طلاق و تفریق

Ref. No. 2612/45-4052

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت  مسئولہ میں اس شخص کی دماغی حالت یقینا خراب ہے، لیکن جو کچھ وہ کرتاہے یا بولتاہے وہ اپنے اختیار سے کرتا اور بولتاہے گوکہ اس کو غلطی کا احساس کم ہوتاہے یا بالکل نہیں ہوتاہے، ایسا شخص سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے کم  ہونے کی وجہ سے مجنون یا پاگل یا مغلوب العقل نہیں کہاجائے گا۔   اس لئے شخص مذکور نے اگر تین طلاقیں دی ہیں تو تینوں طلاقیں واقع گردانی جائیں گی، اور اب اس کی بیوی کو اس سے الگ کردیا جائے گا، تاکہ وہ عدت شرعی گزار کر کسی دوسرے مرد سے شادی کرنے میں آزاد ہو۔

"لایقع طلاق المولی علی امرأة عبدہ والمجنون". (تنویر) وفي الشامية: "قال في التلویح: الجنون اختلال القوة الممیزة بین الأمور الحسنة والقبحة المدرکة للعواقب بأن لا تظهر آثارها وتتعطل أفعالها". (شامي: ۴/۴۵۰)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:گوبر نجس ہے، صرف سوکھنے سے وہ پاک نہیں ہوتا، اس  پر پیر رکھا جائے اور وہ پیر پر نہ لگے، تو کوئی حرج نہیں؛ لیکن اگر گیلے پیر ہیں اور وہ پیروں پر لگ جائے تو پیر ناپاک ہو جائیں گے۔(۱)

(۱) و إذا جعل السرقین في الطین فطین بہ السقف، فیبس، فوضع علیہ مندیل مبلول لا یتنجس۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ،الفصل الثانی: في الأعیان النجسۃ ، ج۱، ص:۱۰۲)؛ و إذا فرش علی النجاسۃ الیابسۃ فإن کان رقیقا یشف ما تحتہ او توجد منہ رائحۃ النجاسۃ علی تقدیر أن لھا رائحۃ لا تجوز الصلوۃ علیہ، و إن کان غلیظا بحیث لا یکون کذلک جازت الخ۔ (ابن عابدین، حاشیہ ردالمحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، مطلب في التشبہ بأھل الکتاب، ج۲، ص:۳۸۷)؛  و إذا أراد أن یصلی علی الأرض علیھا نجاسۃ، فکبسھا بالتراب، ینظر: إن کان التراب قلیلا بحیث لو استشمہ یجد رائحۃ النجاسۃ، لا یجوز، و إن کان کثیرا لا یجد الرائحۃ، یجوز ھکذا في ’’التاتارخانیۃ‘‘ و إذا کان علی الثوب المبسوط نجاسۃ و فرش علیہ التراب لا یجوز، ھکذا في ’’السراج الوھاج‘‘۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،کتاب الصلاۃ،الباب الثالث:في شروط الصلاۃ، الفصل الثاني طہارۃ ما یستر بہ العورۃ وغیرہ، ج۱، ص:۱۱۹، و ہکذا في الفتاویٰ التاتارخانیہ، ج۱، ص:۲۳۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص418

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: چوںکہ اس میں کوئی ناپاکی نہیں ہے، اس لیے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا جائز ہے۔(۱)

(۱) اس پانی سے وضو کرنا بلاکراہت جائز ہے۔ فقط، فتاویٰ رشیدیہ، باب غسل ووضو کا بیان، ص:۲۸۳)؛ و طاھر مطھر غیر مکروہ وھو الماء المطلق الذي لم یخالطہ ما یصیر بہ مقیداً۔ (احمد بن محمد، حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الطہارۃ، ص:۲۱)؛  و قولہ علیہ السلام: الماء طھور لا ینجسہ شيء إلا ما غیر طعمہ أو لونہ أو ریحہ۔ (محمود بن احمد، البنایہ، کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء و مالا یجوز ،ج۱، ص:۳۵۳)؛  قلت معنی قولہ علیہ السلام: الماء طہور لا ینجسہ شيء إلا ماغیر۔ الحدیث، أي لا ینجسہ شيء نجس۔(محمود بن أحمد، البنایہ، کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي یجوز بہ الوضو ومالا یجوز بہ، ج۱، ص:۳۶۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص466

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: پیر دھونا اور اگر خفین پہنے ہوں، تو ان پر مسح کرناجب فرض ہے(۱)؛ تو جوتے پہن کر وضو کرنے کا کیا مطلب ہے؟ جوتے تو بہرحال اتارنے ہی پڑیںگے۔(۲)

(۱) عن سعید بن المسیب والحسن أنھما قالا: یمسح علی الجوربین إذا کانا صفیقین۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ، ’’کتاب الطہارۃ، في المسح علی الجوربین‘‘ ج۱، ص:۲۷۶، رقم :۱۹۸۸، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲)لا شک أن المسح علی الخف علی خلاف القیاس، فلا یصلح إلحاق غیرہ بہ، إلا إذا کان بطریق الدلالۃ وھو أن یکون في معناہ و معناہ (الساتر) لمحل الفرض الذي ھو بصدد متابعۃ المسح فیہ في السفر وغیرہ للقطع بأن تعلیق المسح بالخف لیس لصورتہ الخاصۃ؛ بل لمعناہ للزوم الحرج في النزع المتکرر في أوقات الصلاۃ خصوصاً مع آداب السیر۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، فصل في الآثار، باب المسح علی الخفین‘‘، ج۱، ص:۱۵۸)؛ اور جوربین اگر موٹے ہوں تو ان پر مسح کرنے کے تو بعض فقہاء قائل بھی ہیں لیکن جوتوں پر مسح کرنا تو کسی بھی امام کے مذہب میں جائز نہیں۔ لم یذھب أحد من الأئمۃ إلی جواز المسح علی النعلین۔ (محمد یوسف البنوري، معارف السنن، ’’باب في المسح علی الجوربین والنعلین‘‘ ج۱، ص:۳۴۷،مکتبۃ أشرفیۃ، دیوبند)

 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص136

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:القہقہۃ في کل صلوٰۃ فیہا رکوع و سجود تنقض الصلوٰۃ والوضوء(۱)
 قہقہہ مار کر ہنسنا رکوع و سجدے والی نماز میںناقض وضو ہے، اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جب کہ نماز جناز ہ میں ہنسنے سے وضو نہیں ٹوٹنا؛ صرف نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
حدیث میں ہے: إن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلي بالناس فدخل أعمی المسجد فتردی في بئر فضحک ناس فأمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کان ضحک أن یعید الوضوء والصلاۃ۔(۲)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ زور سے ہنسنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، ساتھ ہی وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے۔

(۱) جماعۃ من علماء الھند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس في نواقض الوضوء، و منھا القھقھۃ،‘‘ ج۱، ص:۶۳
(۲) أخرجہ دار قطني، في سننہ، کتاب الطہارۃ، باب أحادیث القھقھۃ في الصلاۃ و عللھا، ج۱، ص: ۱۸-۲۱۹ (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص236

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ حافظ صاحب کی امامت درست ہے، لڑکی پر پردہ لازم اور ضروری ہے۔امام کو چاہئے اس کو اس بات سے روکے اگر امام صاحب اپنی بچی کو سمجھاتے نہیں ہیں تو ان کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔(۱)

(۱) وروي محمد عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وأبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالیٰ أن الصلاۃ خلف أہل الہواء لاتجوز، والصحیح أنہا تصح مع الکراہۃ خلف من لاتکفرہ بدعتہ لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بروفاجر وصلوا علی کل بروفاجر الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ … ثم الأحسن خلقا … ثم أکثرہم حسب ثم الأشرف نسبا … قولہ وفاسق من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۹۸ - ۲۹۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص95

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے جمعہ کی نماز پڑھ لی، تو اس کے اوپر ظہر لازم نہیں رہی وہ ظہر کی نماز اگر پڑھے گا تو وہ نفل ہوگی ان کے ظہر کو فرض نہیں کہا جائے گا اور نفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پڑھنے والوں کی نماز ادا نہیں ہوتی ؛اس لیے مذکورہ شخص کا ظہر کی نماز میں امامت کرنا درست نہیں، اگر کوئی دوسرا شخص امامت کرسکے تو کرائے ورنہ تنہا تنہا نماز ظہر پڑھیں اور اگر پہلے ظہر کی نماز پڑھائی تو نماز درست ہوگئی اس کے بعد جمعہ پڑھ لیا تو جمعہ کی نماز اس کی نفل ہوگئی، تاہم جمعہ کے دن نماز جمعہ کا اہتمام کرنا چاہئے۔(۲)

(۲) وأن لایکون الإمام أدنیٰ حالاً من المأموم کافتراضہ وتفضل الإمام۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۲۹۱، شیخ الہند دیوبند)
قولہ: ومفترض بمتنفل وبمفترض آخر، أي وتفسد اقتداء المفترض بإمام متنفل أو بإمام یصلي فرضاً غیر فرض المقتدي لأن الاقتداء بناء ووصف الفرضیۃ معدوم في حق الإمام في الأولیٰ وہو مشارکۃ وموافقۃ فلا بد من الاتحاد وہو معدوم في الثانیۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۶۴۱، زکریا دیوبند)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص308

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جماعت جس جگہ ہو رہی ہے اور امام بھی وہیں موجود ہے (خواہ اوپر یا نیچے) وہیں کی صف اول شرعاً صف اول شمار ہوگی۔ البتہ اصل مسجد (نیچے کے حصہ) کو چھوڑ کر بلا عذر اوپر جماعت کرنا مکروہ ہے مگر فریضہ ادا ہوجائے گا اعادہ کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔(۱)

(۱) والقیام في الصف الأول أفضل من الثاني وفي الثاني أفضل من الثالث … وأفضل مکان المأموم حیث یکون أقرب إلی الإمام فإن تساوت المواضع ففي یمین الإمام وہو الأحسن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘: ج۱، ص: ۱۴۷، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص422

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان کے ذریعہ نماز باجماعت کا مجموعی اعلان کرنے کے بعد جب اقامت کہی جاتی ہے تو اس سے مسجد میں موجود مصلیوں کو یہ بتلانا مقصود ہوتا ہے کہ جماعت کھڑی ہوچکی ہے، لہٰذا اقامت اور جماعت کے آغاز میں طویل وقفہ اور آغازِ نماز میں تاخیر ہوجائے تو اقامت باطل ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں دوبارہ اقامت کہنی چاہئے۔ اور اگر معمولی سا وقفہ ہوتو اقامت کو دُہرانے کی ضرورت نہیں ہے، طویل وقفہ اور معمولی وقفہ کے درمیان فرق کو واضح کرتے ہوئے علامہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ نے شامی میں لکھا ہے:
’’لأن تکرارہا غیر مشروع إذَا لم یقطعہا قاطع من کلام کثیر أو عمل کثیر مما یقطع المجلس في سجدۃ التلاوۃ‘‘(۱)
 آپ کی مسجد میں ظہر کی نماز سے قبل آپس میں اختلاف کی وجہ سے دس بارہ منٹ کا وقفہ طویل وقفہ ہے اس لیے اقامت باطل ہو گئی از سر نو اقامت کہنی چاہئیے تھی لیکن صورت مذکورہ میں نماز درست ہو گئی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے، نیز آئندہ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ مسجد اللہ کا گھر ہے مسجد میں شور وغل کرنا اور باآواز بلند دنیوی باتیں کرنا، آپس میں اختلاف اور لڑائی جھگڑا کرنا جائز نہیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی ایسے آدمی کو سنے جو مسجد میں گمشدہ چیزوں کا اعلان کر رہا ہے تو اس کے جواب میں کہے کہ اللہ تجھ پر تیری چیز نہ لوٹائے یعنی اللہ کرے نہ ملے کیوں کہ مسجدیں گمشدہ چیزوں کی تلاش کے لیے  نہیں بنائی گئیں۔‘‘
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من سمع رجلا ینشد ضالۃ في المسجد فلیقل لا ردہا اللّٰہ علیک فإن المساجد لم تبن لہذا‘‘(۱)
دوسری حدیث میں ہے:
لا وجدت، إنما بنیت المساجد لما بنیت لہ۔
امام نوویؒ اس حدیث کی شرح میں تصریح فرماتے ہیں:
’’إنما بنیت المساجد لما بنیت لہ‘‘(۲)
مذکورہ عبارت کا مطلب یہ ہے کہ مسجدیں تو اللہ تعالیٰ کا ذکر،نما ز، مذاکرۂ علمیہ اور خیر کے کاموں کے لیے بنائی گئی ہیں۔ اس لیے انہیں کاموں میں استعمال کیا جائے۔

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، فائدۃ التسلیم بعد الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۸۔
(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب النھي عن نشد الضالۃ في المسجد  وما یقولہ من سمع الناشد‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰، رقم: ۵۶۸۔
(۲) أبو زکریا محي الدین بن شرف النووي، المنہاج شرح صحیح مسلم، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ، باب النہي عن نشد الضالۃ في المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص205

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: گھر پر عبادت کرنا افضل ہے کہ اس میں نام ونمود اور دکھلاوے کی بیماری سے آدمی محفوظ رہتا ہے۔(۱)

(۱) والأفضل في النفل غیر التراویح المنزل إلا لخوف شغل عنہا والأصح أفضلیۃ ما کان أخشع وأخلص۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۲۲)
وحیث کان ہذا أفضل یراعی ما لم یلزم منہ خوف شغل عنہا لو ذہب لبیتہ، أو کان في بیتہ ما یشغل بالہ ویقلل خشوعہ، فیصلیہا حینئذ في المسجد لأن اعتبار الخشوع أرجح۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۲۲)
الأفضل في السنن والنوافل المنزل لقولہ علیہ السلام: صلاۃ الرجل في المنزل أفضل إلا المکتوبۃ، ثم باب المسجد إن کان الإمام یصلي في المسجد، ثم المسجد الخارج إن کان الإمام في الداخل، والداخل إن کان في الخارج۔ وإن کان المسجد واحد فخلف أسطوانۃ، وکرہ خلف الصفوف بلا حائل۔ وأشدہا کراہۃ أن یصلي في الصف مخالطا للقوم وہذا کلہ إذا کان الإمام في الصلاۃ، أما قبل الشروع فیأتي بہا في المسجد في أي موضع شاء۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’الباب التاسع في النوافل، ومن المندوبات صلاۃ الضحی‘‘: ج ۱، ص:۱۷۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص391