Frequently Asked Questions
The Holy Qur’an & Interpretation
Ref. No. 838 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
اس میں نماز کی پابندی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، اور یہ اطلاع ہے کہ اس کے ذریعہ سے آپ کی ہر طرح سے حفاظت ہوگی۔ واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 1240 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-:۱۔ زکوة کی رقم پوری ایک ساتھ کسی کو دینا ضروری نہیں بلکہ حسب موقع و ضرورت تھوڑا تھوڑا دینا بھی درست ہے ۔
۲۔ اگر اس شخص کی ملکیت میں بقدرنصاب مال نہیں ہے تو اس کو زکوة کی رقم دے سکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
Ref. No. 38 / 1113
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Network marketing involves conditions which are invalid according to Islamic rulings. Hence it is not allowed to become a member of network marketing to take commission from the work of the persons below you while you do not have a share in their work etc.
And Allah Knows Best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
تجارت و ملازمت
Ref. No. 40/1046
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حلال کاروبار میں شرعا کسی کے لئے کوئی قباحت نہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 969/41-111
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہندوستانی زمینوں کے تعلق سے علماء میں اختلاف رہا ہے ۔تاہم علماء دیوبند ہندوستانی زمینوں کو نہ عشری مانتے ہیں نہ خراجی۔ اس لئے یہاں کی زمینوں میں جو کچھ پیدا ہو اس کو نصاب زکوۃ میں شامل کرکے اس کی زکوۃ نکالی جائے گی۔ نصاب اور حولان حول وغیرہ کی شرطیں اس میں بھی زکوۃ کی طرح نافذ ہوں گی۔ عشری وخراجی زمینوں کے بارے میں فتاوی رحیمیہ ، امداد الفتاوی اور فتاوی رشیدیہ وغیرہ میں تفصیلی بحث موجود ہے۔ مطالعہ کرلیا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1171/42-425
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں کسی قریبی دارالقضاء سے رجوع کریں، کیونکہ یہ بات تحقیق طلب ہے کہ سر میں لگی چوٹ کس نوعیت کی تھی، حواس کس حد تک گم ہوگئے تھے، ڈاکٹر کی رپورٹ کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1292/42-663
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر دونوں لڑکے پیسے کماکر باپ کو بھیجتے ہیں، تو گویا وہ باپ کو ہبہ کردیتے ہیں ، اب باپ اپنی مرضی سے اپنی صوابدید پر زمین خریدتاہے ، مکان بناتا ہے، یا گھر کا خرچ چلاتاہے۔ ایسی صورت میں والد نے جوزمین خرید کر اپنے نام کرائی تویہ اس کی ملکیت شمار ہوگی اس میں وراثت جاری ہوگی اور اس میں سب بیٹےبرابر شریک ہوں گے، لیکن اگر ان دونوں بیٹوں نے کماکر جو زمین خریدی والد کو اس کا مالک نہیں بنایا بلکہ صرف ان کا نام کاغذ میں ڈالدیا تھا تو اس میں چھوٹے بھائی کا حصہ نہیں ہوگا۔ تاہم دونوں صورتوں میں چھوٹے بھائی کی پڑھائی وغیرہ میں جو کچھ خرچ ہوا وہ سب تبرع سمجھاجائےگا،اس کا کسی حساب میں شمار نہ ہوگا ۔
وکذا لو اجتمع اخوۃ یعملون فی ترکۃ ابیھم ونمی المال فھو بینھم سویۃ ولو اختلفوا فی العمل والرائ (شامی3/383) الاب وابنہ یکتسبان فی صنعۃ واحدۃ ولم یکن لھما شیئ فالکسب کلہ للاب ان کان الابن فی عیالہ (شامی 6/392، کتاب الشرکۃ،الشرکۃ الفاسدۃ) الااذاکان لھاکسب علی حدۃ فھو لھاکذافی القنیۃ (الھندیۃ، کتاب الشرکۃ 2/329) (مشترکہ وجداگانہ خاندانی نظام، ایفا پبلی کیشنز، دہلی ص128)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 1436/42-857
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔'للہ'، 'عٰلمین '، 'ملک'، 'ایاک'، کے کھڑا زبر کو ایک الف کے برابر کھینچنا چاہئے جو مد اصلی کی مقدار ہے، اس سے زیادہ کھینچنا مکروہ ہے۔ اور 'یوم' کے اندر لین ہے جسکی مقدار بھی ایک الف کے برابر ہے ، اس سے زیادہ کھینچنا درست نہیں ہے۔ 2 السلام علیکم کو الف لام کے ساتھ کہنا سنت ہے اور بغیر الف لام کے سلام علیکم کہنا خلاف سنت ہے، البتہ نماز ان تمام صورتوں میں درست ہوجاتی ہے۔
قال في البحر: وهو على وجه الأكمل أن يقول: السلام عليكم ورحمة الله مرتين، فإن قال السلام عليكم أو السلام أو سلام عليكم أو عليكم السلام أجزأه وكان تاركا للسنة، (شامی1/526، فروع قرا بالفارسیۃ) فإن نقص فقال: السلام عليكم أو سلام عليكم أساء بتركه السنة وصح فرضه (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، فصل فی بیان سننھا 1/274)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ مسئلہ ایمانیات ومعتقدات سے متعلق نہیں ہے روایات مضطرب ہیں؛ اس لئے فقہاء اس جیسے مسائل پر کلام کرنے سے منع فرماتے ہیں۔(۱)
(۱)وأنزل اللّٰہ تعالیٰ في أبي طالب فقال لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: {إِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِيْ مَنْ یَّشَآئُج وَھُوَ أَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ ہ۵۶} (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب الدلیل علی صحۃ إسلام من حضرہ الموت ما لم یشرع الخ‘‘: ج ۱، ص: ۴۰، رقم: ۲۴)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعمہ عند الموت: قل لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد لک بہا یوم القیامۃ فأبي قال: فأنزل اللّٰہ {إِنَّکَ لَا تَھْدِيْ مَنْ أَحْبَبْتَ} (الآیۃ)۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب الدلیل علی صحۃ إسلام من حضرہ الموت ما لم یشرع الخ‘‘: ج ۱، ص: ۴۰)
عائلی مسائل
Ref. No. 1693/43-1334
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر کے انتقال کے وقت بیوی ملتان میں تھی تو وہیں عدت گزارے۔ عام حالات میں دوران عدت سفر وغیرہ سے حتی الامکان گریز کرنا لازم ہے۔ البتہ اگر ملتان میں رہنا ممکن نہ ہو اور سفر کرکے کراچی آنا ہی ناگزیر ہو تو کسی محرم کے ساتھ دن میں سفر کرکے اپنے مقام پر پہونچ جائے اور عدت وہیں گزارے پھر دوبارہ سفر نہ کرے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ کی بہن حضرت فریعہ بنت مالک ؓ بیوہ ہوگئیں تواللہ کے رسولِ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا : اُمْکُثِیْ فِیْ بَیْتِکَ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتَابَ اَجَلَہٗ (ابوداؤد : ۲۳۰۰، ترمذی : ۱۲۰۴)
فقہاء نے لکھا ہے کہ بیوہ عورت وقتِ ضرورت دن میں تو گھر سے باہر جاسکتی ہے ، لیکن رات اسے ضرور اپنے گھر ہی میں گزارنی چاہیے۔ (فتاویٰ عالم گیری ،۱/۵۳۴ ، بدائع الصنائع ،۳/۲۰۵، ۲۰۶، فتح القدیر ،۳/۲۸۵)
حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ عَمَّتِهِ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، أَنَّ الفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ وَهِيَ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، أَخْبَرَتْهَا [ص:501] أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِي بَنِي خُدْرَةَ، وَأَنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ أَبَقُوا، حَتَّى إِذَا كَانَ بِطَرَفِ القَدُومِ لَحِقَهُمْ فَقَتَلُوهُ، قَالَتْ: فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي، فَإِنَّ زَوْجِي لَمْ يَتْرُكْ لِي مَسْكَنًا يَمْلِكُهُ وَلَا نَفَقَةً، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ»، قَالَتْ: فَانْصَرَفْتُ، حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الحُجْرَةِ، أَوْ فِي المَسْجِدِ، نَادَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أَمَرَ بِي فَنُودِيتُ لَهُ، فَقَالَ: «كَيْفَ قُلْتِ؟»، قَالَتْ: فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ القِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ لَهُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِي، قَالَ: «امْكُثِي فِي بَيْتِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الكِتَابُ أَجَلَهُ»، قَالَتْ: فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ أَرْسَلَ إِلَيَّ، فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَاتَّبَعَهُ وَقَضَى بِهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ فَذَكَرَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ»، " وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا الحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: لَمْ يَرَوْا لِلْمُعْتَدَّةِ أَنْ تَنْتَقِلَ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، [ص:502] وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ «،» وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَعْتَدَّ حَيْثُ شَاءَتْ، وَإِنْ لَمْ تَعْتَدَّ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا ".: «وَالقَوْلُ الأَوَّلُ أَصَحُّ» (سنن الترمذی 3/500 الرقم 1204) (سنن ابی داؤد، باب فی المتوفی عنھا تنتقل 3/608 الرقم 2300)
أبانها، أو مات عنها في سفر) ولو في مصر (وليس بينها) وبين مصرها مدة سفر رجعت ولو بين مصرها مدته وبين مقصدها أقل مضت (وإن كانت تلك) أي مدة السفر (من كل جانب) منهما ولا يعتبر ما في ميمنة وميسرة، فإن كانت في مفازة (خيرت) بين رجوع ومضي (معها ولي، أو لا في الصورتين، والعود أحمد) لتعد في منزل الزوج (و) لكن (إن مرت) بما يصلح للإقامة كما في البحر وغيره. زاد في النهر: وبينه وبين مقصدها سفر (أو كانت في مصر) أو قرية تصلح للإقامة (تعتد ثمة) إن لم تجد محرما اتفاقا، وكذا إن وجدت عند الإمام (ثم تخرج بمحرم) إن كان". (الدر المختار علی تنویر الابصار (3/ 538)
"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه. (قوله: في بيت وجبت فيه) هو ما يضاف إليهما بالسكنى قبل الفرقة ولو غير بيت الزوج كما مر آنفا، وشمل بيوت الأخبية كما في الشرنبلالية. (قوله: ولا يخرجان) بالبناء للفاعل، والمناسب " تخرجان " - بالتاء الفوقية -؛ لأنه مثنى المؤنث الغائب أفاده ط. (قوله: إلا أن تخرج) الأولى الإتيان بضمير التثنية فيه وفيما بعده ط، وشمل إخراج الزوج ظلما، أو صاحب المنزل لعدم قدرتها على الكراء، أو الوارث إذا كان نصيبها من البيت لا يكفيها بحر: أي لا يكفيها إذا قسمته لأنه لا يجبر على سكناها معه إذا طلب القسمة، أو المهايأة ولو كان نصيبها يزيد على كفايتها. (قوله: أو لا تجد كراء البيت) أفاد أنها لو قدرت عليه لزمها من مالها، وترجع به المطلقة على الزوج إن كان بإذن الحاكم كما مر. (قوله: ونحو ذلك) منه ما في الظهيرية: لو خافت بالليل من أمر الميت والموت ولا أحد معها لها التحول - والخوف شديد - وإلا فلا. (قوله: فتخرج) أي معتدة الوفاة".(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 536)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند