Frequently Asked Questions
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پہلے اصل مسئلہ سمجھیں کہ غیر سبیلین سے اگر کوئی چیز نکلے اور نکل کر اپنی جگہ سے بہ جائے، تو اس سے وضو ٹوٹ جاتاہے اور اگر اتنی معمولی مقدار میں ہے کہ وہ اپنی جگہ سے نہ بہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے ’’لیس في القطرۃ والقطرتین من الدم وضوء إلا أن یکون سائلا‘‘ اس مسئلہ کی روشنی میں اگر غور فرمائیں، تو پہلی عبارت درست ہے، اگر زخم سے نجاست نکلے اور وہ اتنی مقدار میں ہے کہ نچوڑنے کی صورت میں اس میں سیلان پایا جائے گا، تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اگرچہ اس کی کیفیت یہ ہے کہ اگر اس کو نہ نچوڑا جاتا، تو وہ نہ بہتا، جہاں تک ہدایہ کی عبارت کا تعلق ہے ’’أما إذا عصرہا فخرج بعصرہ لا ینقض لأنہ مخرج و لیس بخارج‘‘ یہ درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس صورت میں بھی وضو ٹوٹ جائے گا، کیوں کہ وضو کے ٹوٹنے کا مدار خارج پر ہے اور مخرج سے بھی خارج کا وجود ہو جاتا ہے، چنا نچہ علامہ لکھنوی نے صاحب ہدایہ کی اس عبارت پر نقد کیا ہے وہ لکھتے ہیں۔ ’’وذکر في الکافي الأصح أن المخرج ناقض انتہی کیف لا؟ وجمیع الأدلۃ من الکتاب والسنۃ والإجماع والقیاس تدل علی تعلیق النقض بالخارج النجس وہو الثابت في المخرج‘‘(۱)
(۱) المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۹، حاشیۃ: ۱۔
وفي غیر السبیلین بتجاوز النجاسۃ إلی محل الخ۔ والمراد أن تتجاوز ولو بالعصر وما شأنہ أن یتجاوز لو لا المائع کما لو مصت علقہ فأمتلأت بحیث لو شقت لسال منہا الدم کذا في الحبلی۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ‘: فصل‘: ص: ۸۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص144
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وہ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ تھے جو قافلہ سے پیچھے رہ گئے تھے تو شیر آگیا انہوں نے اس کو کہا: میں صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں مجھ کو قافلہ سے ملنا ہے تو اس نے ان کو اپنے ساتھ لیجا کر قافلہ سے ملادیا تھا۔(۱)
(۱) وعن ابن المنکدر أن سفینۃ مولی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخطأ الجیش بأرض الروم أو أسر فانطلق ہاربا یلتمس الجیش فإذا ہو بالأسد۔ فقال: یا أبا الحارث أنا مولی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان من أمري کیت وکیت فأقبل الأسد لہ بصبصۃ حتی قام إلی جنبہ کلما سمع صوتا أہوی إلیہ ثم أقبل یمشی إلی جنبہ حتی بلغ الجیش ثم رجع الأسد۔ رواہ في شرح السنۃ۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب الکرامات، الفصل الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۵، رقم: ۵۹۴۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص235
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بچہ کے پیشاب سے کرنسی نوٹ ناپاک ہو گیا، اس کو پاک کرنے کے لئے پانی یا پٹرول وغیرہ اس پر بہا دیا جائے جب قطرہ ٹپکنا بند ہو جائے، تو پھر بہائے اس طرح تین مرتبہ کرنے سے کرنسی نوٹ پاک ہو جائے گا، پاک کرنے کے لئے کسی کیمیکل کا بھی استعمال کر سکتے ہیں تاہم اگر اس کو پاک نہیں کیا، تو اس کو جیب میں رکھ کر نماز درست نہیں ہوگی۔
’’یجوز رفع نجاسۃ حقیقیۃ عن محلہا ولو إناء أو مأکولا علم محلہا أو لا بماء لو مستعملا بہ یفتی وبکل مائع طاہر قالع للنجاسۃ ینعصر بالعصر کخل وماء ورد حتی الریق فتطہر أصبع وثدي تنجس بلحس ثلاثاً‘‘ (۱)
’’ولہذا جازت صلاۃ حامل المحدث والجنب وحامل النجاسۃ لا تجوز صلاتہ‘‘(۲)(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۰۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الطہارۃ الحقیقیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص40
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: زائد انگلی بھی اعضائے وضو میں شمار ہوگی اور اس کا دھونا بھی بقیہ اعضاء کی مانند ضروری ہوگا، خشک رہ جانے کی صورت میںوضو درست نہیں ہوگا۔ و کذا الزائدۃ إن نبتت من محل الفرض کأصبع و کف زائدین، و إلا فما حاذی منھما محل الفرض غسلہ ومالا فلا لکن یندب مجتبی۔ (۱)
(۱)ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في السنۃ و تعریفہا‘‘، ج۱، ص:۲۱۸)؛ ولو خلق لہ یدان علی المنکب فالتامۃ ھی الأصلیۃ یجب غسلھا، والأخری في حاذ منھا محل الفرض وجب غسلہ ومالا فلا یجب بل یندب غسلہ، و کذا یجب غسل ما کان مرکبا علی الیدین من الأصبع الزائدۃ والکف الزائدۃ والسلعۃ و کذا إیصال الماء إلی ما بین الأصابع إذا لم تکن ملحمۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ج۱، ص:۲۹-۳۰)، و یجب غسل ما کان مرکبا علی أعضاء الوضوء من الإصبع الزائدۃ والکف الزائدۃ کذا في السراج الوھاج۔ (جماعۃ من علماء الھند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفرض الثاني : غسل الیدین،‘‘ ج۱، ص:۵۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص156
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پانی ہوتے ہوئے تیمم کر کے قرآن چھونا جائز نہیں ہے (۱) در مختار میں ہے ’’کتیمم مس المصحف فلا یجوز لواجد الماء‘‘۔(۲)
(۱)قلت: وفي المنیۃ و شرحھا: تیممہ لدخول مسجد و مس مصحف مع وجود الماء لیس بشیء بل ھو عدم۔ (ابن عابدین، درمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۴۱۱)
(۲)ایضاً، ج۱،ص:۴۱۲
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص358
Miscellaneous
Ref. No. 2732/45-4257
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Law education is also a part of religious education. As other sciences are recommended in Islam, the law education is also permissible for Muslim women. Gaining law education is not a problem in itself, but the method of obtaining legal education needs to be pondered upon. If any alternative is available at home, it is better to stay at home and seek knowledge; otherwise, one should enroll in an institution where there is a segregated system of education with hijab.
In case, one becomes a lawyer, it is mandatory to take full care of what is halal and what is haram and completely avoid lying. Going out for fighting case in the court is not suitable for a young woman and surely it is against wisdom too.
The way the Islamic values are being violated in the name of higher education today is very tragic. Unless there is a suitable environment for learning, simply running after higher education is nothing but a materialistic approach.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: ساتھ ہی سلام پھیر دیں، البتہ اگر کسی مقتدی کا تشہد بھی باقی رہ جائے تو اس کو پورا کرکے سلام پھیرے۔ (۱)
(۱) بخلاف سلامہ أو قیامہ لثالثۃ قبل تمام المؤتم التشہد فإنہ لایتابعہ بل یتمہ لوجوبہ ولو لم یتم جاز ولو سلم والمؤتم في أدعیۃ التشہد تابعہ لأنہ سنۃ والناس عنہ غافلون۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب صفۃ الصلوۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۱۹۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص470
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:غروب آفتاب کا وقت، مکر وہ وقت ہے، لیکن اس دن کی نماز عصر پڑھنے کی گنجائش ہے۔ اگر عصر کی نماز پڑھتے ہوئے آفتاب غروب ہو گیا، تو مکروہ وقت ختم ہو کر اب صحیح وقت شروع ہو گیا، اس لیے نماز درست ہو جائے گی۔ فجر کے وقت کا مسئلہ اس سے مختلف ہے، یعنی اگر کسی نے فجر کی نماز شروع کی اور دوران نماز آفتاب طلوع ہو گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ کیوں کہ صحیح وقت میں اس نے نماز شروع کی اور اب مکروہ وقت ہو گیا، اس لیے نماز درست ہوجائے گی۔
’’وکـرہ صلاۃ إلی قولہ إلا عصر یومہ وفي الشرح: فلایکرہ فعلہ لأدائہ کماوجب بخلاف الفجر‘‘(۱)
’’والصلاۃ منہي عنہا في ہذا الوقت وقد وجبت علیہ ناقصۃ وأداہا کما وجبت بخلاف الفجر إذا طلعت فیہا الشمس؛ لأن الوجوب یتضیق بآخر وقتہا ولا نہي في آخر وقت الفجر وإنما النہي یتوجہ بعد خروج وقتہا فقد وجبت علیہ الصلاۃ کاملۃ فلا تتأدی بالناقصۃ فہو الفرق واللّٰہ أعلم‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت، ج۲، ص: ۳۰-۳۳۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في حکم ہذہ الصلوات إذا فسدت‘‘: ج۱، ص:۵۶۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص117
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: السلام علیکم کہنے ہی سے نمازی نماز سے باہر ہوگیا، اس لیے نماز کا لوٹانا واجب نہیں؛ البتہ امام کو چاہئے کہ سلام میں سانس کو لمبا نہ کرے اور مقتدی امام سے قبل سلام نہ پھیرے۔(۱)
(۱) ولو أتمہ قبل إمامہ فتکلم جاز وکرہ۔ (الحصکفي، الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۲، ص:۲۴۰)
قولہ ولو أتمہ الخ۔ أي لو أتم المؤتم التشہد بأن أسرع فیہ وفرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتی بما یخرجہ من الصلاۃ کسلام أو کلام أو قیام جاز: أي صحت صلاتہ لحصولہ بعد تمام الأرکان۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في خلف الوعید و حکم الدعاء الخ ‘‘: ج۲، ص: ۲۴۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص86
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جی ہاں وتر کی نماز میں دعاء قنوت پڑھنے کے بعد درود شریف پڑھنا مستحب ہے۔
’’وقنت فیہ، ویسن الدعاء المشہور، ویصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، بہ یفتی‘‘ (۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۴۲، زکریا دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص309