طلاق و تفریق

Ref. No. 2101/44-2149

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر شوہر ظلم کرتاہے اور آپ اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہیں تو شوہر سے خلع  حاصل کرلیں یا دارالقضاء میں فسخ نکاح کا دعوی کریں، اس کی اجازت ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2161/44-2253

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف الفاظ طلاق کا تکلم کرنے سے جبکہ کسی طرح بھی بیوی کی طرف نسبت نہیں ہے ، کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔  طلاق کے وقوع کے لئے صراحۃً، دلالۃً یا اشارۃً بیوی کی طرف  نسبت کا ہونا ضروری ہے۔

لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها‘‘. (فتاوی 3/250، کتاب الطلاق، ط؛ سعید)

"الدر المختار " (3/ 247):

"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها".

قال ابن عابدین رحمہ اللہ ":(قوله: لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق. اهـ.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت مرتد ہوگئی تھی پھر جب اس نے قرآن کریم کو ماننے کا اقرار کرلیا تو اسلام میں داخل ہوگئی لیکن اس پر تجدید نکاح وتوبہ و استغفار لازم ہے۔(۱) ’’من ہزل بلفظ الکفر ارتد و إن لم یعتقدہ للاستخفاف‘‘(۲)

(۱) أنکر آیۃ من القرآن أو سخر بآیۃ منہ کفر۔ (بزازیۃ، ’’کتاب الفاظ تکون إسلاماً أو کفراً أو خطأً‘‘: ج ۳، ص: ۱۹۱)
إذا أنکر الرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص290

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یوم عاشورہ کی نیت سے کھاناپکانا اور دعوت کرنا اور فقراء کو  بھی کھلانا مستحب اور باعث ثواب ہے (۱)  لیکن محرم کی نیت سے کرنا بدعت و ممنوع ہے۔ (۲)

(۱) والمتابعۃ کما تکون في الفعل تکون في الترک أیضاً، فمن واظب علی فعل لم یفعلہ الشارع فہو مبتدع۔ (ملا علي قاری، مرقاۃ المفاتیح، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۹۳)

(۲) ایصال ثواب کے لئے کسی دن کی تخصیص شریعت سے ثابت نہیں اور اب جب کہ یہ روافض اور مبتدعین کا شعار بن چکا ہے تو قطعاً ترک کرنا چاہئے۔ (حاشیہ کفایت المفتی، ‘‘مخصوص ایام کی مروجہ بدعات کا بیان‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸، )

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص480

نکاح و شادی

Ref. No. 2503/45-3822

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    رضاعت  صرف خلیل اور آسیہ کے درمیان متحقق ہوگی، ان کی اولاد پر اس کا اثر نہیں ہوگا۔ لہذا خلیل کے بھائی کا نکاح آسیہ کی بیٹی سے جائز اور درست ہے۔

وتحل أخت أخيه رضاعاً) يصح اتصاله بالمضاف كأن يكون له أخ نسبي له أخت رضاعية، وبالمضاف إليه كأن يكون لأخيه رضاعاً أخت نسباً وبهما وهو ظاهر".  (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 217)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کو بدعت کہنا تو صحیح نہیں۔(۲) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر ۴۰؍ دن کا چلہ کیا تھا۔(۳) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حراء میں تزکیہ وعبادت میں مشغول رہتے تھے۔ چالیس دن کو ماحول کی تبدیلی میں خاص اثر ہے؛ اس لیے بزرگوں کے یہاں بھی چالیس دن اور چار مہینے اصلاح نفس اور اصلاح احوال کے لئے متعین کئے جاتے رہے ہیں؛(۱)  لہٰذا لازم وضروری نہ سمجھتے ہوئے چلہ و چار مہینے کے لئے وقت کو فارغ کرنا صحیح ہے اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں ہے۔

(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بلغوا عني ولو آیۃ۔ (تحفۃ الأحوذي، ’’باب ماجاء في الحدیث عن بني إسرائیل‘‘،ج۱، ص: ۳۶۰)
{ٰٓیأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط وَإِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗط وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ  النَّاسِط إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَہ۶۷} (سورۃ المائدہ: ۶۷)
(۳) {وَوٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّأَتْمَمْنٰھَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖٓ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃًج} واستخلف علیہم ہٰرون ومکث علی الطور أربعین لیلۃ۔ (امام رازیؒ، تفسیر رازي: ج ۳، ص: ۷۹، سورۃ الأعراف: ۱۴۲)

(۱) عن عبد اللّٰہ بن سہل قال: من أکل الحلال أربعین یوما أجیبت دعوتہ۔ (جامع العلوم والحکم، الحدیث العاشر: ج ۱، ص: ۲۹۳)

-------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص337

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں علاج کی غرض سے اگر دائی، نرس یا ڈاکٹرنی انگلی یا ہاتھ داخل کرے، تو صرف انگلی یا دوا وغیرہ کے دخول سے غسل فرض نہیں ہوگا؛ لیکن اگر انگلی کے دخول کے ساتھ ساتھ شہوت کے ساتھ انزال ہوجائے تو غسل فرض ہوجائے گا۔ جیساکہ صاحب درمختار نے لکھا ہے:

’’ولاعند إدخال أصبع ونحوہ في الدبر أو القبل علی المختار ونقل الشامي من کلام نوح آفندي علی التجنیس: أن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع؛ لأن الشہوۃ فیہنّ غالبۃ، فیقام السبب مقام المسبب، قال: وقولہ: لأن المختار وجوب الغسل … الخ بحث منہ سبقہ إلیہ شارح المنیۃ حیث قال: والأولی أن یجب في القبل … الخ وقد نبہ في الإمداد أیضاً علی أنہ بحث من شارح المنیۃ، فافہم‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۴۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص323

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر عالم ایسا قرآن پڑھتا ہے جس سے نماز ہوجائے، تو قاری محض کو امام نہ ہونا چاہئے اور جو عالم ایسا قرآن نہ پڑھے کہ نماز صحیح ہوجائے، تو قاری کو امام بنایا جائے۔(۱)

(۱) الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوٰۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقراء ۃ ثم الأورع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴؛و ابن الہمام، وفتح القدیر، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۴، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص116

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا شخص وسوسہ کا شکار ہے، جب تک وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو، یا غالب گمان نہ ہو آپ کا وضو باقی ہے، شک وشبہ کی وجہ سے وضو پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔(۱)

(۱)الیقین لا یزول بالشک۔ (ابن نجیم،الأشباہ والنظائر، ج۱، ص:۱۸۳، دارالکتاب دیوبند)؛ و في الأصل من شک في بعض وضوئہ وھو أول ما شک غسل الموضع الذي شک فیہ، فإن وقع ذلک کثیراً لم یلتفت إلیہ، ھذا إذا کان الشک في خلال الوضوء، فإن کان بعد الفراغ من الوضوء لم یلتفت إلی ذلک، ومن شک في الحدث فھو علی وضوئہ ولو کان محدثاً فشک في الطھارۃ فھو علی وضوئہ ولا یعمل بالتحری کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول : في الوضوء،الفصل الخامس في نواقض الوضوء، و مما یتصل بذلک مسائل الشک‘‘ ج۱، ص:۶۴)؛ و شک في بعض وضوئہ أعاد ما شک فیہ لو في خلالہ ولم یکن الشک عادۃ لہ و إلا لا، قولہ و إلا لا أي و إن لم یکن في خلالہ بل کان بعد الفراغ منہ، و إن کان أول ما عرض لہ الشک أو کان الشک عادۃ لہ، و إن کان في خلالہ فلا یعید شیئًا قطعاً للوسوسۃ عنہ کما في التاترخانیۃ وغیرھا۔ ( ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف، الخ‘‘ ج۱، ص :۲۸۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص410

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱،۲) قابل اکرام وہ ہے جو متقی اور پرہیز گار ہو فرمایا گیا إن أ کرمکم عند اللّٰہ أتقاکم۔ نیچی برادریوں کے افراد کو کمتر سمجھنا امام کی بہت بڑی غلطی اور حماقت ہے ۔ امام کو اپنے ان خیالات اور حرکات سے باز آنا چاہئے خصوصاً جو مسجد میں نماز پڑھنے آتے ہیں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں امام سے زیادہ اچھے اخلاق والے اور عبادت گزار بھی ہوں۔(۱)
(۳) اگر مدرسہ کے خلاف لوگوں کو ورغلاتا ہے اور فتنہ پردازی کرتا ہے تو امامت اس کی مکروہ ہے۔(۲)
(۴) اگر امام احکام شرعی کی پابندی نہیںکرتا جس کی وجہ سے نمازی اس سے ناراض ہیں تو اس کو امامت سے علاحدہ کردیا جائے اس کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔(۳)

(۱) یأیہا الناس إنا خلقناکم من ذکر وأنثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا۔ إن أکرکم عند اللّٰہ أتقاکم۔ إن اللّٰہ علیم خبیر۔ (الحجرات: آیۃ ۱۳)۔
عن ابن عمر -رضي اللّٰہ  عنہ- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خطب الناس یوم فتح مکۃ فقال: یأیہا الناس إن اللّٰہ أذہب عنکم عبیۃ الجاہلیۃ وتعاظمہا بآبائہا فالناس رجلان، بر، تقي کریم علی اللّٰہ وفاجر شقي ہین علی اللّٰہ والناس بنو آدم وخلق اللّٰہ آدم من تراب: قال اللّٰہ تعالیٰ اِنَّا خَلَقْنٰکُم مِنْ ذَکَر واُنثیٰ، الخ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب التفسیر عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ومن سورۃ الحجرات، ج۲، ص: ۱۸۰، رقم:۳۲۷۰)
(۲) ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم تقدیمہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۲، رقم:۱۶۲)، شیخ الہند دیوبند)
(۳) ولو امّ قوماً وہم لہ کارہون إن الکراہۃ لفساد فیہ أو لأنہم أحق بالإمامۃ کرہ لہ ذلک تحریماً، لحدیث أبي داؤد، لا یقبل اللّٰہ صلاۃ من تقدم قوماً وہم لہ کارہون۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۱، ص: ۲۹۷)

 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص316