نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: فجر کی قضا نماز یا اشراق کی نماز اس وقت پڑھی جائے جب سورج پورے طور پر نکل جائے اور سورج کے پورے طور پر نکلنے میں ۱۵؍۲۰ منٹ لگتے ہیں اس لیے ۲۰ منٹ کے بعد ہی نماز پڑھی جائے طلوع آفتاب کے وقت نماز پڑھنا منع ہے، اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ طلوع آفتاب کے دو تین منٹ بعد نماز پڑھ سکتے ہیں۔(۱)

(۱)  قال الطیبي: المراد وقت الضحیٰ وہو صدر النہار حین ترتفع الشمس وتلقی شعاعہا۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح: ’’کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الضحی‘‘: ج ۳، ص: ۳۵۱، فیصل پبلیکیشنز)
وکرہ تحریماً صلاۃ … مع شروق، قولہ مع شروق وما دامت العین لا تحار فیہا فہي في حکم الشروق کما تقدم في الغروب أنہ الأصح کما في البحر، أقول: ینبغي تصحیح ما نقلوہ عن الأصل للإمام محمد من أنہ ما لم ترتفع الشمس قدر رمح فہي في حکم الطلوع۔ (الحصکفي، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲، ص: ۳۰، ۳۱، مکتبہ: زکریا، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص91

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فقہ کی کتب میں فرمایا گیا ہے ’’الإقامۃ مثل الأذان‘‘ کہ اقامت بھی اذان کی طرح ہے۔ احناف کے یہاں اقامت میں بھی اذان کی طرح تمام کلمات دو دو بار کہے جائیں۔ فرق اتنا ہے کہ اذان خوب زور سے پکاری جائے تاکہ باہر کے لوگوں کو نماز کے لیے اطلاع ہوجائے اقامت آہستہ کہی جائے اس سے صرف حاضرین کو مطلع کرنا ہے۔(۲)

(۲)عن عبد اللّٰہ بن زید قال: کان أذان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم شفعاً شفعاً في الأذان والإقامۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ، باب ماجاء أن الإقامۃ مثنی مثنی‘‘: ج ۱، ص: ۴۸، رقم: ۱۹۴)
عن ابن محیریز أن أبا محذورۃ حدثہ: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علمہ الأذان تسع عشرۃ کلمۃً، والإقامۃ سبع عشرۃ کلمۃ۔ (أخرجہ البیہقي، في سننہ، وفي ذیلہ الجوہر النقي: ج ۱، ص: ۴۱۶)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص211

متفرقات

Ref. No. 2791/45-4361

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مردو عورت دونوں کے لئے سرمہ لگانا مستحب ہے، اور خاص طور پر رات میں سونے سے پہلے سرمہ لگانا سنت ہے،  مردوں کے لئے سرمئی رنگ کے علاوہ خالص سیاہ سرمہ  دن میں لگانا بطور زینت مکروہ ہے، بطور علاج یا فائدہ مکروہ نہیں ہے،  بلکہ مردوں کے لئے حدیث میں اثمد سرمہ استعمال کرنے کو مفید بتایاگیاہے جس کو دن میں بھی لگایاجاسکتاہے۔  اور عورتوں کے لئے دن اور رات میں بطور علاج اور بطور زینت کسی بھی رنگ کا سرمہ استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ 


"عن عكرمة، عن ابن عباس:’’أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يكتحل بالإثمد كل ليلة قبل أن ينام، وكان يكتحل في كل عين ثلاثة أميال‘‘.

(مسند أحمد (5 / 343)
"26149- حدثنا عيسى بن يونس ، عن عبد الحميد بن جعفر ، عن عمران بن أبي أنس ، قال : كان النبي صلى الله عليه وسلم يكتحل بالإثمد ، يكتحل اليمنى ثلاثة مراود واليسرى مرودين.
26150- حدثنا يزيد بن هارون ، عن عباد بن منصور ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: كان للنبي صلى الله عليه وسلم مكحلة يكتحل منها ثلاثة في كل عين". (مصنف ابن أبي شيبة – (ج 8 / ص 411)
"عن عكرمة، عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن خير ما تداويتم به اللدود والسعوط والحجامة والمشي، وخير ما اكتحلتم به الإثمد، فإنه يجلو البصر وينبت الشعر. وكان لرسول الله صلى الله عليه وسلم مكحلة يكتحل بها عند النوم ثلاثا في كل عين". (جامع الترمذي (رقم الحدیث:2048)

"(لا) يكره (دهن شارب و) لا (كحل) إذا لم يقصد الزينة". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 417)
"ولايكره كحل، ولا دهن شارب كذا في الكنز. هذا إذا لم يقصد الزينة فإن قصدها كره كذا في النهر الفائق، ولا فرق بين أن يكون مفطراً أو صائماً كذا في التبيين". (الفتاوى الهندية (1/ 199)

"لا بأس بالإثمد للرجال باتفاق المشايخ، ويكره الكحل الأسود بالاتفاق إذا قصد به الزينة، واختلفوا فيما إذا لم يقصد به الزينة، عامتهم على أنه لايكره، كذا في جواهر الأخلاطي". (الفتاوى الهندية (5/ 359)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھنا چاہئے بلا ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے اور اگر عذر کی وجہ سے ہو تو حرج نہیں ہے۔(۲)

(۲) یکبر للنہوض علی صدور قدمیہ بلا اعتماد وقعود علی الارض…قال في الحلیۃ والأشبہ أنہ سنۃ أو مستحب عند عدم العذر فیکون فعلۃ تنزیہا لمن لیس بہ عذر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فروع قرأ بالفارسیۃ أو التوراۃ او الانجیل‘‘: ج۱، ص: ۵۰۶۰)
ثم إذا فرغ من السجدۃ ینہض علی صدور قدمیہ ولا یقعد، ولا یعتمد علی الأرض بیدیہ عند قیامہ، وإنما یعتمد علی رکبتیہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الرابع، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابہا‘‘: ج۱، ص: ۱۳۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص171

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

 Ref. No. 1241Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:۱۔ اگرکسی  کے پاس  نہ سونے کا پورا نصاب ہو اور نہ چاندی کا تو ایسی صورت میں سونے کو بازار سے معلوم کرلیا جائے کہ کتنی چاندی کی قیمت کا ہےپھر اتنی رقم  اور چاندی کی رقم کو نقد کے ساتھ ملاکر مجموعہ کا چالیسواں حصہ حسب قواعد شرع زکوة میں اداکردیا جائے۔حاصل یہ ہے تمام زیورات کی مالیت نکال کر اس کی زکوة ادا کی جائے ۔  ۲۔ صاحب نصاب پر جب سال گزرجائے تو اس کی ملکیت میں جو کچھ  سال کے آخری دن  ہوگا اس پر زکوة واجب ہوگی؛ یاد رکھیے ہر مال پر سال کا گزرنا شرط نہیں ہے؛ لہذا اصل مال اور منافع دونوں کی زکوة اداکرنا واجب ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1001

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اس یوجنا کی مکمل تفصیل لکھ کر مسئلہ معلوم کریں، ہمیں اس کے متعلق شرائط کا علم نہیں ۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 38 / 1114

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   الجواب وباللہ التوفیق: (1) فرض نمازوں کے بعد دعاء کا قبول ہونا اسی طرح انفرادی واجتماعی دونوں طرح دعا کرنا ثابت ہے۔  حضرت معاذ بن جبل  سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت معاذ سے ارشاد فرمایا  کہ تم کسی بھی نماز کے بعد اس دعاء"اللہم انی اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک " کو نہ چھوڑو۔(احمد، ابوداؤد)۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ نماز کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلاکر (حدیث میں مذکور) دعاء کرتا ہے تو اللہ پر یہ حق ہے کہ اس کے دونوں ہاتھوں کو ناکام اور خالی واپس نہ کرے (عمل الیوم واللیلۃ)۔ حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو سلام پھیرکر یہ دعاء کرتے "اللہم انی سئلک علما نافعا ورزقا طیبا وعملا متقبلا (احمد ، ابن ماجہ)۔ اسود عامری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی، جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ مُڑ گئے اور آپ نے اپنے دست مبارک اٹھائے اور دعاء فرمائی(امداد الفتاوی)۔ ان تمام احادیث سے نماز کے بعد دعاء کرنا ثابت ہوا، اب ظاہر ہے جب آپ ﷺ نماز کے بعد دعاء میں مشغول ہوں تو کیا جانثار صحابہ نے دعاء میں شرکت نہیں کی ہوگی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپﷺ دعاء کریں اور صحابہ یوں ہی خاموش بیٹھے رہے ہوں اور اس سعادت سے محروم ہوجائیں، بلکہ یقیناً صحابہ نے موافقت کی ہوگی۔ نیز حدیث میں ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ اٹھاکر دعاء فرمائی تو موجود صحابہ نے بھی آپﷺ کے ساتھ ہاتھ اٹھاکر دعاءمیں شرکت فرمائی (بخاری شریف)۔                       البتہ دعاؤں میں اخفاء افضل ہے اس لئے اجتماعی دعاء  بلند آواز سے کرنے کا التزام نہ کیاجائے۔  نماز کے بعد آپﷺ سے بے شمار دعائیں منقول ہیں جو احادیث کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔  (2) جو درود خلاف شرع نہ ہو اور صلاۃ وسلام کے الفاظ پر مشتمل ہو تو اس کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم سب سے افضل درود ابراہیمی پڑھنا ہے۔ اور نبی علیہ السلام نے نماز جیسی اہم عبادت کے لئے اسی درود کا انتخاب فرمایا ہے۔ اور آپ ﷺ کے زمانے میں صحابہ سے یہ دعاء پڑھنا بھی ثابت ہے، اس لئے بہتر ہے درود ابراہیمی پڑھے۔ درود پڑھنے کے لئے اجتماع کرنا ثابت نہیں ہے،درود بلندآواز سے بھی پڑھ سکتے ہیں البتہ آہستہ پڑھنا بہتر ہے جیسا کہ دیگر دعاؤں کا حکم ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 968/41-118

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Yes, you may be allowed to learn Arabic from that teacher. But teaching directly adult women is against Islamic norms and it must be shunned at earliest.

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1437/42-858

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مدرسہ میں اگرمدرس  کا وقت  فارغ ہو تو ان اوقات کو ذکر میں لگانے میں حرج نہیں ہے، البتہ طلبہ کی تعلیم کا نقصان کرکے اوراد و وظائف میں لگے رہنا درست نہیں ہے۔ مدرسہ میں  مدرس  تدریسی خدمت کے لئے ملازم  ہے،اس پر مدرسہ کی جانب سے  سونپے  گئے امور کی انجام دہی لازم ہے، اس میں کوتاہی گناہ ہے اور ذکر الہی کے منشا اور مقتضی کے خلاف ہے۔

[مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة]  (قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. (شامی، مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة 6/70)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میںمسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا ذکر قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے تو اس پر ایمان رکھنا فرض اور ضروری ہے ،اس کا منکر چوںکہ آیت قرآنی کا منکر ہے؛ اس لیے وہ کافر ہوگا، مسجد اقصیٰ کے بعد آسمانوں پر جانا اور وہاں سے عجائبات وغیرہ

کی سیر کرنا جو احادیث سے ثابت ہے اس کا منکر کافر نہ ہوگا، البتہ فاسق ہوگا۔ (۱)

(۱) إذا أنکرالرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي الخزانۃ أو عاب فقد کفر، کذا في التاتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب السابع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)

ویکفر إذا أنکر آیۃ من القرآن۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص:۲۰۵)