Frequently Asked Questions
روزہ و رمضان
Ref. No. 1267/42-639
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جن روزوں میں صراحت کے ساتھ تسلسل کی شرط ہے کہ ان میں دوماہ لگاتار روزے رکھنے ہیں، ان میں اگر درمیان میں کوئی روزہ فاسد ہوگیا تو وجہ کوئی بھی ، اب دوبارہ از سر نو ہی روزہ رکھنا ہوگا۔شھرین متتابعین کے نص صریح کی بناء پر پہلے کے روزے شمار میں نہیں آئیں گے۔ الا یہ کہ شرعی عذر ہو مثلا عیدالاضحی کے ایام درمیان میں آگئے، یا عورت کو حیض آگیا۔
وکذا کل صوم شرط فیہ التتابع فان افطر بعذر الخ او بغیرہ الخ استانف الصوم (شامی باب الکفارۃ 2/800)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 1512/42-990
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میت کی جانب سے کی جانے والی قربانی کا بھی وہی حکم ہے جو عام قربانی کا ہے۔ لہذا اس کا گوشت بھی اہل خانہ ، رشتہ دار اور غریب ومالدار سب لوگ کھاسکتے ہیں۔ سارا گوشت صدقہ کرنا ضروری نہیں ہے۔
قال (ويأكل من لحم الأضحية ويطعم الأغنياء والفقراء ويدخر) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «كنت نهيتكم عن أكل لحوم الأضاحي فكلوامنها وادخروا» ومتى جاز أكله وهو غني جاز أن يؤكله غنيا (فتح القدیر للکمال، کتاب الاضحیۃ 9/517)
فثبت بمجموع الكتاب العزيز والسنة أن المستحب ما قلنا ولأنه يوم ضيافة الله - عز وجل - بلحوم القرابين فيندب إشراك الكل فيها ويطعم الفقير والغني جميعا لكون الكل أضياف الله تعالى - عز شأنه - في هذه الأيام وله أن يهبه منهما جميعا، ولو تصدق بالكل جاز ولو حبس الكل لنفسه جاز؛ لأن القربة في الإراقة. (وأما) التصدق باللحم فتطوع وله أن يدخر الكل لنفسه فوق ثلاثة أيام؛ لأن النهي عن ذلك كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ بما روي عن النبي - عليه الصلاة والسلام - أنه قال «إني كنت نهيتكم عن إمساك لحوم الأضاحي فوق ثلاثة أيام ألا فأمسكوا ما بدا لكم» (بدائع الصنائع، بیان رکن النذر وشرائطہ 5/81)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو شخص ضروریات دین اور قرآن کریم واحادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تواتر سے باجماع امت ثابت شدہ چیزوں اور احکام کا منکر عقیدۃً ہو وہ بلا شبہ کافر و مرتد ہے۔ شرعاً وہ ہرگز مسلمان نہیں ہے؛ لہٰذا مذکورہ فی السوال شخص بشرط صحت سوال اسلام سے شریعت اسلامیہ کی روشنی میں خارج اور کافر ہے
إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أو عاب شیئاً من القرآن أو خطئ أو سخر بآیۃ منہ کفر۔ (عبد الرحمن، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ۵۰۷)
إذا أنکر الرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي ’’الخزانۃ‘‘ أو عاب کفر، کذا في التاتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ اور ان جیسے جملوں میں کہیں تو اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی ہے اور کہیں دین کی توہین ہے اور لوازمات دین پر عقیدہ کا انکار ہے(۳) اور ان چیزوں سے ایمان سے خارج ہوجاتا ہے اور نکاح بھی ٹوٹ جاتا ہے اس لئے تجدید ایمان وتجدید نکاح ضروری ہے(۱) ورنہ وہی حکم ہوگا جو لگایا گیا ہے۔ یہ مسائل صحیح ہیں اگر کہیں دشواری پیش آئے تو کسی اچھے عالم سے سمجھ لیا جائے۔
(۳) وفي البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لاعباً کفر عند الکلِّ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الجہا: باب المرتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)
رجل کفر بلسانہ طائفاً وقلبہ مطمئن بالإیمان یکون کافرا ولا یکون عند اللّٰہ مؤمناً، کذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، ومنہا: ما یتعلق بلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)
() تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتي تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین، توبۃالزندیق‘‘: ج ۵، ص: ۱۳۷)
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1777/43-1524
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلہ میں بہتر تو یہ تھا کہ زمین کا کچھ نہ کچھ کرایہ طے کرلیا جاتا اور پھر عمل اور خرچہ میں دونوں برابر کے شریک ہوتے تاکہ آئندہ چل کر کوئی نزاع پیدا نہ ہو، لیکن جبکہ مالک زمین خود اپنا حق ساقط کرنے پر رضامند ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،اور مذکورہ کاروبار درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1993/44-1940
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ بچی کو بتادیاجائے کہ جب تک وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو اس وقت تک وضو نہ کرے، اگر اس طرح شک و شبہہ میں وضو کرتی رہے گی تو اس کا وہم بڑھتاجائے اور بعد میں اور مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ نیز ' لاحول ولا قوۃ الا باللہ' کثرت سے پڑھتی رہے اور 'یا مقلب القلوب ثبت قلبي علی دینک' بھی پڑھتے رہنا مفید ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2060/44-2054
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت یا کسی سے تلاوت سنتے وقت معانی میں غور وفکر کرتے ہوئے رونا پسندیدہ عمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابہ کرام سے تلاوت قران کے وقت رونا ثابت ہے۔
(( اقرأ عليَّ القرآن ،فقلت یا رسول اللہ أ أقرَأُ علیک وعلیک أنزل ، قال : إنی أحب أن أسمعہ من غیری فقرات علیہ سورۃ النساء حتی إذا جئت إلی ہذہ الآیۃ:{ فَکَیْفَ إذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَۃٍ بِشَہِیْدٍ وَجِئْنَابِکَ عَلیٰ ہٰؤلا ِٔشَہِیْدَاً (النساء ۴۱)قال : حسبک الآن،فالتفت إلیہ فإذاعیناہ تذرفان ))۔
(رواہ البخاری (۴۵۸۲)کتاب التفسیر/ باب فکیف إذا جئنا من کلأمۃ بشہید… ومسلم(۸۰۰)کتاب صلاۃ المسافرین /باب فضل استماع القرآن)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کوئی مسلمان قرآن کریم کی کسی ایک آیت کا بھی انکار کردے، تو وہ مرتد ہے، جس کی سزا شریعت اسلامیہ میں یہ ہے کہ اگر وہ اسی انکار پر رہے، تو اس کو لازماً قتل کردیا جائے، لیکن اس سزا کے نفاذ کے لئے اسلامی حکومت واقتدار شرط ہے، جو یہاں پر موجود نہیں؛ اس لئے یہ سزا یہاں پر نہیں دی جاتی، یہاں پر ضروری ہے کہ اس کو سمجھایا جائے اس کے شکوک وشبہات کو دور کیا جائے، اگر اس کے باوجود وہ نہ مانے، تو اس سے تعلقات ختم کردیئے جائیں، جذبات میں کوئی غیر شرعی یا غیر قانونی اقدام نہ کیا جائے۔(۱)
(۱) إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم فی الشرع، أو عاب شیئاً من القرآن کفر۔ (عبد الرحمن، مجمع الأنہر، في شرح الملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۷)
فما یکون کفرا بالاتفاق یوجب إحباط العمل کما في المرتد۔ (أیضاً:، ’’الصبي العاقل إذا ارتد‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۱)
من جحد القرآن أي کلہ أو سورۃ منہ أو آیۃ قلت: وکذا کلمۃ أو قرأۃ متواترۃ أو زعم أنہا لیست من کلام اللّٰہ تعالیٰ کفر۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقۃ الأکبر، ’’فصل: فیما یتعلق بالقرآن والصلاۃ‘‘: ص: ۲۷۹)
دار العلوم وقف دیوبند
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 166)
اسلامی عقائد
Ref. No. 2282/44-3437
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چھپکلی کی بیٹ نجاست غلیظہ ہے، لہذا اگر چھپکلی کی بیٹ ماء قلیل میں گرجائے تو وہ پانی ناپاک ہوجائے گا، اور اگر کسی شخص کے بدن یا کپڑوں پر لگ جائے تو اسے دھونا ضروری ہوگا۔
واشار بالروث والخثي الي نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور. (البحر الرائق : ( 242/2، ط:دار الكتاب الاسلامي)
(وخرء) كل لا يذرق في الهواء كبط أهلي (ودجاج)... (وروث وخثي) أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور.
(قوله: أفاد بهما نجاسة خرء كل حيوان غير الطيور) أراد بالنجاسة المغلظة؛ لأن الكلام فيها ولانصراف الإطلاق إليها كما يأتي. (الدر المختار مع رد المحتار: (320/1، ط: دار الفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مصنف عبد الرزاق کے حوالہ سے یہ حدیث لکھی ہے، مگر مصنف عبد الزاق میں موجود نہیں ہے، اس لیے علماء نے اس کو موضوع قرار دیا ہے۔(۱)
’’ومنہا ما ذکرہ العجلوني في کشف الخفا (ج ۱، ص: ۲۶۵)، قال: روي عبد الرزاق بسندہ عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: قلت: یا رسول اللّٰہ بأبي أنت وأمي أخبرني عن أول شيء خلقہ اللّٰہ قبل الأشیاء؟ قال: یا جابر إن اللّٰہ تعالیٰ خلق قبل الأشیاء نور نبیک من نورہ فجعل ذلک النور یدور بالقدرۃ حیث شاء، ولم یکن في ذلک الوقت لوح ولا قلم ولا جنۃ ولا نار ولا ملک ... الحدیث بطولہ۔ وہذا لم نقف علیہ في المطبوع من المصنف للحافظ عبد الرزاق‘‘(۲)
(۱) وفي الدر أیضا عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ یقول إن أول شیء خلق اللّٰہ القلم ثم النون الخ …… أخرجہ الحکیم الترمذي ہذا وروي أن أول ما خلق اللّٰہ العقل وأن أول ما خلق اللّٰہ نوري وأن أول ما خلق اللّٰہ روحي وأن أول ما خلق اللّٰہ العرش والأولیۃ من الأمور الإضافیۃ، فیؤول أن کل واحد مما ذکر خلق قبل ما ہو من جنسہ، فالقلم خلق قبل جنس الأقلام، ونورہ قبل الأنوار وإلا فقد ثبت أن العرش قبل خلق السموات والأرض فتطلق الأولیۃ علی کل واحد بشرط التقیید، فیقال: أول المعاني کذا وأول الأنوار کذا، ومنہ قولہ: أول ما خلق اللّٰہ نوري وفي روایۃ روحي ومعناہما واحد فإن الأرواح نورانیۃ أي أول ما خلق اللّٰہ من الأرواح روحي، رواہ الترمذي وقال ہذا حدیث غریب إسنادا أي لا متنا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۷، رقم: ۹۴)
(۲) أبوسعید عبدالملک، شرف المصطفی: ج ۱، ص: ۳۰۷؛ و نور الدین برھان الحلبي، السیرۃ الحلبیۃ:ج ۱، ص: ۲۱۴؛ و إسماعیل بن محمد، کشف الخفاء حرف الھمزہ مع الھاء: ج ۱، ص: ۳۰۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص101