حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطبہ حجۃ الوداع میں سواری پر سوار ہوکر دیا۔(۲)

(۲) عن خالد بن العداء، قال: رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخطب الناس…… یوم عرفۃ علی بعیر قائما في الرکابین۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب المناسک: باب الخطبۃ علی المنبر بعرفۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۵، رقم: ۱۹۱۷)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص75

اسلامی عقائد

Ref. No. 2601/45-4124

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    جس جانور کو حلال طریقہ پر ذبح نہ کیا گیا ہو وہ نجس  اور  ناپاک ہے۔ جس برتن میں اور جس تیل میں اس کو پکایاجائے گا وہ بھی ناپاک ہوجائے گا۔ اگر اسی ناپاک تیل میں پھرسبزی یا  سالن پکایاگیا تو وہ بھی نجس ہوگا اس کاکھانا جائز نہیں ہوگا۔ اس لئے جس ہوٹل کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہاں مردار کا گوشت پکایاجاتاہے وہاں گوشت کے علاوہ بھی کوئی چیز کھانا درست نہیں ہے۔

قُل لاَّ أَجِدُ فِي مَا أُوْحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلاَّ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْـزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (سورۃ الانعام 6/145)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2616/45-3989

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بہن اگرضرورت مند ہے، تو اس کی ضروریات اور نان ونفقہ کا خرچہ آپ پر لازم ہے، لیکن اگر بہن ضرورتمند نہیں ہے بلکہ شادی شدہ ہے اور شوہر اس کا خیال رکھتاہے تو اس کا خرچ یا اس کے بچوں کا خرچ آپ پر لازم نہیں ہے، تاہم ایسی صورت میں بھی اپنی  بیوی اوربچوں کی ضروریات سے زائد مال میں سے ان پر خرچ کریں تو کارِ ثواب ہے اور برکت کا ذریعہ ہے۔

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ (القرآن الکریم: سورۃ البقرة، الآیۃ: 215)

وعن سلمان بن عامر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصدقة على المسكين صدقة وهي على ذي الرحم ثنتان: صدقة وصلة ". رواه أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي. (مشکوۃ المصابیح رقم الحدیث: 1939)

لا يقضي بنفقة أحد من ذوي الأرحام إذا كان غنيا أما الكبار الأصحاء فلا يقضي لهم بنفقتهم على غيرهم، وإن كانوا فقراء، وتجب نفقة الإناث الكبار من ذوي الأرحام، وإن كن صحيحات البدن إذا كان بهن حاجة إلى النفقة كذا في الذخيرة. (الھندیۃ (566/1)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2723/45-4241

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دونوں بیویوں کو ایک گھر میں رکھنا شرعا درست  ہے، اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے، تاہم  سونے میں دونوں کو الگ رکھیں ، ایک کی موجودگی میں دوسری سے صحبت کرنا بےحیائی کی بات ہوگی ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یورینل (Urinal) بطورِ خاص مریضوں کے پیشاب کرنے کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔ اس کی ضرورت تب ہی پیش آتی ہے جب مریض اُٹھ کر باتھ روم تک جانے کی قوت وطاقت نہ رکھتا ہو۔ یقینا ایسی صورت میں مریض باتھ روم جانے کا مکلف نہیں ہے؛ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اتنے ہی کام کا مکلف ٹھہرایا ہے جتنا کہ اس میں استطاعت موجود ہے جیساکہ قرآن میں ہے:
{لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا} (۱)
’’اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا‘‘
ایک اورآیت میں ہے کہ {فَاتَّقُوْا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} (۲)
’’پس جہاں تک تم سے ہوسکے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو‘‘
اور امام بخاریؒ نے ایک روایت نقل کی ہے ’’وإذا أمرتکم بأمر فأتوا منہ ما استطعتم‘‘(۳)
’’جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو حسب استطاعت اس پر عمل کرلیا کرو‘‘
حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی حالت میں چار پائی پر ایک لکڑی سے بنے برتن میں ہی پیشاب کرلیا کرتے تھے۔ جیسا کہ اس حدیث میں ہے: ’’کان للنبي قدح من عیدان تحت سریرہ یبول فیہ باللیل‘‘(۴)
اس حدیث کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی فرماتے ہیں کہ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالت مرض میں ایسا کیا کرتے تھے‘‘(۵)
مذکورہ آیات اور احادیث سے معلوم ہوا کہ مریض کے لیے یورینل کا استعمال مباح وجائز ہے؛ البتہ ہوش مند مریض کے لیے پیشاب کے بعد استنجا کرنا ضروری ہے۔ اگرپانی سے استنجا ممکن نہ ہو، تو مٹی کے ڈھیلے استعمال کرے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو، تو ٹشو پیپر سے ہی استنجا کرلے۔

(۱) سورۃ البقرۃ: ۲۸۶۔                    (۲) سورۃ التغابن: ۱۶۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ: باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۸۲، رقم: ۷۲۸۸۔
(۴) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الرجل یبول باللیل في الإناء‘‘: ج ۱، ص:۵ رقم: ۲۴۔(مکتبۃ نعیمیہ دیوبند)
(۵) شمس الحق عظیم آباد، عون المعبود شرح أبوداود: ج ۱، ص: ۲۸۔(القاھرۃ: القدس للنشر والتوزیع، مصر)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص419

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر دھوکہ سے کوئی شخص نمازی کے بالکل ہی آگے پہونچ جائے اور آگے پہونچ کر پھر خبر لگے کہ نمازی نماز پڑھ رہا ہے، تو اس کو چاہئے کہ پیچھے کی طرف لوٹ جائے کہ یہ ہی بہتر ہے اور اگر دوسری جانب کو چلا گیاتواب واپس نہ لوٹے۔(۲)

(۲) وقد أفاد بعض الفقہاء أن ہنا صوراً أربعاً، الأولیٰ: أن یکون للمار مندوحۃ عن المرور بین یدي المصلي ولم یتعرض المصلي لذلک فیختص المار بالإثم دون المار، والثانیۃ: مقابلتہا، وہو أن یکون المصلي تعرض للمرور والمار لیس لہ مندوحۃ عن المرور فیختص المصلي بالإثم دون المار، الثالثۃ:  أن یتعرض المصلي للمرور ویکون للمار مندوحۃ فیأثمان أما المصلي فلتعرضہ وأما المار فلمرورہ مع أمکان أن لایفعل، الأربعۃ: أن لایتعرض المصلي ولا یکون للمار مندوحۃ فلا یأثم واحد منہما۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۳۹۹، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص453

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اذان کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرنا درست ہے، بشرطیکہ نمازیوں کو نماز کی اطلاع کرنا مقصد نہ ہو اور عام لوگوں کو نماز کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اذان کے بعد حمد، نعت پڑھنا اور الصلوۃ خیر من النوم کہنا عربی یا اردو میں کوئی دوسرا جملہ کہنا اور اس کو ثواب سمجھنا بدعت ہے صرف ایسے لوگوں کے لیے اجازت ہے جو عامۃ المسلمین کے کاموں میں ہر وقت مشغول رہتے ہوں تاکہ ترک جماعت نہ ہو جیسے قاضی مفتی وغیرہ۔(۱)

(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ،’’کتاب الأقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج۲، ص: ۷۷ رقم ۱۷۱۸، اعزازیہ دیوبند)
کما یستفاد أن علیا رأی مؤذناً یثوب في العشاء فقال: أخرجوا ہذا المبتدع من المسجد۔ (المبسوط للسرخسي، ’’کتاب الأذان، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص223

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: علمائے احناف کے نزدیک مطلقاً قرأت کرنا فرض ہے اگر کسی شخص سورہ فاتحہ پڑھی اور قرأت کرنا یعنی کوئی سورت پڑھنا بھول گیا، اخیر رکعت میں ایک سلام کے بعد سجدہ سہو کر لیا یا اس نے ثناء پڑھنے کے بعد سورہ فاتحہ کے بجائے بھول سے قرأت (کوئی سورت یا آیات کریمہ پڑھ لی) کر لی اور اخیر رکعت میں سجدہ سہو کر لیا تو دونوں صورتوں میں نماز درست ہو جائے گی؛ البتہ اگر جان بوجھ کر کسی نے سورہ فاتحہ یا سورت نہ ملائی تو نماز نہیں ہوگی اس نماز کا اعادہ کرنا واجب ہے، امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے: ہمارے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ سورہ فاتحہ اور سورتوں میں جو بھی یاد ہو اس کو پڑھ لیا کریں۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أمرنا نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر‘‘(۱)
نیز فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورت کو ملایا جائے گا باقی رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ
پڑھی جائے گی جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد سورت پڑھتے، پہلی میں طویل قرأت کرتے اور دوسری میں مختصر اور کسی آیت کو قصداً سنا بھی دیتے اور نماز عصر میں سورۂ  فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے اور پہلی رکعت میں قرأت طویل فرماتے اور نماز فجر کی پہلی رکعت میں بھی قرأت فرماتے اور دوسری میں مختصر پڑھتے۔
’’کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقرأ في الرکعتین الأولیین من صلاۃ الظہر بفاتحۃ الکتاب وسورتین، یطول في الأولٰی، ویقصر في الثانیۃ، ویسمع الآیۃ أحیانا، وکان یقرأ في العصر بفاتحۃ الکتاب وسورتین، وکان یطول في الأولٰی، وکان یطول في الرکعۃ الأولٰی من صلاۃ الصبح، ویقصر في الثانیۃ‘‘(۱)
وفي الفقہ علی المذاہب الأربعۃ:
’’ضم سورۃ إلی الفاتحۃ في جمیع رکعات النفل والوتر والأولیین من الفرض ویکفی في أداء الواجب أقصر سورۃ أو ما یماثلہا کثلاث آیات قصار أو آیۃ طویلۃ والأیات القصار الثلاث‘‘(۲)

(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ‘ ’’کتاب الصلاۃ، باب من ترک القراء ۃ في صلاتہ بفاتحۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۶ ، رقم:۸۱۸۔
(۱) أخرجہ البخاري، فی صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب القراء ۃ في الظہر‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۲، رقم: ۷۵۹۔
(۲) عبد الرحمن الجزیري، الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’واجبات الصلاۃ (في حاشیۃ)‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۹۔

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص367

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2810/45-4386

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کسی عورت کو حیض آتاہے ، چاہے وہ چھ ماہ بعد آئے یا ایک سال بعد آئے وہ عورت ذوات الحیض میں سے ہے، اس کی عدت حیض سے ہی شمار ہوگی۔ یعنی اس کی عدت  مکمل تین ماہورایاں  گزرنے کے بعد ہی پوری ہوگی،اس صورت میں اس لڑکی کو چاہیے کہ کسی ماہر ڈاکٹر کے مشورہ سے بذریعہ علاج معالجہ یا جلدی ماہواری جاری کرنےکی دوا وغیرہ کھا کر مزید دو ماہوریاں گزار کراپنی عدت مکمل کرلے۔ مکمل عدت گزرنے کے بعد ہی اس کی دوسری جگہ شادی ہوسکتی ہے۔ 

"التي حاضت ثم امتد طهرها لا تعتد بالأشهر إلا إذا بلغت سن الإياس. وعن مالك انقضاؤها بحول وقيل بتسعة أشهر ستة لاستبراء الرحم (وثلاثة أشهر) للعدة ولو قضى به قاض نفذ.قال الزاهدي: وقد كان بعض أصحابنا يفتون به للضرورة خصوصًا الإمام والدي/ وفي (البزازية) والفتوى في زماننا على قول مالك في عدة الآيسة." (النہر الفائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج:2، ص:476، ط:دار الکتب العلمیة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اتفاقی طور پر کچھ لوگ جمع ہوکر صلاۃ الستبیح ادا کرلیں، تو شرعاً گنجائش ہے؛ لیکن اس نماز کے لیے دعوت دے کر لوگوں کو جمع کرنا اور نماز پڑھانا بدعت ہے جس کی اصل خیر القرون میں نہیں ملتی۔(۱)

(۱) ولا یصلی الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان أی یکرہ ذلک علی سبیل التداعي بأن یقتدی أربعۃ بواحد کما في الدرر ولا خلاف في صحۃ الاقتداء۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰، زکریا دیوبند)
ومثل ذلک یقال في صلاۃ التطوع جماعۃ اذا کان علی غیر وجہ التداعي یحرر۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوی علی المراقي، ’’فصل في صلاۃ التراویح‘‘: ص: ۴۱۲، اشرفیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص411