Frequently Asked Questions
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 961/41-105 B
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If you know a person whose whole or major source of income is from haram, then it is not permissible to accept gifts from him. But if you have no knowledge about his income whether being haram or halal, then you can accept gifts from him and you are not obliged to check the source of his income.
Doing a job in a non-Muslim country is allowed. Government’s income maybe Halal and Haram for government itself, but for an employee whatever he receives from the government is his wage paid in exchange for his work.
As far as the Interest money is concerned it is Haram whether it is received from bank or other sources, whatsoever.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1073/41-260
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ بینک سے جو اضافی رقم ملتی ہے وہ سود ہے، اور سود جس طرح دارالاسلام میں حرام ہے، اسی طرح دارالحرب میں بھی حرام ہے اس لئے کہ نصوص قطعیہ اس باب میں مطلق ہیں، احل اللہ البیع وحرم الربوا۔ حدیث میں ہے: آکل الربوا ومؤکلہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال ھم سواء (مشکوۃ 244) سوال میں مذکور حدیث غریب ہے، نصوص قطعیہ کے مقابلہ میں اس سے استدلال درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1165/42-417
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جی، ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر کسی خاص بات میں شبہ ہو تو اس کو بالکل واضح کرکے دوبارہ سوال کرلیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1283/42-622
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر دل کی نیت میں عشاء کی نمازہے اور غلطی سے زبان سے مغرب کا لفظ نکل گیا تو عشاء کی نماز ادا ہوگئی، لیکن اگر جلدی میں نیت کی تعیین نہیں کرسکا اور زبان سے مغرب بول دیا تو نماز نہیں ہوگی۔ دوبارہ نماز پڑھنی ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:{بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، أَنَّیٰ یَکُونُ لَہُ وَلَدٌ وَلَمْ تَکُن لَّہُ صَاحِبَۃٌ، وَخَلَقَ کُلَّ شَيْئٍ، وَہُوَ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِیمٌ} (سورۃ الأنعام: ۱۰۱) اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لئے اولاد اور بیوی کی واضح نفی کی گئی ہے۔ (۲)
(۲) یکفر إذا وصف اللّٰہ تعالیٰ بما لا یلیق بہ أو سخر بإسم من أسمائہ، أو بأمر من أوامرہ أو أنکر وعدہ وعیدہ، أو جعل لہ شریکاً أو ولداً أو زوجۃ، أو نسبہ إلی الجہل أو العجز أو النقص۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بذات اللّٰہ تعالیٰ‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۱)
{قُلْ ھُوَ اللّٰہُ أَحَدٌہج ۱ أَللّٰہُ الصَّمَدُ ہج ۲ لَمْ یَلِدْ ۵لا وَلَمْ یُوْلَدْ ہلا ۳ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا أَحَدٌہع ۴ } (سورۃ إخلاص)
حج و عمرہ
Ref. No. 1684/43-1326
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نہیں، یعنی جس شخص کا حج فاسد ہوگیا اس پر طوافِ وداع واجب نہیں ہے۔
وليس على فائت الحج طواف الصدر؛ لأنه طواف عرف وجوبه في الشرع بعد الفراغ من الحج على ما قال النبي - صلى الله عليه وسلم - «من حج هذا البيت فليكن آخر عهده به الطواف» وهذا لم يحج فلا يجب عليه. (بدائع الصنائع: (221/2،ط:دار الکتب العلمیۃ) إن فائت الحج ليس عليه طواف الصدر...الخ (غنیۃ الناسک: (318) )ولیس علی فائت الحج طواف الصدر۔۔۔الخ )البحر الرائق: 377/2،ط:دار الکتاب الاسلامی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1999/44-1951
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حسب گنجائش کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کے لئے رابطہ کریں۔ اور جو دوا کھائیں یا لگائیں اس پر سات مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر استعمال کریں۔ اللہ تعالی سے ہمیں شفاکی امید رکھنی چاہیے، اور علاج نہیں چھوڑنا چاہئے۔ دنیا دارالاسباب ہے، اللہ پر توکل کرکے اسباب کو اختیار کرنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
سیاست
Ref. No. 2212/44-2338
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ووٹ دینے والوں پر لازم ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر کسی ایسے شخص کو ووٹ دیں جو بلا امتیاز اس سرزمین کی تعمیر و ترقی میں سچے دل سے خدمت انجام دے سکے۔ جو شخص پہلے سے کرپٹ ہو یا اس کی بددیانتی ظاہر ہوچکی ہو، اس کو ووٹ دینا جائز نہیں ہے، تاہم اگر کسی ایسے شخص کو ووٹ دیا جو امانت دار تھااور خدمت خلق کاجذبہ رکھتاتھا، یا یہ کہ اس کا حال ظاہر نہیں تھا لیکن امید تھی کہ وہ ملک کی ترقی میں اہم کردار اداکرے گا، لیکن وہ اس کے برعکس نکلا، توچونکہ ووٹ دینے والے نے اپنے اعتقاد کے مطابق ایک مستحق اور اہل کو ووٹ دیا ہے اس لئے اب اگر وہ قائد کسی کرپشن یا بددیانتی میں مبتلا ہوتاہے تو اس کا گناہ ووٹ دینےوالے پر نہیں آئے گا۔ ہاں اگر ووٹ امانت ودیانت داری کے بناء پر نہیں دیا گیا بلکہ برادری یا تعصب کی بناء پر جان بوجھ کر کسی نااہل کو دیاگیاتھا تو ووٹ دینے والے پر گناہ ہوگا، اور اس کو تعاون علی الاثم کہاجائے گا جس کو قرآن میں ممنوع قراردیاگیاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس وقت میں ہاتھ اٹھاکر دعاء کرنا مکروہ ہے اس سے احتراز لازم ہے، اگر ہاتھ اٹھائے جائیں تو اس انداز پر کھڑے ہوں کہ قبر سامنے نہ پڑے اور کسی طرح کا تشبہ غیروں کے ساتھ نہ ہو۔(۱)
(۱) وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلۃ کذا في خزانۃ الفتاوی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السادس عشر في زیارۃ القبور‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۴)
وفي حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبر عبد اللّٰہ ذي النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ أخرجہ أبو عوانہ في صحیحہ۔ (ابن حجرالعسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الدعوات: قولہ باب الدعاء مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۳۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص389
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ماہ محرم میں دسویں تاریخ میں یوم عاشوراء کے روزے کا سنت ہونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور قول سے ثابت ہے، نویں تاریخ کے روزے کا بھی ثبوت ہے، آج کل یہودی عاشوراء کا روزہ نہیں رکھتے، پرانے یہودی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے؛ اس لیے فرمایا گیا کہ ایک دن پہلے یا بعد کا بھی روزہ رکھو تا کہ ان کی مشابہت نہ ہو؛ لہٰذا عاشوراء میں دسویں کے ساتھ نویں یا گیارھویں کا روزہ بھی رکھا جائے جب کہ اس پر اکابر امت کا عمل چلا آرہا ہے؛ لیکن اگر صرف دس محرم کا روزہ رکھا، تو بھی درست ہے اس لیے کہ اب عمداً یہود سے مشابہت نہیں ہوتی۔(۱)
(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: أمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بصوم عاشوراء یوم عاشر واختلفوا أہل العلم في یوم عاشوراء، فقال بعضہم: یوم التاسع، فقال بعضہم: یوم العاشر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصوم: باب ما جاء في عاشوراء:… … أي یوم ہو؟‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۸، رقم: ۷۵۵)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أنہ قال: صوموا التاسع والعاشر وخالفوا الیہود۔ (’’أیضاً:‘‘)
قال الکشمیري: حاصل الشریعۃ أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم یوم قبلہ وبعدہ، ثم الأدون منہ صوم عاشوراء مع صوم یوم قبلہ أو بعدہ، ثم الأدون صوم یوم عاشوراء فقط. والثلاثۃ عبادات عظمی، وأما ما فی الدر المختار من کراہۃ صوم عاشوراء منفرداً تنزیہاً فلا بد من التأویل فیہ أی أنہا عبادۃ مفضولۃ من القسمین الباقیین، ولا یحکم بکراہۃ فإنہ علیہ الصلاۃ والسلام صام مدۃ عمرہ صوم عاشوراء منفرداً وتمنی أن لو بقی إلی المستقبل صام یوماً معہ۔ (علامہ، أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’باب ما جاء فی الحث علی صوم یوم عاشوراء‘‘: ج ۲، ص: ۷۱۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص477