طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو حصہ پیر کا وضو میں دھویا جاتا ہے، وہ اگر مکمل کٹا ہوا ہے تو اسے دھونا ساقط ہو جاتا ہے۔(۱)

(۱)ولو قطعت رجلہ من الکعب و بقی النصف من الکعب یفترض علیہ غسل ما بقي من الکعب أو موضع القطع، و إن کان القطع فوق الکعب أو فوق المرفق لم یجب غسل موضع القطع۔ (الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الأول فيالوضوء،‘‘ ج۱،ص:۲۰۵)؛ ولو قطعت یدہ أو رجلہ فلم یبق من المرفق والکعب شيء سقط الغسل، ولو بقي وجب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفرض الثالث، غسل الرجلین،‘‘ ج۱، ص:۵۴)؛ و لو قطعت رجلیہ و بقي بعض الکعبۃ یجب غسل البقیۃ و موضع القطع و کذا في المرفق۔ (حسام الدین بن علي، البنایۃ،’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۱۶۶مکتبۃ زکریا، دیوبند)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص139

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر عاقل بالغ مسلمان جس کو جنابت لاحق ہو جائے اسے
چاہئے کہ سب سے پہلے اپنے بدن پر اگر ظاہری نجاست لگی ہو، تو اسے صاف کرے، ابتداء میں غسلِ جنابت کرتے ہوئے اچھی طرح کلی کرے اور ناک میں پانی ڈالے اور اگر روزہ نہ ہو تو کلی کرتے ہوئے غرغرہ بھی کرے اور ناک میں پانی ڈالتے ہوئے ناک کے بانسے (ناک کی نرم ہڈی) تک پانی کو پہونچائے اس کے بعد پورے جسم پر اس طرح پانی بہائے کہ جسم میں بال کے بقدر بھی کوئی حصہ خشک نہ رہ جائے، امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے۔

’’عن ابن عباس، عن میمونۃ زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قالت: توضأ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وضوئہ للصلاۃ، غیر رجلیہ، وغسل فرجہ وما أصابہ من الأذی، ثم أفاض علیہ الماء، ثم نحی رجلیہ، فغسلہما، ہذہ غسلہ من الجنابۃ‘‘(۱)
اسلام صفائی، ستھرائی، طہارت اور پاکیزگی کو پسند کرتا ہے اور یہی انسانی فطرت بھی ہے اور اس فطرت کا اسلام نے بھر پور لحاظ رکھا ہے اسی لیے اگر کوئی شخص غسلِ جنابت میں صابن اور شیمپوکا استعمال کرتا ہے تو یہ چیزیں نظافت کے لیے اچھی ہیں؛ لیکن غسلِ جنابت کے صحیح ہونے کے لیے صابن اور شیمپوکا استعمال کرنا ضروری نہیں ہے اور اگر کوئی کپڑے سمیت ہی ان فرائض کو پورا کرلے مثلاً: کپڑے پہنے ہوئے کسی نہر وغیرہ میں چلا جائے اور اچھی طرح نجاست کو زائل کردے، تو نجاست زائل ہونے، کلی اور ناک میں پانی ڈالنے کے بعد ایسے شخص کا غسل ہوجائے گا، کپڑے اتار کر غسل کرنا ضروری نہیں ہے۔
جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے:
’’وہي ثلاثۃ: المضمضۃ، والاستنشاق، وغسل جمیع البدن علی ما في المتون‘‘(۲)
’’وجبت المضمضۃ والاستنشاق في الغسل‘‘(۳)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الغسل: باب الوضوء قبل الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹، رقم: ۲۴۹۔(مکتبہ نعیمیہ، دیوبند)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الثاني في الغسل، الفصل الأول: في فرائضہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۔
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: فصل الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص327

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب وہ معذور ہو گیا،تو اب خواہ قطرہ وقفہ سے آئے یا جلدی جلدی آئے، ایک وضو سے ایک وقت میں جتنی چاہے فرض، سنت اور نفل وغیرہ نمازیں پڑھ سکتا ہے۔(۱)

(۱)والمستحاضۃ ومن بہ سلس البول والرعاف الدائم والجرح الذی لا یرقاء یتوضؤن لوقت کل صلوٰۃ فیصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاء وا من الفرائض والنوافل۔ (المرغینانی، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل والمستحاضہ‘‘ ج۱، ص:۶۷) ؛ وفیصلون بذلک الوضوء في الوقت ما شاء وا من الفرائض والنوافل۔ و بہ قال الأوزاعي واللیث و أحمد۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل والمستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۶۷۱) ؛ و من بہ سلس البول أو استطلاق بطن وانفلات ریح و رعاف و دائم و جرح لا یرقاء و یمکن حبسہ بحشو من غیر مشفۃ ولا بجلوس ولا بالایماء في الصلوۃ، فبھذا یتوضؤن لوقت کل فرض، لا لکل فرض ولا نفل۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۱۴۹، دارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص412

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اور بسا اوقات پوری زندگی گزار دیتے ہیں اگر امام صاحب کے امامت سے علاحدگی کے وقت بطور اکرام ان کا تعاون کر دیا جائے تو اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ عام طور پر فقہی کتابوں میں اس کی ممانعت جو لکھی گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے وقف کی جائداد سے امام کو تنخواہ دی جاتی تھی اور وقف کے پیسوں کو اس کے متعین مصرف کے علاوہ میں خرچ کرنا درست نہیں ہے؛ لیکن موجودہ صورت حال بدل چکی ہے اب عام طور پر وقف کی آمدنی سے امام کو تنخواہ نہیں دی جاتی ہے؛ بلکہ چندہ کی رقم سے یا مصالح مسجد کے لیے وقف کی جائداد دوں کی آمدنی سے دی جاتی ہے اور چندہ کی رقم میں اگر چندہ دہندگان کے علم میں لاکر امام کو بطور اکرام کے کچھ رقم دی جائے تو اس میں عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک مستحسن اور پسندیدہ عمل ہے۔ حدیث میں مومن کی ضرورتوں کی کفالت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے:
’’من کان في حاجۃ أخیہ کان اللّٰہ في حاجتہ ومن فرج عن مسلم کربۃ فرج اللّٰہ عنہ بہا کربۃ من کرب یوم القیامۃ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ أبو داود   في سننہ، ’’کتاب الأدب، باب المواخاۃ، والتواضع‘‘: ج ۲، ص: ۶۷۰، رقم: ۴۸۹۳۔

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص319

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:تہجد کی نماز کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق تک ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحاح میں روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ وسلم نے تہجد ابتدائی شب میں بھی، نصف شب میں بھی اور آخری شب میں بھی پڑھی ہے۔ زندگی میں زیادہ تر نصف شب میں اور آخری شب میں پڑھی ہے مگر آخر زندگی میں زیادہ تر آخری شب میں پڑھنا ہوتا تھا، رات میں جتنی تاخیر سے تہجد پڑھی جاتی ہے اتنی ہی رحمتیں اور برکتیں زیادہ ہوتی ہیں اور سدس آخر یعنی رات کا آخری چھٹا حصہ تمام حصوں سے زیادہ افضل ہے۔(۱)

(۱) وروي الطبراني مرفوعا: ۔۔۔۔ وما کان بعد صلاۃ العشاء فہو من اللیل۔۔۔۔  قلت:۔۔۔۔ غیر خاف أن صلاۃ اللیل المحثوث علیہا ہي التہجد۔۔۔۔، وأید بما في معجم الطبراني من حدیث الحجاج بن عمرو رضي اللّٰہ تعالی عنہ قال:  بحسب أحدکم إذا قام من اللیل یصلی حتی یصبح أنہ قد تہجد، إنما التہجد المرء یصلی الصلاۃ بعد رقدۃ۔۔۔۔ أقول: الظاہر أن حدیث الطبراني الأول بیان لکون وقتہ بعد صلاۃ العشاء، حتی لو نام ثم تطوع قبلہا لا یحصل السنۃ، فیکون حدیث الطبراني الثاني مفسرا للأول۔۔۔۔  ولأن التہجد إزالۃ النوم بتکلف مثل؛  تأثم: أي تحفظ عن الإثم؛  نعم صلاۃ اللیل وقیام اللیل أعم من التہجد۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر و النوافل، مطلب في صلاۃ اللیل‘‘: ج ۲، ص: ۴۶۷، زکریا بکڈپو، دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص93

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس بارے میں امام شافعیؒ کا مسلک تو یہ ہے کہ اقامت ختم ہونے کے بعد امام و مقتدی کھڑے ہوں۔ یہ ہی مستحب ہے۔ امام مالکؒ کے نزدیک، حسب روایت قاضی عیاض شروع اقامت ہی سے کھڑا ہونا مستحب ہے۔ امام احمد ابن حنبلؒ کے نزدیک جب مؤذن قد قامت الصلوٰۃ کہے اس وقت کھڑا ہونا چاہئے۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے قول میں ذرا تفصیل ہے کہ امام اور مقتدی اگر اقامت سے پہلے ہی مسجد میں موجود ہوں تو صحیح روایت کے مطابق حي علی الفلاح پر اٹھ جانا چاہئے۔ اور اگر امام باہر سے آرہا ہو تو اگر وہ محراب کے کسی دروازے سے یا اگلی صف کے سامنے سے آئے تو جس وقت مقتدی امام کو دیکھیں اسی وقت کھڑے ہو جائیں اور اگر پچھلی صف سے آرہا ہے تو جس صف سے امام گذرے وہ صف کھڑی ہوجائے۔ امام نوویؒ نے شرح مسلم میں تحریر فرمایا ہے:
’’مذہب الشافعی وطائفۃ أنہ یستحب أن لا یقوم أحد حتی یفرغ المؤذن من الإقامۃ، ونقل القاضي عیاض عن مالک وعامۃ العلماء أنہ یستحب أن یقوموا إذا أخذ المؤذن في الإقامۃ، وکان أنس یقوم إذا قال المؤذن قد قامت الصلوٰۃ، وبہ قال أحمد وقال أبوحنیفۃ والکوفیون یقومون في الصف إذا قال حي علی الصلوٰۃ‘‘(۱)
امام اعظمؒ کے مسلک کی پوری تفصیل بدائع الصنائع اور فتاویٰ ہندیہ نے اس طرح بیان فرمائی ہے ’’إن کان المؤذن غیر الإمام وکان القوم مع الإمام في المسجد فإنہ یقوم الإمام والقوم إذا قال المؤذن حي علی الفلاح عند علمائنا الثلاثہ وہو الصحیح فأما إذا کان الإمام خارج المسجد فإن دخل من قبل الصفوف فکلما جاوز صفا قام ذلک الصف وإلیہ مال شمش الأئمہ الحلوانی والسرخسي وشیخ الإسلام ’’خواہر زادہ‘‘ وإن کان الإمام دخل المسجد من قدامہم یقومون کما رأی الإمام الخ‘‘(۲)
البحر الرائق میں حنفیہ کے مسلک کی تفصیل لکھتے ہوئے جہاں یہ بیان کیا ہے کہ جب امام اقامت سے پہلے ہی مسجد میں موجود ہو تو ’’حي علی الفلاح‘‘ پر کھڑا ہونا چاہئے اس کی علت یہ بیان کی ہے ’’والقیام حین قیل حي علی الفلاح لأنہ أمر یستحب المسارعۃ إلیہ‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جن حضرات نے ’’حي علی الفلاح‘‘ یا ’’قدقامت الصلوٰۃ‘‘پر کھڑے ہونے کو مستحب قرار دیا ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ ’’حي علی الفلاح‘‘ یا ’’قد قامت الصلوٰۃ‘‘ کے بعد بیٹھنا خلاف ادب ہے یہ مطلب نہیں کہ اس سے پہلے کھڑا ہونا خلاف ادب ہے، اس لیے کہ پہلے کھڑے ہونے میں تو اور بھی زیادہ مسارعت پائی جاتی ہے اور جہاں مسجد میں کھڑے ہوکر جماعت کا انتظار کرنے سے منع کیا گیا ہے وہاں مراد یہ ہے کہ اگر امام مسجد میں آیا ہی نہیں تو کھڑے رہنا اور انتظار کرنا درست نہیں جیسا کہ اس حدیث میں ہے جس کو بخاری شریف نے ’’باب متی یقوم الناس إذا رأوا الإمام‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔ ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أقیمت الصلوٰۃ فلا تقوموا حتی تروني‘‘(۱)
نیز صفوں کا سیدھا کرنا بھی عند الشرع مطلوب ہے اور یہ حکم بڑی قوت کا حامل ہے جس پر بدرجہ اتم عمل اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کہ پہلے ہی سے لوگ کھڑے ہو جائیں نیز یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے ثابت ہے ’’قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یسوی صفوفنا إذا قمنا إلی الصلاۃ فإذا استوینا کبر (۲) وأیضا روی عن عمرؓ أنہ کان یؤکّل رجلاً بإقامۃ الصفوف ولا یکبر حتی یخبر أن الصفوف قد استوت أخرجہ الترمذي وقال: وروي عن علي وعثمان أنہما کانا یتعاہدان ذلک‘‘(۳)
سوال میں آپ نے جو عبارتیں نقل کی ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ امام کے مسجد میں آنے سے پہلے کھڑے ہوکر جماعت کا انتظار کرنا درست نہیں ہے اور اگر پہلے کھڑے ہوکر صفیں سیدھی کرلی جائیں تو درست ہے اور ’’قد قامت الصلوٰۃ‘‘ کے بعد بیٹھے رہنا مناسب نہیں ہے۔
نوٹ: فقہاء کا اس سلسلہ میں اختلاف افضلیت و استحباب میں ہے جواز و عدم جواز میں نہیں ہے؛ اس لیے مسئلہ ہذا میں شدت اختیار نہ کی جائے۔

(۱)  أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ‘‘: باب متی یقوم الناس للصلاۃ، ج۱، ص:۲۲، رقم: ۶۰۵۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘:باب صفۃ الصلاۃ،
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب حتی یقوم الناس إذا رأؤا الإمام عند الإقامۃ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۸، رقم: ۶۳۷۔
(۲) أخرجہ أبوداود في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، تفریع أبواب الصفوف، باب تسویۃ الصفوف، ج۱، ص: ۹۷، رقم: ۶۶۵
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في إقامۃ الصفوف، ج۱، ص: ۵۳، رقم: ۲۲۷۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص213

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مسبوق وہ شخص کہلاتا ہے کہ جو ایک رکعت یا اس سے زیادہ ہوجانے کے بعد امام کے ساتھ جماعت میں تاخیر سے آکر شریک ہوا ہو۔
’’المسبوق من لم یدرک الرکعۃ الأولی مع الإمامۃ‘‘(۱)
’’المسبوق من سبقہ الإمام بھا أو ببعضھا‘‘(۲)
’’کالمسبوق وھو الذي لم یدرک أول الصلاۃ مع الإمام‘‘(۳)
’’وحقیقۃ المسبوق ھو من لم یدرک أول صلاۃ الإمام والمراد بالأول الرکعۃ الأولی‘‘(۴)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج۱، ص: ۱۴۸۔
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب: فیما لو أتی بالرکوع و السجود أو بھما مع الإمام أو قبلہ أو بعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۶،( زکریا، دیوبند)
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ:  بیان کیفیۃ القضاء‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۳۔
(۴) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الحدث في الصلاۃ، (وصح استخلاف المسبوق)‘‘: ج۱، ص: ۶۶۱؛ و جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیہ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السابع في المسبوق واللاحق‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۹۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص52

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا ضرورت پیروں کو حرکت دینا مکروہ ہے ہاں اگر تھوڑا سا پیر ادھر اُدھر ہو جائے تو نماز میں کوئی نقص نہیں آئے گا۔ نماز بہر صورت ہوجاتی ہے۔(۲)

(۲) فإن کان أجنبیا من الصلاۃ لیس فیہ تتمیم لہا، ولا فیہ دفع ضرر فہو مکروہ أیضا کالعبث بالثوب أو البدن وکل مایحصل بسبہ شغل القلب وکذا ماہو من عادۃ أہل التکبیر أو صنیع أہل الکتاب۔ (غنیۃ المتملی شرح منیۃ المصلی ’’مطلب في حکم تغطیۃ المصلی فمہ في الصلاۃ‘‘ ج۱، ص: ۲۱۶)
یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ، و إن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لایکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص173

 

Taharah (Purity) Ablution &Bath

In the name of Allah the Most Gracious the Most Merciful

The answer to your question is as follows:

According to Shariah ruling, you are not Mazoor. Hence if the drop of urine comes after urination, it will surely nullify your wuzu. You must change napkin, make Wuzu and perform namaz. Changing napkin twice or thrice is not sufficient. Every time the napkin gets wet you have to change it, renew your wuzu and read namaz.

NOTE: A Mazoor is one who suffers from urine problem and cannot find so much time that he can perform wuzu and one namaz without urine drop. If full time of a salah passed and he could not be able to perform namaz with complete purity, then he is Mazoor. And he will be Mazoor as long as full time of a namaz passes without urine problem.

For him, Shariah gives concession that he must perform wuzu when the time of a salah starts and then perform namaz even with the drops of urine coming out and falling onto his clothes. He can complete his salaah in that state.

For more, See Fatwa No. 971 online

 

And Allah knows the best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1247 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:جیسی چھوٹی ہے اسی طرح ادا کریں گے، لہذا  صورت مسئولہ میں چھوٹی ہوئی رکعت میں دعاء قنوت دوبارہ  نہیں  پڑھی جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند