نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ عمل درست؛ بلکہ مستحسن اورلائق ثواب ہے،جیسا کہ ابن الہمامؒ نے فتح القدیر میں لکھا ہے:
’’والتثویب في الفجر حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح مرتین بین الأذان والإقامۃ حسن لأنہ وقت نوم وغفلۃ‘‘(۱)
’’التثویب الذي یصنعہ الناس بین الأذان والإقامۃ في صلاۃ الفجر ’’حي علی الصلاۃ، حي علی الفلاح‘‘ مرتین حسن، وإنما سماہ محدثا لأنہ أحدث في زمن التابعین، ووصفہ بالحسن لأنہم استحسنوہ۔ وقد قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما رآہ المؤمنون حسنا فہو عند اللّٰہ حسن، وما رآہ المؤمنون قبیحا فہو عند اللّٰہ قبیح‘‘(۲)

’’]فرع[ لایجب انتباہ النائم في أول الوقت، ویجب إذا ضاق الوقت، نقلہ البیری في شرح الأشباہ عن البدائع من کتب الأصول، وقال: ولم نرہ في کتب الفروع فاغتنمہ‘‘(۱)
آپ نے مختلف فتاوی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ان میں مذکورہے کہ مذکورہ عمل میں نقصانات نفع سے کہیںزیادہ ہیں، میں نے ان میں سے کئی فتاوی کا مطالعہ کیا ان میں زیادہ تر فتاوی میں مطلق تثویب کے تعلق سے بات لکھی ہے یعنی عام نمازوں میں تثویب کا تذکرہ ہے خاص فجر میں تثویب کا تذکرہ نہیں ہے؛ چناںچہ فتاوی رشیدیہ میں ہے: ا گر احیانا کسی کو بعد اذان بوجہ ضرورت بلوا لیں تو درست ہے، مگر اس کی عادت ڈالنی اور ہمیشہ اس کا التزام کرنا درست نہیں ہے۔(۲)
خلاصہ یہ کہ تثویب کو متاخرین نے جائز قرار دیا ہے، اور خاص طورپر فجر میں تثویب کی اجازت ہے۔(۳) حضرات اکابر نے صرف اس بنیاد پر کہ ایک غیر ضروری امر کو ضروری نہ سمجھ لیا جائے احتیاطاً منع کیا ہے، اس میں عام طورپر فجر کی نماز کا تذکرہ نہیں ہے، جب کہ فجر کا نوم وغفلت کا وقت ہے؛ اس لیے اگر فجر کی نماز میں کسی مناسب انداز سے لوگوں کو نماز کی دعوت دی جائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۴)

(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۵۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، فصل بیان کیفیۃ الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۷۔
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب في تعبدہ علیہ الصلاۃ والسلام قبل البعثۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۔
(۲) فتاوی رشیدیہ، تحقیق وتعلیق: مفتی محمد یوسف صاحب: ج ۲، ص: ۴۵۴۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بني المنائر للأذان،‘‘: ج ۲، ص: ۵۶، مطبع زکریا۔
(۴) قال الزہري: وزاد بلال في نداء صلاۃ الفجر: الصلاۃ خیر من النوم، فأقرہا نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وقال عمر رضي اللّٰہ عنہ، أما إني قد رأیت مثل الذي رأي، ولکنہ سبقني۔ (مسند أبي یعلی، مسند عبد اللّٰہ بن عمر: ج ۹، ص: ۳۷۹، رقم ۵۵۰۴)

أخبرنا مالک، أخبرنا ابن شہاب، عن عطاء بن یزید اللیثي، عن أبي سعید الخدري، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا سمعتم النداء، فقولوا مثل ما یقول المؤذن (ص: ۵۵) قال مال:) بلغنا أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ جاء ہ المؤذن یؤذنہ لصلاۃ الصبح، فوجدہ نائماً فقال المؤذن: الصلاۃ خیر من النوم، فأمرہ عمر أن یجعلہا في نداء الصبح۔ (أخرجہ مالک، في الموطأ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان والتثویب‘‘: ج ۱، ص: ۵۴، رقم: ۹۱؛ ومسند ابن أبي شیبۃ، ’’من کان یقول في الأذان الصلاۃ خیر من النوم‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۹)
 محمد، قال: أخبرنا أبو حنیفۃ، عن حماد، عن إبراہیم، قال: سألتہ عن التثویب، قال: ہو مما أحدثہ الناس، وہو حسن مما أحدثوا وذکر أن تثویبہم کان حین یفرغ المؤذن من أذانہ: الصلاۃ خیر من النوم قال محمد: وبہ نأخذ، وہو قول أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ۔ (الآثار لمحمد بن الحسن، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۱، رقم: ۹۱(شاملہ)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص225

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: واضح رہے کہ نماز کے ہر قعدہ میں التحیات پڑھنا واجب ہے خواہ نماز فرض ہو یا نفل اگر امام صاحب قعدہ اخیرہ میں سلام پھر دیں یا قعدہ اولیٰ ہو اور تیسری رکعت کے لیے امام کھڑا ہو جائے اس صورت میں التحیات مکمل کر کے ہی تیسری رکعت یا بقیہ نماز کی تکمیل کے لیے کھڑا ہونا چاہئے؛ البتہ اگر التحیات پڑھے بغیر ہی کھڑا ہو گیا تو اس صورت میں کراہت کے ساتھ نماز ادا ہو جائے گی اعادہ کی ضرورت نہیں۔ جیسا کہ علامہ حصکفیؒ نے در مختار میں لکھا ہے:
’’(بخلاف سلامہ) أو قیامہ لثالثۃ (قبل تمام المؤتم التشہد) فإنہ لا یتابعہ بل یتمہ لوجوبہ، ولو لم یتم جاز؛ ولو سلم والمؤتم في أدعیۃ التشہد تابعہ لأنہ سنۃ والناس عنہ غافلون۔ (قولہ: فإنہ لا یتابعہ إلخ) أي ولو خاف أن تفوتہ الرکعۃ الثالثۃ مع الإمام کما صرح بہ في الظہیریۃ، وشمل بإطلاقہ ما لو اقتدی بہ في أثناء التشہد الأول أو الأخیر، فحین قعد قام إمامہ أو سلم، ومقتضاہ أنہ یتم التشہد ثم یقوم ولم أرہ صریحا، ثم رأیتہ في الذخیرۃ ناقلا عن أبي اللیث: المختار عندي أنہ یتم التشہد وإن لم یفعل أجزأہ۔ اھـ۔ وللّٰہ الحمد (قولہ: لوجوبہ) أي لوجوب التشہد کما في الخانیۃ وغیرہا، ومقتضاہ سقوط وجوب المتابعۃ کما سنذکرہ وإلا لم ینتج المطلوب فافہم (قولہ ولو لم یتم جاز) أي صح مع کراہۃ التحریم کما أفادہ ح، ونازعہ ط والرحمتی، وہو مفاد ما في شرح المنیۃ حیث قال: والحاصل أن متابعۃ الإمام في الفرائض والواجبات من غیر تأخیر واجبۃ فإن عارضہا واجب لا ینبغي أن یفوتہ بل یأتي بہ ثم یتابعہ لأن الإتیان بہ لا یفوت المتابعۃ بالکلیۃ وإنما یؤخرہا، والمتابعۃ مع قطعہ تفوتہ بالکلیۃ، فکان تأخیر أحد الواجبین مع الإتیان بہما أولیٰ من ترک أحدہما بالکلیۃ‘‘(۱)
’’إذا أدرک الإمام في التشہد وقام الإمام قبل أن یتم المقتدي أو سلم الإمام في آخر الصلاۃ قبل أن یتم المقتدي التشہد فالمختار أن یتم التشہد۔ کذا في الغیاثیۃ وإن لم یتم أجزأہ‘‘(۱)
’’(والتشہدان) ویسجد للسہو بترک بعضہ ککلہ وکذا في کل قعدۃ في الأصح إذ قد یتکرر عشراً۔ (قولہ: والتشہدان) أي تشہد القعدۃ الأولی وتشہد الأخیرۃ‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘:ج ۲، ص:۱۹۹،۲۰۰۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل السادس فیما یتابع الإمام وفیما لایتابع‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۷۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب لاینبغي أن یعدل عن الدرایۃ إذا وقفتہا روایۃ ‘‘: ج ۲، ص:۱۵۷، ۱۵۸۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص370

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام اور لقمہ دینے والے مقتدی دونوں کی نماز صورت مسئول عنہا میں درست ہوگئی اور اس صورت میں سجدۂ سہو کی ضرورت بھی نہیں تھی؛ لیکن اگر غلطی سے سجدۂ سہو کرلیا گیا تب بھی نماز درست ہوگئی۔
بخلاف فتحہ علی إمامہ فإنہ لا یفسد مطلقاً لفاتح وآخذ بکل حال الخ(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب: المواضع التي لا یجب فیہا رد السلام‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۱، ۳۸۲، ط: زکریا۔
والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ۔ قالوا : ہذا إذا أرتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح: أنہا لا تفسد صلاۃ الفاتح بکل حال ولا صلاۃ الإمام لو أخذ منہ علی الصحیح ہکذا في الکافی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، الفصل الأول فیما یفسدھا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص289

 

آداب و اخلاق

Ref. No. 816 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم: غیرمحرم جوان عورتوں کو سلام کرنا جائز نہیں ۔ البتہ ایسی بوڑھی عورتیں جن کو سلام کرنے سے کسی فتنہ کا اندیشہ نہیں ان کو سلام کرنے کی گنجائش ہے، پھر بھی احتیاط اولی ہے۔  کذا فی الشامی۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

آداب و اخلاق

Ref. No. 40/874

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال مذکورہ صورت میں زید کا یہ قول بالکل غلط ہے۔ آئندہ احتیاط کرے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اعتکاف

Ref. No. 40/1058

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غسل مسنون کے لئے بھی نکلنے کی  اجازت نہیں ہے ، اگر غسل مسنون کے لئے مسجد سے نکل کرباہر جائے گا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا، البتہ اگر قضائے حاجت  کے لئے جائے اور غسل بھی جلدی سے کرکے آجائے تو اس کی گنجائش ہے۔ اس میں غسل بھی ہوجائے گا اور اعتکاف بھی باقی  رہے گا۔ (حرم علیہ ای علی المعتکف الخروج الا لحاجۃ الانسان طبیعیۃ کبول و غائط وغسل لو احتلم ولایمکنہ الاغتسال فی المسجد (الدر مع الرد 30/435) ولو خرج من المسجد ساعۃ بغیرعذر فسد اعتکافہ عند ابی حنیفۃ (ھدایہ 1/294))۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 909/41-24B

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Paying or receiving a fine is not allowed in Islam. A fine amount must be returned to the real owner. Club committee cannot make personal use of the fine amount. The club committee cannot go against the principles of Islam. The Holy Quran says: ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون

)Those who do not judge according to what Allah has sent down are the disbelievers.( (Maidah 5/44)

و فی شرح الآثار  التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام ثم نسخ والحاصل ان المذھب عدم التعزیر بالمال۔  شرح الآثار 4/61)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

متفرقات

Ref. No. 1182/42-449

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کتا اگر گھر میں داخل ہوجائے تو اس کو کھلانا ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کو گھر سے باہر نکال دینا چاہئے کہ  جب تک وہ گھر میں ہوگا فرشتے گھر سے دوررہیں گے، پھر اگر گنجائش ہو تو کچھ کھانے پینےکو دینا چاہئے البتہ اگر اس کو کچھ بھی کھانے کو نہ دے تو بھی کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگرکتا  پالا ہوا ہے اور اس کو گھر میں  باندھ کر رکھا گیا ہے ،  تو اس کے کھانے پینے کی ذمہ داری مالک پر ہوگی، اس کو کھانا نہ دینا اور بھوکا رکھنا باعث گناہ ہے، اگر استطاعت نہ ہو تو اس کو آزاد کردینا چاہئے تاکہ دوسری جگہ اپنا کھانا تلاش کرے۔  

عن ابن عمر رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «دخلت امرأة النار في هرة ربطتها، فلم تطعمها، ولم تدعها تأكل من خشاش الأرض» (صحیح البخاری، باب: خمس من الدواب فواسق، یقتلن فی الحرم 4/130)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Innovations

Ref. No. 1307/42-665

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In the above case, if there is no way to contact with him and he is unlikely to return as you have written, then it is allowable to use the goods for rent or to sell it and get the price as a rent.

قال الحموي في شرح الکنز․․․ إن عدم جواز الأخذ من فلان الجنس کان في زمانہم لمطاوعتہم في الحقوق والفتوی الیوم علی جواز الأخذ عند القدرة من أيّ مالٍ کان لا سیّما في دیارنا لمداومتہم العقوق الخ (رد المحتار علی الدر المختار:1/221) امداد الفتاوی (3/415، سوال: 43)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Business & employment

Ref. No. 1438/42-859

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

We don’t know the gold ETF. Write in detail about Gold ETF.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband