طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں آپ کے لیے اس بات کی گنجائش ہے کہ تین دن تین رات خفین پر مسح کرتے رہیں، امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
’’أما إذا سافر قبل أن یستکمل یوماً ولیلۃ فلہ أن یصلی بذلک المسح حتی یستکمل ثلاثۃ أیام ولیالیہا من الساعۃ التي أحدث فیہا وہو مقیم‘‘(۱)

(۱) الإمام محمد بن الحسن الشیباني، الأصل، ’’کتاب الصلاۃ: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۷۶۔ (دارابن حزم، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص280

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیض ونفاس والی عورت سے وطی بالکل حرام ہے(۱)  غسل میں نیت ضروری نہیں؛ بلکہ ناک میں پانی داخل کرنا، حلق میں پانی داخل کرنا اور پورے بدن پر پانی بہانا ضروری ہے(۲) متعدد وطی سے ایک ہی غسل کافی ہے، علیحدہ علیحدہ غسل کی ضرورت نہیں ہے۔

(۱)ویسألونک عن المحیض قل ھو أذ ی فاعتزلوا النساء في المحیض ولا تقربوھن حتی یطھرن فإذا تطھرن فأتوھن من حیث أمرکم اللّٰہ إن اللّٰہ یحب التوابین و یحب المتطھرین۔ (سورۃ البقرہ: الآیہ:۲۲۲) ؛ وعن أبي ھریرۃ عن النبی ﷺ قال: من أتی حائضاً أو إمرأۃً في دبرھا أو کاھناً فقد کفر بما أنزل علی محمد۔ (أخرجہ الترمذی فی سننہ، ’’أبواب الطہارۃ، باب ما جاء في کراھیۃ إتیان الحائض‘‘ج۱، ص:۳۵، رقم :۱۲۵؛ و عن ابن عباس عن النبي ﷺ في الذي یأتي امرأتہ وھي حائضٌ قال: یتصدق بدینار، أو بنصف دینار (أخرجہ ابو دائود، فی سننہ، ’’کتاب النکاح، باب في کفارۃ من أتی حائضاً‘‘ ج۱، ص:۲۹۴ (مکتبہ نعیمیہ دیوبند)؛و وطؤھا في الفرج عالما بالحرمۃ عامداً مختاراً کبیرۃ لا جاھلا ولا ناسیا ولا مکرھاً فلیس علیہ إلا التوبۃ والاستغفار (زین الدین إبن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض‘‘ج۱، ص:۳۴۲)
(۲) و فرض الغسل غسل فمہ و  أنفہ و بدنہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ ج۱، ص:۸۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص378

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوکان، مکان میں محلہ کی مسجد کی اذان کا فی ہے، جنگل میں جہاں اذان کی اواز نہیں پہونچتی با جماعت نماز پڑھتے وقت اذان مسنون ہے۔
’’بخلاف مصل ولو بجماعۃ في بیتہ بمصر، أو قریۃ لہا مسجد فلا یکرہ ترکہما إذ أذان الحي یکفیہ … قولہ لہا مسجد أي فیہ أذان وإقامۃ … قولہ إذا أذان الحي یکفیہ لأن أذان المحلۃ وإقامتہا کأذانہ وإقامتہ لأن المؤذن نائب أہل المصر کلہم‘‘(۲)

(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب‘‘: ج ۲، ص: ۶۳، زکریا دیوبند۔…ولو صلی في بیتہ في قریۃ إن کان في القریۃ مسجد فیہ أذان وإقامۃ فحکمہ حکم من صلی في بیتہ في المصر وإن لم یکن فیہا مسجد فحکمہ حکم المسافر … وإن کان في کرم أو ضیعۃ یکتفي بأذان القریۃ أو البلدۃ إن کان قریباً و إلا فلا۔ وحد القریب أن یبلغ الأذان إلیہ منہا۔ وإن أذنوا کان أولیٰ … وإن صلوا بجماعۃ في المفازۃ وترکوا الأذان لا یکرہ، وإن ترکوا الإقامۃ یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني: في الأذان‘‘: الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن: ج ۱، ص: ۱۱۱، زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص146

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نفس خیال آجانا مفسد نماز نہیں۔(۲)
(۲) یجب حضور القلب عند التحریمۃ؛ فلو اشتغل قلبہ بتفکر مسألۃ مثلا في أثناء الأرکان فلا تستحب الإعادۃ۔ وقال البقالي: لم ینقص أجرہ إلا إذا قصر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ج۲، ص: ۹۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص103

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: ابتداء میں امام کے پیچھے قرات رہی ہے بعد میں منسوخ کردی گئی، نسخ کی روایات قوی بھی ہیں اور عملی بھی ہیں، مثلاً ترمذی اور موطاء امام مالک میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت آرہی ہے کہ آپ نے بعد نماز کہا کہ تم میں سے کس نے ابھی قرآن پڑھا ہے، ایک شخص نے ہاں عرض کی، آپ نے فرمایا میں بھی کہتا تھا مجھ سے قرآن چھینا جاتا ہے۔
راوی کہتے ہیں اس کے بعد لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قراء ۃ جہری نمازوں میں چھوڑ دی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت عمران بن حصن رضی اللہ عنہ حضرت جابر بن عبداللہ سے بھی یہی روایت آرہی ہے سند کے لحاظ سے یہ روایت حسن صحیح ہے۔ پھر مسلم میں یہ روایت آرہی ہے کہ جب امام قراء ۃ کرے تو تم خاموش رہواور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت آرہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب امام قراء ۃ پڑھے تو تم خاموشی کے ساتھ سنو! حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت آرہی ہے کہ جب کوئی شخص امام کے پیچھے ہو تو امام کی قراء ۃ اس شخص کا پڑھنا سمجھا جائے گا۔ احناف کا عمل ان حدیثوں پر ہے۔(۱)
(۱) عن جابر بن عبداللّٰہ (رضي اللّٰہ عنہ) قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ ، في سننہ، ’’إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا۔ باب: إذا قرأ الإمام فانصتوا‘‘: ص: ۶۱، رقم ۸۵۰)
عن حطان بن عبداللّٰہ الرقاشي، قال: صلیت مع أبي موسی الأشعري صلاۃ… فقال: أبو موسیٰ: أما تعلمون کیف تقولون في صلاتکم إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خطبنا، فبین لنا سنتنا وعلمنا صلاتنا، فقال: إذا صلیتم فأقیموا صفوفکم، ثم لیؤمکم أحدکم، فإذا کبر فکبروا الخ۔ وفي حدیث قتادۃ من الزیادۃ وإذا قرأ فانصتوا الحدیث۔ (أخرجہ مسلم،  في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب التشہد في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۴، رقم ۴۰۴)
والمؤتم لایقرأ مطلقاً ولا الفاتحۃ… فإن قرأ کرہ تحریما، وتصح في الأصح الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶، زکریا)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص221

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں تاخیر رکن کی بناء پر سجدہ سہو واجب تھا اور وہ نہیں کیا گیا تو ترک واجب لازم آیا پس ترک واجب کی بناء پر اعادہ واجب ہوگا۔(۲)

(۲)أوإعادتہا بترکہ عمدا أي ما دام الوقت باقیا وکذا في السہو إن لم یسجد لہ وإن لم یعدہا حتی خرج الوقت تسقط مع النقصان، وکراہۃ التحریم، ویکون فاسقا آثما وکذا الحکم في کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم … والمختار أن المعادۃ لترک واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولی، لأن الفرض لا یتکرر کما في الدر وغیرہ۔ ویندب إعادتہا لترک السنۃ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۴۷، ۲۴۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص329

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حدیث شریف میں ہے ’’إنما الاعمال بالنیات‘‘ اس ثواب کا مدار نیت پر ہے۔ اگر خالص اللہ کے لیے کوئی شخص پڑھے گا تو ثواب بھی اسی قدر ملے گا اور حضرت ابن عباسؓ کو جو تسبیح سکھائی تھی وہ صرف ان کی خصوصیت نہیں تھی۔(۱)

(۱) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: للعباس بن عبدالمطلب: یا عباس، یا عماہ ألا أعطیک، ألا أمنحک، ألا أحبوک، ألا أفعل بل عشر خصال، إذا أنت فعلت ذلک غفر اللّٰہ لک ذلک أولہ وآخرہ، قدیمہ وحدیثہ، خطأہ وعمدہ، صغیرہ وکبیرہ، سرہ وعلانیتہ، أن تصلی أربع رکعات۔ تقرأ في کل رکعۃ فاتحۃ الکتاب۔ الخ۔ (أخرجہ أبوداؤد، في سننہ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ التسبیح، ج۱، ص۱۸۴، رقم ۱۲۹۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص439

روزہ و رمضان

Ref. No. 39 / 799

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسے شخص پر قضالازم  ہے کفارہ نہیں ۔  کذا فی الفقہ  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous
Ref. No. 40/1177 In the name of Allah the most Gracious the most Merciful The answer to your question is as follows: When the bitcoin is not controlled or issued by the government, it would be regarded as a ‘fake currency’. One should avoid buying or selling such a fake currency. One day it may cause a big loss to your wealth. And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

طلاق و تفریق

Ref. No. 915/41-38

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ میں شوہر نے دوبار بیوی کی طلاق کو معلق کیا  مگر بیوی شرط کے مطابق باہر آگئی، تو اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اور اگر متعینہ وقت گزرنے کے بعد باہر آئی تو طلاق واقع ہوچکی ۔

وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق (الھدایۃ 1/244)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند