Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: اگر وہ چھپکلی جس میں خون ہوتا ہے، کنویں میں گر جائے اور پھولے پھٹے نہیں، مردہ نکل آئے، تو تیس ڈول پانی نکالے جائیں گے، اگر پھول پھٹ گئی، تو اس کو نکال کر کنویں کا سارا پانی نکالا جائے گا؛ لیکن اگر کنویں کا پانی اس قدر ہے کہ اس کا نکالنا بھی مشکل ہے، تو تین سو ڈول نکال لیے جائیں، اس طرح کنواں پاک ہو جائے گا۔چڑیا اور چوہے کا بھی یہی حکم ہے، اگر پھول پھٹ گیا ہو اور اگر پھولا پھٹا نہ ہو، تو بیس سے تیس ڈول تک نکالا جائے گا۔جوتا چپل اگر نجس ہے، تو سارا پانی ناپاک ہو گیا، اس کو پاک کرنے کا وہی طریقہ ہے، جو اوپر مذکور ہوا۔ اگر جوتا چپل ناپاک نہیں تھا، تو کنویں کا پانی پاک ہے، اس میں شبہ نہ کیا جائے۔(۱)
(۱) لو کان للضفدع دم سائل یفسد أیضا، و مثلہ لو ماتت حیۃ بریۃ لا دم فیھا في إناء لاینجس، و إن کان فیھا دم ینجس۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطھارۃ، باب الماء الذی یجوز بہ الوضوء ومالا یجوز،ج۱، ص:۹۰)؛ و إن ماتت فیھا فارۃ أو عصفورۃ أو سودانیۃ أو صعوۃ أوسام ابرص نزح منھا عشرون دلوا إلی ثلاثین بحسب کبر الدلو و صغرھا؛ یعني بعد إخراج الفارۃ لحدیث انس رضي اللہ تعالیٰ الخ۔ إلی فإن انتفخ الحیوان فیھا أو تفسخ نزح جمیع ما فیھا۔ (المرغینانی، الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۴۳-۴۲)؛ ینزح کل مائھا بعد إخراجہ لا إذا تعذر کخشبۃ أو خرقۃ متنجسۃ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، فصل في البئر، ج۱، ص:۳۶۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص464
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یعنی: اگر پیروں کی پھٹن کو سی دیا جائے، تو اب پانی اندر پہونچے یا نہ پہونچے؛ بہرصورت وضو درست ہوگا۔(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب الأول في الوضوء، الفرض الثالث: غسل الرجلین،ج۱، ص:۵۴
(۲) وعلل في الدرر بأن محل الفرض استتر بالحائل، و صار بحال لا یواجہ الناظر إلیہ، فسقط الفرض عنہ، و تحول إلی الحائل۔(ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في معنی الاشتقاق و تقسیمہ،‘‘ ج ۱، ص:۲۱۱)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص134
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فقہاء احناف کے نزدیک فرائض وضو چار ہیں: چہرہ دھونا دونوں ہاتھ اور دونوں پاؤں کا دھونا، سر کا مسح کرنا، فرض الوضوء أربعۃ أشیاء (۱) غسل الوجہ۔ (۲) والیدین (۳)والرجلین (۴) و مسح ربع الرأس۔(۱)
جب کہ امام مالکؒ اور امام شافعیؒ کے نزدیک بسم اللہ پڑھنا اور وضو کی نیت کرنا بھی فرض ہے امام احمد بن حنبلؒ اور اسحاق بن راہویہؒ کے نزدیک مضمضہ (کلی کرنا) اور استنشاق (ناک میں پانی لینا) بھی فرض ہے ۔
و عند أہل الحدیث ثمانیۃ أشیاء؛ ہذہ الأربعۃ، و أربعۃ آخری۔ فقد قال مالکؒ والشافعيؒ: التسمیۃ والنیۃ فریضتان في الوضوء۔ وقال أحمد بن حنبل و اسحاق بن راہویہؒ: المضمضۃ والاستنشاق في الوضوء۔ (۲)
(۱)الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، أرکان الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۶۶ تا ۷۲
(۲) أبو الحسن علي بن محمد السغدي الحنفي، النتف في الفتاوی،’’ کتاب الطھارۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۴
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص234
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: چوں کہ بکرے وغیرہ ذبح کرنا کوئی عیب نہیں ہے(۱) اس لیے اس کی امامت بلا شبہ درست ہے۔
(۱) {وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاْکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ…اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِط وَاِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَآئِھِمْ بِغَیْرِعِلْمٍط اِنَّ رَبَّکَ ھُوَاَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَہ۱۱۹} (سورۃ الانعام: ۱۱۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص94
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز تو ادا ہوگئی لیکن امام کو ایسا ہرگز نہ کرنا چاہئے، مؤکدہ سنتوں کا اہتمام ضروری ہے مؤکدہ سنتوں کا چھوڑنا برا ہے اور ان کے چھوڑنے پر اصرار یعنی اکثر چھوڑنا گناہ کبیرہ ہے۔
’’وآکدہا سنۃ الفجر اتفاقاً لحدیث من ترکہا لم تنلہ شفاعتي‘‘(۱)
’’وفي مسلم رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیہا وفي أبي داؤد لا تدعوا رکعتي الفجر ولو طردتکم الخیل‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۳، زکریا دیوبند۔
(۲) أیضًا:۔
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: لم یکن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی شيء من النوافل أشد تعاہدا منہ علی رکعتي الفجر، متفق علیہ، (البغوي، مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب السنن وفضائلہا، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۱۰۴، یاسر ندیم دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص306
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر صف میں کھڑے ہونے کی گنجائش نہ ہو تو امام کے رکوع میں جانے تک تو انتظار کرے اگر کوئی دوسرا شخص آجائے تو اس کے ہمراہ امام کی سیدھ میں صف کے پیچھے کھڑا ہوجائے اگر کوئی نہ آئے تو اکیلا ہی کھڑا ہوجائے اور اگر آتے ہی امام کے پیچھے سیدھ میں تنہا صف میں کھڑا ہوجائے تو یہ بھی جائز ہے۔(۱)
’’ومتی استویٰ جانباہ یقوم عن یمین الإمام إن أمکنہ فإن وجد في الصف فرجۃ سدہا وإلا انتظر حتی یجيء آخر فیقفان خلفہ وإن لم یجيء حتی رکع الإمام یختار أعلم الناس بہذہ المسألۃ فیجذبہ ویقفان خلفہ ولو لم یجد عالماً یقف خلف الصف بحذاء الإمام للضرورۃ ولو وقف منفرداً لغیر عذر تصح صلاتہ عندنا خلافاً لأحمد‘‘(۲)
(۱) ویقف الواحد رجلا کان أو صبیاً ممیّزاً عن یمین الإمام مساویاً لہ متاخراً بعقبہ … ویقف الأکثر من واحد خلفہ، الخ … فإذا استویٰ الجانبان یقوم الجائي عن جہۃ الیمین وإن ترجح الیمین یقوم عن یسار۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۵، شیخ الہند دیوبند)
(۲) الحصکفي، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۳۱۰، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص420
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام کے پیچھے محاذات میں کھڑے ہوکر تکبیر کہنے کا تعامل ہے اس لیے یہی افضل ہے، البتہ حسب ضرورت وحسب موقعہ جس طرف کھڑے ہوکر تکبیر کہہ دے درست ہے۔ شرعی ضرورت کے بغیر ادھر ادھر کھڑے ہوکر تکبیر کہنا خلاف اولیٰ ہے، مگر تکبیرات کا اعادہ نہ ہوگا۔(۱)
(۱) ویسن الأذان في موضع عال والإقامۃ علی الأرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۸، زکریا دیوبند)
وعن أبي مسعود الأنصاري رضي اللّٰہ عنہ، قال : کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یمسح مناکبنا في الصلوٰۃ ویقول استووا ولا تختلفوا فتخلتف قلوبکم لیلیني منکم أولوا الأحلام والنہي ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم، قال أبو مسعود: فأنتم الیوم أشد اختلافاً، رواہ مسلم۔ (أبو عبد اللّٰہ، محمد بن عبد اللّٰہ، مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوۃ، تسویۃ الصف، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۹۸، رقم:۱۰۸۸)
وینبغي أن یکون المؤذن رجلا عاقلاً صالحاً تقیا عالماً بالسنۃ … والأحسن أن یکون إماما في الصلوٰۃ … ویکرہ الأذان قاعداً، وإن أذن لنفسہ قاعداً فلا بأس بہ، والمسافر إذا أذن راکباً لا یکرہ وینزل للإقامۃ، کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ وإن لم ینزل وأقام أجزاہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان‘‘: الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن، ج ۱، ص: ۱۱۱، زکریا،دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص202
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ یہ نوافل بیٹھ کر پڑھے ہیں، مگر کوئی دوسرا شخص بغیر عذر اگر بیٹھ کر پڑھے گا، تو اس کو آدھا ثواب ملے گا۔ روایت ہے کہ تمہاری نماز بیٹھے ہونے کی حالت میں اس کے کھڑے ہونے کی نماز کے نصف کے برابر ہے۔(۱)
ہاں! اگر کوئی شخص اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت سے بیٹھ کر پڑھے گا، تو اس کو دو ثواب ملیں گے، نفلوں کا اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا۔
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج، فرأی أناسا یصلون قعودا، فقال: صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم‘‘(۱)
(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: صلاۃ الجالس علی النصف من صلاۃ القائم۔
(أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’الجزء الحادی عشر،مسند عبداللّٰہ ابن عمر‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۷، رقم: ۶۸۰۳)
(۱) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلوات و السنۃ فیھا، باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۸، رقم: ۱۲۳۰۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص389
اسلامی عقائد
Ref. No. 1193 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔قلم سے مروجہ طریقہ پر لکھنا اگر باعث برکت ہے تو مہر کے ذریعہ لکھ دینا بھی باعث برکت ہے؛ اصل مقصود تو لکھاجانا ہے، جائز طریقہ پر علاج کے لئے اس طرح لکھنا بھی شرعاً درست ہے،۱۰،۱۲ سال کا بچہ ممیز ہوتا ہے، اس سے مذکورہ تعاون لینا بھی درست ہے، غیر شرعی طریقہ سے احتراز لازم ہے۔ ماخوذ من امداد الفتاوی۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 962
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ایک دینی جلسہ کے لئے اس طرح بغرض چندہ غیر شرعی طریقہ اختیار کرنا قابل مذمت اور واجب الترک ہے، جولوگ بخوشی دیں ان سے ہی وصول کیا جائے ، بلاوجہ کسی پر اس کا بار نہ ڈالا جائے اور کسی سے بھی زبردستی نہ کی جائے، راستہ پرگاڑیوں کو روکنا اور زبردستی چندہ لینا کسی کے لئے بھی مناسب نہیں ہے؛ اس میں معاشرتی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند