تجارت و ملازمت

Ref. No. 1537/43-1042

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا کام شرک میں براہ راست اعانت  نہیں ہے، اس لئے آپ کی کمائی حلال ہے، لیکن یہ تقوی  اور احتیاط کے خلاف ہے۔

أي لأجرة إنما تکون فی مقابلة العمل.(شامی، باب المہر / مطلب فیما أنفق علی معتدة الغیر 4/307 زکریا)ولو استأجر الذمی مسلمًا لیبنیٰ لہ بیعة أو کنیسةً جاز ویطیب لہ الأجر. (الفتاویٰ الہندیة،الإجارة / الباب الخامس عشر، الفصل الرابع 4/250 زکریا)ولو استأجر الذمی مسلمًا لیبنی لہ بیعةً،أو صومعةً، أو کنیسةً جاز، ویطیب لہ الأجر.(الفتاویٰ التاتارخانیة 15/131 زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2226/44-2358

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کتابوں میں تلاش کرنے سے ہمیں ایک واقعہ یہ ملا کہ حضرت عبداللہ بن عمر  کے سامنے یہ بیان کیا گیا کہ ایک شخص نے خراسان سے اپنی والدہ کو کندھے پر بٹھاکر حج کرایا تو کیا اس نے حق ادا کردیا تو آپ نے فرمایا کہ اس نے ماں کے پیٹ میں  دوران حمل ایک بار  گھومنے کا بھی حق ادا نہیں کیا۔ لیکن اس واقعہ میں اس شخص کے نام کی صراحت نہیں ہے۔ 

اور اس میں کوئی استبعاد نہیں ہے، ایسا ممکن ہے، اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب کے لئے اس طرح کے واقعات بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ کفر کے کلمات ہیں، ایسا اعتقاد رکھنے والا اور اس کی تعلیم دینے والا مسلمان نہیں ہے کافر و مرتد ہے(۱)، مسلمانوں کو اس کی مکاریوں سے احتراز لازم ہے۔

(۱) {وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ إِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُط قُلْ أَبِااللّٰہِ وَأٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِئُ وْنَہ۶۵} (سورۃ التوبۃ:۶۵)
وإذا قال الرجل لغیرہ: حکم الشرع في ہذہ الحادثۃ کذا، فقال ذلک الغیر: ’’من برسم کار می کنم نہ بشرع‘‘ یکفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: مایتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)
والاستہزاء بأحکام الشرع کفرٌ، کذا في ’’المحیط‘‘۔ (أیضا: ’’ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۱)
ومن اعتقد أن الإیمان والکفر واحدٌ فہو کافر، کذا في الذخیرۃ۔ (أیضا: ’’ومنہا: ما یتعلق بالإیمان والإسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص299

کھیل کود اور تفریح

Ref. No. 2411/44-3640

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سفر پرجانے کا جو راستہ اختیار کیا ہے اس کا اعتبار ہوگا، اور جب وہ وہاں پہونچ کر مسافر ہوگیا تو اب وہ اسی راستہ لوٹے یا کسی ایسے دوسرے راستہ سے لوٹے جس میں مسافت کم ہوجاتی ہو تو اس سے قصر کے مسئلہ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جب اپنی بستی کی آبادی میں داخل ہوگا اس وقت قصر کاحکم فوت ہوگا۔  

"وتعتبر المدة من أي طريق أخذ فيه، كذا في البحر الرائق. فإذا قصد بلدة وإلى مقصده طريقان: أحدهما مسيرة ثلاثة أيام ولياليها، والآخر دونها، فسلك الطريق الأبعد كان مسافراً عندنا، هكذا في فتاوى قاضي خان. وإن سلك الأقصر يتم، كذا في البحر الرائق". )الفتاوى الهندية (1/ 138(

"وقال أبو حنيفة: إذا خرج إلى مصر في ثلاثة أيام وأمكنه أن يصل إليه من طريق آخر في يوم واحد قصر". ) بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 94(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ حدیث موضوع نہیں ہے؛ ہاں ایک روای کے نام میں اضطراب کی وجہ سے ضعیف ہے۔ امام ترمذی، امام احمد اور ابن حبان وغیرہ نے اپنی کتابوں میں اس کو نقل کیا ہے، امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کرکے ’’ہذا حدیث غریب لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ‘‘ کا حکم لگایا ہے؛ اس لیے یہ حدیث موضوع نہیں ہے۔ جمعہ کے خطبہ وغیرہ میں اس کا پڑھنا درست ہے۔
’’عن عبد اللّٰہ بن مغفل، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اللّٰہ اللّہ في أصحابي، لا تتخذوہم غرضا من بعدي، فمن أحبہم فبحبي أحبہم، ومن أبغضہم فببغضي أبغضہم، ومن آذاہم فقد أٓذاني، ومن أٓذاني فقد آذی اللّٰہ، ومن آذی اللّٰہ فیوشک أن یأخذہ ہذا حدیث غریب لا نعرفہ إلا من ہذا الوجہ۔(۱) إسنادہ ضعیف۔ عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن، ویقال: عبد الرحمن بن زیاد، ویقال عبد الرحمن بن عبد اللّٰہ، وقال الذہبي: لا یعرف۔ وجاء في ’’التہذیب‘‘ في ترجمۃ عبد الرحمن بن زیاد: قیل إنہ أخو عبید اللّٰہ بن زیاد بن أبیہ، وقیل: عبد اللّٰہ بن عبد الرحمن۔(۲)

 (۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب المناقب، باب في من سب أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۵، رقم: ۳۸۶۲۔
(۲) أخرجہ محمد بن حبان بن أحمد، في صحیح ابن حبان، ’’باب ذکر الزجر عن اتخاذ المرء أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم غرضاً بالتنقص‘‘: ج ۸، ص: ۲۴۴، رقم: ۷۲۵۶۔
إسنادہ ضعیف لجہالۃ عبد الرحمن بن زیاد أو عبد الرحمن بن عبد اللّٰہ، أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۳۴، ص: ۱۶۹، رقم: ۲۰۵۴۸۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص128

اسلامی عقائد

Ref. No. 2617/45-3990

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر کپڑا مس ہونے پر پسینہ کپڑے میں جذ ب ہوگیا تو کپڑا ناپاک ہوجائے گا، اور اگر صرف ٹھنڈک محسوس ہوئی تواس سے کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔

ولو ابتل فراش أو تراب نجسا" وكان ابتلالهما "من عرق نائم" عليهما "أو" كان من "بلل قدم وظهر أثر النجاسة" وهو طعم أو لون أو ريح "في البدن والقدم تنجسا" لوجودها بالأثر "وإلا" أي وإن لم يظهر أثرها فيهما "فلا" ينجسان.

وله: "من عرق نائم" قيد اتفاقي فالمستيقظ كذلك كما يفهم من مسألة القدم ولو وضع قدمه الجاف الطاهر أو نام على نحو بساط نجس رطب إن إبتل ما أصاب ذلك تنجس وإلا فلا ولا عبرة بمجرد النداوة على المختار كما في السراج عن الفتاوى (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: (باب الأنجاس و الطهارة عنها، ص: 158، ط: دار الكتب العلمية))

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس کا یہ عقیدہ قطعی طور پر باطل ہے اور اس پر اصلاح لازم ہے اگر وہ اصلاح نہ کرے، تو اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے۔ عقائد صحیحہ کا حامل یا پابند احکام امام مقرر کرنا چاہئے۔(۱)

(۱) (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندۃ بل بنوع شبہۃ وکل من کان من قبلتنا (لا یکفر بہا) حتی الخوارج الذین یستحلون دمائنا وأموالنا وسب الرسول، وینکرون صفاتہ تعالٰی وجواز رؤیتہ لکونہ عن تأویل وشبہۃ بدلیل قبول شہادتہم، إلا الخطابیۃ ومنا من کفرہم (وإن) أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ (کفر بہا) کقولہ إن اللّٰہ تعالیٰ جسم کالأجسام وإنکارہ صحبۃ الصدیق (فلا یصح الاقتداء بہ أصلا) فلیحفظ۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹-۳۰۱)

(قولہ وکرہ إمامۃ العبد والأعرابي والفاسق والمبتدع والأعمی وولد الزنا) بیان للشیئین الصحۃ والکراہۃ أما الصحۃ فمبنیۃ علی وجود الأہلیۃ للصلاۃ مع أداء الأرکان وہما موجودان من غیر نقص في الشرائط والأرکان، وأطلق المصنف في المبتدع فشمل کل مبتدع ہو من أہل قبلتنا، وقیدہ في المحیط والخلاصۃ والمجتبی وغیرہا بأن لا تکون بدعتہ تکفرہ، فإن کانت تکفرہ فالصلاۃ خلفہ لا تجوز، وعبارۃ الخلاصۃ ہکذا۔ وفي الأصل الاقتداء بأہل الأہواء جائز    إلا الجہمیۃ والقدریۃ والروافض الغالي ومن یقول بخلق القرآن والخطابیۃ والمشبہۃ وجملتہ أن من کان من أہل قبلتنا ولم یغل في ہواہ حتی یحکم بکفرہ تجوز الصلاۃ خلفہ وتکرہ، ولا تجوز الصلاۃ خلف من ینکر شفاعۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو ینکر الکرام الکاتبین أو ینکر الرؤیۃ؛ لأنہ کافر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، الأحق بالإمامۃ في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۰، ۶۱۱)
قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن، وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا، ہکذا في التبیین والخلاصۃ وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص119

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر پیمپرپر قدرِ درہم سے زیادہ نجاست لگی ہو، تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا شرعاً جائز نہیں ہے؛ البتہ قطرہ آنے کی شکایت اتنی زیادہ ہو کہ ایک پیمپر یا کپڑا ہٹا تے ہی دوسرا ناپاک ہوجاتا ہو بغیر قطرے کے نماز کا وقت نہ ملتا ہو اور اس حالت میں نماز کے پانچ اوقات سے زیادہ گزر جائیں تو اسے معذور قرار دیا جائے گا اور پھر اس عذر کی وجہ سے ناپاک پیمپر کے ساتھ بھی نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔
’’مریض تحتہ ثیاب نجسۃ وکلما بسط شیئا تنجّس من ساعتہ یصلّی علی حالہ وکذا لو لم یتنجس الثانی لکن یلحقہ زیادۃ مشقّۃ بالتحویل کذا فی فتاوی قاضی خان‘‘(۱)
’’المستحاضۃ ومن بہ سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الریح أو رعاف دائم أو جرح لا یرقأ یتوضؤن لوقت کل صلاۃ ویصلون بذلک الوضوء ما شاؤا من الفرائض والنوافل‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’مما یتصل بذلک أحکام المعذور‘‘: ج ۱، ص: ۹۵، زکریا دیوبند۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص422

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: سترہ کے لغوی معنی ہیں: وہ چیز جس کے ذریعہ انسان خود کو چھپا سکے، شریعت کی اصطلاح میں نماز کے باب میں ’’سترہ‘‘ سے مراد وہ لاٹھی یا چھڑی وغیرہ ہے جو کم از کم ایک گز شرعی کے برابر اونچی اور کم از کم ایک انگلی کے برابرموٹی ہو جسے نمازی نماز پڑھتے وقت اپنے سامنے کھڑا کردیتا ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن عابدینؒ نے لکھا ہے:
’’(سترۃ بقدر ذراع) طولاً (وغلظ أصبع)؛ لتبدو للناظر‘‘(۱)
مزید آگے لکھتے ہیں:
’’(أو) مرورہ (بین یدیہ) إلی حائط القبلۃ (فی) بیت و (مسجد) صغیر، فإنہ کبقعۃ واحدۃ (مطلقاً) الخ‘‘
سترہ کی کم سے کم مقدار یہ ہے کہ: نمازی کے سامنے ایک ذراع، ایک ہاتھ (یعنی ہاتھ کی بڑی انگلی سے لے کر کہنی تک، دو بالشت) کے برابر لمبائی اور اس کی موٹائی کم سے کم ہاتھ کی ایک چھوٹی انگلی کے برابر ہونی چاہیے۔ اس کی لمبائی فٹ کے اعتبار سے تقریباً ڈیڑھ فٹ بنتی ہے۔
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت نقل کی ہے:
’’حدثنا أبو الأحوص، عن سماک، عن موسی بن طلحۃ، عن أبیہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا وضع أحدکم بین یدیہ مثل مؤخرۃ الرحل فلیصل، ولایبال من مر وراء ذلک‘‘(۳)
فتاویٰ شامی میں ہے:
’’(ویغرز) ندبا بدائع … (الإمام) وکذا المنفرد (في الصحراء) ونحوہا (سترۃ بقدر ذراع) طولا (وغلظ أصبع) لتبدو للناظر (بقربہ) (قولہ بقدر ذراع) بیان لأقلہا ط۔ والظاہر أن المراد بہ ذراع الید کما صرح بہ الشافعیۃ، وہو شبران (قولہ وغلظ أصبع) کذا في الہدایۃ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۷۔
(۲) أیضاً:
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب سترۃ المصلی‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۸، رقم: ۲۴۱، ط: دار إحیاء التراث العربي بیروت۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۶۳۶، ۶۳۷، ط: ایچ، ایم، سعید۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص456

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں قدیم نقشہ جات کے مطابق جو عمل پہلے سے چلا آرہا ہے وہ جید و معتمد علماء اور ماہرین و تجربہ کار مفتیان کرام کی تحقیق پر مبنی ہے جو ہر لحاظ سے راجح اور قابل اعتماد ہے چناںچہ علماء کا اس پر اتفاق اور زمانہ دراز سے اس پر عمل ہے اس لیے اس کے مطابق عمل جاری رکھنا چاہئے اور بعض حضرات کی منفردانہ رائے یا تحقیق کی وجہ سے اس کو چھوڑنا درست نہیں ہے۔البتہ اگر کوئی قابل ذکر تحقیق سامنے آئے تو اس کو مفصل تحریر کرکے سوال کرلیا جائے۔(۱)

(۱) ومحل الاستحباب ما إذا لم یشک في بقاء اللیل، فإن شک کرہ الأکل في الصحیح کما في البدائع أیضاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ‘‘: ج ۳، ص: ۴۰۰، ط: مکتبہ: زکریا، دیوبند)
ویکرہ تأخیرہ إلی وقت یقع فیہ الشک، ھندیۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي: ص: ۶۸۳، دارالکتاب، دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص93