Frequently Asked Questions
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سورہ فیل کا جو مصور خاکہ آپ نے تحریر سوال کے ساتھ ارسال کیا ہے اس کو دیکھا تو تعجب ہوا کہ تجارت کے فروغ یا نفس امارہ کی خوشنودی کے لئے کوئی نام کا مسلمان شیطان کا آلہ کار بن کر اسلامی اقدار سے نیچے بھی گرسکتا ہے اور یہ صورت تصحیف کی بھی ہے اور تحریف کی بھی ہے اور جاندار کی صورت میں آیات قرآنی لکھنا، قرآن کی عظمت کے خلاف ہے؛ بلکہ توہین آمیز عمل ہے جس نے ایسا کیا یا کر رہا ہے، اگر وہ دانستہ طور پر ایسا کر رہا ہے، تو شرعی اعتبار سے وہ اسلام سے خارج ہے۔ توبہ واستغفار اور تجدید ایمان اس پر ضروری ہے اور تجدید نکاح بھی ضروری ہے۔ مسلمانوں کو مذکورہ خاکوں کا خریدنا، اپنے پاس رکھنا بھی قطعاً ناجائز ہے اور اگر وہ قرآن کریم کی عظمت وتقدس کا قائل ہے اور دل سے اسے اللہ کا کلام ولائق احترام سمجھتا ہے، پھر بھی اس نے غفلت میں یا اسے ایک اچھا نمونہ سمجھ کر ایسا کیا ہے، تو وہ دائرۂ ایمان سے تو خارج نہیں؛ لیکن غلطی پر ہے اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، اس پر توبہ واستغفار لازم ہے۔(۱
(۱) قال في الإتقان وقال أشہب: سئل مالک ہل یکتب المصحف علی ما أحدثہ الناس من الہجاء؟ فقال: لا إلا علی کتبۃ الأولیٰ۔ (الإتقان، ’’النوع السادس والسبعون: مرسوم الخط‘‘: ج ۴، ص: ۱۶۸؛ بحوالہ: إمداد الأحکام، کتاب العلم: ج ۱، ص: ۲۴۰)
)
فقط: واللہ اعلم بالصواب
نکاح و شادی
Ref. No. 1721/43-1409
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکی کی جانب سے جب کوئی وکیل بھی نہیں ہے تو یہ نکاح صحیح نہیں ہوا، مجلس نکاح میں لڑکی یا اس کے وکیل کا ہونا ضروری ہے، اس لئے لڑکے کا دوگواہوں کی موجودگی میں صرف ایجاب کرلینا کافی نہیں ہے ،لہذا مذکورہ نکاح باطل ہے۔ لڑکی ولڑکا دونوں سچے دل سے توبہ کریں، اور بقدر استطاعت صدقہ بھی کریں، اورنکاح نہیں ہوا تو مہر کی ادائیگی لڑکے پر ضروری نہیں ہے۔
فالعقد ھو ربط اجزاء التصرف ای الایجاب والقبول شرعا لکن ھنا ارید بالعقد الحاصل بالمصدر وھو الارتباط لکن النکاح ھو الایجاب والقبول مع ذلک الارتباط۔ وانما قلنا ھذا لان الشرع یعتبر الایجاب والقبول ارکان عقد النکاح لا امورا خارجیۃ کالشرائط ونحوھا وقد ذکرت فی شرح التنقیح فی فصل النھی کالبیع فان الشرع یحکم بان الایجاب والقبول الموجودین حسا یرتبطان ارتباطا حکمیا فیحصل معنی شرعی یکون ملک المشتری اثرا لہ فذلک المعنی ھو البیع۔ (شرح الوقایۃ، کتاب النکاح 2/4، مکتبہ بلال دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Marriage (Nikah)
Ref. No. 2114/44-2135
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Your Istikhara was answered in the negative, so the proposal does not seem appropriate for you. Hence, you should act according to your Istikhara, and it would be better for you in-sha Allah.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2463/45-3759
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس سلسلہ میں مختلف اقوال ملتے ہیں بعض نے آیت نمبر 24 پر سجدہ تلاوت کا حکم لگایا ہے اور بعض نے آیت نمبر 25پر۔ علامہ شامی نے آیت نمبر 25 پر سجدہ تلاوت کو اصح قراردیاہے۔ نیز سجدہ کو ایک آیت مؤخر کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے، اس لئے بھی آیت نمبر 25 یعنی "وحسن مآب" پر سجدہ تلاوت کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔ تاہم اگر کسی نے "اناب" پر سجدہ کرلیا تو بھی کافی ہوگا، اور اعادہ لازم نہ ہوگا۔ فتاویٰ محمودیہ میں ہے : " آیت 25 پر آیت سجدہ ہے، اگر آیت 24 "اناب" پر سجدہ کرے گا تب بھی ایک قول پر ادا ہو جائے گا۔ ( فتاویٰ محمودیہ 11/ 554، میرٹھ)
و فی"ص" عند قولہ"وحسن مآب"و ھواولی من قول الزیلعی:"عند"واناب"؛لمانذکرہ۔( رد المحتار 4/ 556، ت فرفور)
والسجدة فی ص عند قولہ: "وحسن مآب" عندنا، و عند قولہ: " وخر راکعا و اناب" عند مالک والشافعی، و وجہ قولنا ما ذکرہ فی البدائع۔ اھ (اعلاء السنن 7/ 248)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 2528/45-3877
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محرم کے سامنے ستر پیٹ پیٹھ سمیت گھٹنے تک ہے، سر اور سینے کے اوپر کا حصہ آگے یا پیچھے ستر میں نہیں ہے گوکہ اس کا بھی چھپانا بہتر ہے۔ ایک مسلمان عورت دوسری مسلمان عورت کی ناف اور گھٹنے کے درمیانی حصہ کے علاوہ تمام بدن دیکھ سکتی ہے۔ غیرمسلم عورت کے سامنے پیٹ، پیٹھ ، سینہ اور پنڈلیاں چھپانا ضروری ہے۔
وینظر الرجل من ذوات محارمہ الی الوجہ والراس والصدر ۔ ۔ ۔ ولاینظر الی ظھرھا وبطنھا وفخذھا (ھدایہ 4/461)
الظھر ماقابل البطن من تھت الصدر الی السرۃ ای فما حاذی الصدر لیس من الظھر الذی ھو عورۃ ، ومقتضی ھذا ان الصدر وماقابلہ من الخلف لیس من العورۃ وان الثدی ایضا غیر عورۃ (شامی 2/77، زکریا دیوبند)
وتنظر المراۃ المسلمۃ من المراۃ کالرجل من الرجل وقیل کالرجل لمحرمہ والاول اصح ، سراج، وکذا تنظر المراۃ من الرجل کنظر الرجل للرجل ان امنت شھوتھا (درمختار 6/371)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پہلے اصل مسئلہ سمجھیں کہ غیر سبیلین سے اگر کوئی چیز نکلے اور نکل کر اپنی جگہ سے بہ جائے، تو اس سے وضو ٹوٹ جاتاہے اور اگر اتنی معمولی مقدار میں ہے کہ وہ اپنی جگہ سے نہ بہے تو اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے ’’لیس في القطرۃ والقطرتین من الدم وضوء إلا أن یکون سائلا‘‘ اس مسئلہ کی روشنی میں اگر غور فرمائیں، تو پہلی عبارت درست ہے، اگر زخم سے نجاست نکلے اور وہ اتنی مقدار میں ہے کہ نچوڑنے کی صورت میں اس میں سیلان پایا جائے گا، تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اگرچہ اس کی کیفیت یہ ہے کہ اگر اس کو نہ نچوڑا جاتا، تو وہ نہ بہتا، جہاں تک ہدایہ کی عبارت کا تعلق ہے ’’أما إذا عصرہا فخرج بعصرہ لا ینقض لأنہ مخرج و لیس بخارج‘‘ یہ درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس صورت میں بھی وضو ٹوٹ جائے گا، کیوں کہ وضو کے ٹوٹنے کا مدار خارج پر ہے اور مخرج سے بھی خارج کا وجود ہو جاتا ہے، چنا نچہ علامہ لکھنوی نے صاحب ہدایہ کی اس عبارت پر نقد کیا ہے وہ لکھتے ہیں۔ ’’وذکر في الکافي الأصح أن المخرج ناقض انتہی کیف لا؟ وجمیع الأدلۃ من الکتاب والسنۃ والإجماع والقیاس تدل علی تعلیق النقض بالخارج النجس وہو الثابت في المخرج‘‘(۱)
(۱) المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۹، حاشیۃ: ۱۔
وفي غیر السبیلین بتجاوز النجاسۃ إلی محل الخ۔ والمراد أن تتجاوز ولو بالعصر وما شأنہ أن یتجاوز لو لا المائع کما لو مصت علقہ فأمتلأت بحیث لو شقت لسال منہا الدم کذا في الحبلی۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ‘: فصل‘: ص: ۸۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص144
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:وہ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ تھے جو قافلہ سے پیچھے رہ گئے تھے تو شیر آگیا انہوں نے اس کو کہا: میں صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں مجھ کو قافلہ سے ملنا ہے تو اس نے ان کو اپنے ساتھ لیجا کر قافلہ سے ملادیا تھا۔(۱)
(۱) وعن ابن المنکدر أن سفینۃ مولی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخطأ الجیش بأرض الروم أو أسر فانطلق ہاربا یلتمس الجیش فإذا ہو بالأسد۔ فقال: یا أبا الحارث أنا مولی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان من أمري کیت وکیت فأقبل الأسد لہ بصبصۃ حتی قام إلی جنبہ کلما سمع صوتا أہوی إلیہ ثم أقبل یمشی إلی جنبہ حتی بلغ الجیش ثم رجع الأسد۔ رواہ في شرح السنۃ۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب الکرامات، الفصل الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۵، رقم: ۵۹۴۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص235
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بچہ کے پیشاب سے کرنسی نوٹ ناپاک ہو گیا، اس کو پاک کرنے کے لئے پانی یا پٹرول وغیرہ اس پر بہا دیا جائے جب قطرہ ٹپکنا بند ہو جائے، تو پھر بہائے اس طرح تین مرتبہ کرنے سے کرنسی نوٹ پاک ہو جائے گا، پاک کرنے کے لئے کسی کیمیکل کا بھی استعمال کر سکتے ہیں تاہم اگر اس کو پاک نہیں کیا، تو اس کو جیب میں رکھ کر نماز درست نہیں ہوگی۔
’’یجوز رفع نجاسۃ حقیقیۃ عن محلہا ولو إناء أو مأکولا علم محلہا أو لا بماء لو مستعملا بہ یفتی وبکل مائع طاہر قالع للنجاسۃ ینعصر بالعصر کخل وماء ورد حتی الریق فتطہر أصبع وثدي تنجس بلحس ثلاثاً‘‘ (۱)
’’ولہذا جازت صلاۃ حامل المحدث والجنب وحامل النجاسۃ لا تجوز صلاتہ‘‘(۲)(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۰۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الطہارۃ الحقیقیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص40
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: زائد انگلی بھی اعضائے وضو میں شمار ہوگی اور اس کا دھونا بھی بقیہ اعضاء کی مانند ضروری ہوگا، خشک رہ جانے کی صورت میںوضو درست نہیں ہوگا۔ و کذا الزائدۃ إن نبتت من محل الفرض کأصبع و کف زائدین، و إلا فما حاذی منھما محل الفرض غسلہ ومالا فلا لکن یندب مجتبی۔ (۱)
(۱)ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في السنۃ و تعریفہا‘‘، ج۱، ص:۲۱۸)؛ ولو خلق لہ یدان علی المنکب فالتامۃ ھی الأصلیۃ یجب غسلھا، والأخری في حاذ منھا محل الفرض وجب غسلہ ومالا فلا یجب بل یندب غسلہ، و کذا یجب غسل ما کان مرکبا علی الیدین من الأصبع الزائدۃ والکف الزائدۃ والسلعۃ و کذا إیصال الماء إلی ما بین الأصابع إذا لم تکن ملحمۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ج۱، ص:۲۹-۳۰)، و یجب غسل ما کان مرکبا علی أعضاء الوضوء من الإصبع الزائدۃ والکف الزائدۃ کذا في السراج الوھاج۔ (جماعۃ من علماء الھند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفرض الثاني : غسل الیدین،‘‘ ج۱، ص:۵۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص156
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:پانی ہوتے ہوئے تیمم کر کے قرآن چھونا جائز نہیں ہے (۱) در مختار میں ہے ’’کتیمم مس المصحف فلا یجوز لواجد الماء‘‘۔(۲)
(۱)قلت: وفي المنیۃ و شرحھا: تیممہ لدخول مسجد و مس مصحف مع وجود الماء لیس بشیء بل ھو عدم۔ (ابن عابدین، درمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۴۱۱)
(۲)ایضاً، ج۱،ص:۴۱۲
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص358