مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر غیر مقلد کے بارے میں ایسے الفاظ کا استعمال درست نہیں ہے،(۱) اور مذکورہ حدیث سے استدلال کرکے صرف قرآن وحدیث کو ماننا، اور آثار صحابہؓ واجماع امت وغیرہ چھوڑدینا درست نہیں ہے؛ اس لئے کہ آثار صحابہؓ واجماع امت، نیز قیاسِ صحیح کا حجت ہونا، قرآن وحدیث سے ثابت ہے، جو ایسا کہے وہ گمراہ کن اور غلطی کا باعث ہے وہ خود بھی گمراہ ہے، اس کی بات پر عمل کرنا درست نہیں ہے۔(۲)

(۱) عن أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یرمي رجل رجلا بالفسوق ولا یرمیہ بالکفر إلا ارتدت علیہ إن لم یکن صاحبہ کذلک۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب ما ینہي السباب واللعن‘‘: ج ۲، ص: ۸۹۳، رقم: ۶۰۴۵)
(۲) عن عرفجۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ، قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إنہ سیکون ہناتٌ وہناتٌ فمن أراد أن یفرق أمر ہذہ الأمۃ وہي جمیع فاضربوہ بالسیف کائناً من کان، رواہ مسلم۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإمارۃ والقضاء‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۰، رقم: ۳۶۷۷)
وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن اللّٰہ لا یجمع أمتي، أو قال أمۃ محمدٍ علی ضلالۃ وید اللّٰہ علی الجماعۃ ومن شذَّ شذَّ في النار، رواہ الترمذي۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: بالإعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۳۰، رقم: ۱۷۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص257

تجارت و ملازمت

آف لائن 3973

الجواب وباللہ التوفیق:
ڈراپ شپنگ تجارت کی ایک جدید شکل ہے جس میں کوئی شخص کسی مینوفیکچرنگ کمپنی کی ویب سائٹ یا کسی بڑے ای اسٹور مثلاً ایمازون، والمارٹ، فلپ کارڈ، مووی کیوک اور منترا وغیرہ پر بکنے والی کسی پراڈکٹ کی تشہیر کرتا ہے اور کسٹمر کو خریداری کی آفر کرتا ہے اور آرڈر ملنے پر مطلوبہ شے مینوفیکچرنگ کمپنی یا ای اسٹور ویب سائٹ یا پیج کو دیکھ کر کسٹمر اپنی پسند کردہ شے (چیز) پر کلک کرکے اس چیز کو خریدنے کا اظہار کرتا ہے اور کسٹمر سے رقم کی ادائیگی کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں، کبھی ادائیگی ڈیلیوری پر کی جاتی ہے یعنی جب مبیع مقرر ہ جگہ پر پہنچا دی جاتی ہے تو مشتری رقم ادا کرتا ہے اور بعض دفعہ ادائیگی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جاتی ہے، بائع مشتری کا کریڈٹ کارڈ نمبر حاصل کرکے بینک کو بھیجتا ہے اور وہاں سے اپنی رقم وصول کرلیتا ہے، مبیع کی ادائیگی بعض اوقات ڈیبٹ کارڈ، یا آن لائن کی جاتی ہے، ضروری نہیں کہ مبیع (فروخت کی جانے والی چیز) بائع کی ملکیت میں موجود ہو، بلکہ وہ آرڈر ملنے پر اشیاء کا انتظام کرتا ہے اور مشتری کے پتے پر یہ اشیاء ارسال کرتا ہے۔ اس طریقہ کار وبار میں بظاہر خریدار کا آن لائن اپنی مطلوبہ اشیاء پر کلک کردینا قبول معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خریدار کا عمل ایجاب ہے اور بائع کا اپنی مصنوعات اپنی سائٹ پر ظاہر کردینا ایجاب کی پیشکش ہے، قبول نہیں، جیسے دوکان دار اشیاء اپنے اسٹال پر قرینے سے سجا دیتا ہے اور ان پر قیمت بھی چسپاں ہوتی ہیں، مگر وہ ایجاب نہیں ہوتا، بلکہ دعوتِ ایجاب ہوتی ہے، اسی طرح ویب سائٹ پر بائع کااپنی اشیاء ظاہر کردینا بھی دعوتِ ایجاب ہے جیسے دکان پر دکان دار کا عمل بیع کو قبول کرنا ہوتا ہے، اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری میں بھی بائع کا عمل ایجاب کی قبولیت ہوتا ہے۔ ایک عام دکان پر اگر خریدار اور دکان دار زبان سے کچھ نہ کہیں تو دونوں جانب سے ’’بیع تعاطی‘‘ سے مکمل ہوجاتی ہے اوراگر خریدار زبان سے خریدار ی کی خواہش کا اظہارکرے اور دکان دار زبان سے کچھ نہ کہے، بلکہ چیز حوالے کردے یا ثمن قبول کرلے تو بائع کی طرف سے فعلاً قبول ہوتا ہے، اسی طرح ویب سائٹ پر بھی فعلی قبول ہوجاتا ہے۔
بہرحال چیزوں کو پیش کرنا ایجاب نہیں، بلکہ ایجاب کی دعوت دینا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دکان میں جب خریدارکو ئی چیز اٹھا لیتا ہے تواس وقت بیع مکمل نہیں ہوتی، بلکہ کاؤنٹر پر آکر بیع تام ہوتی ہے، ایسے ہی مختلف ویب سائیٹس پر جب گاہک اپنی پسندیدہ شئی پر کلک کرتا ہے تو یہ تحریری ایجاب ہوتا ہے، جب یہ ایجاب کمپنی یا فرد کے پاس جاتا ہے تو وہ اسے قبول کرلیتا ہے یوں یہ عقد جانبین سے تحریری صورت میں عمل پذیر ہوتاہے۔نیز مذکورہ بیع میں قبضہ کی صورت یہ ہے کہ
شریعت اسلامیہ نے معاملات مالیہ میں قبضہ کی کسی خاص صورت یعنی حقیقی وحسی ایسے ہی معنوی وحکمی کسی کو مخصوص نہیں کیا بلکہ قبضہ کی ہر اُس صورت کو جائز قرار دیا ہے جسے عُرف میں قبضہ سمجھا جاتا ہے اور معاشرہ کے لوگ اُسے قبول کرتے ہیں۔ گویا مالی لین دین میں قدرت واختیار کی ہر وہ شکل جسے معاشرہ میں قبولیت حاصل ہو اُس کو شرعاً قبضہ کا مصداق سمجھا جاتا ہے یا سمجھا جانا چاہئے۔ اِسی طرح قبضہ کی قدرت اور موقعہ دیدینا بھی قبضہ کے قائم مقام اور اس کی ہی ایک شکل ہے۔ علمائے احناف کے نزدیک بھی شئی کا حسی قبضہ ضروری نہیں ہے، بلکہ مبیع کا تخلیہ (تمام رکاوٹوں کو ہٹا کے دوسرے کو تصرف واستعمال کا حق دینا) بھی کافی ہے۔
مشتری تصویر دیکھ کر جب کلک کرتا ہے تو یہ خریداری آرڈر بک کرتا ہے اور جب بائع وہ سامان مشتری تک پہونچا دیتا ہے تو بیع مکمل ہو جاتی ہے بعض مرتبہ تشہیر کرنے والے کے پاس سامان نہیں ہوتا وہ آرڈر لیکر اس کے مطابق دوسری جگہ سے سامان لاکر دیتا ہے جب وہ سامان لا کر دیدے گا تو بیع ہو جائے گی اور اس سے پہلے کی کارروائی کو وعدہ بیع کہا جائے گا۔
لہٰذا انٹرنیٹ پر اس طرح کی خرید وفروخت کرتے ہوئے درج ذیل امور کا اگر خیال رکھا جائے تو مذکورہ معاملہ کی شرعاً گنجائش ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔
(أ) مبیع اور ثمن کی مکمل تفصیل بتائی جائے، جس سے ہر قسم کی جہالت مرتفع ہو جائے۔
(ب) کوئی بھی شرط فاسد نہ لگائی گئی ہو۔
(ج) صرف تصویر دیکھنے سے خیارِ رویت ساقط نہ ہوگا، لہٰذا اگر مبیع تصویر کے مطابق نہ ہو تو مشتری کو واپس کرنے کا اختیار ہو۔
(د) اگر ویب سائٹ پرخریدی گئی چیز اس طرح نہیں جیسا کہ اس کی صفات میں بیان کیا گیا تھا تو مشتری کو خیارِ رؤیت حاصل ہوگا، نیز اگر اس شئی میں کوئی ایسا عیب ہو جس کا مشتری کو علم نہیں تھا تو پھر مشتری کو خیارِ عیب حاصل ہوگا، اگر وہ چاہے تو پوری قیمت پر اسے لے لے، اگر چاہے تو واپس کردے، لیکن اسے یہ حق نہیں کہ وہ مبیع رکھ کر نقصان کی قیمت لے۔ بائع کو خیارِ رؤیت تو مطلقاً حاصل نہیں ہوگا، البتہ ثمن میں کھوٹ ہوتو اسے تبدیلی کاحق ہوگا، مگر سودے کو منسوخ کرنے کاحق اسے پھر بھی نہ ہوگا۔
الحاصل: آن لائن خرید وفروخت بکثرت وجود پزیر ہے اور عوام الناس اس طرح کی بیع وشراء میں عام طور پر مبتلا ہیں اس لئے مذکورہ تمام تر تفصیلات اور شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر معاملات کئے جائیں تو ان تفصیلات وتشریحات کی روشنی میں بیع وشراء میں ایجاب وقبول اور مبیع پر قبضہ (خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو رہی ہو) بھی پایا جا رہا ہے اس لئے مذکورہ بیع کرنے کی گنجائش ہے۔
’’شراء ما لم یرہ جائز، کذا في الحاوي، وصورۃ المسألۃ أن یقول الرجل لغیرہ: بعت منک ہذا الثوب الذي في کمی ہذا، وصفتہ کذا، والدرۃ التي في کفی ہذہ، وصفتہا کذا أو لم یذکر الصفۃ، أو یقول: بعت منک ہذہ الجاریۃ المنتقب … وإن أجازہ قبل الرؤیۃ لم یجز وخیارہ باق علی حالہ، فإذا رآہ إن شاء أخذ وإن شاء ردہ، ہکذا في المضمرات‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ج ۲۰، ص: ۲۰۳)
’’خیار العیب یثبت من غیر شرط، کذا فی السراج الوہاج، وإذا اشتری شیئًا لم یعلم بالعیب وقت الشراء ولا علمہ قبلہ والعیب یسیر أو فاحش فلہ الخیار إن شاء رضي بجمیع الثمن وإن شاء ردہ، کذا في شرح الطحاوي، وہذا إذا لم یتمکن من إزالتہ بلا مشقۃ، فإن تمکن فلا کإحرام الجاریۃ‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ج ۲۰، ص: ۲۸۸)

فقط: واللہ اعلم بالصواب
ا

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہاتھ آلہ تطہیر ونظافت ہے؛ اس لیے متوضی کو چاہئے کہ ابتداء وضو میں ہاتھ دھوتے ہوئے انگلیوں کا خلال کرے، تاکہ اچھی طرح نظافت حاصل ہو جائے، تاہم سنّت یہ ہے کہ کہنیوں تک ہاتھ دھوتے وقت خلال کرے۔
’’أن التخلیل إنما یکون بعد التثلیث لأنہ سنۃ التثلیث‘‘(۱)
’’وتخلیل الأصابح من الید والرجلین بعد التثلیث‘‘(۲)
’’والتخلیل إنما یکون بعد التثلیث لأنہ سنۃ التثلیث‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في منافع السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۸۔
(۲) علی حیدر خواجہ، درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام، ’’کتاب الطہارۃ: سنن الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۔(شاملۃ)
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: فرائض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص183

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیض ونفاس سے پاکی حاصل کرتے وقت اگر زیر ناف صاف کرے تو گناہ گار نہیں ہوگی، دو تین دن بعد اگر صاف کرے تب بھی گناہ گار نہیں ہوگی، بلکہ چالیس دن کے اندر اندر جس وقت چاہے صاف کر لے کوئی ممانعت نہیں۔(۳)

(۳)حلق الشعر حالۃ الجنابۃ مکروہٌ و کذا قص الأظافیر (جماعۃ من علماء الہند، …الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع عشر: في الختان والخضاء، و قلم الأظفار الخ‘‘ ج۵، ص:۴۱۴)؛ و قص الأظفار ھو إزالۃ ما یزید علی ما یلابس رأس الإصبع من الظفر بمقص أو سکین أو غیرھما و یکرہ … في حالۃ الجنابۃ، و کذا إزالۃ الشعر لما روی خالد مرفوعا من تنور قبل أن یغتسل جائتہ کل شعرۃ فتقول یارب سلہ لم ضیعنی ولم یغسلنی۔ (طحطاوی، حاشیۃ الطحطاوی، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ‘‘ج۱، ص:۵۲۵، دارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص378

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں اذان کا اعادہ کرلیا جائے، تو اچھا ہے؛ لیکن ضروری نہیں۔ اگر اعادہ نہ کیا گیا، تو مقصد اذان پورا ہوجائے گا اس لیے کوئی حرج نہیں۔(۱)

(۱) ولو قدم فیہما مؤخراً أعاد ما قدم فقط ولا یتکلم فیہما اصلا ولو رد سلام فإن تکلم استأنفہ، وفي الشامیۃ: قولہ أعاد ما قدم فقط، کما لو قدم الفلاح علی الصلاۃ یعیدہ فقط أي ولا یستأنف الأذان من أولہ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في أول من بنی المنائر للأذان، ج۲، ص: ۵۶)
ویترتب بین کلمات الأذان والإقامۃ … وإذا قدم في أذانہ أو في إقامتہ بعض الکلمات علی بعض … فالأفضل في ہذا أن ما سبق علی أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ، وإن مضی علی ذلک جازت صلاتہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني: في الأذان، الفصل الثاني: في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص147

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ہوجائے گی لیکن ایسے خیال کو دفع کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔(۱)
(۱) یجب حضور القلب عند التحریمۃ، فلو اشتغل قلبہ بتفکر مسألۃ مثلا في أثناء الأرکان، فلا تستحب الإعادۃ۔ وقال البقالی: لم ینقص أجرہ إلا إذا قصر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’مطلب في حضور القلب والخشوع‘‘ ج۲، ص: ۹۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص104

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: ایک بڑی آیت سے مراد یہ ہے کہ وہ تین چھوٹی آیات جیسے {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳} کے بقدر ہو یعنی اس میں کم از کم تیس حروف ہوں، اگر کوئی ایسی ایک بڑی آیت بھی نہ پڑھ سکے تو ترکِ واجب کی وجہ سے اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا۔
’’وضم أقصر سورۃ کالکوثر أو ما قام مقامہا، وہو ثلاث آیات قصار، نحو {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳}، وکذا لو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاثاً قصاراً … وہي ثلاثون حرفا، فلو قرأ آیۃ طویلۃ قدر ثلاثین حرفاً یکون قد أتی بقدر ثلاث آیات‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹، زکریا۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص222

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جن حالات سے مسلمان گزر رہے ہیں بلاشبہ وہ اس کے مقتضی ہیں کہ دعائے قنوت پڑھی جائے عند الاحناف نماز فجر میں پڑھی جائے اور کسی نماز میں نہیں۔(۱)

(۱) وہو صریح فی أن قنوت النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹)
قال الإمام النووي: القنوت مسنون فی صلاۃ الصبح دائما، وأما في غیرہا ففیہ ثلاثۃ أقوال، والصحیح: المشہور أنہ إذا نزلت نازلۃ کعدو أو قحط أو وباء أو عطش أو ضرر أو ظاہر فی المسلمین، ونحو ذلک قنتوا في جمیع الصلوات المکتوبۃ، وإلا فلا۔ ذکرہ الطیبي، وفیہ أن مسنونیتہ في الصبح غیر مستفادۃ من ہذا الحدیث۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب القنوت‘‘: ج ۳، ص: ۹۵۸)
والقنوت في الفجر لا یشرع لمطلق الحرب عندنا، وإنما یشرع لبلیۃ شدیدۃ تبلغ بہا القلوب الحناجر ولولا ذلک یلزم الصحابۃ القائلین بالقنوت للنازلۃ أن یقنتوا أبداً ولا یترکوہ یوماً لعدم خلو المسلمین عن نازلۃ ما غالبا، لا سیما في زمن الخلفاء الأربعۃ قلت: وہذا ہو الذي یحصل بہ الجمع بین الأحادیث المختلفۃ في الباب۔ ( ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب الوتر، تتمۃ في بقیۃ أحکام قنوت النازلۃ‘‘: ج ۶، ص: ۹۶،ادارۃ القرآن کراچی)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص330

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صبح صادق کے بعد صرف فجر کی دو سنت مؤکدہ پڑھ سکتے ہیں فجر کی نماز سے قبل اور نماز کے بعد نفل نماز مکروہ ہے۔
’’ویکرہ التنفل بعد طلوع الفجر بأکثر من سنۃ قبل أداء الفرض لقولہ صلی اللہ جمیع الوقت مشغولاً بالفرض حکماً ولذا تخفف قرائۃ سنۃ الفجر‘‘(۱)

(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ص: ۱۰۱۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص439

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 39 / 800

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زکوۃ کی رقم کا براہ راست اساتذہ کی تنخواہوں یا مدرسہ کی ضروریات  میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ زکوۃ کی رقم کسی مستحق زکوۃ کی ملکیت میں دینا ضروری ہے  جس کو اختیار ہو کہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے خرچ کرے۔ پھر اگر اہل مدرسہ نے اس کو ترغیب دے کے کچھ رقم حاصل کرلی تو پھر اس رقم کو مدرسہ کی ضروریات  اور اساتذہ کی تنخواہوں وغیرہ میں خرچ کرنے میں حرج نہیں ہے۔  کذا فی الفقہ  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند