روزہ و رمضان

Ref. No. 39/1045

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  لگواسکتے ہیں، اس سے روزے پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 40/000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں کسی قریبی معتبردارالقضاء سے رجوع کرلیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1033

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Imam Tirmizi has reported this hadith and remarked as ‘Ghareeb’. Hakim and Zahabi also reported it. Imam Nawawi reported this hadith in Azkar and said that its sanad is weak. (مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ 7/346)۔

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1109/42-335

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس چھوٹی مسجد میں جمعہ کی نماز وقتی طور پر ایک مجبوری کے تحت شروع کی گئی ہے، مجبوری ختم ہونے کے بعد اس میں جمعہ  بند کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حکومتی ہدایات کے مطابق ایک جگہ پر زیادہ لوگوں کا جمع ہونا ممنوع تھا ، اس لئے چھوٹی مسجد بلکہ شہر اور قریہ کبیرہ کے کسی بھی مقام پر چند لوگ جمعہ کی نماز پڑھ رہے تھے۔ اب جبکہ وہ مجبوری ختم ہوگئی تو جمعہ کی نماز میں جس قدر مجمع زیادہ ہو وہ مستحسن ہے۔ جامع مسجد میں لوگ کثیر تعداد میں جمع ہوں یہی زیادہ بہتر ہے۔ اگر اب بھی چھوٹی مسجدوں اور بلڈنگوں اور پارکوں میں لوگ نماز جمعہ ادا کریں گے تو جمعہ کا مقصد جو اجتماعیت کا اظہار ہے وہ فوت ہوجائے گا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:”ہیں“ جمع کے لئے بھی بولا جاتا ہے، اور احترام کے لئے بھی، جب کوئی مثلاً یوں کہے کہ ”اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں“ تو یہ جملہ احترام میں بولا جاتا ہے؛ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ متعدد ہیں، اس لئے اس کا استعمال درست ہے۔

(إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ہ۹) (سورۃ الحجر، آیۃ: ۹) (إِنَّآ أَنْزَلْنٰہُ فِيْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِہجصلے ۱  ) (سورۃ القدر، آیۃ:۱) وأما قولہ: (إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ) فہٰذہ الصیغۃ وإن کانت للجمع إلا أن ہذا من کلام الملوک عند إظہار التعظیم فإن الواحد منہم إذا فعل فعلا أو قال قولا قال: إنا فعلنا کذا وقلنا کذا فکذا ہہنا۔ (الرازي، التفسیر الکبیر، ”سورۃ الحجر: الآیات:۶-۹“: ج ۷، ص: ۳۲۱)

اسلامی عقائد

Ref. No. 1840/43-1671

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا معاملہ  ایک شخص سے ہے اور اس شخص کا معاملہ دوسرے کے ساتھ الگ ہے، آپ نے اس کو 20000 میں دیاہے، اور اس کے ذمہ رقم ادھار ہے، اب وہ اپنی مرضی سے دوسرے سے کم وبیش جتنے میں چاہے بیچے، یہ اس کی اپنی مرضی ہے۔ اس لئے مذکورہ معاملہ درست  ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2039/44-2014

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مسجد کمیٹی اور واقف کی جانب سے اس کی اجازت ہو تو ذاتی استعمال کے لئے مسجد کا پانی دوسری جگہ لیجانے کی گنجائش ہے، البتہ بہتر ہے کہ جو لوگ پانی استعمال کریں عرفی قیمت کے مطابق اس کے پیسے مسجد کے چندہ میں دیدیں۔ تاہم مسجد کی چیز مسجد ہی میں استعمال ہونی چاہئے، نیز کسی بھی طرح کی مسجد کی بے حرمتی سے بچنا لازم ہے۔

شرب الماء من السقایۃ جائز للغنی والفقیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الھندیۃ 5/341)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2127/44-2188

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If the woman could not fulfill her wish during her lifetime nor she made a will for the construction of a mosque and the marriage of orphan girls, then after her death the whole amount will be distributed among her heirs. The distribution will be according to the Shariah shares and no amount can be set aside due to mere expression of wish.  However if the heirs are all willing to go ahead with the wish then with the consent of all, the money could be taken out and used for the said purposes.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 2250/44-2399

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو صدقہ شریعت نے واجب کیا ہو یا آدمی نے خود اپنے اوپر منت یا نذر مان کر  واجب کیا ہو، وہ صدقہ صرف غریب مسلمانوں کا حق ہے، ایسا صدقہ غیرمسلم کو دینا یا مالدار مسلمان کو دینا جائز نہیں ہے، دینے سے پہلے اس کی تحقیق کرلینی چاہئے۔  اور یہ صدقہ مسجد یا خیراتی کاموں میں صرف کرنا بھی جائز نہیں ہے۔  اور جو صدقہ نفلی ہو یعنی آدمی اپنے کاروبار میں  برکت، بیماری سے شفا، کسی اہم کام میں سہولت وغیرہ کے مقصد سے اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتاہے ، ایسا صدقہ غریب، امیر، مسلمان اور غیرمسلم کسی کو بھی دیاجاسکتاہے، اور مسجد میں اسی طرح دیگر اوقاف میں خرچ کرنا بھی جائز ہے۔ ظاہر حال سے اگر لگتاہے کہ وہ غلط کاموں میں نہیں لگائے گا، تو اس کو صدقہ دیا جائے اور اگر اس کی حالت سے غالب گمان یہ ہو کہ وہ شراب یا جوا میں صرف کرے گا تو اس کو صدقہ دینے سے احتراز کیا جائے۔

الھدایہ: (223/1، ط: مکتبہ رحمانیہ)
ولا یدفع المزکی زکوۃ مالہ الی ابیہ وجدہ وان علا ولا الی ولدہ وولد ولدہ وان اسفل۔
الجوھرۃ النیرہ: (باب فی بیان مصارف الزکوۃ)
لا تدفع الی غنی وفیھا ولا یدفع الی بنی ھاشم ولا فیھا ولا یدفع المزکی زکوتہ الی ابیہ وجدہ وان علا ولا الی ولدہ وان اسفل و فیھا۔۔۔۔۔ ولا یبنی بھا مسجد ولا یکفن بھا میت۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عام طور پر شادی کے موقعہ پر فلمی اور بے ہودہ گیت گائے جاتے ہیں، جو کہ ناجائز ہیں اور اگر خوشی کے اشعار ہوں، نامحرموں کا مجمع نہ ہو، آواز نا محرموں تک نہ جائے، تو جائز ہے۔(۲)

۲) وقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل شیء یلہو بہ ابن آدم فہو باطلٌ۔…  (أخرجہ أحمد، في مسندہ: ج ۲۸، ص: ۵۷۳، رقم: ۱۷۳۳۸)
’’لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: کل لہو المسلم حرام‘‘۔ والإطلاق شامل لنفس الفعل، واستماعہ کالرقص والسخریۃ والتصفیق وضرب الأوتار من الطنبور والبربط والرباب والقانون والمزمار والصنج والبوق، فإنہا کلہا مکروہۃ لأنہا زي الکفار۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۶۰)
السماع والقول والرقص الذي یفعلہ المتصوفۃ في زماننا حرام لا یجوز القصد إلیہ والجلوس علیہ وہو والغناء والمزامیر سواء۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السابع عشر في الغناء واللہو‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۶)
وأما الغناء بذکر الفواحش والمنکرات من القول، فہو المحظور من الغناء۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح: ج ۳، ص: ۱۰۶۵، رقم: ۱۴۳۲)
وأما الغناء المعتاد عن المشتہرین بہ الذي یحرک الساکن ویہیج الکامن الذي فیہ وصف محاسن الصبیان والنساء ووصف الخمر ونحوہا من الأمور المحرمۃ فلا یختلف في تحریمہ۔ (العیني، عمدۃالقاري: ج ۶، ص: ۲۷۱
)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص430