ہر ایک بیٹے کو 14 (کل 28حصے) اور ایک بیٹی کو7 حصے ملیں گے۔ بہن بھائیوں کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ (2) انشورنس کمپنی کو مرحوم نے جتنی رقم جمع کی ہے اتنی ہی رقم لینے کی اجازت ہے، اس سے زیادہ سب سود ہے جو بلانیٹ ثواب واجب التصدق ہے۔ البتہ اگر مرحوم کے ورثہ خود غریب اور محتاج ہوں تو سودی رقم کو اپنے استعمال میں بھی لاسکتے ہیں۔ (3) سودی رقم کا حکم یہی ہے کہ اس کو فقراء پر بلانیت ثواب صدقہ کردیا جائے۔  (4) انشورنس  کی زائد رقم حرام ہے، البتہ اگر حکومت کی طرف سے کچھ رقم ملے تو اس کو وراثت کے طریقہ پر تقسیم کرلیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند