حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امی اس کو کہتے ہیں جس نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو اور جاہل وہ ہے، جس کو کوئی علم حاصل نہ ہو، دونوں میں فرق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی استاذ نہیں تھا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امی کہا جاتا ہے اور یہ کہنا درست ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنے علوم عطا فرمائے تھے کہ دنیا میں کسی کو بھی اتنے علوم لکھنا پڑھنا سیکھنے کے باوجود حاصل نہیں ہوسکے؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے عالم ومعلم ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہل کہنا خلاف واقعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے پڑھے ہوئے نہ تھے؛ اس لئے انپڑھ کہنا درست نہیں ہے۔ اب اگر کوئی شخص آپ کو صلی اللہ علیہ وسلم کو انپڑھ کہتا ہے اور اس کی سمجھ میں یہ امی کا ترجمہ ہے (جس نے پڑھنا  لکھنا نہ سیکھا ہو)، تو وہ گنہگار نہیں ہے، تاہم انپڑھ کا لفظ استعمال کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رفعت کے خلاف ہے۔ اور جاہل کہنا تو قطعاً درست نہیں ہے، اگر اپنی دانست میں اس نے یہ امی ہی کا ترجمہ کیا ہے؛ اگرچہ غلط کیا ہے، تو وہ اس کلمہ سے دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوا اور اگر عیاذا باللہ اہانت کے لئے اس جملہ کو استعمال کیا تو وہ بلا شبہ مرتد ہوجائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لفظ امی بولنے کی ضرورت پیش آئے تو امی لفظ بولا جائے، انپڑھ وغیرہ الفاظ سے اجتناب کیا جائے۔(۱)

(۱) محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسر المظہري، ’’سورۃ الأعراف: ۱۵۷‘‘: ج ۳، ص: ۴۴۲۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص208

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2611/45-4053

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ میں نماز درست ہوگئی، اس لئے معنی میں کوئی ایسی خرابی نہیں آئی جو مفسد صلوۃ ہو،  مکذبین کے لئے حسرت کی اس میں مزید تاکید ہوگئی، اس لئے نماز درست ہوگئی۔

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو استعمال نہ کیا جائے؛ لیکن اگر مجبوری ہے، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ دیگ میں جتنا شوربا ہے، اتنا ہی پانی اس میں ڈال کر پکایا جائے؛ تاکہ زائد پانی جل جائے؛ اس طرح تین مرتبہ کرنے سے دیگ پاک ہو جائے گی۔ یہی قول امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ  کا ہے اور یہی مفتی بہ ہے۔(۱)
    ’’ویطہر لبن و عسل ودبس ودہن یغلیٰ ثلاثاً، وفي رد المحتار علی الدر المختار ولو تنجس العسل فتطہیرہ أن یصب فیہ ماء بقدرہ فیغلیٰ حتی یعود إلی مکانہ، والدہن یصب علیہ الماء فیغلیٰ فیعلو الدہن الماء فیرفع بشیئ ہکذا ثلث مرات، وہذا عند أبي یوسف رحمہ اللہ خلافا لمحمد رحمہ اللہ وہو أوسع وعلیہ الفتویٰ۔ (۲)’’الدہن النجس یغسل ثلاثاً، بأن یلقیٰ في الخابیۃ، ثم یصب فیہ مثلہ ماء، ویحرک، ثم یترک حتی یعلو الدہن، فیؤخذ أو یثقب أسفل الخابیۃ حتی یخرج الماء، ہکذا ثلاثاً فیطہر۔‘‘(۳) ’’وفي المجتبی: تنجس العسل یلقی في قدر ویصب علیہ الماء ویغلیٰ حتی یعود إلی مقدارہ الأول ہکذا ثلاثاً قالوا وعلی ہذا الدبس۔(۴)

(۱)إمداد الفتاویٰ جدید، کتاب الطہارۃ باب الأنجاس وتطہیرہا،ج۱، ص:۴۳۳ ، ایضاً: ۷۲۳)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في تطہیر الدہن والعسل‘‘ ج۱، ص:۵۴۳
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الأول، في تطہیر الأنجاس،ج۱، ص: ۹۷)
(۴) ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ،باب الأنجاس، ج۱، ص: ۴۱۱

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص411

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں وہ کنواں تین دن تین رات سے ناپاک سمجھا جائے گا اور جن لوگوں نے اس مدت میں اس کے پانی سے وضوء کیا یا نہاکر نماز پڑھی ہے، ان کو اپنی نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا اور کنویں کا سارا پانی نکالا جائے گا، اگر سارا پانی ممکن نہ ہو، تو تین سو ڈول کا نکالنا واجب ہوگا، اس کے بعد کنواں پاک ہو جائے گا۔(۲)

(۲) فإن انتفخ الحیوان فیھا أو تفسخ نزح ما فیھا صغر الحیوان أو کبر لانتشار البلۃ في أجزاء الماء۔ (المرغیناني الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۴۳)،  و إن کانت قد انتفخت أو تفسخت أعادوا صلوۃ ثلثۃ أیام و لیالیھا۔ (المرغیناني، الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱، ص:۴۳)،؛ و (متنفخ) ینجسھا من ثلاثۃ أیام و لیالیھا إن لم یعلم وقت وقوعہ۔ (احمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الطہارۃ، فصل في مسائل آبار، ص:۴۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص465

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:گردن پر مسح کے سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث نہیں ملی، اس باب میں جو احادیث ملتی ہیں، ان کو علماء نے ضعیف قرار دیا ہے؛ اس لیے احناف کے نزدیک گردن پر مسح کرنا سنت نہیں ہے؛ ہاں مستحب ہے؛ کبھی کرلے اور کبھی چھوڑدے؛ اس کی گنجائش ہے۔(۱)

(۱)و مستحبہ التیامن و مسح الرقبۃ قولہ (و مسح الرقبۃ) ھو الصحیح، و قیل: إنہ سنۃ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر، ’’کتاب الطہارۃ،  مطلب لا فرق بین المندوب، والمستحب والنفل والتطوع، ج۱، ص:۲۴۶)؛  و قال ظفر أحمد التھانوی بعد ما ساق أحادیث المسح علی الرقبۃ: دلّت ھذہ الأحادیث علی استحباب مسح الرقبۃ، ولا یمکن القول بسنیتہ لعدم نقل المواظبۃ (ظفر احمد عثماني، إعلاء السنن، کتاب الطہارۃ، باب استحباب مسح الرقبۃ، ج۱، ص:۶۶)؛ و في الظھیریۃ: قیل : مسح الرقبۃ مستحب۔ ( عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الأول، فيالوضوء، المسح علی الرقبۃ والاختلاف فیہ‘‘، ج ۱،ص:۲۲۶)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص135

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اونٹ کا گوشت استعمال کرنے سے وضو نہیں ٹوٹتا    سوال میں مذکورہ خیال غلط ہے؛ البتہ کلی کرکے اچھی طرح منہ صاف کرکے نماز پڑھنا بہتر ہے، تاکہ منھ کی بدبو سے لوگوں کو تکلیف نہ پہونچے۔ عن أبي أمامۃ الباھلي ۔۔۔ فقلت: الوضوء یارسول اللّٰہ، فقال صلی اللہ علیہ وسلم : إنما علینا الوضوء مما یخرج لیس مما یدخل(۱)

(۱) علاء الدین الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، فصل: و أما بیان ما ینقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۱۱۹
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص235

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شادی شدہ مرد اپنی بیوی کی اجازت اور رضامندی کے بغیر چار ماہ سے زیادہ مدت تک دور نہ رہے(۲) امام کو بیوی نے اجازت دی ہوگی اور ملازمت کی وجہ سے دور رہنے پر رضامند ہوگی لہٰذا ان کی امامت میں شبہ نہ کیا جائے۔

(۲) ویؤمر المتعبد بصحبتہا أحیاناً، ویؤیدہ ذلک أن عمر رضی اللّٰہ عنہ مما سمع في إمرأۃ تقول الطویل فواللّٰہ لولا اللّٰہ تخشیٰ عواقبہ، لزجزح من ہذا السریر جوانبہ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب القسم‘‘: ج۴، ص: ۳۸۰، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص94

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر ظہر کی سنتیں نہ پڑ سکا ہو تو بھی امامت درست ہے لیکن بلا عذر ایسا نہیں کرنا چاہئے اور اس کی عادت بنا لینا تو بہت ہی برا ہے۔
’’الذي یظہر من کلام أہل المذہب أن الإثم منوط بترک الواجب أو السنۃ المؤکدۃ علی الصحیح لتصریحہم بأن من ترک سنن الصلوات الخمس قیل: لا یأثم والصحیح أنہ یأثم ذکرہ في فتح القدیر‘‘(۱)
’’رجل ترک سنن الصلوات الخمس إن لم یر السنن حقا فقد کفر لأن جاء الوعید بالترک‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في السنۃ وتعریفہا‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۰، زکریا دیوبند۔
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۸۶، زکریا دیوبند۔
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- أن النبي صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کان إذا لم یصل أربعاً قبل الظہر صلاہن بعدہا۔ (أخرجہ الترمذي  في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ماجاء في الرکعتین …بعد الظہور‘‘: ج۱، ص: ۹۷، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص307

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اہل علم کی تعظیم کی خاطر خود پیچھے ہٹ کر ان کو پہلی صف میں جگہ دینا بلا کراہت درست ہے؛ بلکہ ان کا یہ فعل مناسب ہے۔(۱)
’’وإن سبق أحد إلی الصف الأول فدخل رجل أکبر منہ سنا أو أہل علم ینبغي أن یتأخر ویقدمہ تعظیماً لہ فہذا یفید جواز الإیثار بالقرب بلا کراہۃ خلافاً للشافعیۃ، ویدل علیہ … وقولہ تعالیٰ: {ویؤثرون علٰی أنفسہم ولوکان بہم خصاصۃ}(۲)

(۱) عن ابن مسعود -رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ- قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لیلني منکم أولوا الأحلام والنہي ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب تسویۃ الصفوف وإقامتہا وفضل الأول فالأول‘‘: ج۱، ص: ۱۸۱، رقم: ۴۳۲)
قال النووي رحمہ اللّٰہ تعالیٰ في ہذا الحدیث: تقدیم الأفضل فالأفضل لأنہ أولیٰ بالإکرام لأنہ ربما یحتاج الإمام إلی الاستخلاف فیکون ہو أولیٰ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ج۴، ص: ۳۴۱)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في جواز الإیثار بالقرب‘‘: ج۲، ص: ۳۱۰۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص421

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ اذان واقامت کے درمیان کتنا وقفہ ہونا چاہئے؟ اس سلسلہ میں احادیث مبارکہ میں کوئی تحدید نہیں ہے؛ بلکہ اذان واقامت کے دوران عام طور پر اتنا وقت ہونا چاہئے کہ کھانا کھانے والا کھانے سے اور جس کو قضائے حاجت ہو وہ حاجت پوری کر لے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’عن جابر، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لبلال: یا بلال، إذَ أذنت فترسل في أذانک، وإذا أقمت فاحدر، واجعل بین أذانک وإقامتک قدرما یفرغ الآکل من أکلہ، والشارب من شربہ‘‘(۱)
امام بخاریؒ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ اذان کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مسجد کے ستونوں کو اپنے آگے کرکے نماز پڑھا کرتے تھے، یہاں تک کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ سے نکلتے اور امامت فرماتے تھے۔
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان المؤذن إذا أذن قام ناس من أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یبتدرون السواري حتی یخرج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘(۲)

حضرت عبداللہ بن مغفل المزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بین کل أذانین صلاۃ ثلاثا لمن شاء‘‘(۱)
ہر دو اذانوں (یعنی اذان و اقامت) کے درمیان نماز ہے۔ (یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دہرایا) اس شخص کے لیے جو نماز پڑھنا چاہے۔‘‘
 ان تفصیلات سے واضح ہو جاتا ہے کہ اذان واقامت کے درمیان اتنا وقفہ کم از کم ضرور ہونا چاہیے کہ کوئی شخص چاہے تو چند رکعتیں نوافل ادا کرلے۔
اذان کا مقصد لوگوں کو نماز کا وقت ہونے کی اطلاع دینا ہے، تاکہ وہ مسجد آکر باجماعت نماز ادا کرلیں۔ اس لیے اذان و اقامت کے درمیان اتنا فاصلہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ کوئی شخص اذان سننے کے بعد حوائج ضروریہ سے فارغ ہو، وضو کرے اور مسجد تک آئے تو اس کی تکبیر اولیٰ فوت نہ ہو، حافظ ابن حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اذان واقامت کے درمیان وقفہ کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ: ’’اس کی کوئی حد نہیں، سوائے اس کے کہ وقت ہوجائے اور نمازی اکٹھاہوجائیں۔‘‘
’’لاحدّ لذلک غیرتمکن دخول الوقت واجتماع المصلین‘‘(۲)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ،’’أبواب الصلاۃ، باب ما جاء في الترسل في الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۱۹۵۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب کم بین الأذان والإقامۃ ومن ینتظرالإقامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۷، رقم: ۶۲۵۔
(۱) أیضًا۔ (۲) ابن حجر العسقلاني، فتح الباري شرح البخاري: ’’کتاب الأذان، باب کم بین الأذان والإقامۃ ومن ینتظر الإقامۃ‘‘، ج ۳، ص: ۱۳۳۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص203