حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور حضرات صحابۂ کرامؓ نے غزوات کے مواقع پر جہاد میں نظم وضبط قائم رکھنے کے لیے جھنڈا استعمال فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفید رنگ پسند تھا۔ ترمذی شریف میں ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ کا جھنڈا سفید رنگ کا تھا البتہ ابن قیم کے بیان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے میں کبھی کبھی سیاہ رنگ کو بھی اختیار کیا گیا اور خاص خاص قبائل اور لشکروں کے جھنڈوں کا رنگ کبھی سفید کبھی سرخ کبھی زرد کبھی سیاہ وسفید کا مجموعہ منقول ہے۔ احادیث پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہؓ کے جھنڈے استعمال کرنے کا مقصد اور اس کی حکمت جہاد میں نظم وضبط کو قائم کرنا اور اس کو باقی رکھنا تھا۔ اور ان میں کسی خاص کپڑے کا اہتمام مقصود وملحوظ نہ تھا، جو کپڑا میسر آگیا اسی کو استعمال کرلیا گیا حتی کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی چادر ہی کا جھنڈا بنالیا گیا تھا؛ لہٰذا جہاد کے موقع پر مذکورہ مقصد کے لیے جھنڈے کا استعمال نہ صرف جائز ہے؛ بلکہ مسنون ہے۔ لیکن دیگر مقاصد کے لئے جھنڈوں یا خاص رنگوں کو مسنون سمجھنا درست نہیں۔(۱)

(۱) عن براء بن عازب اسألہ عن رایۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: کانت سوداء مربعۃ من نمرۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الجہاد، باب ما جاء في الرایات‘‘: ج ۲، ص: ۶ ۲۹، رقم: ۱۶۸۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص211

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر والدین کو خدمت کی ضرورت ہو، تو والدین کی خدمت مقدم ہے۔(۱)

(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رجل للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أجاہد؟ قال لک أبوان؟ قال: نعم! قال ففیہما فجاہد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الأدب: باب لا یجاہد إلا بإذن الأبوین‘‘: ج ۲، ص: ۸۸۳، رقم: ۵۹۷۲)
فیفہم منہ أنہ لا یجاہد إلا إذا أذنا لہ بالجہاد فیجاہد فیکون جہادہ موقوفاً علی إذنہما۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’باب لا یسب الرجل والدیہ‘‘: ج ۴، ص: ۸۳، رقم: ۵۹۷۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص329

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امامت کے لیے مقدم اور زیادہ حقدار وہ ہے جو قرآن کریم، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورنماز کے مسائل سے زیادہ واقفیت رکھتا ہو، قرآن کریم تجوید کے ساتھ اچھے انداز پر پڑھتا ہو اور تقویٰ وطہارت کا زیادہ پابند ہو؛ لہٰذا مذکورہ صورت میں جو عالم ایسا ہو کہ اس میں مذکورہ اوصاف زیادہ بہتر انداز میں پائے جاتے ہوں وہ امامت کا زیادہ حقدار ہے۔(۱)

(۱) الأولی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحر الرائق ہذا إذا علم من القراء ۃ قدر ماتقوم بہ سنۃ القراء ۃ ہکذا في التبیین ولم یطعن في دینہ ہکذا في الکفایۃ وہکذا في النہایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص101

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنابت، حیض ونفاس نجاست حکمی ہیں، جس کی وجہ سے جنبی، حائضہ وغیرہ کا ظاہری جسم ناپاک نہیں ہوتا اور نہ ہی جسم سے نکلنے والا پسینہ اور اس کا جھوٹا ناپاک ہوتا ہے؛ لہٰذا اگر جسم پر کوئی ظاہری نجاست نہ لگی ہو، تو حائضہ عورت کا پسینہ اور اس کا جھوٹا خواہ پانی ہو یا کھانا سب پاک ہے اور اگر حائضہ کے شوہر کو حائضہ کا پسینہ لگ جائے، تو اس کا شوہر بھی ناپاک نہیں ہوگا۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: لقینی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و أنا جنب، فأخذ بیدی، فمشیت معہ حتی قعد، فانسللت فأتیت الرحل فاغتسلت ثم جئت و ہو قاعد، فقال: أین کنت یا أبا ہریرۃ؟ فقلت لہ، فقال: سبحان اللّٰہ! یا أبا ہریرۃ! إن المؤمن لاینجس‘‘(۱)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ملے اس حال میں کہ میں جنبی تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلا  یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے، میں چپکے سے وہاں سے نکلا اور اپنی رہائش پر آکر غسل کیا، پھر میں آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماتھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کہاں تھے؟ میں نے وجہ بتادی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سبحان اللّٰہ‘‘ مومن کا (ظاہری) جسم ناپاک نہیں ہوتا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اس میں اس کا جواز پایا جاتا ہے کہ غسل جنابت کو اس کے واجب ہونے کے اول وقت سے تاخیر کی جاسکتی ہے اوراس کا بھی جواز ہے کہ جنبی شخص (غسل سے پہلے بھی) اپنی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔(۱) لیکن افضل یہی ہے کہ جنبی کو غسلِ جنابت میں جلدی کرنی چاہئے۔
زمانہ جاہلیت اور خاص کر یہودیوں کے معاشرے میں عورت، ایامِ مخصوصہ میں بہت نجس چیز سمجھی جاتی تھی، اور ایامِ مخصوصہ میں اسے ایک کمرے میں بند کردیا جاتا تھا۔ نہ وہ کسی چیز کو ہاتھ لگا سکتی تھی، نہ کھانا پکاسکتی تھی اور نہ کسی سے مل سکتی تھی؛ لیکن اسلام کے معتدل نظام نے ایسی کوئی چیز باقی نہیں رکھی۔ شریعتِ اسلامیہ میں حیض ونفاس کی وجہ سے صادر ہونے والی ناپاکی میں عورت نماز روزہ، طوافِ کعبہ، مسجد میں جانے، مباشرت کرنے اور تلاوتِ کلامِ پاک کے علاوہ تمام امور انجام دے سکتی ہے۔ اس کے لیے باقی تمام امور جائز ہیں، یہاں تک کہ ذکراللہ اور دُرود شریف اور دیگر دُعائیں پڑھ سکتی ہے؛ لہٰذا حیض ونفاس کے دنوں میں عورت کے لیے کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور دیگر گھریلو خدمات بجا لانا جائز ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ:
’’قال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ناولیني الخمرۃ من المسجد قالت: فقلت إني حائض، فقال إن حیضتک لیست في یدک‘‘(۲)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں سے مجھے فرمایا: مصلیٰ (جائے نماز) اٹھا کر مجھے دے دو، میں نے عرض کیا کہ میں حائضہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے بعض لوگوں کو مغالطہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حالت حیض میں مسجد سے جائے نماز اٹھا کر لانے کا حکم فرمایا جب کہ ایسا نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں ہی تشریف فرما تھے اور جائے نماز گھر میں رکھی ہوئی تھی، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو حجرہ مبارک سے جائے نماز اٹھا کر دینے کو فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ میں تو حائضہ ہوں۔ اگلی حدیث مبارکہ سے اس بات کی وضاحت ہو رہی ہے:
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال بینما رسول: في المسجد، فقال: یا عائشۃ (رضياللّٰہ عنہا) ناولیني الثوب، فقالت: إني حائض، فقال: إن حیضتک لیست فی یدک فناولتہ‘‘(۱)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! مجھے ایک کپڑا اٹھا کر دو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں حائضہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔
ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ایامِ مخصوصہ میں عورت کا جھوٹاکھانا اور اس کا بچا ہوا پانی اور اس کا پسینہ پاک ہے۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الغسل: باب الجنب یخرج و یمشي في السوق و غیرہ‘‘: ج۱، ص: ۴۱، رقم: ۲۸۵۔
(۱) ابنِ حجر عسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۱۔(مکتبۃ شیخ الہند، دیوبند)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الحیض: باب جواز غسل الحائض رأس زوجہا وترجیلہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳، رقم: ۲۹۸۔
(۱) أیضاً: ج ۱، ص: ۲۴۵، رقم: ۲۹۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص397



 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مکروہ ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ احادیث میں صف بندی اور نمازیوں کے درمیان خلا نہ ہونے کی بڑی تاکید آئی ہے اس لیے نمازیوں کا مل کر کھڑا نہ ہونا مکروہ ہے۔(۱)

(۱) عن النعمان بن بشیر قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یسوي صفوفنا فخرج یوماً فرأی رجلا خارجا صدرہ عن القوم فقال: لتسون صفوفکم أو لیخالفن اللّٰہ بین وجوہکم‘‘
وقد روي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: من تمام الصلوٰۃ إقامۃ الصف۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في إقامۃ الصفوف‘‘: ج ۱، ص:۲۲۷)
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلوٰۃ، متفق علیہ إلا أن عند مسلم من تمام الصلاۃ۔
عن أنس رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رصوا صفوفکم وقاربوا بینہا وحاذوا بالأعناق فوالذي نفسي بیدہ إني لأری الشیطان یدخل من خلل الصف کأنہا الخذف۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’باب تسویۃ الصفوف‘‘: ج۱، ص:۹۶، رقم: ۶۶۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص434

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ کے سلسلے میں علامہ حصکفی نے لکھا ہے:
’’وأخر العصر إلی اصفرار ذکاء‘‘(۱)
مذکورہ عبارت کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نماز عصر کو احناف کے یہاں تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے؛ لیکن اتنی تاخیر کرنا کہ سورج زرد ہو جائے، فقہاء نے اس کو مکروہ تحریمی لکھا ہے؛ اس لیے سورج پر زردی کے آثار ظاہر ہونے سے قبل ہی عصر کی نماز سے فارغ ہو جانا چاہئے۔ جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’ویستحب تأخیر العصر في کل زمان ما لم تتغیر الشمس والعبرۃ لتغیر القرص الخ‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:مطلب: في طلوع الشمس من مغربہا، ج ۲، ص: ۲۷۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثاني: في بیان فضیلۃ الأوقات‘‘  ج ۱، ص: ۱۰۸۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص75

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: دونوں ایک ساتھ یعنی ایک جگہ برابر برابر کھڑے ہوں اور اپنی اپنی نمازیں الگ الگ پڑھیں یہ درست ہے اور اگر اتفاقاً جماعت کریں تو بیوی تھوڑا پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو تو اس صورت میں بھی نماز درست ہے محاذات والی صورت یہاں نہیں ہے۔(۲)

(۲) (قولہ لیس في صلاتہا) بأن صلیا منفردین أو مقتدیا أحدہما بإمام لم یقتد بہ الآخر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في الکلام علی الصف الأول‘‘: ج۲، ص: ۳۱۷)……أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج من بیتہ لیصلح بین الأنصار فرجع وقد صلی في المسجد بجماعۃ فدخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في منزل بعض أہلہ فجمع أہلہ فصلی بہم جماعۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۴)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص346

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2787/45-4458

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اتنی تجوید کہ ہر حرف دوسرے حرف سے ممتاز ہو جائے فرض عین ہے، بغیر اس کے نماز قطعاً باطل ہوگی ۔ ایسی غلطی جس سے لفظ تو نہ بدلے مگر اس کی خوبصورتی باقی نہ رہے مثلا غنہ، پُر اور باریک کی غلطی کرنا مکروہ ہے، اس سے ثواب میں کمی آتی ہے، رموز واوقاف کی رعایت بھی لازم ہے بعض صورتوں میں نماز فاسد ہونے کا اندیشہ ہے، مد کی دو بڑی اقسام ہیں مد اصلی اور مد فرعی، مد اصل لازم ہے اور مد فرعی کی ایک قسم مد متصل ہے اس کو مد واجب بھی کہا جاتا ہے، مد منفصل اور مد غیر لازم کے مستحسن ہونے پر قراء کااتفاق ہے، جو شخص جس قدر تجوید جانتا ہو اس قدر دوسروں کوسکھا سکتا ہے، اس کے لئے حافظ ہونا شرط نہیں ہے۔

جو خود تجوید کی رعایت نہ کرتا ہو حروف کی ادائیگی صحیح نہ کرتا ہو اس کے لئے دوسروں کو تعلیم دینا بھی درست نہیں ہے، اگر صحیح پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور سکھانے میں ادائیگی ٹھیک کرتا ہے تو  تعلیم کی اجازت ہے، اگر غلط سکھائے گا تو گنہگار ہوگا۔  ہر لحن جلی سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے اس لئے جو بھی صورت پیش آئے اس کا حکم معلوم کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1031

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر وقت پر آنے پرداخلہ فیس میں رعایت کردی جائے یا بالکل معاف کردی جائے  اور جو طلبہ تاخیر سے آئیں ان سے داخلہ فیس وصول کی جائے، یا ان کی مفت خوراکی بند کردی جائے اور ان سے خوراکی کے پیسے وصول کئے جائیں تو یہ جرمانہ نہیں بلکہ رعایت کرنا یا رعایت نہ کرنا ہوا اور یہ صورت بلاشبہ درست ہے۔ اور جب لینا درست ہوا تو ان کو ذمہ داران ان تمام مواقع میں خرچ کرسکتے ہیں جہاں وہ داخلہ فیس خرچ کرتے ہیں۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 965/41-122

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  خوشبو کے  لئے اگربتی جلانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم کسی مخصوص دن اور وقت یا کسی مخصوص کام کے لئے اس کو لازم نہ سمجھاجائے۔ اور غیروں کے طریقہ کی نقل نہ کی جائے تو حرج نہیں ہے۔ اگر کوئی شبہ ہو تو خوشبو کے لئے عطر کا استعمال کریں، یا عطر فروش  سے بخور  وغیرہ لے کر گھر میں جلائیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند