اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ مسئلہ استواء علی العرش کا ہے، اہل حق کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا برحق ہے؛ البتہ اس کی کیفیت کا ہم کو علم نہیں ہے اور عرش پر ہونا دنیاوی بادشاہوں کے تخت پر بیٹھنے سے بالکل مختلف ہے۔ مذکورہ فی السوال عقیدہ فرقۂ مرجیہ کا ہے جو اہل سنت

والجماعت سے خارج گمراہ فرقہ ہے؛ لہٰذا مذکورہ شخص ایمان سے خارج نہیں ہے۔ (۱)

(۱) ففي صحیح البخاري قال مجاہد: استوی علی العرش علا علی العرش وقال أبو العالیۃ: استوی علی العرش ارتفع۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ طہ: الآیات:۱، إلی ۱۶‘‘: ج ۸، ص: ۴۷۵)

ومن طریق ربیعۃ بن أبی عبد الرحمن أنہ سئل کیف استوی علی العرش فقال الاستواء غیر مجہول والکیف غیر معقول وعلی اللہ الرسالۃ وعلی رسولہ البلاغ وعلینا التسلیم۔ (ابن حجر، فتح الباري، ’’قولہ باب وکان عرشہ علی الماء وہو رب‘‘: ج ۱۳، ص: ۴۰۶)

 

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1683/43-1325

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نماز پڑھنے کے لئے جگہ کا پاک ہونا شرط ہے، اور اس سے مراد وہ جگہ ہے، جہاں نمازی کے دونوں پاؤں رہتے ہیں ، اور سجدے کی حالت میں جہاں دونوں گھٹنے، دونوں ہاتھ، پیشانی اور ناک رکھی جاتی ہو۔ اس لئے پنڈلی کے نیچے کی جگہ جس سے پنڈلی مس نہیں ہوتی ہے، اس کا ناپاک رہنا مضر نہیں، نماز درست ہوجائے گی۔

يشترط طهارة "موضع القدمين۔۔۔۔و "منها طهارة موضع "اليدين والركبتين" على الصحيح لافتراض السجود على سبعة أعظم۔۔۔"و" منها طهارة موضع "الجبهة على الأصح" من الروايتين عن أبي حنيفة وهو قولهم رحمهم الله ليتحقق السجود عليها لأن الفرض وإن كان يتأدى بمقدار الأرنبة على القول المرجوح يصير الوضع معدوما حكما بوجوده على النجس ولو أعاده على طاهر في ظاهر الرواية ولا يمنع نجاسة في محل أنفه مع طهارة باقي المحال بالاتفاق لأن الأنف أقل من الدرهم ويصير كأنه اقتصر على الجبهة مع الكراهة (مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی: ج: 1، ص: 210، ط: دار الکتب العلمیۃ)

وإن كانت النجاسة تحت قدمي المصلي منع الصلاة. كذا في الوجيز للكردي ولا يفترق الحال بين أن يكون جميع موضع القدمين نجسا وبين أن يكون موضع الأصابع نجسا وإذا كان موضع إحدى القدمين طاهرا وموضع الأخرى نجسا فوضع قدميه اختلف المشايخ فيه الأصح أنه لا تجوز صلاته فإن وضع إحدى القدمين التي موضعها طاهر ورفع القدم الأخرى التي موضعها نجس وصلى فإن صلاته جائزة. كذا في المحيط۔ --- وإن كانت النجاسة تحت يديه أو ركبتيه في حالة السجود لم تفسد صلاته في ظاهر الرواية واختار أبو الليث أنها تفسد وصححه في العيون. كذا في السراج الوهاج. (الھندیۃ، الفصل الثانی فی طھارۃ مایستر بہ العورۃ 1/61)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

Ref. No. 1794/43-1561

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  غلام کی ذات اس کے آقا کے پاس مملوک ہوتی تھی،  اور غلام کو کسی بھی طرح کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتاتھا، وہ اپنی مرضی سے غلامیت سے باہر نہیں آسکتا تھا وہ اپنی مرضی سے اپنے آپ کو کسی سےبیچے یا خریدے اس کا بھی کوئی اختیار نہیں تھا۔ جبکہ آج کل کے ملازمین خودمختار ہوتے ہیں ، ملازمت پر رکھنے والے سے ایک معاہدہ ہوتاہے اور دونوں فریق کی رضامندی سے ملازمت کے اصول طے ہوتے ہیں، ملازم جب چاہے ملازمت ترک کرسکتاہے،  اور دوسری جگہ ملازمت تلاش کرسکتاہے۔ معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں دونوں قابل گرفت ہوں گے۔ اس لئے غلام اور ملازم  کے اجروثواب میں فرق ہوگا،  اور جو دوہرے اجر کی بات غلام کے لئے ہے وہ آزاد کے لئے نہیں ہوگی۔ البتہ اپنے اہل وعیال کی عمدہ طریقہ پر  کفالت کرنے کے لئے کوشاں رہنے کا ثواب ضرور حاصل ہوگا جس کی حدیث میں تاکید آئی ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ کی مقدس ذات کے علاوہ سب کے لئے فنا ہے اور سب اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں رزاق بھی صرف اسی کی ذات ہے، اپنی زندگی میں جو لین دین کرتا ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر نہیں ہوتا، تو انتقال کے بعد کوئی کسی کو اور کس طرح دے سکتا ہے۔ قرآن کریم میں واضح طور پر ہے کہ {إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ہط ۴ }(۱) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں ’’أدعوني أستجب لکم‘‘(۲) مجھ سے مانگو میںتمہاری دعائیں قبول کرتا ہوں {ہُوَ الرَّزَّاقٌ}(۳) وہ ہی ہے جو رزق دیتا ہے، اس کے باوجود غیر اللہ سے مانگنا اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کو مددگار حقیقی یقین کرنا، اللہ تعالیٰ سے نہ مانگنے اور اس کے نہ دینے کا عقیدہ رکھنا کفریہ عقیدہ ہے اور ایسا شخص خارج از ایمان ہے(۴) البتہ اگر رزاق حقیقی اللہ تعالیٰ کو مانا جائے اور کسی ولی یا برزگ کا وسیلہ اختیار کیا جائے تو یہ درست ہے۔(۵)

(۱) (الفاتحہ: ۴) قال ابن عباس -رضي اللّٰہ عنہ-: معناہ نعبدک ولا نعبد غیرک وإیاک نستعین أي نعبدک مستعین بک۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر مظہري: ج ۱، ص: ۸)

(۲) قال ابن جزیر: إن اللّٰہ واسع بإحاطۃ تورہ ووجودہ الأشیاء کلہا منہا مشارق الأرض ومغاربہا إحاطۃ غیر متکفیۃ ولا مدرکاً۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي-رحمہ اللّٰہ-، تفسیر مظہري: ج ۱، ص: ۱۱۷)

(۳) {إِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقٌ ذُوْ الْقُوَّۃِ الْمَتِیْن} (سورۃ الزاریات: ۶۰) قال صاحب مظہري: إن اللّٰہ ہو الرزاق لجمیع خلقہ مستغن عنہ۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي-رحمہ اللّٰہ-، تفسیر مظہري:  ج ۹، ص: ۹۲)

(۴) (قولہ باطل وحرام) لوجوہ: منہا أنہ نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا یجوز لأنہ عبادۃ والعبادۃ لا تکون لمخلوق۔ ومنہا أن المنذور لہ میت والمیت لا یملک۔ ومنہ أنہ إن ظن أن المیت یتصرف في الأمور دون اللّٰہ تعالیٰ واعتقادہ ذلک کفر۔ وأیضاً: والنذر الذي یقع

من أکثر العوام بأن یأتي إلی قبر بعض الصلحاء ویرفع سترہ قائلاً یا سیدي فلان إن قضیت حاجتي فلک مني من الذہب مثلاً کذا باطل إجماعاً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یسفد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)

(۵) عن أنس بن مالک أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ: کان إذا قحطوا استسقیٰ بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللّٰہم إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا فتسقینا، وأنا نتوسل إلیک بعم نبینا فأسقنا، قال: فیسقون۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاستسقاء: باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، رقم: ۱۰۱۰)

ویستفاد من قصۃ العباس استحباب الاستشفاع بأہل الخیر والصلاح وأہل بیت النبوۃ۔ (أحمد بن علي بن حجر، فتح الباري شرح صحیح البخاري، ’’قولہ باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷)

ومن أداب الدعاء تقدیم الثناء علی اللّٰہ والتوسل بنبي اللّٰہ، لیستجاب الدعاء۔ (الشاہ ولي اللّٰہ الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ’’الأمور التي لا بد منہا في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴)

أن التوسل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم جائز في کل حال قبل خلقہ وبعد خلقہ في مدت حیاتہ في الدنیا وبعد موتہ فی مدۃ البرزخ۔ (السبکي، شفاء السقام: ص: ۳۵۸)

لأن المیت لا یسمع بنفسہ۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’مسألۃ في أن الدعاء للمیت ینفع‘‘: ص: ۲۲۶)

{إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗط} (سورۃ الحج: ۷۳)

{قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ج لَا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ  فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَھُمْ فِیْھِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّمَا لَہٗ مِنْھُمْ مِّنْ ظَھِیْرٍہ۲۲} (سورۃ السباء: ۲۲)

{قُلْ أَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ھَلْ ھُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہٖٓ أَوْ أَرَادَنِيْ بِرَحْمَۃٍ ھَلْ ھُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحْمَتِہٖط قُلْ حَسْبِيَ اللّٰہُ ط عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ ہ۳۸} (سورۃ الزمر: ۳۸)  أي: لا تستطیع شیئاً من الأمر۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر: ج ۷، ص: ۱۰۰)

 

(فتاوی دار العلوم وقف دیوبند جلد اول ص 181)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم و دیگر انبیاء ؑ و صحابہؓ و دیگر علماء و صلحاء کو (ان کی زندگی میں یا بعد وفات) وسیلہ بناکر ان کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا شرعاً جائز اور باعث قبولیت ہے۔
ایک روایت میں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نابینا صحابی کو اپنے وسیلہ سے دعاء کرنے کی تلقین فرمائی اور کتب حدیث بخاری وغیرہ کی روایات سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو استسقاء کے لئے وسیلہ بنانا بھی ثابت ہے؛ لیکن اس سے یہ بات ہرگز لازم نہیں آتی کہ بعد وفات انبیاء یا صلحاء کو وسیلہ بنانا جائز نہیں، احناف وجمہور علماء محدثین کا یہی مسلک ہے۔ معارف القرآن، امداد الفتاویٰ، شرح فقہ اکبر وغیرہ اور حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے مشکلات القرآن میں طبرانی وبیہقی کے حوالہ سے روایات نقل کی ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے عرش الٰہی پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا ہوا دیکھا، تو آپ کے وسیلہ سے دعاء کی، تو اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت متوجہ ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے حضرت آدم علیہ السلام کو یہ کلمات (ربنا ظلمنا أنفسنا الخ) عطا فرمائے۔ مشکلات القرآن۔(۱)
(۱) ’’عن عثمان بن حنیف، أن رجلا ضریر البصر أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: أدع اللّٰہ أن یعافیني قال: إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فہو خیر لک۔ قال: فادعہ، قال: فأمرہ أن یتوضأ فیحسن وضوئہ ویدعو بہذا الدعاء: اللہم إني أسألک وأتوجہ إلیک بنبیک محمد نبي الرحمۃ، إني توجہت بک إلی ربي في حاجتي ہذہ لتقضی لی، اللہم فشفعہ في: (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الدعوات عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في جامع الدعوات باب منہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸)
بینما ثلاثۃ نفر یتماشون أخذہم المطر فأوؤا إلی غار في الجبل فقال بعضہم لبعض أنظروا أعمالا عملتموہا صالحۃ للّٰہ فادعوا للّٰہ بہا لعلہ یفرجہا عنکم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الحرث والمزارعۃ، باب إذا زرع بمال قوم بغیر إذنہم‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۳)؛ کذا في فتح القدیر،’’کتاب الحج‘‘: ج ۳، ص: ۱۸۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص278

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عینی ج۴ ص ۷۶، فتح الملہم ص ۸۱۱ و بذل الجہود ج۲ ص ۲۱۴ میں ہے کہ ابن حزم نے زیارت القبور کو زندگی میں ایک مرتبہ واجب کہا ہے؛ کیونکہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں صیغہ امر ہے جو وجوب کے لئے ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: نہیتکم عن زیارۃ القبور ألافزوروہا‘‘(۱) محی السنہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ عبدربہ رحمۃ اللہ علیہ اور مازنی رحمۃ اللہ علیہ نے مردوں کے لیے زیارت قبور کے لیے جواز پر تمام اہل علم اور ائمہ دین کا اتفاق نقل کیا ہے لیکن امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے ابن سیرین، امام نخعی اور امام شیبہ رحمہم اللہ سے مردوں کے لئے زیارت قبور کی کراہت نقل کی ہے۔ ان کی دلیل بھی مسلم کی روایت ہے جس میں ’’نہیتکم‘‘ فرماکر منع کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جن محدثین اور اہل علم کے یہاں مردوں کے لئے زیارت قبور کی اجازت ہے ان کے پاس دلیل میں بہت سی حدیثیں ہیں۔ مثلاً اوپر والی حدیث ہی ہے کہ ابتدائے اسلام میں منع فرمایا گیا، پھر اجازت دیدی گئی ہے۔ ایسے ہی مسلم میں روایت ہے ’’قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعلمہم إذا خرجوا إلی المقابر السلام علی الدیار‘‘ (۲) اور ابن ماجہ میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رخص في زیارۃ القبور‘‘(۳) اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں جن سے جواز ثابت ہے۔
ابن حزم نے جو واجب کہہ دیا تو وہ صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ اصول میں یہ بات طے شدہ ہے کہ حکم نہی ممانعت کے بعد واجب کو ثابت نہیں کرسکتا صرف اباحت اور جواز ہی ثابت ہوسکتا ہے ۔ امام نخعیؒ اور شعبیؒ نے جومکروہ فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو وہ تمام حدیثیں نہیں پہونچی جن سے ممانعت کے بعد جواز ثابت ہوتا ہے جیسا کہ علامہ عینی اور صاحب فتح الباری اور صاحب بذل نے فرمایا ہے۔ علامہ عینی کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ بت پرستی چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے اور وہ قبروں کا غیر ضروری احترام کرتے تھے؛ اس لیے ابتدائے اسلام میں زیارت قبور سے منع فرمایا گیا ہے جب اسلام کی محبت راسخ ہوگئی اور بت پرستی سے نفرت ہوگئی تو وہ حکم منسوخ ہوگیا۔(۴)

حاصل یہ ہے کہ گاہے بگاہے عبرت اور موت کو یاد کرنے کے لئے قبرستان جانا جائز ہے، عورتوں کی زیارت قبور سے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے: بعض اہل علم کے یہاں عورت کا قبرستان جانا مکروہ ہے۔ ان کی دلیل حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہے کہ آپ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم زوارات القبور‘‘(۱) لیکن اکثر اہل علم نے کہا ہے کہ اگر فتنہ دین ودنیا نہ ہو تو عورتوں کو اجازت ہے۔ مسلم میں روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’کیف أقول یا رسول اللّٰہ إذا زرت القبور؟ قال علیہ السلام: قولي السلام علی أہل الدیار من المؤمنین والمسلمین‘‘(۲) ایسے ہی مسند حاکم میں روایت ہے کہ حضرت فاطمہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کرتی تھیں۔(۳)
امام قرطبی نے کہا ہے کہ جن روایات میں ممانعت آئی ہے وہاں صیغہ مبالغہ کا ہے ’’زوارات القبور‘‘ یعنی جو بکثرت زیارت کرتی ہوں تو کثرت سے عورتوں کا جانا ممنوع ومکروہ ہے ورنہ اجازت ہے۔ یا عورتوں میں جزع وفزع کا معاملہ زیادہ ہے صبر کم ہے، حقوق زوجیت بھی متاثر ہوتے ہیں(۴) اگر دینی اور دنیاوی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، تو شرعی حدود میں رہ کر زیارت قبور کی جاسکتی ہے؛ لیکن فی زمانہ عورتیں قبرستان میں جاکر بدعت کرتی ہیں، اور ایسی خرافات اور واہیات حرکتیں کرتی ہیں جن سے دین کو نقصان پہونچتا ہے، بے پردگی اور بے آبروئی کے اندیشے اپنی جگہ الگ ہیں؛ اس لئے انتظام اور احتیاط کی بات یہ ہی ہے کہ عورتوں کو قبرستان نہ جانے دیا جائے۔(۵)

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في جواز زیارۃ قبور المشرکین‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، رقم: ۹۷۷)
(۲) قد سبق تخریجہ۔
(۳) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الجنائز: باب ما جاء في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۲، رقم: ۱۵۷۰۔
(۴) إن زیارۃ القبور إنما کان في أول الإسلام عند قربہم بعبادۃ الأوثان واتخاذ القبور مساجد، فلما استحکم الإسلام وقوی في قلوب الناس وآمنت عبادۃ القبور والصلوٰۃ إلیہا نسخ النہي عن زیارتہا الخ۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۸، ص: ۷۰)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الجنائز، باب ما جاء في النہي عن زیارۃ النساء القبور‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳، رقم: ۱۵۷۴۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل فی جواز زیارۃ قبور المشرکین‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، رقم: ۹۷۴۔
(۳) أن الرخصۃ ثابتۃ للرجال والنساء لأن السیدۃ فاطمۃ رضي اللّٰہ عنہا کانت تزور قبر حمزۃ کل جمعۃ وکانت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا تزور قبر أخیہا عبد الرحمٰن بمکۃ کذا ذکرہ البدر العیني في شرح البخاري۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص:۶۲۰)
(۴) الزیارۃ لقلۃ صبرہن وجرعہن۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’باب زیارۃالقبور‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۴)
(۵) وأما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک التجدید الحزن والبکاء والندب کما جرت بہ عادتہن لا تجوز لہن الزیارۃ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج۱: ۶۲۰)



فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص386

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ رسم مالیدہ وغیرہ کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں ہے؛ اس لیے اس کو ثواب کی نیت سے کرنا بدعت ہے جو واجب الترک ہے۔(۲)

(۲) {حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ أُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ} (سورۃ المائدہ: ۳)
وقد عاکس الرافضۃ والشیعۃ یوم عاشوراء النواصب من أہل الشام فکانوا … …إلی یوم عاشوراء یطبخون الحبوب ویغتسلون ویتطیبون ویلبسون أفخر ثیابہم ویتخذون ذلک الیوم عیدا یصنعون فیہ أنواع الأطعمۃ ویظہرون السرور والفرح یریدون بذلک عناد الروافض ومعاکستہم۔ (أبو الفداء إسماعیل، البدایۃ والنہایۃ، ’’فصل وکان مقتل الحسین -رضي اللّٰہ عنہ-‘‘: ج ۸، ص: ۲۰۳)
ویظہر الناس الحزن والبکاء وکثیر منہم لا یشرب الماء لیلتئذ موافقۃ للحسین لأنہ قتل عطشانا ثم تخرج النساء حاسرات عن وجوہہن ینحن ویلطمن وجوہہن وصدورہن حافیات في الأسواق إلی غیر ذلک من البدع الشنیعۃ والأہواء الفظیعۃ۔ (’
’أیضاً‘‘: ص: ۲۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص476

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2498/45-3819

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر بچہ نے جائے نماز پر ایسی جگہ پیشاب کیا جہاں نمازی کے اعضاء سجدہ میں پڑتے ہیں تو اگر ممکن ہو تو نماز میں ہی تلویث سے بچتے ہوئے  دائیں بائیں ہٹ کر نماز پوری کرلے، اس کو دوہرانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اور اگر دائیں یا بائیں جگہ نہ ہو یا بچہ نے نمازی کے اوپر پیشاب کردیا تو ایسی صورت میں ایک طرف سلام پھیر کر نماز  سے نکل جائے اور پاک ہوکر یا دوسری جائے نماز پر نماز ادا کرے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’یداً بیدٍ‘‘ کا ورود بیع کے لیے ہے نہ کہ قرض میں؛ لہٰذا قرض پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔(۱)

(۱) حدیث کا تعلق بیع سے ہے، قرض سے نہیں اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک جنس کی بیع اسی جنس سے ہو رہی ہو تو نقد در نقد ہونا چاہیے ادھار جائز نہیں ہے، حدیث میں ’’الحنطۃ بالحنطۃ‘‘ سے پہلے ’’بیعوا‘‘ محذوف ہے۔
’’وأما عدم جواز بیع الحنطۃ بالحنطۃ وزنا معلوما فلعدم العلم بالمساواۃ الذہب بالذہب مثلاً بمثل وقد تقدم وجہ انتصابہ إنہ بالعامل المقدر أي بیعوا وفي البخاري لا تبیعوا الذہب بالذہب إلا مثلا بمثل۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصرف‘‘: ج ۷، ص: ۱۳۴)
قال الحنطۃ بالحنطۃ مثلاً بمثل یدا بید والفضل ربا أي: بیعوا الحنطۃ بالحنطۃ مثلاً بمثل یدا بیدا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’فصل في شرائط الصحۃ في البیوع‘‘: ج ۵، ص: ۱۸۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص115

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صحیح قول کے مطابق حج ۹ھ میں یا اس کے بعد فرض ہوا(۲) اور فرض ہونے کے بعد جیسا کہ تمام احکام الٰہی کے متعلق آپ کی سیرت شاہد ہے، فوراً وقتِ حج آنے پر آپ نے حج ادا کیا؛ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی تاخیر نہیں کی۔(۳)

(۲) قال القاضي عیاض: وإنما لم یذکر الحج لأن وفادۃ عبد القیس کانت عام الفتح ونزلت فریضۃ الحج سنۃ تسع بعدہا علی الأشہر۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: ج ۱، ص: ۹۰، رقم: ۱۷)
إنہ علیہ السلام حج سنۃ عشر وفریضۃ الحج کانت سنۃ تسع۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الحج‘‘: ج ۲، ص: ۴۱۴)
(۳) ابوالبرکات، اصح السیر: ص: ۵۲۵۔


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص210