Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ طریقہ سلف صالحین و صحابہؓ و تابعین سے ثابت نہیں ہے؛ لہٰذا بدعت و مکروہ ہے (۱) اور تصریحات قواعد فقہ سے اس کی ممانعت معلوم ہوتی ہے، لہٰذا اس کو ترک کرنا لازم ہے۔ البتہ اگر کوئی خود بخود آہستہ آہستہ پڑھتا چلا جائے اور ایصال ثواب مقصود ہو تو درست ہے۔
(۱) ومن ہذ المعنی سمیت البدعۃ بدعۃ فاستخراجہا للسلوک علیہا ہو الابتداع وہیئتہا ہي البدعۃ، وقد یسمی العلم المعمول علی ذلک الوجہ بدعۃ، فمن ہذا المعنی سمي العمل الذي لا دلیل علیہ في الشرع بدعۃ۔ (أبو إسحاق الشاطبي، الاعتصام: ج ۱، ص: ۲۳)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص400
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جلوس وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بغیر کسی التزام کے وعظ و نصیحت میں حرج نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
من أحدث فی الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔…… (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
لا بأس بالجلوس للوعظ إذا أراد بہ وجہ اللّٰہ تعالیٰ کذا في الوجیز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص484
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2446/45-3712
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
We call an older woman mother as a sign of respect, so the word mother can be used to show respect and love for Hazrat Fatimah.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان مذکورہ الفاظ میں ’’ص‘‘ کے اوپر ’’س‘‘ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ تلاوت کرنے والا اس کو ’’ص اور س‘‘ دونوں کے ساتھ پڑھ سکتا ہے؛ لیکن دونوں میں سے صرف ایک طریقہ اختیار کرے نہ کہ دونوں یعنی دو دفعہ نہ پڑھے۔(۲)
(۲) ویبسط بالبقرۃ وبصطۃ بالأعراف بالسین وصلاً ووقفاً وہم المصیطرون بالطور بالخف۔ (محمد ہارون، خلاصۃ البیان، مع ضیاء البرہان، ص: ۲۶۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص71
حدیث و سنت
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:حوض میں دہ در دہ ہونا اوپر سے ضروری ہے، اگر اوپر سے کم ہے، تو وہ شرعی حوض نہ ہوگا۔(۱)
(۱) و إن کان أعلی الحوض أقل من عشر في عشر و أسفلہ عشر في عشر أو أکثر، فوقعت نجاسۃ في أعلی الحوض حکم بنجاسۃ الأعلی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، ج۱،ص:۷۱)؛ ولو أعلاہ عشراً و أسفلہ أقل جاز حتی یبلغ الأقل، ولو بعکسہ فوقع فیہ نجس لم یجز حتی یبلغ العشر۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، قبیل مطلب: یطھر الحوض بمجرد الجریان، ج۱،ص:۳۴۳)، اگر کھلا ہوا پانی مقدارِ شرعی سے کم ہے، تو اس سے وضو اس وقت تک کیا جاسکتا ہے، جب تک کوئی نجاست اس میں نہ پڑے، نجاست پڑنے سے وہ حوض ناپاک ہوجائے گا (کفایت المفتی، باب ما یتعلق بأحکام الحوض،ج۳، ص:۳۹۸)؛ فإذا کان أعلی الحوض أقل من عشر في عشر و أسفلہ عشر في عشر أو أکثر ووقعت نجاسۃ في أعلی الحوض حکم بنجاسۃ الأعلی ثم انتقض الماء و انتھی إلی موضع ھو عشر في عشر۔ (المحیط البرھاني، کتاب الطہارات، الفصل الرابع في المیاہ، ج۱، ص:۹۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص473
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو میں مشغول آدمی کو سلام نہ کیا جائے، وضو بھی ایک عبادت اور کار ثواب ہے، جس میں مصروفیت اور خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ بعض اعضاء ایسے ہیں کہ اگر خاص توجہ نہ دی جائے، تو خشک ہی رہ جائیں گے اور وضو نہ ہوگا۔
وضو میں بعض فرائض، بعض سنن اور بعض مستحبات ہیں، اس کے آداب میں سے یہ ہے کہ عضو کو دھوتے ہوئے بسم اللہ اور کلمہ شہادت پڑھا جائے(۱) اور دوسری دعائیں بھی کتابوں میں منقول ہیں(۲)، جو ہر عضو کے لیے الگ الگ مخصوص ہیں، سلام سے ان سب چیزوں میں خلل ہونے کا قوی اندیشہ ہے؛ لہٰذا اس موقعہ پر سلام نہ کیا جائے اور اگر کوئی سلام کرے، تو اس کا جواب دینا اولیٰ اور بہتر ہے؛ لازم نہیں ہے۔(۳)
(۱)عن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: من توضأ فأحسن الوضوء ثم قال : أشھد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہٗ لاشریک لہ و أشھد أن محمدا عبدہٗ و رسولہ۔ أللھم اجعلني من التوابین واجعلني من المتطھرین، فتحت لہ ثمانیۃ أبواب الجنۃ یدخل من أیھا شاء۔ (أخرجہ الترمذي، فی سننہ، ’’أبواب الطہارۃ، باب ما یقال بعد الوضوء،‘‘ ج۱،ص:۱۸، کتب خانہ نعیمیۃ دیوبند)
(۲)والدعاء بالوارد عندہ أي عند کل عضو۔ والصلاۃ والسلام علی النبي بعدہ أي بعد الوضوء۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في مباحث الاستعانۃ في الوضوء بالغیر،‘‘ ج۱،ص:۵۲-۲۵۳)
(۳) فیکرہ السلام علی مشتغل بذکر اللّٰہ تعالی بأي وجہ کان۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، مطلب: المواضع التي یکرہ فیھا السلام،‘‘ ج۲، ص:۳۷۴)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص140
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل کرتے وقت اگر زیورات کے ہلانے سے پانی اندر تک پہنچ جاتا ہے، تو انہیں ہلا لینا ہی کافی ہے، اتارنا ضروری نہیں، اسی طرح کان میں بندے ڈالنے کے لیے جو سوراخ کیا جاتا ہے جنابت کے غسل کے دوران اس میں بھی پانی پہنچانا ضروری ہے، اگر کان میں بندے؍ بالی پہنی ہوئی ہو اور پانی بہاتے ہوئے ان سوراخوں میں خود بخود پانی پہنچ جائے، تو کافی ہے، ورنہ زیور کو ہلاکر پانی پہنچانا ضروری ہوگا۔
’’وسئل نجم الدین النسفی رحمہ اللّٰہ عن امرأۃ تغتسل من الجنابۃ، ہل تتکلف لإیصال الماء إلی ثقب القرط؟ قال: إن کان القرط فیہ، وتعلم أنہ لایصل الماء إلیہ من غیر تحریک فلا بد من التحریک، کما في الخاتم، وإن لم یکن القرط فیہ، إن کان لایصل الماء إلیہ لاتکلف، وکذلک إن انضم ذلک بعد نزع القرط وصار بحیث لایدخل القرط فیہ إلا بتکلف لاتتکلف أیضاً، وإن کان بحیث لو أمرَّت الماء علیہ دخلہ، ولو عدلت لم یدخلہ أمرت الماء علیہ حتی یدخلہ، ولاتتکلف إدخال شيء فیہ سوی الماء من خشب أو نحوہ لإیصال الماء إلیہ‘‘(۱)
’’ویجب تحریک القرط والخاتم الضیقین، ولو لم یکن قرط فدخل الماء الثقب عند مرورہ أجزأہ کالسرۃ، وإلا أدخلہ کذا في فتح القدیر ولا یتکلف في إدخال شيء سوی الماء من خشب ونحوہ‘‘(۲)
’’وکان خاتمۃ ضیقاً نزعہ أو حر کہ وجوبا کقرط ولو لم یکن بثقب أذنہ قرط فلا خلا الحماء فیہ عند مرورہ علی أذنہ أجراہ کسرۃ وأذن دخلہما الماء وإلا یدخل أدخلہ ولو باصبعہ‘‘(۱)
(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارات: الفصل الثالث في تعلیم الاغتسال، نوع منہ‘‘: ج ۱، ص: ۸۰ (مکتبہ شاملہ)
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ: فرض الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۸۸۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص329
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً قطرہ آتا ہو، تو اس طرح قطرہ آنے سے وضو ٹوٹ جائے گا، نماز کے دوران آیا تو نماز بھی نہ ہوگی اور اتنی کم نجاست کو کپڑے پر لگائے رکھنا درست نہیں ہے، البتہ اتنی کم مقدار میں ہو تو نماز ادا ہو جائے گی، اگر یہ مرض کے درجہ میں ہو، تو وضاحت کریں کہ یہ بات کتنی کتنی دیر میں پیش آتی ہے، بہتر ہے کہ کسی عالم سے بالمشافہ صورتِ حال بتلا کر مسئلہ معلوم کرلیں۔ (۱)
(۱)روي مالک بن أنس عن نافع عن ابن عمر رضي اللہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: لا ینقض الوضوء إلا ما خرج من قبل أو دبر۔ أخرجہ الدار قطني في غرائب مالک۔ (العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء‘‘ج۱،ص:۲۵۷) ؛و قیل لرسول اللّیہ ﷺ وما الحدث؟ قال ما یخرج من السبیلین۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء‘‘ ج۱،ص:۲۲) ؛ ومنھا ما خرج من السبیلین و إن قل، سمی القبل والدبر سبیلا لکونہ طریقا للخارج، و سواء المعتاد و غیرہ کالدودۃ والحصارۃ۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، فصل‘‘ج۱، ص:۸۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص412
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام مسجد و خطیب کو نوکر یا ملازم کہنا اگر اس کی اہانت کے پیش نظر ہے تو یہ گناہ کبیرہ ہے اس سے توبہ و استغفار ضروری ہے۔ ایسے الفاظ سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے تاکہ لوگوں کو شبہات پیدا نہ ہوں اس کی ممانعت حدیث میں بھی ہے۔
’’دع ما یریبک إلی ما یریبک‘‘(۱)
’’عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر‘‘(۲)
{وَلَا تَلْمِزُوْٓا أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِط بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْإِیْمَانِج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَہ۱۱}(۳)
(۱) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب‘‘: ج۲، ص:۸۳، رقم: ۲۴۴۲۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب خوف المؤمن من أن یحیط عملہ وہو لا یشعر‘‘: ج۱، ص: ۱۲، رقم: ۴۸؛ وأخرجہ المسلم في سننہ، ’’کتاب الإیمان، باب ما جاء سباب المسلم فسوق الخ‘‘: ج۱، ص: ۲۰، رقم: ۶۴۔
(۳) سورۃ الحجرات: ۱۱۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص320