Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 1525/43-1031
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ وتابعین اور سلف صالحین کا طریقہ ہمیشہ سر ڈھانپ کر نماز پڑھنے کا رہا ہے، اور یہی طریقہ متوارث ہے، اس طریقہ کو ترک کرنا بلاکسی عذر شرعی کے مکروہ ہے، اس لئے بغیر ٹوپی یا عمامہ کے نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ البتہ اگر کبھی غایت تواضع میں اظہار عاجزی ونیازمندی کے لئے تنہائی میں ایسا کرے تو فقہاء کی عبارات سے اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ نماز افضل ترین عبادت ہے جس کے لئے قرآن نے زینت اختیار کرنے کو پسند کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سےاحرام کی حالت کے سوا بغیر ٹوپی کے نماز ادا کرنا ثابت نہیں، اس لیےکاہلی، سستی اور لاپرواہی کی بنا پر ٹوپی کے بغیر ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ِ تنزیہی ہے، کبھی اگر اتفاقا ٹوپی میسر نہ ہوتوبغیر ٹوپی کے نماز پڑھنا بلاکراہت درست ہوگا۔
یا بنی آدم خذوا زینتکم عند کل مسجد} الاعراف: 31) "(وصلاته حاسراً) أي كاشفاً (رأسه للتكاسل)، ولا بأس به للتذلل، وأما للإهانة بها فكفر (قوله: للتكاسل) أي لأجل الكسل، بأن استثقل تغطيته ولم يرها أمراً مهماً في الصلاة فتركها لذلك، وهذا معنى قولهم تهاوناً بالصلاة وليس معناه الاستخفاف بها والاحتقار؛ لأنه كفر شرح المنية. قال في الحلية: وأصل الكسل ترك العمل لعدم الإرادة، فلو لعدم القدرة فهو العجز" (شامی 1/641)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1685/43-1328
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قعدہ اولی و اخیرہ میں شہادت سے پہلے ، آخر کی دو چھوٹی انگلیوں کو بند کرلیا جائے ، بیچ والی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنالیا جائے اور ”لا الہ“ پر شہادت کی انگلی اٹھائی جائے اور ”الا اللہ“ پر گرادی جائے اور انگلیوں کا حلقہ سلام تک باقی رکھا جائے۔ یہ سنت طریقہ ہے، سنن ابی داؤد و ابن ماجہ میں موجود ہے۔ اعلاء السنن میں تفصیلی بحث موجود ہے:
عن عاصم بن كُليب، عن أبيه عن وائل بن حُجر قال: قلتُ: لأنظُرَنَّ إلى صلاةِ رسولِ الله- صلى الله عليه وسلم - كيف يُصلي، قال: فقام رسولُ الله- صلى الله عليه وسلم -، فاستَقبَلَ القِبلَةَ، فكبَّر فرفع يَدَيهِ حتى حاذتا أُذُنَيهِ، ثم أخذ شِمالَه بيمينه، فلمَّا أراد أن يركعَ رَفَعَهما مثلَ ذلك، ثم وضع يَدَيهِ على رُكبَتَيهِ، فلفَا رفعَ رأسَه من الركوع رَفَعَهما مِثلَ ذلك، فلمَّا سجدَ وضعَ رأسَه بذلك المَنزِلِ من بين يَدَيهِ، ثم جلسَ فافتَرَشَ رِجلَه اليُسرى ووضعَ يَدَه اليُسرى على فَخِذِه اليُسرى، وحَد مِرفَقِهِ الأيمَنِ على فَخِذِه اليُمنى، وقبضَ ثِنتَينِ وحلَّق حَلقةً، ورأيته يقول: هكذا، وحلَّقَ بِشرٌ الإبهامَ والوسطى، وأشارَ بالسبابة (سنن ابی داؤد ، باب رفع الیدین 2/48 الرقم 726). عن عاصم بن کلیب الجرمی عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي وَقَدْ وَضَعَ يَدَهُ اليُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ اليُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ اليُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ اليُمْنَى وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ وَبَسَطَ السَّبَّابَةَ، وَهُوَ يَقُولُ: «يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ»: (سنن الترمذی، 5/573 رقم الحدیث 3587)
الصحیح أنہ یشیر بمسبحتہ وحدہا، یرفعہا عند النفی ویضعہا عند الإثبات وفي الشامیة: الثانی بسط الأصابع إلی حین الشہادة فیعقد عندہا ویرفع السبابة عند النفي ویضعہا عند الإثبات وہذا ما اعتمدہ المتأخرون لثبوتہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم بالأحادیث الصحیحة ولصحة نقلہ عن أئمتنا الثلاثة الخ (درمختار مع الشامی، زکریا: ۲/۲۱۸) "يرفعها الخ" وعند الشافعية يرفعها لذا بلغ الهمزة من قوله إلا الله ويكون قصده بها التوحيد والإخلاص عند كلمة الإثبات والدليل للجانبين في المطولات قوله: "وأشرنا إلى أنه لا يعقد شيئا من أصابعه وقيل الخ" صنيعه يقتضي ضعف العقد وليس كذلك إذ قد صرح في النهر بترجيحه وأنه قول كثير من مشايخنا قال وعليه الفتوى كما في عامة الفتاوى وكيفيته أن يعقد الخنصر والتي تليها محلقا بالوسطى والإبهام (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، فصل فی بیان سننھا 1/270) اصابعہ ای بسط اصابعہ فی اطلاق البسط ایماء الی انہ لایشیر بالسبابۃ عندالشھادتین عاقدا الخنصر والتی تلیھا محلقا الوسطی والابھام وعدم الاشارۃ خلاف الروایۃ والدرایۃ ففی مسلم کان النبی ﷺ یشیر باصبعہ التی تلی الابھام قال محمد ونحن نصنع بصنعہ ﷺ وفی المجتبی لما اتفقت الروایات وعلم عن اصھابنا جمیعا کونھا سنۃ وکذا عن الکوفیین والمدنیین وکثرت الاخباروالآثار کان العمل بھا اولی وھو الاصح ثم قال الحلوانی یقیم الاصابع عندالمنفی ویضعہ عندالاثبات واختلف فی وضع الید الیمنی فعن ابی یوسف انہ یعقد الخنصر والبنصر ویحلق الوسطی والابھام وفی در البحار المفتی بہ عندنا انہ یشیر باسطا اصابعہ کلھا وجاء فی الاخبار وضع الیمنی علی صورۃ عقد ثلاثۃ وخمسین ایضا فتح وعینی وغیرہ (کنزالدقائق، کیفیۃ اداء الصلوۃ، حاشیۃ 6، ص26)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 1997/44-1954
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی مسافت پر جانے کے لئے عورت کو شرعا لازم ہے کہ وہ محرم کے ساتھ ہی جائے، اور بلامحرم سفر کرنے کو ناجائز قرار دیاگیا۔ البتہ اگر عورت مقامی طور پر کہیں جانا چاہے ، مثلااپنے رشتہ داروں سے ملنے یابچوں کو اسکول چھوڑنے یا دوسرے کاموں کے لئے، تو اس کو اکیلے جانے کی شرعا اجازت ہے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ عورت کا تحفظ اس کے اپنے گھر کی چہاردیواری میں ہی رہنے میں ہے۔ عورت گرچہ مذکورہ مقاصد کے لئے گھر سے نکل سکتی ہے لیکن پھر بھی شریعت سے اس کے باہر نکلنے کو پسند نہیں کیاہے، اور حدیث میں ہے کہ جب عورت باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کے پیچھے لگ جاتاہے۔ اس لئے خواتین کو چاہئے کہ جو کام گھر کے مرد کرسکتے ہوں ، وہ کام ان سے کہہ کر کرالیں ، اور اگر عورت کوباہر جانا ہو تو کوئی محرم ساتھ میں لے کر چلاجائے۔ لڑکی اور جوان عورتوں کا گھر سے تنہا نکلنا بھی مفسدہ کا پیش خیمہ ہوسکتاہے۔ اس لئے موجودہ دَور میں خاص طور پر احتیاط کی ضرورت ہے، اور عورتوں کا اصل سرمایہ اس کی عفت و عصمت ہے، جس کا تحفط مردوعورت دونوں کو مل کر کرنا ہوگا۔ اللہ حفاظت فرمائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اصولِ شریعت کی کتابوں میں جن مقامات اور صورتوں میں اذان کی اجازت دی گئی ہے، ان میں قبر پر اذان کے متعلق نہ جواز منقول ہے اور نہ استحباب منقول ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرامؓ وتابعین عظامؒ نے کبھی قبر پر اذان نہیں دی، اگر اس عمل (قبر پر اذان) میں ذرا سی بھی کوئی نیکی یا بھلائی ہوتی، تو وہ حضرات ضرور بالضرور اس عمل کو انجام دیتے، پس یہ عمل اور اس کا التزام بدعت ہی کہلائے گا،(۱) اور اس کا ترک کرنا ہرمسلمان پر لازم اور ضروری ہوجائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرامؓ کے خلاف کوئی راستہ اختیار کرنا کھلی ہوئی بدعت اور گمراہی ہے۔(۲)
بقول شیخ سعدی علیہ الرحمہ:
خلاف پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہر گز بمنزل نخواہد رسید
(۱) لا یسن الأذان عند إدخال المیت في قبرہ کما ہو المعتاد الأٰن وقد صرح ابن حجر في فتاویہ بأنہ بدعۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱)
(۲) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا-، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص391
اسلامی عقائد
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:{وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ ط}(۱) قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے جو نبی اور رسول بھیجا ہے اس کو اس کی قوم کی زبان دے کر بھیجا، تاکہ وہ اپنی قوم کو تبلیغ کرسکے اور اسی زبان میں اس کو وحی دے کر بھیجا گیا جس زبان کو وہ جانتے تھے، چنانچہ بعض رسولوں اور نبیوں کو عربی زبان میں اور بعض کو سریانی زبان میں وحی بھیجی گئی؛ کیونکہ وہ اس کو جاننے والے تھے اور وہی زبان ان کی قوم کی زبان تھی ورنہ نبی اور رسول کا تخاطب بے کار ہو جاتا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف عربی زبان میں وحی بھیجی جو قرآن پاک کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔(۲)
(۱) سورۃ الإبراہیم: ۴۔
(۲) {نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْأَمِیْنُہلا ۱۹۳عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ہلا ۱۹۴ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِیْنٍ ہط۱۹۵} (سورۃ الشعراء: ۱۹۵)
{فَإِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّاہ۹۷} (سورۃ المریم: ۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص213
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ دونوں حضرات میں سے جو شخص عمر رسیدہ متقی پرہیزگار اور چالیس سال سے امام ہیں اور اسی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور گاؤں کے لوگ ان کی عزت اور احترام کرتے ہیں وہی امام نماز جمعہ بننے کے مستحق ہیں پس اگر اصل امام کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نماز جمعہ پڑھائے، تو مذکورہ حافظ ان دونوں میں سے زیادہ مستحق ہیں کہ ان سے نماز جمعہ پڑھوائی جائے۔(۱)
(۱) وإن کان متبحرا في علم الصلاۃ لکن لم یکن لہ حظ في غیرہ في العلوم فہو أولی، ہکذا في الخلاصۃ فإن تساووا فأقرأہم أي أعلمہم بعلم القراء ۃ … فإن تساووا فأورعہم فإن تساووا فأسنہم کذا في الہدایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
ثم الأورع ثم الأسن۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج۲، ص: ۲۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص101
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مخصوص ایام میں بیوی کی ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے حصہ سے بغیر حائل کے نفع اٹھانا شوہر کے لیے شرعاً ممنوع قرار دیاگیاہے؛ البتہ اس حصہ کے علاوہ باقی تمام بدن سے فائدہ اٹھانے کی شرعاً اجازت ہے، جیساکہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے:
’’(وقربان ما تحت إزار) یعنی ما بین سرۃ ورکبۃ ولو بلا شہوۃ، وحل ما عداہ مطلقًا۔ وہل یحل النظر ومباشرتہا لہ؟ فیہ تردد‘‘
’’(قولہ: وقربان ما تحت إزار) من إضافۃ المصدر إلی مفعولہ، والتقدیر: ویمنع الحیض قربان زوجہا ما تحت إزارہا، کما في البحر‘‘
’’(قولہ: یعني ما بین سرۃ ورکبۃ) فیجوز الاستمتاع بالسرۃ وما فوقہا والرکبۃ وما تحتہا ولو بلا حائل، وکذا بما بینہما بحائل بغیر الوطء ولو تلطخ دماً‘‘(۱)
نیز حالت حیض میں ہمبستری کرنا قطعاً ناجائز اور حرام ہے، قرآن کریم میں صراحۃً اس سے منع کیا گیا ہے {وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْمَحِیضِ قُلْ ہُوَ أَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَائَ فِی الْمَحِیضِ}(۲) اگر کبھی بے احتیاطی یا غلطی سے ایسا ہوجائے، تو سچے پکے دل سے اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنا واجب ہے، نیز اس کے ساتھ ساتھ بہتر ہے کہ اگر ابتدائے حیض میں ہمبستری کی ہو، تو ایک دینار اور اخیر ایام میں کی ہو، تو نصف دینار خیرات کرے۔ در مختار میں ہے:
’’…… فتلزمہ التوبۃ ویندب تصدقہ بدینا أو نصفہ …… ثم قیل إن کان الوطء في أول الحیض فبدینار أو آخرہ فبنصفہ، وقیل: بدینار لو الدم أسود وبنصفہ لو أصفر۔ قال في البحر: ویدل لہ ما رواہ أبو داود والحاکم وصححہ ’’إذا واقع الرجل أہلہ وہی حائض، إن کان دما أحمر فلیتصدق بدینار، وإن کان أصفر فلیتصدق بنصف دینار اہـ‘‘۔(۳)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۲۔
(۲) سورۃ البقرۃ: ۲۲۲۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص399
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت مسجد کے نچلے حصہ میں ہی ہونی چاہئے؛ لیکن کسی ضرورت مثلاً شدت گرمی کی وجہ سے مسجد کے اوپر کے حصہ میں نماز پڑھ لی گئی تو بھی درست ہے اور مسجد ہی کا ثواب ملے گا۔ ’’إن شاء اللّٰہ‘‘(۱)
(۱) وکرہ تحریماً الوطأ فوقہ والبول والتغوّط لأنہ مسجد إلی عنان السماء، قال الزیلعي: ولہٰذا صح اقتداء من علی سطح المسجد بمن فیہ إذ لم یتقدم علی الإمام ولایبطل الاعتکاف بالصعود إلیہ ولایحل للجنب والحائض والنفساء الوقوف علیہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب فيأحکام المسجد‘‘: ج۲، ص: ۴۲۸)
عند العذر کما في الجمعۃ والعیدین فإن القوم یقومون علی الخذف والإمام علی الأرض لم یکرہ ذلک لضیق المکان، کذا في النہایۃ … والأصح أنہ لایکرہ وبہ جرت العادۃ في جوامع المسلمین في أغلب الأمصار۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۴۴۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص435
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:غروب کے ڈیڑھ گھنٹہ (شفق ابیض کے غروب ہونے کے بعد) عشاء کی نماز پڑھنی چاہئے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے۔ اور اگر کوئی مجبوری ہو تو ایک گھنٹہ (شفق احمر کے غروب کے) بعد بھی پڑھی جاسکتی ہے یہ صاحبین رحمہما اللہ کا مسلک ہے۔ اور اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک پر عمل کرنا چاہئے۔(۱)
(۱) وأخر وقتہا ما لم یغب الشفق أي الجزء الکائن قبیل غیبوبۃ الشفق من الزمان وہو أي المراد بالشفق ہو البیاض الذي في الأفق الکائن بعد الحمرۃ التي تکون في الأفق عند أبي حنیفۃ وقالا أي أبو یوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ وہو قول الأئمۃ الثلثۃ وروایۃ اسد بن عمرو عن أبي حنیفۃ أیضاً المراد بالشفق ہو الحمرۃ نفسہا لا البیاض الذي بعدہا۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۰، مکتبہ، دار الکتاب، دیوبند؛ ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: في الصلاۃ الوسطی‘‘: ج ۲، ص: ۱۸، مکتبہ، زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص76