Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہر وہ چیز جو وضو اور غسل میں پانی پہونچنے کے لیے مانع ہو، اس سے وضو اور غسل نہیں ہوتا، اسی میں فیوی کوک اور فیوی کول وغیرہ بھی داخل ہے: اس لیے پہلے اس کو جدا کرکے پانی بہایا جائے، پھر نماز ادا کی جائے، ورنہ اس سے غفلت کی بنا پر جو نماز ادا کی جائے گی، وہ نماز ادا نہیں ہوگی: ولابد من زوال ما یمنع من وصول الماء للجسد کشمع وعجین الخ(۱)ہو إسالۃ الماء علی جمیع ما یمکن إسالتہ علیہ من البدن من غیر حرج مرۃ واحدۃ حتی لو بقیت لمعۃ لم یصبہا الماء لم یجز الغسل(۲)المراد وبالأثر اللون والریح فإن شق إزالتہما سقطت(۳) البتہ پوری کوشش کے باوجود اگر فیوی کول وغیرہ کا کچھ حصہ رہ جائے تو ضرورت و حاجت کی وجہ سے وضو اور غسل میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی۔
(۱)حسن بن عمار بن علي، الشرنبلالي، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح،’’فصل یفترض في الاغتسال‘‘ الخ ص:۱۰۲
(۲) زین الدین ابن نجیم الحنفی، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص ۸۶
(۳) و یعني أثر شق زوالہ بأن یحتاج في إخراجہ إلی نحو الصابون۔ (إبراھیم بن محمد، جمع الأنھر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،‘‘ ج۱، ص۹۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص158
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق :افضل یہ ہے کہ سر کا مسح کرکے مسح کے باقی ماندہ پانی سے ہی کانوں کامسح کیا جائے؛ لیکن الگ سے پانی لینا بھی درست ہے۔(۱)
(۱)و عن أبي أمامۃ ذکر وضوء رسول اللّٰہ ﷺ قال: و کان یمسح الماقین و قال: الأذنان من الرأس أخرجہ ابن ماجہ و ابوداؤد والترمذي، و ذکرا: قال حماد لا أدری: الأذنان من الرأس من قول أبي أمامۃ۔ أم من قول رسول اللہ ﷺ : (محمد بن عبداللّٰہ، مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب سنن الوضوء، في الفصل الثاني،‘‘ ج۱، ص:۴۷المکتبۃ الاشرفیۃ دیوبند)، قال الطیبي : أي کان یغسل و یمسح الماقین، ولم یوصل الماء إلی الأذنین، و قال: ھما من الرأس فیمسحان بمسحہ، و احتمال أن یکون عطفاً علی قال أي قیل: فکان فیکون من قول أبي أمامۃ أي قال الراوي: ذکر أبو أمامۃ کان رسول اللّٰہ ﷺ یغسل الوجہ و یمسح الماقین و قال: إنھما (الأذنین) من الرأس اھ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الطہارۃ، باب سنن الوضوء،‘‘ج۲، ص:۱۱۵مکتبۃ فیصل دیوبند)، وفي التاتارخانیۃ: ومن السنۃ مسحھما بماء الرأس ولا یأخذ لھما ماء جدیداً۔ ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ مطلب في تصریف قولھم معزیا،‘‘ ج۱، ص:۲۴۳)؛ و مسح کل رأسہ مرۃ مستوعبۃ فلو ترکہ و داوم علیہ أثم۔ (ایضاً، ج۱،ص:۲۴۴)؛ والأظھر أن یضع کفیہ و أصابعہ علی مقدم رأسہ و یمدھا إلی القفا علی وجہ یستوعب جمیع الرأس لم یمسح أذنیہ بإصبعیہ اھ، وما قیل من أنہ یجافي المسبحتین والإبھامین لیمسح بھما الأذنین والکفین لیمسح بھما جانبي الرأس خشیۃ الاستعمال، فقال في الفتح: لا أصل لہ في السنۃ لأن الاستعمال لا یثبت قبل الإنفصال و الأذنان من الرأس۔(ایضا، ج۱،ص:۲۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص261
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو چیز زمین کی جنس سے ہو اس پر تیمم کرنا جائز ہے اور جو چیز زمین کی جنس سے نہ ہو اس پر تیمم کرناجائزنہیں۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ جو چیز جلانے سے نہ جلے وہ زمین کی جنس سے ہے۔ ماربلس اور ٹائلس بھی سیمنٹ اور چونا وغیرہ سے بنایا جاتا ہے جو زمین کی جنس سے ہے اس لیے ماربلس اور ٹائلس پر تیمم کرنا جائز ہے۔ اگرچہ اس پر گرد و غبار نہ ہو۔ یجزئ التیمم بکل ما کان من الأرض التراب والرمل والحجارۃ والزرنیخ والنورۃ والطین الأحمر (۱) و کل شئ من الأرض تیمم بہ من تراب أو جص أو نورۃ أو زرنیخ فھو جائز۔ (۲) من جنس الأرض و غیرہ أن کل ما یحترق بالنار فیصیر رمادا کالشجر والحشیش أو ینطبع و یلین کالحدید والصفر والذھب والزجاج و نحوھا فلیس من جنس الأرض ابن کمال عن التحفۃ ۔(۳)
(۱) إمام جصاص، أحکام القرآن ، ’’سورہ مائدہ، باب التیمم، باب ما یتمم بہ‘‘ ج۲، ص:۴۸۷ (القاھرۃ: دارابن جوزی، مصر)
(۲) امام سرخسي، مبسوط للسرخسي، ’’باب التیمم‘‘ج ۱، ص:۴۰۴(القاھرۃ: مؤسسۃ الرسالۃ، مصر)
(۳) ابن عابدین،ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ج۱، ص:۲۳۹
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص360
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: مذکورہ متعینہ صورتوں میں اقتدا درست ہے۔ تاہم ایسی صورت میں عورت کو پیچھے کھڑا ہونا چاہیے۔
’’محاذاۃ المرأۃ الرجل مفسدۃ لصلوتہ ولہا شرائط‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ: الفصل الخامس في بیان مقام الإمام والمأموم‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۷، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص473
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: رمضان میں وتر جماعت کے ساتھ مسنون ہے، جن راتوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح پڑھائی تھی ان میں وتر بھی پڑھائی تھی اور صحابہ کرامؓ وتابعین سے رمضان میں وتر باجماعت کا اہتمام ثابت ہے اور عام دنوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ سے وتر باجماعت ثابت نہیں ہے۔
’’ثم بعد عدم کراہۃ الجماعۃ في الوتر في رمضان، اختلفوا في الأفضل، في فتاویٰ قاضي خان: الصحیح أن الجماعۃ أفضل ‘‘(۱)
’’الذي یظہر أن جماعۃ الوتر تبع لجماعۃ التراویح، وإن کان الوتر نفسہ أصلا في ذاتہ‘‘(۲)
’’ویوتر بجماعۃ في رمضان فقط، علیہ إجماع المسلمین، کذا في التبیین الوتر في رمضان بالجماعۃ أفضل من أدائہا في منزلہ وہو الصحیح‘‘(۳)
(۱) ابن الہمام، فتح القدیر: کتاب الصلاۃ،فصل في قیام شھر رمضان ج ۱، ص: ۴۸۷۔)
(۲) الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر و النوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰۔)
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج۱، ص:۱۷۶، زکریا دیوبند۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص310
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: شریعت میں ہر عمل کے لیے قاعدہ اور قانون ہے، مذکورہ نفل (فاسد شدہ نفل) کو بلا عذر دابۃ پر سوار ہو کر ادا کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یسبح علی الراحلۃ قبل أي وجہ توجہ، ویوتر علیہا، غیر أنہ لا یصلی علیہا المکتوبۃ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ’’کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ في السفر حیث توجھت‘‘ج۱، ص۲۴۴، رقم : ۷۰۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص420
حج و عمرہ
Ref. No. 875 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حقیقی بھانجہ محرم ہے، اس کو بطور محرم اپنے ساتھ عمرہ کے لئے لیجانا جائز اور درست ہے۔ قرآن کریم میں ہے: حرمت علیکم امھاتکم وبناتکم واخواتکم وعماتکم وخالاتکم وبنات الاخ وبنات الاخت الآیۃ، سورہ النساء آیت 23۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Marriage (Nikah)
Ref. No. 37 / 1070
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: فریق ثانی اگر اس پر بخوشی راضی ہو اور اس کے پاس وسعت بھی ہو، تو اس کی گنجائش ہے۔ ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 38 /
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بچی ہوئی رقم مالک کو لوٹانا ضروری ہے۔ تمام شرکاء اس رقم کو مدرسہ میں دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، واپس لینا چاہیں تو واپس بھی لے سکتے ہیں۔
۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند