مساجد و مدارس

Ref. No. 2715/45-4463

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مناسب پردہ کے ساتھ عورتوں کا مسجد کے لئے کام کرنا بنیت ثواب درست ہے۔ مَردوں سے اختلاط اور بے پردگی سے گریز کیاجائے۔ مسجد تعمیر ہونے کے بعد عورتوں کا مسجد میں بطور شکرانہ دو رکعت نماز پڑھنے کا اگر کسی دن ایسے وقت میں نظم کردیاجائے کہ مردوں سے اختلاط  نہ ہو اور پردہ کے ساتھ عورتیں آئیں تو اس کی گنجائش ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مذکورہ ایسی مجبوری ہے کہ جس سے بچنا ممکن نہیں اس لئے مذکورہ میت پر نماز جنازہ اور غسل اور تدفین سب درست ہوگا۔(۱)

(۱)  و إذا غسل المیت ثم خرج من شيء لا یعاد الغسل ولا وضوء عندنا ۔۔۔ و إذا سأل منہ شيء بعد الغسل قبل أن یکفن غسل ما سال و إن سال بعد ما کفن لا یغسل۔(عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ج۳، ص:۱۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص380

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر واقعی طور پر امام صاحب ایسا عمل کرتے ہیں تو وہ شخص گناہ گار ہے قابل امامت نہیں ہے۔(۲)

(۲) (قولہ وفاسق) من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک۔۔۔۔، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ، وشارب الخمر وآکل الربا ونمام، ومراء ومتصنع قولہ نال فضل الجماعۃ) أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولی من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي قال في الحلیۃ: ولم یجدہ المخرجون نعم أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعا إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (أیضًا: مطلب في إمامۃ الأمرد،: ج ۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص158

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: محلہ کی مسجد کا حق زیادہ ہے اس لیے اپنے محلہ کی مسجد چھوڑ کر دوسرے محلہ کی مسجد میں نہ جانا چاہئے۔ شامی میں خانیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اگر اپنے محلہ کی مسجد میں تنہا بھی نماز پڑھے تو اکیلا اذان کہہ کر نماز پڑھے اور اس کو چھوڑ کر دوسری مسجد میں نہ جائے۔
’’بل في الخانیۃ لو لم یکن لمسجد منزلہ مؤذن فإنہ یذہب إلیہ ویؤذن فیہ ویصلي ولو کان وحدہ لأن لہ حقا علیہ فیؤدیہ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا: مطلب في أفضل المساجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۳، ط: زکریا۔
رجل یصلي في الجامع لکثرۃ الجمع ولا یصلي في مسجد حیہ فإنہ یصلي في مسجد منزلہ وإن کان قومہ أقل: وإن لم یکن لمسجد منزلہ مؤذن فإنہ یؤذن ویصلي … فالأفضل أن یصلي في مسجدہ ولا یذہب إلی مسجد آخر۔ (خلاصۃ الفتاویٰ، ج۱، ص: ۲۲۸، المکتبۃ الرشیدیہ، کوئٹہ)

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص364

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص اذان کی آواز سننے کے بعد ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا الَّذِيْ وَعَدْتَّہ‘‘ دعا پڑھے اس کو میری شفاعت نصیب ہوگی، امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث نقل کی ہے:
’’عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم قال: من قال حین یسمع النداء: ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّ ہَذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا الَّذِيْ وَعَدْتَّہ‘‘ حلت لہ شفاعتي یوم القیامۃ‘‘(۱)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جس نے اذان سننے کے بعد مذکورہ دعا پڑھی اُس کے لیے روزِ قیامت میری شفاعت لازم ہو گئی۔
اذان کے بعد دعا قبول ہوتی ہے دعا کی قبولیت میں بنیادی دخل تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دعاکرنے والے کا تعلق ہوتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ کچھ خاص احوال واوقات ہوتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی رحمت وعنایت کی خاص طور سے امید کی جاتی ہے، قبولیت ِدعاء کے خاص اوقات میں سے اذان کے دوران، اذان کے بعد اور اذان واقامت کے درمیان کاوقت بھی شامل ہے، ان اوقات میں بھی دعا قبول ہوتی ہے اور یہ روایات سے ثابت ہے۔
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت:قال رسول اللّٰہ  صلی اللّٰہ علیہ وسلم:
ثلاث ساعات للمرأ المسلم مادعافیھن إلا استجیب لہ مالم یسأل قطیعۃ رحم، أو ماثما، قالت: فقلت: یارسول اللّٰہ! أي ساعۃ؟ قال حین یؤذن المؤذن بالصلوۃ حتی یسکت، وحین یلتقی الصفان حتی یحکم اللّٰہ بینھما، وحین ینزل المطر حتی یسکن، قالت، قلت: کیف اقول یا رسول اللّٰہ! حین اسمع المؤذن؟ علمني مما علمک اللّٰہ، واجھد، قال: تقولین کما کبراللّٰہ یقول اللّٰہ أکبر … ثم صلي علي وسلمي، ثم اذکري حاجتک‘‘(۲)
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’أقول ذلک لشمول الرحمۃ الإلٰھیۃ  ووجود الانقیاد من الداعي‘‘(۳)
یعنی اذان کے وقت مؤذن کی طرف سے کامل اتباع کا اظہار ہوتاہے اور رحمت الٰہی کا فیضان ہوتاہے، اس وجہ سے اس وقت دعا خصوصیت سے قبول کی جاتی ہے۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الدعاء عند النداء‘‘: ج ۱، ص: ۸۶، رقم: ۵۸۹، وأیضًا في کتاب تفسیر القرآن: باب قولہ: عسی أن یبعثک ربک مقاماً محمودا‘‘: ج ۲، ص: ۶۸۶، رقم: ۴۴۴۲۔
(۲) الأصفہاني،أبو نعیم ، حلیۃ الأولیاء، علی بن بکار: ج ۹، ص: ۳۲۱۔(شاملۃ)
(۳)  الدہلوي،الشاہ ولي اللّٰہ، حجۃ اللّٰہ البالغۃ:  فصل في المساجد، ج ۱، ص: ۴۰۶۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص149

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دونوں سجدوں کے درمیان دعاء پڑھنا منقول ہے؛ البتہ باجماعت فرض نماز میں تخفیف کا حکم ہے؛ اس لیے جماعت کی نماز میں مناسب نہیں، ہاں نوافل میں یا تنہا فرض نماز پڑھنے کی صورت میں اس کی اجازت ہے، اسی طرح اگر مقتدی ایسے ہوں جن کو اس سے گرانی نہ ہو، تو پھر باجماعت نمازوں میں بھی پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔(۲)
(۲) وعن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان  یقول بین السجدتین ’’اللہم اغفرلي وارحمني وعافني واہدني وارزقني۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الدعاء بین السجدتین‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، رقم: ۸۵۰)
ہکذا أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما یقول بین السجدتین‘‘: ج ۱، ص: ۶۳، رقم: ۲۸۴، مکتبہ: نعیمیہ دیوبند۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص:  406

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حادثات ومصائب کے وقت قنوت نازلہ پڑھنا جائز ہے۔
’’إذا وقعت نازلۃ قنت الإمام في الصلاۃ الجھریۃ، لکن في الأشباہ عن الغابۃ: قنت في صلاۃ الفجر و یؤیدہ ما في شرح المنیۃ …قال الحافظ أبو الجعفر الطحاوي: إنما لا یقنت عندنا في الصلاۃ الفجر من غیر بلیۃ‘‘(۱)
مذکورہ عبارت سے یہ بھی واضح ہوا کہ بغیر مصیبت وحادثات کے پڑھنے کی اجازت نہیں قاریوں کی شہادت کے بعد رسول اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک پڑھی۔
اس کے بعد چوں کہ کوئی حادثہ فاجعہ ایسا پیش نہیں آیا، تو پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ بن کذاب مدعی نبوت سے جنگ کی اور اس کی وجہ سے پیش آمدہ فتنہ کے وقت دعاء قنوت نماز فجر میں پڑھی، ایسے ہی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پڑھنا ثابت ہے، اسی طرح موجودہ وقت میں مسلمان جن حالات سے گزر رہے ہیں اور فتنوں کا سامنا ہے، ایسے وقت میں نماز فجر میں حالات کے سازگار ہونے تک دعاء قنوت پڑھنا بلا شبہ جائز اور درست ہے۔(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۸، ۴۴۹۔)
(۲) أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قنت شہرا في صلاۃ الصبح یدعو علی أحیاء من أحیاء العرب؛ علی رعل وذکوان، وعصیۃ وبنی لحیان، زاد خلیفۃ : …… أولئک السبعین من الأنصار قتلوا ببئر معونۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب المغازي، باب غزوۃ الرجیع و رعل و ذکوان و بئر معونۃ۔ النسخۃ الہندیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۸۴، رقم: ۴۰۹۰)
النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹، زکریا دیوبند)
وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعي علی قنوت الفجر وفیہ التصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماؤنا علی القنوت للنازلۃ، ثم رأیت الشرنبلالي في مراقي الفلاح صرح بأنہ بعدہ؛ واستظہر الحموي أنہ قبلہ والأظہر ما قلناہ، واللہ أعلم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص334

 

Miscellaneous

Ref. No. 38/797

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The man’s ‘awrah’ – (intimate parts) from the navel to the knees – must be covered by clothing.  Exposing any of the intimate parts in front of males or females (any) is unlawful and Haram. Exposing them is regarded as a major sin (Gunahe Kabirah).

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

حدیث و سنت

Ref. No. 39 / 806

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدیث کی کتابوں میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملا، اس لئے اس کو بیان کرنے اور دوسروں تک پہونچانے سے گریز کرنا چاہئے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Eating & Drinking

Ref. No. 39/ 1059

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

In my Knowledge it is a kind of vegetable, thus it is allowable to eat it.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband